20 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

‘دوسرے یوم آیوروید’کے موقع پر، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف آیوروید کو ،قوم کے نام وقف کرنے کے موقع پر وزیراعظم کی تقریر کا ابتدائی متن

PM’s speech at the dedication of All India Institute of Ayurveda to the nation on the occasion of 2nd Ayurveda Day
Urdu News

نئی دہلی۔؛ کابینہ کے میرے رفیق کار جناب شری پدنائک صاحب، اس پروگرام میں ملک بھر سے شرکت کرنے کی غرض سے آئے یوگا کے ماہرین، آیوروید ماہرین، اساتذہ، طلبا اور یہاں موجود دیگر معززین،

دھن ونتری جینتی اور آیوروید کےدن کی، آپ سبھی کو ، اور پورے ملک کو بہت بہت نیک تمنائیں۔ ملک کے اوّلین کل ہند بھارتی آیوروید ادارے پر بھی آپ سبھی کو بہت بہت مبارکباد۔ میں دھن ونتری جینتی کو، یوم آیوروید کے طور پر منانے اور اس ادارے کے قیام کے لیے، آیوش کی وزارت کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،کوئی بھی ملک ترقی کی کتنی ہی کوشش کرے، کتنی ہی سعی کرے لیکن وہ تب تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک وہ اپنی تاریخ، اپنی وراثت پر فخر کرنا نہیں سیکھتا۔ اپنی وراثت کو ترک کرکے آگے بڑھنے والے ممالک کی شناخت مٹ جانی طے ہوتی ہے۔

ساتھیو، اگر ہمارے ملک کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو ہم پائیں گے، کہ وہ دور اتنا طاقتور تھا، اتنا خوشحال تھا کہ جب باقی دنیا نے اُسے دیکھا تو اُسے لگا تھا کہ بھارت کے علم اور دانشوری سے مقابلہ ممکن نہیں ہے، اس لیے انھوں نے دوسرا راستہ اپنایا۔ ہمارے پاس جو عظیم تھا، اُسے تباہ کرنا انہیں زیادہ آسان لگا۔ غلامی کے دور میں ہماری رِشیوں کی روایت، ہمارے اساتذہ، کاشتکار، ہمارے سائنسداں، ہمارے یوگ ، ہمارے آیوروید، ان سبھی کی طاقت کا تمسخر بنایا گیا۔ اسے کمزور کرنے کی کوشش ہوئی، اور یہاں تک کہ ان طاقتوں پر ہمارے ہی لوگوں کے درمیان اعتقاد کم کرنے کی کوشش بھی ہوئی۔ جب غلامی سے آزادی ملی، تو ایک امید تھی کہ جو محفوظ رہ گیا ہے، اس کا تحفظ کیا جائے گا، وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی جائے گی، لیکن یہ بھی ترجیح نہیں بنی۔ جو کچھ بچاتھا اُسے، اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔

ہماری طاقتوں کو غلامی کے دور میں تباہ کرنے کی کوشش ہوئی اور آزادی کے بعد ایک طویل عرصہ ایسا گزرا، جب ان قوتوں کو فراموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرح سے اپنی ہی وراثت سے منھ موڑ لیا گیا۔ انہی وجوہات سے ایسی تمام جانکاریوں کے پیٹنٹ دوسرے ممالک کے پاس چلے گئے، جنہیں ہم کبھی دادی ماں کے نسخے کے طور پر گھر گھر میں استعمال کرتے تھے۔

آج مجھے فخر ہے کہ پچھلے تین برسوں میں، اس صورتحال کو کافی بدل دیا گیا ہے، جو ہماری وراثت ہے، جو عظیم ہے، اُس کی عظمت عوام الناس کے دل میں جاگزیں ہورہی ہے۔

