نئی دلّی: نائب صدر جمہوریہ ہند ، جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ خواندگی ، شمولیت پر مبنی ، فعال اور افزوں شمولیت والی جمہوریت کے قیام کے لئے اولین لازمی قدم ہے ۔ موصوف بین الاقوامی یومِ خواندگی کے موقع پر آج یہاں منعقدہ ایک تقریب میں خطبہ دے رہے تھے ۔ انسانی وسائل کی ترقی و فروغ کے وزیر جناب پرکاش جاوڑیکر ، انسانی وسائل کی ترقی و فروغ کے وزیر مملکت جناب اوپندر کشواہا ، انسانی وسائل کی ترقی و فروغ ، دریائی ترقیات اور گنگا احیاء کے وزیر مملکت ڈاکٹر ستیہ پال سنگھ ، اسکولی تعلیم اور خواندگی کے محکمے کے سکریٹری جناب انیل سوروپ اور دیگر عمائدین بھی اس موقع پر موجود تھے ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ یوم خواندگی ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ خواندگی کسی بھی ملک کی ترقی کے ڈھانچے میں کتنی اہمیت رکھتی ہے اور خواندگی ، ترقیاتی عنصر کے طور پر کس قدر کلیدی اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔ نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ خواندگی کسی شخص کو مختلف حقوق اور استحقاق تک ، جو آئین میں اسے فراہم کرائے گئے ہیں ، رسائی حاصل کرنے اور اس سے استفاد ہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ خواندگی ہر طرح کی رسمی تعلیم اور درس حاصل کرنے کے لئے بنیاد کے پتھر کا کام کرتی ہے اور تا حیات تعلیم فراہم کرتی ہے ۔ خواندگی افراد کو اقتصادی، سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کرنے کے لائق بناتی ہے ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے آفاقی خواندگی حاصل کرنے کے لئے تجاویز بھی پیش کیں ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ما قبل پرائمری اور اسکولی تعلیم کی اصلاح کی جانی چاہیئے ۔ اس کے بعد ہمیں ایسے لوگوں کو لکھنے پڑھنے کا عمل سیکھنے میں مدد دینی چاہیئے ، جو لوگ کبھی اسکول نہیں جا سکے ہیں یا جنہوں نے اسکولی تعلیم درمیان میں ہی ترک کر دی تھی ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ نو خواندہ افراد میں سے اکثریت خواتین کی ہے ، جو ہمارے پروگراموں کو آگے بڑھانے کے نقیب ہوں گی اور ‘ ساکشر بھارت ، ایک سَکشم بھارت ’ یعنی خواندہ بھارت ، اہلیت کا حامل بھارت مہم کو آگے بڑھائیں گی ۔ انہوں نے کہا کہ خواندگی پروگرام کو زیادہ موثر بنانے کے لئے ہمیں ٹیکنا لوجی کا استعمال کرنا چاہیئے ۔ ڈجیٹل لرننگ مواد مختلف ایج گروپوں کی ضروریات کو زیادہ موثر طریقے سے پورا کرسکتا ہے ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ خواندگی کے عمل کو اس شکل میں زیادہ با معنی بنایا جا سکتا ہے ، جب اسے کاشت کاروں کی روز مرہ کی زندگی سے مربوط کر دیا جائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمیونٹی لرننگ مراکز خواندگی لرننگ کے مراکز کی شکل میں ترقیاتی اور اجتماعی تفویض اختیارات کے مراکز کی شکل لے سکتے ہیں ۔ آئیے ہم سب مل کر خواندہ ، تعلیم یافتہ ، با اختیار آبادی کی طاقت سے ایک نیا بھارت تعمیر کریں ۔
نائب صدر جمہوریہ ہند کی تقریر کا متن درج ذیل ہے :
