نئی دہلی، نائب جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیانائیڈو نے کہا ہے کہ اختراعی طورطریقوں کو زرعی شعبے میں اپنایا جانا چاہئے تاکہ اسے زیادہ منافع بخش اور پائیدار بنایا جاسکے۔ جناب نائیڈو آج آسام میں جورہاٹ میں آسام کی زرعی یونیورسٹی کی ایک سال چلنے والی گولڈن جوبلی تقریبات کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اس موقع پر آسام کے گورنر جناب جگدیش مکھی آسام کے زراعت کے وزیر جناب اتل بورا اور دیگر معزز شخص بھی موجود تھیں۔
نائب صدر نے کہا کہ دالوں اور تلہن کے سیکٹر میں خود کفالت حاصل کرنا ملک کے سامنے ایک بڑاچیلنج ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے زرعی ماہرین کی طرف سے پیش کی گئی۔ جافشانی اور محنت کے علاوہ ہماری لیباریٹریوں میں کی جارہی جدید ترین تحقیقات کے ساتھ ہم جلد ہی ان دونوں فصلوں میں بھی خود کفالت حاصل کرلیں گے۔
نائب صدر نے کہا کہ ہندوستان کو خوراک کے پائیدار تحفظ کے لئے ہمارے زرعی سیکٹر کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کا مؤثرانداز سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی، مٹی کی خراب حالت، پانی کے وسائل میں ہونے والی کمی اور نایاب بایوڈائیورسٹی زرعی سیکٹر کو متاثر کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرعی پیشہ تیزی سے غیر معاشی اور غیر دلچسپ ہوتا جارہا ہے۔ نائب صدر نے کہا کہ اب پہلے کے مقابلے کم ہی لوگ زراعت کو چن رہے ہیں۔ ہمیں ایسے انتہائی ہنر مند اور متحرک انسانی وسائل ؍اداروں اور افراد کی ضرورت ہے جو اختراع کو فروغ دیں۔
نائب صدر نے سائنسدانوں اور حکومتوں سے کہا کہ وہ کسانوں کی زراعت میں تنوع لانے کے لئے حوصلہ افزائی کریں اور مرغی پالن، ڈیری اور ماہی پروری جیسی متعلقہ سرگرمیوں کو فروغ دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ صرف پیداوار میں اضافہ کرکے لوگوں کو زرعی شعبے میں شامل کرنے کے لئے حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام شمال مشرقی خطے میں ڈیری اور گوشت کی مصنوعات کی زبردست مانگ ہے، جس کو پورا نہیں کیا جاسکا ہے اور اس چیلنج کو ایک موقع میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو معلومات، مالی قرض گودام اور انشورنس کی سہولیات کے ساتھ بااختیار بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کو زرعی تعلیم اور ریسرچ کو متحرک کرنے اور اس پر پھر سے سوچنے کی ضرورت ہے۔
نائب صدر نے کہا کہ میرے لئے درحقیقت یہ ایک زبردست خوشی کا لمحہ ہے کہ میں آسام کی زرعی یونیورسٹی کی گولڈن جوبلی تقریبات پروگرام کا ایک حصہ ہوں۔ یہ ایک خوشی کا لمحہ ہے کہ اس ادارے نے اپنے شاندار سفر کے 50سال مکمل کرلئے ہیں۔
نائب صدر نے کہا کہ مجھے مطلع کیا گیا ہے کہ 1988ء تک تمام شمال مشرقی خطے کے لئے یہ واحد زرعی یونیورسٹی تھی جب سینٹرل زرعی یونیورسٹی قائم کی گئی تھی۔ آسام کی زرعی یونیورسٹی میں اب بھی نہ صرف خطے کے طلباء کا خیر مقدم کیا جاتا ہے، بلکہ ملک کے باہر اور دوسرے علاقوں سے بھی طلباء اس یونیورسٹی میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جان کر خوش ہوں کہ 7 مختلف ملکوں کے طلباء اس یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اس یونیورسٹی کے طلباء غیر ملکی فیلو شپ حاصل کررہے ہیں، جس سے وہ یوروپ کے چھ یونیورسٹیوں میں مطالعہ کرسکیں گے۔
نائب صدر نے کہا کہ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی حاصل ہوئی کہ اس یونیورسٹی نے گزشتہ 50 برس کے دوران کم و بیش 113 مختلف فصلوں کی اقسام تیار کی ہیں اور جانور کی دو قسمیں مرغی پالن(پولٹری فارم) کی ایک نسل تیار کی ہے۔یہ یونیورسٹی زبردست ترقی کررہی ہے جس سے یہ ہندوستان کے چوٹی کے 100 اداروں میں سے ایک ہے۔
انہوں نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی نے زرعی کمیونٹی کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں اور وہ کسانوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کام کررہی ہے اور ان کی پیداوار بڑھانے اور ان کے منافع میں اضافہ کرنے کی خاطر ان کوششوں میں اپنا تعاون دے رہی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں آسام میں زراعت کا سیکٹر آگے کی طرف بڑھ رہا ہے، حالانکہ اس کی رفتار سست ضرور ہے۔
نائب صدر نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعلیٰ جناب سربانند سونووال کی سربراہی والی حکومت نے مویشی پالن پر توجہ دینے کا منصوبہ بنایا ہے اور اسے متحرک کرنے کے لئے آگے آئی ہے۔
زرعی آمدنی میں اضافے کے ساتھ ہی کسانوں کی تکنیکی معلومات میں اضافے کے لئے حوصلہ افزائی کی جانے چاہیئے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ و ہ کس طرح پھلوں ، سبزیوں ، مصالحوں اور پلانٹیشن کی فصلوں اور باغبانی کریں اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی ریاست میں اس سمت میں پہلے ہی خاطر خواہ پیش رفت کی گئی ہے۔ نائب صدر نے کہا کہ آپ کی سرزمین سونار آسام ہے جو ایک زرخیز زمین ہے، جہاں کافی بارش اور مالا مال بیوڈائیورسٹی ہے۔
بھائیو اور بہنو!
معلومات سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔ تعلیمی ادارے نئے نظریات پیدا کریں اور سائنسی معلومات کو آگے بڑھائیں اور حاصل کرنے کا عملی حل تلاش کریں۔
بھائیو اور بہنو!
ہندوستان کے پاس زرعی سائنس کی ایک زبردست وراثت ہے اور ہم کو اس زرعی روایت کو جاری رکھنے کی ذمہ داری قبول کرنے چاہئے۔