آج جب ہم سبھی یوم آیوروید پر جمع ہوئے ہیں، یا جب 21 جون کو لاکھوں کی تعداد میں باہر نکل کر یوگا کا دن مناتے ہیں، تو اپنی وراثت کے اسی فخر سے سرشار ہوتے ہیں۔ جب الگ الگ ملکوں میں اس دن لاکھوں لوگ یوگ کرتے ہیں، تو ان تصویروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہاں، لاکھوں لوگوں کو جوڑنے والا یہ یوگ ، بھارت نے انہیں دیا ہے۔

بھائیو اور بہنو، جو یوگ، بھارت کی وراثت رہا ہے، وہ اب توسیع پذیر ہوکر پوری بنی نوع انسان کی وراثت کی شکل لیتا جارہا ہے۔ یہ تبدیلی صرف تین برسوں کی دین ہے اور یقینی طور پر اس میں وزارت آیوش کا بہت بڑا کردار ہے۔

ساتھیو، آیوروید، صرف ایک طریقہ علاج نہیں ہے۔ اس کے دائرے میں سماجی صحت، صحت عامہ، ماحولیاتی صحت جیسے موضوعات بھی آتے ہیں۔ اسی ضرورت کو سمجھتے ہوئے یہ حکومت آیوروید، یوگ اور دیگر آیوش طریقہ ہائے علاج کو صحت عامہ کے نظام سےمربوط کیے جانے پر زور دے رہی ہے۔ آیوش کو حکومت نے اپنے چار ترجیحاتی شعبے میں رکھا ہوا ہے۔ ایک علیحدہ وزارت قائم کرنے کے ساتھ ہی ہم نے قومی صحتی پالیسی وضع کرتے وقت، صحتی خدمات اور آیوش نظام کو مربوط کرنے کے لیے ایک تفصیلی قوائد وضع کیے ہیں اور رہنما خطوط بھی تشکیل دئیے ہیں۔

ساتھیو ، حکومت یہ مان کر اور یہ ٹھان کر چل رہی ہے کہ آیوش کو، صحتی خدمات سے مربوط کرنے کا عمل پہلے کی طرح، صرف فائلوں تک محدود نہیں رہے گا، اسے زمین تک پہنچایا جائے گا۔ اسی سمت میں آیوش کی وزارت کی جانب سے متعدد اقدمات کیے گئے ہیں۔ قومی آیوش مشن کا آغاز، صحتی نگرانی پروگرام کا آغاز، ذیابیطس مشن، آیوش گاؤں کا تصور، ایسے تمام موضوعات ہیں ، جن کے بارے میں بھی یہاں شری پدنائک صاحب نے تذکرہ کیا ہے۔

ساتھیو، آیوروید کی توسیع کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ملک کے ہر ضلع میں، اس سے مربوط ایک اچھا ، ساری سہولتوں سے آراستہ اسپتال ضرور ہو۔ اس سلسلے میں آیوش کی وزارت تیزی سےکام کررہی ہے اور تین برسوں میں ہی 65 سے زیادہ آیوش اسپتال بہم پہنچائے جاچکے ہیں۔

آج دلی میں اے آئی آئی ایم ایس کی طرح ہی کل ہند بھارتی آیوروید ادارے کا ،افتتاح بھی ،اسی کڑی کا حصہ ہے۔ ابھی ابتدائی طور پر، اس میں ہر روز ساڑھے سات سو سے زیادہ مریض آرہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں مریضوں کی تعداد دوگنی ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ اس ادارے کو جدید ترین بنیادی ڈھانچے سے آراستہ کیا گیا ہے۔ اس کی مدد سے کئی سنگین امراض کے آیورویدک علاج میں بھی مدد ملے گی۔ مجھے خوشی ہے کہ آج، آیوروید سنستھان کے قیام سے آیوروید کے علم اور آیوروید کے علمی خزینے کو ازسر نو تقویت حاصل ہوئی ہے۔

یہ بہت امیدافزا صورتحال ہے کہ آیوروید کا ادارہ ،ایمس، انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ اور کچھ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ مجھے امید ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے کل ہند آیوروید ادارہ ، انٹر ڈسپلنرلی(بین شعبہ جاتی) اور مربوط صحتی طریقہ علاج کا اہم مرکز بنے گا۔

