17.8 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

دمن اور دیو میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کے آغاز کے موقعے پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

نئیدہلی؛ بڑیتعدادمیںآنے والے دمن کے میرےپیارےبھائیوں اور بہنوں

شایددمنکیتاریخمیںاسسےپہلےنہکبھیاتنابڑاعوامیسیلابآیاہوگااورنہہیکبھیدمنکی،دیوکیترقیکےلئےقریبقریبایکہزارکروڑروپیےکےمنصوبے کبھی نافذ کئے گئے ہوں گے – وہشایدپہلےکبھینہیںہواہوگا۔

بھائیوں، بہنوں، جس طرح سے دمن دیو، دادرا نگر حویلی یہ پورے علاقے میں ترقی کا ایک نیا ماحول پیدا ہوا ہے۔ آج دمن ایک طرح سے چھوٹا ہندوستان بن گیا ہے۔ دمن میں ہندوستان  کی کوئی ریاست نہیں ہوگی جہاں کہ دو پانچ ، دو پانچ خاندان دمن میں رہتے نہ ہوں۔ ہر کسی نے دمن کو اپنا گھر بنا لیا ہے اور اس لیے جو باتیں ہم دلی ممبئی میں دیکھ رہے ہیں ویسی ہی سماجی زندگی ہمیں دمن میں نظر آتی ہے۔ ایک اپنا پن ایک بھائی چارہ بہت ساری زبانوں میں بولنے والے لوگوں کا گروپ اور آج جب میں ایئرپورٹ سے یہاں آرہا تھا، میں پورے راستے بھر دونوں طرف دیکھ رہا تھا، جیسے ہندوستان کا ہر کونا جوش اور جذبے سے بھرا ہوا ہے۔

بھائیوں ، بہنوں،

دمنمیںصفائی کے بارے میں اتنی بیداری اور دمن میں صفائی کی اتنی بڑی مہم ۔ دمن ایک طرح سے سیاحتی مقام بن گیا ہے اور جب صفائی ہوتی ہے تو لوگوں کو باہر سے آنے کا من کرتا ہے۔ اگر سیاحت بڑھتی ہے تو یہاں کے لوگوں کو روزی روٹی ملتی ہے اور آج دمن، دیو سے جڑ گیا ہے، ہیلی کاپٹر سروس سے جڑ گیا ہے۔ اور اس لیے جنوبی ہند کی طرف سے جو سفر کرنے کے لیے یہاں آنا چاہتے ہوں گے، سومناتھ جانا چاہتے ہوں گے، گیر کے شیر دیکھنے جانا چاہتے ہوں گے، وہ دمن آئیں گے اور ہیلی کاپٹر میں چلے جائیں گے۔ آپ دیکھئے دمن کی کتنی ترقی ہوگی اور اب دیو کو بھی احمدآباد سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی ایک طرح سے دیو اور دمن ترقی کی اہم دھارا سے جڑ گئے ہیں۔

بھائیوں، بہنوں ، مجھے بتایا گیا کہ مرکز کے زیر انتظام خطوں میں دمن نے اپنے آپ کو کھلے میں رفع حاجت سے پاک بنا لیا ہے۔ یہاں پر 2000 سے زیادہ  ٹوائلیٹ بنائے گئے ہیں۔ میں اپنے آپ میں اس کام کے لیے انتظامیہ کو اور یہاں کے بیدار شہریوں کو دل سے مبارکباد دیتا ہوں کہ آپ نے یہ کھلے میں رفع حاجت سے نجات ، یہ ایک طرح سے ماں کی عزت کرنے کی تحریک ہے، عورت کی عزت کرنے کی تحریک ہے۔

اورمیںتواترپردیشجبگیاتھاایکبار،میرےہیلوکسبھا حلقے میں ٹوائیلیٹ بنانے کی مہم تھی، تو میں نے دیکھا کہ اتر پردیش حکومت نے ایک بہترین کام کیا ہے – انہوں نے ٹوائلیٹ پر بورڈ لگایا ہے اور اس کا نام رکھا ہے – عزت گھر ۔ اور حقیقت ہے ، ٹوائیلیٹ– یہ عزت گھر ہے۔ ہماری ماؤں ، بہنوں کی عزت کے لیے ٹوائیلیٹ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تو آج آپ نے اس کام کو بھی کر دیا ہے۔