51 ویں بین الاقوامی یوم خواندگی کی قومی تقریبات میں آپ کے ساتھ شریک ہو کر مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے ۔ آج کا دن اس لئے بہت خصوصی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ دن خواندگی کے لئے وقف ہے اور یونیسکو کے ذریعے ، جب سے اسے 1965 ء میں وزرائے تعلیم کی عالمی کانگریس میں یوم خواندگی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے ، تبھی سے اس کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خواندگی کسی بھی ملک کی ترقی کے ڈھانچے میں کتنی اہمیت رکھتی ہے اور خواندگی ترقیاتی عنصر کے طور پر کس قدر کلیدی اور مرکزی حیثیت رکھتی ہے ۔ یہ وہ دن ہے ، جب ہم اپنی جدو جہد آزادی کو یاد کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مہاتما گاندھی کے ان الفاذ کو بھی یاد کرتے ہیں ، جنہوں نے کہا تھا کہ عوامی نا خواندگی وہ گناہ اور شرم ہے ، جسے ہر حال میں مٹایا جانا چاہیئے ۔ یہ وہ دن ہے ، جب ہم گذشتہ 70 برسوں کے دوران اپنی پیش رفت پر نظر ڈالتے ہیں ۔ 15 اگست ، 1947 ء کو پنڈت نہرو نے ، جن خیالات کا اظہار کیا تھا ، اُن میں یہ بات بھی شامل تھی ، ‘‘ عام انسان کے لئے آزادی کا موقع فراہم کرنا ہے تاکہ ایسے سماجی ، اقتصادی اور سیاسی ادارے تشکیل دیئے جا سکیں ، جو ہر مرد اور عورت کی زندگی میں انصاف اور اطمینان کا احساس جگا سکیں ’’ ۔
اب جب ہم اِس بات کا جائزہ لینے بیٹھے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں ہم نے کیا حاصل کیا ہے ، تو ہم اپنے ماضی پر فخر کے ساتھ نظر ڈال سکتے ہیں کہ ہم نے اس سفر میں متعدد سنگ میل حاصل کئے ہیں ۔ 1947 ء میں صرف 18 فی صد آبادی پڑھ اور لکھ سکتی تھی ۔ آج تقریباً 74 فی صد آبادی نے خواندگی کا ہنر حاصل کر لیا ہے ۔ 95 فی صد سے زیادہ بچے اسکولوں میں ہیں اور تقریباً 86 فی صد نو جوان عملی طور پر تعلیم یافتہ ہیں ۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی کامیابی نہیں ہے تاہم ہمیں اپنی ماضی کی کامیابیوں سے ترغیب حاصل کرنی ہو گی اور آنے والے برسوں میں آگے بڑھنا ہو گا ۔
یقیناً ہمیں ابھی بہت لمبا فاصلہ طے کرنا ہے ۔ ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ آج تقریباً 35 کروڑ نو جوان اور خواندہ بالغان تعلیم کی دنیا سے باہر ہیں ۔ لہٰذا ، اس کمی کی وجہ سے ہم عصر بھارت کے ترقیاتی عمل میں حصہ نہیں لے پاتے ۔ اس میں تقریباً 40 فی صد اسکول جانےو الے بچے ہیں ، جو موثر طریقے سے بنیادی خواندگی ہنر مندی حاصل کرنے سے قاصر ہیں اگر چہ انہوں نے ابتدائی تعلیم کا پورا دائرہ مکمل کر لیا ہے ۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی چنوتی ہے ، جس کی شناخت کرکے مرحلہ وار طریقے سے اس کا سد باب بھی کیا جانا ہے ۔
اس دن نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنی اجتماعی کامیابیوں کا جشن منا سکیں ۔ یہ انتھک کوششوں کی ترغیباتی کہانی ہے ۔ بہت سے افراد اور اداروں نے اس قومی کوشش میں اپنا تعاون دیا ہے ۔ ٹراونکور اور بڑودہ کے روشن خیال حکمرانوں نے تعلیمی مواقع کو فروغ دیا تھا ۔ مہاتما گاندھی سے ترغیب حاصل کرکے ویلدی فشر اور لوباک نے لکھنؤ میں 1953 ء میں لٹریسی ہاؤس قائم کیا تھا ۔ 1959 ء میں بالغان کی خواندگی کے لئے گراما شکشنا مہم جیسی سرگرم تحریکیں چلائی گئی تھیں ۔ حکومت ہند کے تحت چلائے جانےو الے 1990 ء کے قومی خواندگی مشن کے تحت