ساتھیو، آیوروید کے خواص کی فہرست طویل ہے۔ دنیا اب صرف صحت مند ہی نہیں رہنا چاہتی، اب اُسے خیر و عافیت بھی چاہئے اور یہ چیز اُسے آیوروید اور یوگ سے مل سکتی ہے۔ آج دنیا کے تمام ممالک میں بیک ٹو نیچر یعنی فطرت کی جانب مراجعت کا اصول مقبول عام ہورہا ہے۔ لوگوں کا جھکاؤ ایسے طریقہ ہائے علاج کی جانب بڑھ رہا ہے جو براہ راست فطرت پر منحصر ہیں۔ ایسے میں آیوروید کے لیے سازگار ماحول بنانا مشکل نہیں ہے۔ بس ہمیں آج کی ضروریات میں آیوروید کی افادیت کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوگا۔

آج ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ آیوروید سے مربوط ماہرین آیوروید کی خدمات کی توسیع کریں۔ انہیں اُن شعبوں کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا، جہاں آیوروید اور زیادہ مؤثرثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی ایک شعبہ ہے، یعنی اسپورٹس کا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حال کے کچھ برسوں میں فیزیو تھیراپی کرانے والے ڈاکٹروں کا کردار کتنا وسیع ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے کھلاڑی اپنے ذاتی فیزیو تھیراپسٹ رکھتے ہیں۔ بڑے بڑے کھلاڑی جانے انجانے درد کی دوائیوں کے چکر میں بھی پھنستے ہیں۔ آپ کو ،مجھے، ہم سبھی کو معلوم ہے کہ آیوروید اور یوگ اس سلسلے میں زیادہ مؤثر ہوسکتے ہیں۔ آیوروید اور یوگ پر مبنی فیزیو تھیراپی میں کسی طرح کی ممنوعہ دوا کو غلطی سے استعمال کرنے کا کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔

اسپورٹس کی طرح ہمارے مسلح دستوں کے لیے بھی یوگ اور آیوروید کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمارے جوان بہت ہی مشکل صورتحال میں ملک کا تحفظ کرتے ہیں۔ کبھی پوسٹنگ پہاڑ پر ، کبھی ریگستان پر، کبھی سمندر کے کنارے، کبھی گھنے جنگلوں میں۔ الگ الگ موسم، الگ الگ صورتحال ، ایسے میں یوگ اور آیوروید ، انہیں کتنی ہی بیماریوں سے بچاکر رکھ سکتا ہے۔ ذہنی تناؤ کو دور کرنے، توجہ مرکوز کرنے، ہمارے جوانوں کے امراض سے محفوظ رہنے کے نظام کو مضبوط کرنے میں یوگ اور آیوروید بہت کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔

عمدگی کی حامل آیوروید کی تعلیم پر بھی بہت دھیان دینے کی ضرورت ہے، بلکہ اس کا دائرہ او ربڑھایاجانا چاہئے۔ جیسے پنچ کرم معالجہ، آیورویدک ڈائی ٹیشین، فطرت کا تجزیہ کار، آیوروید فارماسسٹ، آیوروید کی پوری سپورٹنگ چین یعنی امدادی سلسلے کو بھی ترقی دی جانی چاہئے۔

اس کے علاوہ میری ایک تجویز یہ بھی ہے کہ آیوروید کی تعلیم میں کرائے جارہے الگ الگ کورس کی، الگ الگ سطح پر، ایک بار پھر سے نظر ثانی کی جائے۔جب کوئی طالب علم، آیوروید، ادویہ، اور سرجری کی بیچلر کی ڈگری یعنی بی اے ایم ایس کا کورس مکمل کرتا ہے، تو فطری علاج، آیورویدک، کھانا پینا، آیورویدک نظام ادویہ کے بارے میں پڑھتا ہی ہے۔ پانچ ، ساڑھے پانچ سال پڑھنے کے بعد اُسے ڈگری ملتی ہے اور پھر وہ اپنی خود کی پریکٹس، یا نوکری یا پھر اونچی پڑھائی کے لیے کوشش کرتا ہے۔

