مجھے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے بارے میں عالمی کانگریس کا افتتاح کرتے ہوئے بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے۔ یہ کانفرنس ہندوستان میں پہلی مرتبہ منعقد ہورہی ہے۔ اسے این اے ای ایس سی او ایم، ڈبلیو آئی ٹی ایس اے اور حکومت تلنگانہ کے اشتراک سے منعقد کیا گیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ کانفرنس سرمایہ کاروں، جدیدکاروں، تھنک ٹینکوں اور اس معاملے سے دلچسپی رکھنے والے دنیا بھر کے افراد کے لئے باہمی طور پر مفید ثابت ہوگی۔ میں کانفرنس میں ذاتی طور پر شریک ہونا چاہتا تھا، لیکن مجھے خوشی ہے کہ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے توسط سے مجھے دوردراز سے آپ سے خطاب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔
دنیا سے اس کانفرنس میں شامل ہونے والے تمام مندوبین کا ہندوستان میں اور حیدرآباد میں خیرمقدم ہے۔
اس کانفرنس کے ساتھ ساتھ مجھے امید ہے کہ آپ کو ہماری متنوع تاریخ اور حیدرآباد کی لذیذ غذاؤں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے آپ کی ہندوستان کے دوسرے علاقوں کا دورہ کرنے کے لئے بھی حوصلہ افزائی ہوگی۔
درحقیقت ہندوستان قدیم، قیمتی اور متنوع کلچروں کا گہوارہ ہے، جس سے ہمارے اتحاد کا اندازہ ہوتا ہے۔
خواتین و حضرات!
’’وسودھیوکٹم بکم- پوری دنیا ایک کنبہ ہے‘‘ کا تصور ہندوستانی فلسفے میں پوری طرح سمویا ہوا ہے۔ اس سے ہماری خصوصی روایات کی عکاسی ہوتی ہے۔ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی سے اس تصور کو اور بھی تقویت ملتی ہے۔ اس سے ہمیں ایک لامتناہی مربوط دنیا بنانے میں مدد ملتی ہے۔
آج کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس میں جغرافیائی فاصلے ایک بہتر مستقبل کے لئے تعاون کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ آج ہندوستان تمام شعبوں میں ڈیجیٹل اختراع کا ایک مرکز بن چکا ہے۔
ہمارے ملک میں نہ صرف یہ کہ اختراعی نوعیت کی صنعتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، بلکہ ٹیکنالوجی کے لئے بھی منڈی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہم دنیا میں ٹیکنالوجی سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ملک کی حیثیت سے رہے ہیں اور اب بھی ہماری یہی پوزیشن ہے۔ ہمارے یہاں ایک لاکھ گاؤں آپٹیکل فائبر سے جڑے ہوئے ہیں۔ 121 کروڑ موبائل فون موجود ہیں۔ 120 کروڑ آدھار کارڈ ہیں اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 50 کروڑ ہے۔
ہندوستان مستقبل میں ٹیکنالوجی کی طاقت استعمال کرنے والا ایک اہم ملک ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ ہر شہری کو بااختیار بنانے کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ ڈیجیٹل ہندوستان ایک ایسے سفر پر ہے جس میں ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کے ذریعے ڈیجیٹل شمولیت اور ڈیجیٹل اعتبار سے بااختیار بنانے اور خدمات کی ڈیجیٹل انداز سے فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ ٹیکنالوجی کا اتنے زبردست طریقے پر استعمال کیا جارہا ہے، جس کے بارے میں کچھ سال پہلے تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