بہترین رفتار حاصل ہوئی تھی ۔ اِن کوششوں کے نتیجے میں ہماری آبادی کا تقریباً تین چوتھائی حصہ آج پڑھ لکھ سکتا ہے ۔
تاہم چنوتی ابھی باقی ہے اور رواں بھارتی اور عالمی پس منظر میں اس کی شدت بڑھ گئی ہے ۔ حکومت اس بات میں یقین رکھتی ہے ، جیسا کہ وزیر اعظم مودی جی نے شیامین برکس کانفرنس میں 5 ستمبر ، 2017 ء کو دوہرایا ہے ، ‘‘ ہمارے ترقیاتی ایجنڈے کی بنیاد ‘ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ’ میں پوشیدہ ہے اور یہ ہے ، اجتماعی کوشش ، شمولیت پر مبنی ترقی ’’ ۔ آئندہ پانچ برسوں میں ملک ، ایک نئے بھارت کی تعمیر کے لئے ایک تیز رفتار ترقیاتی عمل کے مرحلے میں داخل ہو جائے گا ۔ ہم نے جنوری ، 2016 ء میں اقوام متحدہ میں تمام ممالک کے ذریعے اختیار کئے گئے ہمہ گیر ترقیات کے 2030 ء کے ایجنڈے کے نفاذ کا عہد کر رکھا ہے ۔ یہ عالمی ایجنڈا اپنے آپ میں ‘‘ آفاقی خواندگی کی حامل دنیا ’’ کا خواب سموئے ہوئے ہے اور اس ایجنڈا میں یہ نشانہ بھی مقرر کیا گیا ہے کہ اسے 2030 ء تک پایۂ تکمیل تک پہنچا دیا جانا ہے ۔ بطور خاص نو جوانوں اور بالغان کی خواندگی پر توجہ مرکوز کی جائے گی ۔
ہمہ گیر ترقیات کے اہداف کے تحت ہدف نمبر 4.6 درج ذیل ہے :
‘‘ 2030 ء تک اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ تمام نو جوان اور افراد اور خواتین پر مشتمل بڑی تعداد میں بالغان کو خواندگی اور حساب دانی کی صلاحیت سے آراستہ کر دیا جائے ’’ ۔
اگر ہمیں تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ہے اور 2030 ء تک خواندہ دنیا کی تشکیل کرنی ہے اور بھارت کو اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ تمام نوجوان اور بالغان کی ایک بڑی تعداد ، ان ہنر مندیوں سے آراستہ ہو جائے تو ہمیں اپنی ماضی کی حکمت عملیوں پر نظر ڈالنی ہو گی اور اس بات کا تجزیہ کرنے کے بعد کہ کیا چیز مفید ثابت ہوئی اور کیا بے کار گئی ، کامیاب مثالوں سے سیکھنا ہو گا اور یہ مثالیں ہمارے ملک کے اندر سے بھی حاصل ہوں گی اور باہر سے بھی مل سکیں گی ۔ ہمیں اُن سیکھنے والوں تک پہنچنے کے لئے نئے راستے اپنانے ہوں گے ، جن سیکھنے والوں تک ابھی رسائی حاصل نہیں ہو سکی ہے ۔
یہ بات واضح ہے کہ اس کے لئے اجتماعی کوششیں درکار ہوں گی ۔ اگر چہ حکومت قائدانہ کردار ادا کرے گی تاہم اس میں مہذب معاشرے اور نجی شعبے کا سرگرم عمل بھی درکار ہو گا ۔ یہ ایک معاشرتی مشن ہو گا اور معاشرے کو اس امر کی تفہیم کرانی ہو گی کہ ایک نئے بھارت کی نشو و نما کے لئے خواندگی ایک پارس پتھر کی حیثیت رکھتی ہے ۔
مجھے ایک معروف تیلگو شاعر گراجدا اپا ّراؤ کے الفاظ یاد آ رہے ہیں ، جنہوں نے کہا تھا ، ‘‘ دیش مانتے مٹی کا ڈوئے ، دیش مانتے منوشو لوئی ’’ ( ملک اُس سر زمین کا نام نہیں ہے ، جو ہمارے پیروں کے نیچے ہے بلکہ ان لوگوں کا نام ہے ، جو اس سر زمین پر سکونت پذیر ہیں ) ۔ کسی بھی ملک کے لوگوں کی زندگی کی کوالٹی یا معیار سے اس ملک کے افراد کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے ۔ یہی عمدگی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ ترقیات کے فوائد کس حد تک ایک دوسرے کے ساتھ ساجھا کئے جا چکے ہیں ۔ ہم نے شمولیت پر مبنی ترقی کا عہد کر رکھا ہے ، ہم نے دانستہ طور پر غریب ترین فرد تک پہنچنے کے لئے انتودیہ طریقۂ کار اپنایا ہے ۔ ہم پروگراموں کو ایسے انداز میں ڈیزائن کرتے ہیں ، جن کے تحت کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے ۔ اسی پس منظر میں اور سب کا وکاس کے اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہے کہ خواندگی شمولیت پر مبنی متحرک اور زیادہ بڑے پیمانے پر شمولیت کی حامل جمہوریت کی تعمیر کے لئے اولین لازمی قدم ہے ۔