ساتھیو، کیا یہ ممکن ہے کہ بی اے ایم ایس کورس کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ ہر امتحان پاس کرنے کے بعد طالب علم کو کوئی نہ کوئی سرٹیفکٹ حاصل ہو۔ ایسا ہونے پر دو فائدے ہوں گے۔ جو طالبعلم آگے کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنی پریکٹس شروع کرنا چاہیں گے، انہیں سہولت ہوگی اور جن طلبا کی پڑھائی کسی بھی وجہ کی بنیاد پر درمیان چھوٹ گئی ہوگی ، اُن کے پاس بھی آیوروید کے کسی نہ کسی سطح کا ایک سرٹیفکٹ ہوگا۔ اتنا ہی نہیں ،جو طالبعلم پانچ سال کا کورس پورا کرکے نکلیں گے، ان کے پاس بھی روزگار کے اور بہتر متبادل ہوں گے۔

ابھی تھوڑی دیر قبل شری پدنائک صاحب نے اسپولڈنگ ری ہیب اسپتال اور ہاورڈ میڈیکل اسکول کے ساتھ اشتراک کا ذکر کیا تھا۔ مجھے یہ سن کر بڑی مسرت ہوئی ہے اور میں طرفین کو بہت بہت بدھائی دیتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس اشتراک سے ، اسپورٹس میڈیسن، ری ہیبی لیٹیشن میڈیسن، درد مٹانے میں آیورویدک طریقہ علاج کے امکانات کو تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔

بھائیو اور بہنو، میں نے اب سے کچھ دیر پہلے ہی آیوروید سے ٹریٹمنٹ کے لیے ایک معیاری رہنما خطوط اور معیاری ٹرمنلوجی پورٹل لانچ کیا ہے۔ ان دونوں ہی پہل قدمیوں سے بڑی تعدا دمیں ڈاٹا حاصل ہوگا، جس کا استعمال آیوروید کو جدید طور طریقوں کے مطابق سائنسی منظوری دلانے میں کیا جاسکے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ پہل ، آیوش سائنس کے شعبے میں سنگ میل ثابت ہوگی۔ اس کی مدد سے آیوروید کی عالمی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوگا۔

آیوروید میں معیاراتی رہنما خطوط اور معیاری ٹرمنلوجی کا ہونا اس لیے ضروری ہے، کیونکہ اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ایلوپیتھک کی دنیا اور اس کے اعمال آسانی سے آیوروید پر حاوی ہوجاتے تھے۔ ایک زمانے میں حکومت ہند کے ایک کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں صاف کہا تھا کہ ہمارے یہاں آیوروید، لوگوں کے گھروں سے کافی دور ہے، کیونکہ اُس کا طریقہ علاج، آج کے وقت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

ایک طرف ایلوپیتھک دوائیاں ہیں، جنہیں فوراً کھولا اور کھالیا، وہیں دوسری طرف آیوروید اس لیے مات کھاجاتا ہے کیونکہ دوا بنانے اور کھانے کا عمل اتنا طویل ہے کہ عام انسان سوچتا ہے کہ کون اتنا وقت ضائع کرے۔ فاسٹ فوڈ کے اس دور میں آیوروید کے پرانے اسٹائل کی پیکجنگ سے کام نہیں چلے گا۔ جیسے جیسے آیورویدک دواؤں کی پیکجنگ جدید ترین ہوتی جائے گی، علاج کے عمل کا معیار بھی طے ہوگا۔ ٹرمنالوجی (اصطلاحات) کامن ہوجائے گی۔ آپ دیکھئے گا کہ کتنا تیزی سے فرق آنے لگے گا۔