ہم نے اس سلسلے کو پچھلے ساڑھے تین سال کے دوران کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا ہے۔ یہ سب کچھ عوام کے رویے اور طریقۂ کار میں تبدیلی کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔ ڈیجیٹل انڈیا کا تصور اب صرف حکومت کی کوشش میں پنہاں نہیں ہے، بلکہ یہ طریقۂ زندگی بن چکا ہے۔
غریب لوگوں کے 320 ملین جن دھن بینک کھاتوں کو آدھار اور موبائل سے منسلک کرنے کے سبب، جس سے فلاحی اقدامات کا براہ راست فائدہ پہنچا ہے، 57 ہزار کروڑ روپئے بچائے جاسکے ہیں۔
ہندوستان میں 172 اسپتالوں میں تقریباً 22 ملین ڈیجیٹل لین دین کے ذریعے مریضوں کی زندگی میں سہولت پیدا ہورہی ہے۔ آسان طریقے پر اسکالرشپ حاصل کرنے کے لئے نیشنل اسکالرشپ پورٹل میں آج 14 ملین طلبہ اپنا اندراج کراچکے ہیں۔
ای نام، یعنی آن لائن زرعی مارکیٹ، جو کسانوں کو ان کی مصنوعات کی بہترین قیمت کی پیشکش کررہی ہے، اس میں 6.6 ملین کسان اپنا رجسٹریشن کراچکے ہیں اور 470 زرعی منڈیاں اس سے منسلک ہوچکی ہیں۔ بھیم- یوپی آئی کے ذریعے ڈیجیٹل ادائیگی سے جنوری 2018 میں پندرہ ہزار کروڑ روپئے کے لین دین کا اندراج ہوا ہے۔
منفرد امنگ اپلی کیشن، جس کی شروعات صرف تین مہینے پہلے ہوئی ہے، اس کے ذریعے پہلے ہی 185 سرکاری خدمات فراہم کی جارہی ہیں۔
آج ملک کے مختلف حصوں میں 2.8 لاکھ مشترکہ خدمات کے مراکز موجود ہیں، جو لوگوں کو بہت سی ڈیجیٹل خدمات فراہم کررہے ہیں۔ ان مرکزوں میں تقریباً 10 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں، جن میں ہزاروں خواتین صنعت کار بھی شامل ہیں۔ نوجوانوں کی صلاحیت اور ہنرمندی کو بڑھانے کے لئے شمال مشرقی ہندوستان اور جموں و کشمیر جیسے دوردراز علاقوں میں کوہیما اور امپھال کے مقامات پر بی پی اوز نے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ 27 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے 86 یونٹوں نے پہلے ہی کام شروع کردیا ہے اور مزید کچھ مراکز جلد ہی چالو ہوجائیں گے۔
ہر گھر میں ڈیجیٹل خواندگی کو یقینی بنانے کے لئے ہم نے پردھان منتری رورل ڈیجیٹل لٹریسی مشن کی شروعات کی ہے، تاکہ دیہی ہندوستان میں 60 ملین بالغوں کو ڈیجیٹل اعتبار سے خواندہ بنایا جاسکے۔ اس کے تحت 10 ملین لوگوں کو پہلے ہی تربیت دی جاچکی ہے۔
میک اِن انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا جیسے پروگراموں کو کافی وقت ہوچکا ہے۔ 2014 میں ہندوستان میں موبائل بنانے کے صرف دو یونٹ تھے، جبکہ آج ان کی تعداد 118 ہے، جن میں بعض بہترین عالمی برانڈ کے موبائل بنائے جارہے ہیں۔
سرکاری ای مارکیٹ پیلس کو ہندوستان کے نیشنل پروکیورمنٹ پورٹل کے طور پر ترقی دی جاچکی ہے۔ اس کے ذریعے چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کارخانے حکومت کی حصولی کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مقابلہ آرائی کررہے ہیں۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے اس سادے سے فریم ورک کی بدولت حکومت کی سامان کی حصولی کے عمل میں شفافیت پیدا ہوئی ہے۔ اس سے سامان حاصل کرنے کے طریقۂ کار کی رفتار بھی تیز ہوئی ہے اور اس کی بدولت چھوٹے اور درمیانہ درجے کے کارخانوں کو بااختیار بنایا جاسکا ہے۔
کل ممبئی یونیورسٹی میں مجھے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلیجنس) کے وادوانی انسٹی ٹیوٹ قوم کے نام وقف کرنے کا موقع ملا۔ یہ ایک آغاز اور منافع نہ کمانے والا تحقیقی ادارہ ہے، جس کا مقصد سماجی بھلائی کے لئے آرٹیفیشل اٹلیجنس کا استعمال کرنا ہے۔