خواندگی افراد کو آئین کے تحت فراہم کرائے گئے مختلف حقوق اور استحقاق حاصل کرنے اور ان تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ غربت ، اطفال کی شرح اموات ، اضافۂ آبادی ، صنفی عدم مساوات جیسے مسائل خواندہ معاشرے میں آسانی سے حل کئے جا سکتے ہیں ۔ ہر طرح کی رسمی تدریس کے لئے خواندگی بنیادی حیثیت رکھتی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تا حیات تعلیم کا ذریعہ بھی ہے ۔ خواندگی افراد کو اقتصادی ، سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کرنے کے لائق بنا دیتی ہے ۔
بھارتی پس منظر میں خواندگی تفویض اختیارات ، تبدیلی اور افراد کی زندگی کے معیار میں بہتری لانے کے لئے ، پورے معاشرے کی حالت خصوصاً خواتین کی حالت بدلنے اور سماج کے محروم اور نادار افراد کی حالت بدلنے میں انتہائی اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔
ہمیں اس دو رخی طریقۂ کار کے توسط سے ، جسے اب تک ہم اختیار کرتے آئے ہیں ، آفاقی خواندگی حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیئے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں ما قبل پرائمری اور اسکولی تعلیم کا معیار بہتر بنانا چاہیئے تاکہ اسکولوں سے فارغ ہونے والے تمام بچے اس لائق ہوں کہ ان کے پاس ضروری خواندگی ہنر مندیاں موجود ہوں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں ایسے افراد کو پڑھنے لکھنے کا موقع فراہم کرنا چاہیئے ، جو کبھی اسکول نہیں گئے یا درمیان میں ہی اسکول چھوڑ دیا اور ایسے نو جوان اور بالغان ، جنہیں اپنی روزی روٹی کے ذرائع کو وسعت دینے کے لئے بنیادی ہنر مندیوں کو سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
خواندگی کسی شخص کی زندگی میں اور پورے معاشرے میں کس قدر اہمیت رکھتی ہے ، اسی چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند نے ساکشر بھارت اور سرو شکشا ابھیان جیسے کلیدی پروگرام شروع کئے ہیں ، جو کلیدی عنصر کے حامل ہیں اور ملک میں زیر نفاذ ہیں ۔ ساکشر پروگرام بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں نسبتاً کم زنانی شرح خواندگی والے اضلاع میں خواندگی کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور اس نے تعلیم بالغان کے مراکز کے قیام میں بھی ادارہ جاتی فریم ورک کے قیام میں اپنا تعاون دیا ہے اور یہ سلسلہ گرام پنچایت تک قائم ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ خواتین کی خواندگی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ اس کے تحت اپنے آپ میں اس کی ترویج اور اشاعت کے مضمرات پوشیدہ ہیں ، جن سے پورے سماج کی ترقی ہو سکتی ہے اور ایک بہتر صحتی نتائج اور تغذیہ کی سطح حاصل کی جا سکتی ہے ۔