دمن میں ایک سبز مہم چل پڑی ہے – صفائی کی مہم ہو، ای-رکشا کی بات ہو، سی این جی ٹیکسی کی بات ہو۔ اور اب آپ بھی دمن میں ایک نیا روپ دیکھیں گے۔ یہاں کی بہن – بیٹیاں ای- رکشا لے کر کے دمن میں چلتی ہوں گی اور دمن کے ماحول کی بھی حفاظت کریں گی ، اور اس جس دمن میں ایک طرح سے یہ پرمن علاقہ یہ دنگا فساد والا علاقہ نہیں ہے مل جل کر رہنے والوں کا علاقہ ہے ۔ اس میں جب مائیں بہنیں ای-رکشا چلاتی ہوں گی تو فطری طور پر مسافر کی شکل میں جو آتے ہوں گے ان کے من میں بھی ماؤں بہنوں کی عزت بڑھے گی اور دمن کی ایک نئی پہچان بنیں گی۔

سیاین جی تحریک ہو، ای- رکشہ کا مسئلہ ہو یا یہاں پر ایل ای ڈی بلب لگانے کی مہم ہو – تقریبا ایک لاکھ 40 ہزار بلب اتنے چھوٹے سے علاقے میں تقسیم کیے گئے ہیں اور اس کی وجہ سے جن کے گھر میں بجلی ہے، ان گھروں میں بجلی کے بل میں جو کمی آئی ہے، بجلی کے بل کے پیسے بچے ہیں۔ اکیلے  دمن میں اوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان کے قریب قریب سات کروڑ روپے کی بچت ایل ای ڈی بلب لگانے سے بجلی کے بل میں ہوئی ہے اور یہ ہر سال ہونے والی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہاں دور اندیشی کے ساتھ جو منصوبے بنائے گئے ہیں، آج بھی ہمارے ملک میں کارخانے لگتے ہیں لیکن مزدوروں کو ان کے نصیب پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وہ کارخانے میں آتے ہیں ، کام کرتے ہیں لیکن کہاں رہتے ہیں، کہاں کھاتے ہیں، ان کی کوئی عزت ہے کہ نہیں؟ اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا ہے۔

میں جناب پرفل بھائی پٹیل کو دل سے مبارک باد دیتا ہوں کہ دمن ایک صنعتی شہر ہے۔ ملک بھر کے لوگ مزدوری کے لیے یہاں آتے ہیں اور ایک ایک چھوٹے چھوٹے کمرے میں 15-15، 20-20 لوگ رہتے ہیں۔ وہ جب نوکری کے لیے جاتا ہے تو دوسری ٹولی سو جاتی ہے۔ وہ نوکری سے واپس آتا ہے، وہ سو جاتا ہے اور پہلے والا نوکری پر چلا جاتا ہے ، سونے کے لیے بھی شفت سسٹم چلتا ہے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا اتنا اچھا ماڈل بنا کر کے دمن میں مزدوری کرنے کے لیے آئے ہوئے لوگوں کے لیے اچھی طرح رہنے کا انتظام اس کی بھی آج شروعات ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مزدورں کی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔ اور سب سے بڑا، جن صنعتکاروں اس میں سرکار سے پارٹنرشپ کرنے کے لیے آگے آئے ہیں ، میں ان کو یقین دلاتا ہوں – ان مزدوروں کو ، ان ہمارے مزدور بھائیوں بہنوں کو اگر رہنے کی اچھی جگہ مل جائے، کھانے کی سہولت مل جائے تو وہ اپنی جو طاقت ہے وہ پوری کی پوری آپ کی فیکٹری میں پروڈکشن کے اندر لگا دیتے ہیں، آپ کی پیداواری صلاحیت بڑھا دیتے ہیں۔ آپ نے مکانوں میں جو رقم لگانے والے ہو، اس سے زیادہ رقم یہ مزدور ہمارے ، زیادہ اچھی پیداواری صلاحیت کر کے ایک سال میں آپ کا منافع بڑھا دیں گے، یہ میرا یقین ہے۔