چند دن پہلے دبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں مجھے ایک نمائش میں جانے کا موقع ملا، جس کا موضوع تھا ’’میوزیم آف دی فیوچر‘‘۔ اس کی منصوبہ بندی، خیالات کو جمع کرنے والے مرکز اور اختراع کو آگے بڑھانے والے کے طور پر کی گئی ہے۔ میں ٹیکنالوجی کے ماہرین کی، اس کام کے لئے جو وہ کررہے ہیں، تعریف کرتا ہوں، جن میں سے کچھ آج کے سامعین میں بھی موجود ہیں، یہ لوگ انسانیت کے لئے ایک بہتر زیادہ آرام دہ مستقبل کے حصول میں مدد کررہے ہیں۔
ہم آج چوتھے صنعتی انقلاب کی دہلیز پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر ٹیکنالوجی کو عوام کی بہتری کے لئے استعمال کیا جائے تو اس سے بنی نوع انسان کی دیرپا خوش حالی اور ہمارے کرۂ ارض کے دیرپا مستقبل کی راہ ہموار ہوگی۔ میں اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی عالمی کانفرنس کے ہندوستان میں انعقاد کو دیکھتا ہوں۔
اس کانفرنس کے عنوان سے ان مواقع کی عکاسی ہوتی ہے، جو ہمارے منتظر ہیں۔ مستقبل کی کام کی جگہوں کے لئے شہریوں کو باصلاحیت بنانا بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ہندوستان میں ہم نے بچوں اور نوجوانوں کو ایک درخشاں مستقبل کے لئے تیار کرنے کی غرض سے نیشنل اسکل ڈیولپمنٹ مشن شروع کیا ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہماری کام کرنے کی آج کی جگہ کو نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ بہتر بنایا جائے۔
آج کی تقریب کے ایک مدعو مقرر روبوٹ صوفیہ سے نئی ٹیکنالوجیوں کے امکانات کا اظہار ہوتا ہے۔ خودکاری کے بدلتے ہوئے اس دور میں ملازمتوں کی نوعیت کی عکاسی کی بھی ضرورت ہے۔ میں نیسکوم (این اے ایس ایس سی او ایم) کو ’’اسکلس آف دی فیوچر‘‘ پلیٹ فارم کو ترقی دینے پر مبارک باد دیتا ہوں۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ نیسکوم نے 8 اہم ٹیکنالوجیوں کی نشان دہی کی ہے، جن میں آرٹیفیشل انٹلیجنس، ورچول رئیلٹی، روبوٹک پروسیس آٹومیشن اور انٹرنیٹ آف تھنگ بھی شامل ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ ’’اسکلس آف فیوچر‘‘ پلیٹ فارم سے ہندوستان کو مقابلہ آرائی میں بڑی مدد ملے گی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اب ہر کاروبار میں استعمال کی جاتی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ ہمارے اسٹارٹ اپ پروگرام تمام سیکٹروں کے اقتصادی مسائل کے حل کے لئے مفید ثابت ہوں گے۔
اٹل انوویشن مشن کے تحت، ہم پورے ہندوستان میں اٹل ٹنکرنگ لبسن اسکول تعمیر کررہے ہیں۔ اس اسکیم کا مقصد نوجوان ذہنوں کے تجسس، تخلیقی قوت اور تخیل کو فروغ دینا ہے۔
خواتین و حضرات!
مجھے یقین ہے کہ جب آپ اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے مختلف پہلوؤں پر تبادلۂ خیال کریں گے تو آپ عام انسان کے مفادات کو اپنے ذہن میں رکھیں گے۔ میں ایک بار پھر پوری دنیا سے ہندوستان میں آئے ہوئے سرکردہ مندوبین کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ خدا کرے آپ کے مذاکرات مفید ثابت ہوں۔
خدا کرے کہ اس کے نتائج سے پوری دنیا کے غریبوں اور پسماندہ افراد کو فائدہ ہو۔
شکریہ