در اصل یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ ہر سال ایک کروڑ سے زائد نو خواندہ بالغان ، ششماہی خواندگان تجزیہ امتحان میں شریک ہوتے ہیں ، جس کا اہتمام ملک بھر میں کیا جاتا ہے اور تقریباً 6.66 کروڑ نو خواندگان نے بڑی کامیابی سے مارچ ، 2017 ء تک اوپن اسکولنگ کے قومی ادارے کے ذریعے منعقد کرائے جانے والے اسسمنٹ ٹسٹ میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ اس میں سے 70 فی صد تعداد خواتین کی ہے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ نو خواندگان ایسے ہیں ، جن میں اکثریت خواتین کی ہے اور یہی لوگ ہمارے پروگرام کو آگے لے جائیں گے اور ساکشر بھارت ایک سکشم بھارت کے نصب العین کے حصول میں مدد گار ہوں گے ۔
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ قومی خواندگی مشن اتھارٹی ( این ایل ایم اے ) صرف بالغان کو خواندہ نہیں بنا رہی ہے بلکہ اس نے مختلف ایجنسیوں کے ساتھ رابطہ اور شراکت داری بھی قائم کی ہے تاکہ خصوصاً دیہی خواتین میں خواندگی کو دیگر سماجی – اقتصادی ترقیاتی زاویوں مثلاً انتخابی عمل ، مالی اور قانونی خواندگی سے ہمکنار کیا جا سکے ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ مالی خواندگی کے تحت ساکشر بھارت اضلاع میں ایک خصوصی مہم چلائی گئی تھی تاکہ ایک کروڑ سے زائد ساکشر بھارت نو خواندگان کو پردھان منتری جن دھن یوجنا کے تحت اپنے بینک کھاتے کھولنے اور چلانے کے لائق بنایا جا سکے ۔ این ایم ایل اے نے پردھان منتری سرکشا بیمہ یوجنا کے لئے سرکشا بندھن مہم میں بھی حصہ لیا ہے۔ این این ایل اے کی شریک ریاستوں جیسے خواندگی مشن اتھارٹیوں (ایس ایل ایم اے) ریاستی وسائل مراکز اور جن شکشا سنستھان نے کامیابی کے ساتھ ایک کروڑ سے زیادہ مستفیدین کو اس اسکیم کا فائدہ حاصل کرنے کی جانب راغب کیا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ان اقدامات کے علاوہ، این ایل ایم اے نے متعلقہ پنچایتوں میں سوفی صد خواندگی حاصل کرنے میں ساکشر بھارت کا سانسد آدرش گرام یوجنا (ایس اے جی وائی) کے ساتھ انضمام کرنے میں محرک پہل کی ہے۔ بڑی تعداد میں ان اراکین پارلیمان نے جنہوں نے آدرش گرام یوجنا اپنائی ہے ، ساکشر بھارت کو بھی اپنایا ہے۔ اضلاع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ان اسکیموں اور سرگرمیوں پر کام کرنے اور رہنمائی کرنے کا موقع ملا ہے۔ سانسد آدرش گرام کے نفاذ میں مسلسل کوششوں کے سبب اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں اور امید ہے کہ ایسی کوششوں میں مزید توسیع ہوگی اور ایسی ہی کوششیں آہستہ آہستہ تمام پنچایتوں کا احاطہ کرنے کے لئےجاری رہیں گی۔
جناب وینکیا نائیڈو نے اپنی تقریر میں کہا کہ خواندگی پروگرام کو حکومت کی جاری پہلوں جیسے سووچھ بھارت، پردھان منتری جن دھن یوجنا، پی ایم سرکشا بیمہ یوجنا ،پی ایم اجولا یوجنا، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ، ڈجیٹل انڈیا مشن اور اسکل انڈیا مشن سے تخلیقی طور پر جوڑنے سے ان کی اہمیت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا۔
نائب صدر نے کہا کہ اس دہائی کے دوران مردم شماری سے پتہ چلا ہے کہ خواندگی کی شرح میں اہم اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ ابتدائی تعلیم کی توسیع اور اس کے تکملہ کے طور پر ساکشر بھارت کے تحت تعلیم بالغان کے سلسلے کے مختلف پروگراموں کا نفاذ رہی ہے۔مزید یہ کہ تمام بچوں کے لئے آر ٹی ای ایکٹ کے نفاذ اور تعمیل کے سبب بالغ ناخواندہ لوگوں کی آبادی میں بھی کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اہم پالیسی اقدامات کے باوجود بھی ہندوستان کی ناخواندہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