یہ خوشی کی بات ہے آج یہاں زیادہ تر ہمارے مزدور بھائی بہن اکیلے رہتے ہیں، گاؤں میں ماں باپ کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں اور جو بھی مل جائے وہ کھا کر کے گزارا کر لیتے ہیں۔ لیکن آج ان مزدور بھائی بہنوں کے لیے اچھا کھانا ملے؛ ایک مزدور خرچ کر سکے – اتنے پیسوں میں ملے؛ اس کے لیے ایک عوامی شکل میں کھانے کا انتظام کرنے کی بھی آج یہاں شروعات ہو رہی ہے۔ اس کا فائدہ بھی آنے والے دنوں میں یہاں کے مزدور بھائیوں بہنوں کو ملنے والا ہے۔ اچھا کھانا ملے، اچھی نیند کی جگہ مل جائے، صبح سویرے  – نہانے وغیرہ کا انتظام ہو جائے – میں سمجھتا ہوں وہ مزدور اس دمن اور اس ملک کی ترقی کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا، یہ میرا پورا یقین ہے۔

واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ آج بھی ہمارے   ملک میں کئی شہر ہوں گے جہاں 100 فیصد ٹریٹیڈ پانی شاید پہنچتا ہوگا یا نہیں پہنچتا ہوگا  کہنا مشکل ہے۔ لیکن ابھی مجھے یہاں بتایا گیا کہ دمن کے اندر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی وجہ سے اب دمن کے شہریوں کو ٹریٹیڈ پانی مل جاتا ہے ، پینے کے قابل صاف پانی ان کو حاصل ہو جاتا ہے، یعنی عام انسانوں کے لیے اچھا ہے، اس کی فکر آج یہاں نہیں ہے۔

ہمارےملکمیں، ماؤں کے مرنے کی شرح ، نوزائدہ بچوں کے مرنے کی شرح یہ کم کرنے کے لیے ہمارے یہاں تغذیے کی کمی سے نجات حاصل کرنےکے لیے حکومت ہند کی طرف سے اربوں کھربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن آج دمن نے ایک نئی پہل کی ہے۔ حکومت ہند کے اس منصوبے کو اس خاندان میں جہاں 18-14 سال کی بیٹیاں ہیں، جہاں زچہ مائیں ہیں، جہاں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کو تغذیہ والی خوراک ملے – اس لیے ایک خوراک کی کٹ ہر مہینے ان کو دینے کا کام اور اس کا آج میرے ہاتھوں سے کچھ خاندانوں کو دینے کی خوشی ملی۔

میں امید کرتا ہوں کہ ان خاندانوں میں یہ تو حکومت کی طرف سے مدد ملی ہے، اس کا استعمال ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اب یہ آ گیا تو گھر میں پہلے جو لاتے تھے وہ بند کر دیں گے، ایسا نہیں کرنا ہے۔ جو پہلے خرچا کرتے تھے ، اس سے یہ فاضل ہے – تبھی جا کر کے آ پ کی 18-14 سال کی بیٹی کے جسم کی نش و نما ہوگی۔

اگر اس بیٹی کے جسم کی نش و نما ہوگی، وہ اگر مضبوط ہوگی، جب ماں بنے گی تو بچہ بھی طاقتور ملے گا۔ اور جس ملک کا بچہ طاقتور ہوگا ، وہ ملک بھی طاقت ور بنے گا، یہ کام اس منصوبے کے تحت ہو رہا ہے۔