جناب وینکیا نائڈو نے کہا کہ میں سوچتا ہوں کہ یہ ہمارے لئے سوچنے کا وقت ہے کہ ان پروگراموں/ سرگرمیوں کا جامع اور مجموعی طور پر باریکی سے جائزہ لیا جائے اور ان میدانوں کی شناخت کی جائے جن پر ابھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ فروغ انسانی وسائل کی وزارت نے سال 2022 تک ساکشر بھارت پروگرام کو تمام بچوں، نوجوانوں اور بالغان کی خواندگی شرح اور مزید عملی صلاحیتوں کی ہنرمندی کو حاصل کرنے کو یقینی بنانے کے لئے زیادہ مرکزیت کے ساتھ ساکشر بھارت کو دوبارہ ڈیزائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ساکشر بھارت کے لئے نئےروپ میں اسکول /کالج کے طلبا کو اپنے ناخواندہ والدین، والدین کے والدین اور اپنے پڑوسیوں کو پڑھانے میں شامل کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں خواندگی پروگرام کو مزید مؤثر بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جانا لازمی بنانا چاہئے۔ خواندگی پروگرام اور زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے اگرچہ وہ طالب علم کی زندگی سے براہ راست جڑا ہو۔ کمیونٹی لرننگ سینٹرس، لٹریسی لرننگ اور معاشرے کو بااختیار بنانے کے مرکز بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی ہے کہ ہندوستان یونیسکو کے ذریعہ چلائے جا رہے پروگرام ‘‘ گلوبل الائنس فارلٹریسی ودھ ان دا فریم ورک آف لائف لانگ لرننگ’’ کا ایک حصہ ہے۔ ہندوستان اس عالمی کوشش کو آئندہ 15 برسوں میں دنیا کے تمام حصوں میں لے جانے میں رہنما تعاون دے سکتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ جناب وینکیانائیڈو نے اپنی تقریر کے اختتام میں کہا کہ اپنی تقریر ختم کرنے سے پہلے، میں ان تمام لوگوں کو مبارکباد دینا چاہوں گا جنہوں نے تعلیم بالغان کے میدان میں اپنے غیر معمولی تعاون کے نتیجے میں ساکشر بھارت ایوارڈ حاصل کئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انعام یافتگان کے اس اچھے کام سے دیگر گرام پنچایتوں، اضلاع اور ریاستوں میں پروگرام کو آگے لے جانے کی ترغیب ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام شراکت داروں جن میں ریاستی حکومتیں، سول سوسائٹی تنظیمیں، غیر سرکاری تنظیمیں، کارپوریٹ اداروں، دانشوروں اور تمام شہریوں سے ہندوستان کو مکمل طور پر خواندہ ملک میں تبدیل کرنے کے لئے مل کر کام کرنے کی اپیل کرتا ہوں ۔ میں تمام شراکت داروں اور مستفدین سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مہاتما گاندھی اور آئین کے معمار کے تعلیم کے لئے ان کے خواب کو پورا کرنے میں اپنا تعاون دیں ۔آیئے ہم سب مل کر ایک نئے ہندوستان کی تخلیق کریں جس کی بنیاد خواندہ، تعلیم یافتہ اور با اختیار آبادی پر ہو۔ آیئے گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کے خواب ہیون آف فریڈم کو سمجھیں۔‘‘جہاں دل میں کوئی خوف/ڈر نہ ہو اور سربلند رہے،جہاں معلومات لینے میں (نالج) آزادی ہو’’ جہاں دنیا کو تنگ گھریلو دیواروں (ملکی حدود) میں تقسیم نہ کیا گیا ہو۔