بھائیوں ، بہنوں – دیو، اب اسمارٹ سٹی میں اس کا نمبر لگ گیا ہے۔ بہت سے اچھے منصوبے دیو کے ساتھ جڑے ہیں۔ یہاں پر آپ کا یونیورسٹی کا خواب تھا، تھا نہ؟ آپ کو لگتا تھا کہ سورت –نرمدا یونیورسٹی سے کب تک رہیں گے؟ حکومت ہند نے آپ کو بھی ایک نیورسٹی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ہمارے ماہی گیر بھائی – بہن، کیراسین پر ویٹ، کیروسن پر ویٹ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے ماہی گیر بھائیوں – بہنوں کو ویٹ کی ڈیوٹی زیرو مسلسل کر دی جائے گی، تاکہ ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے ماہی گیر بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں اور میں جناب پرفل بھائی اور یہاں کے ایم پی کو بھی کہنا چاہتا ہوں – ہم نے صرف یہاں پر اٹکنا نہیں ہے۔ اب حکومت ہند نے بلیو ریویلیشن کے تحت ہمارے ماہی گیر بھائیوں، بہنوں کے لیے ایک لمبی رینج کی بوٹ فراہم کرنے کے سمت میں قدم اٹھایا ہے۔ اگر آپ پانچ – دس ماہی گیر اکٹھے ہو کر کے منڈلی بنا دیں گے – بینک سے آپ کو لون دیا جائے گا، اس میں سبسڈی دی جائے گی اور آپ یہ نئی بوٹ لے کر کے گہرے سمندر میں جا سکیں گے اور گہرے سمندر میں آپ سب سے زیادہ کیچ لے سکتے ہیں، اچھی قسم کی مچھلی لے سکتے ہیں۔ یہاں نزدیک نزدیک میں آپ بھٹکتے رہتے ہیں اور 12 گھنٹے کام کرنے کے بعد جتنی مچھلی لے کر کے آتے ہیں ، یہ نئی بوٹ کے سہارے اندر جا کر کے وہ ہی کام دو گھنٹے میں کر کے آ جائیں گے۔

میں چاہتا ہوں کہ دمن کے ساحلی سمندر پر، دیو کے سمندری ساحل پر ایک خصوصی پروجیکٹ ہاتھ میں لیا جائے اور اس پروجیکٹ کے تحت یہاں کے ماہی گیر خاندانوں کے ذریعے سی بیڈ کی کھیتی کی جائے، سمندر کے اندر کھارے پانی میں ہو جاتی ہے۔ اور وہ جو پیدائش ہو، وہ ہمارے کھیتوں میں لوگ ڈالیں، اس سے اچھا کوئی فرٹی لائزر نہیں ہو سکتا، اس سے اچھی کوئی فصل نہیں ہو سکتی ہے، بہت آرام سے اس کام کو کیا جاتا سکتا ہے اور میں چاہوں گا کہ پرفل بھائی اس کو  اپنے ہاتھ میں لیں اور اس کام کو ایک نیا مادل، ملک کے سامنے ایک ماڈل پیش کریں۔ اور مجھے یقین ہے کہ دیو دمن کے علاقے میں یہ کام بہت آسانی سے ہو سکتا ہے۔

بھائیوں ، بہنوں چاہے کنکٹی ویٹی ہو، ڈیجیٹل کنکٹی ویٹی ہو، گھروں میں ایل ای ڈی بلبل لینے کی بات ہو، راستے بنانے ہوں، برج بنانے ہوں، سمندری راستے سے بھی دیو کو جوڑنے کی سمت میں ہم کام کر رہے ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں 15-15 گھنٹے جہاں لگتے تھے آدھا گھنٹہ ایک گھنٹے میں آپ پہنچ جائیں گے۔ کتنا وقت بچے گا، کتنے پیسے بچیں گے اور یہاں کے لوگوں کو کتنا فائدہ ہوگا ۔

بھائیوں ،بہنوں ، دمن ترقی کی نئی اونچائیوں پر جائے ، ہمارا دیو –  دمن ، سلواس سے پورا علاقہ ملک کی شکل میں سامنے ایک ماڈل کی شکل میں کھڑا ہو یہ پورا میرا یقین ہے اور آج آپنی اتنی بڑی تعداد میں آ کر کے مجھے جو خلوص دیا ہے ، آشرواد دیئے ہیں ، اس کے لیے میں دل سے آپ  کا ممنون ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More