آج کے دور میں لوگ فوری نتائج چاہتے ہیں۔ فوری نتیجہ حاصل ہوتا ہے تو لوگ ذیلی اثرات کی پروا نہیں کرتے۔ یہ سوچ غلط ہے، لیکن یہی ہر طرف دکھائی پڑتا ہے۔ اس لیے آیوروید کے جانکاروں کو چاہئے کہ وہ فوری نتیجہ دینےوالی اور پھر ذیلی اثرات سے محفوط رکھنے والی دواؤں پر تحقیق کریں، ایسی دواؤں کے بارے میں سوچیں اور تیار کریں۔

بھائیو اور بہنو ، مجھے بتایا گیا ہے کہ آیوش کی وزارت کے تحت 600 سے زیادہ آیورویدک دواؤں کی فارمیسی مواد کو شائع کیا گیا ہے۔ اس کی جتنی زیادہ ترویج و اشاعت ہوگی، اُتنا ہی آیورویدک دواؤں کا عمل دخل بڑھے گا۔ ہربل دواؤں کی آج دنیا میں ایک بڑی منڈی تیار ہورہی ہے۔ بھارت کو اس میں بھی اپنی پوری صلاحیت کا استعمال کرنا ہوگا۔ ہربل اور میڈیسنل پلانٹس یعنی جڑی بوٹی کے خواص کے حامل پودے، کمائی کا بہت بڑا ذریعہ بن رہے ہیں۔

آیورویدمیں تمام ایسے پودوں سے دوا بنتی ہے، جنہیں نہ زیادہ پانی چاہئے ہوتا ہے اور نہ ہی زرخیز زمین۔ کئی ادویہ جاتی پودے تو ایسے ہی اُگ آتے ہیں، لیکن ان پودوں کی اصل اہمیت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اُنہیں جھاڑ جھنکاڑ سمجھ کا اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ بیداری کی کمی کی وجہ سے ہورہے اس خسارے سے کیسے بچا جائے ، اس پر بھی غور وفکر کیے جانے کی ضرورت ہے۔

ادویہ جاتی پودوں کی کھیتی سے روزگار کے نئے مواقع بھی حاصل ہورہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ وزارت آیوش، ہنرمندی ترقیات کی وزارت کے ساتھ مل کر اس سمت میں کاشتکاروں یا طلبا کے لیے کوئی مختصر مدتی کورس وضع کرے۔ روایتی کھیتی کے ساتھ ساتھ کسان جب کھیت کے کنارے بیکار پڑی زمین کا استعمال ادویہ جاتی پودوں کے لیے کرنے لگے گا ، تو اس کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔

بھائیو اور بہنو، اس شعبے کی ترقی اور توسیع کے لیے ابھی کافی سرمایہ کاری درکار ہے۔ حکومت نے حفظان صحت کے شعبے میں صد فیصد براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی منظوری دے دی ہے۔ حفظان صحت کے شعبے میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا فائدہ آیوروید اور یوگ کو کیسے ملے، اس بارے میں بھی کوشش کی جانی چاہئے۔

میں دیش کی تمام کمپنیوں اور پرائیوٹ سیکٹر سے بھی اصرار کروں گا، کہ جس طرح وہ ایلیوپیتھ پر مبنی بڑے بڑےاسپتالوں کے لیے آگے آتے ہیں، ویسے ہی یوگ اور آیوروید کے لیے بھی آگے آئیں۔ اپنی کارپوریٹ سماجی ذمہ داری یعنی سی ایس آر فنڈ کا کچھ حصہ آیوروید اور یوگ پر بھی صرف کریں۔

ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا ہوگا، کہ ہزاروں برسوں قبل ہمارے آبا و اجداد نے جو علم حاصل کیا تھا، اس کے پس پُشت انتھک محنت تھی۔ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کی ترغیب تھی۔ کچھ نیا تجربہ کرنے، کچھ جدت طرازی کی امنگ نے ہی یوگ اور آیوروید جیسے معجزات کو وجود بخشا تھا، لیکن جیسے ہی ہم جدت طرازی سے پیچھے ہٹے، حالات بدلنے لگے، ہمارا اثر کم ہوگیا۔

ایسی صورتحال کو اب پوری طرح بدلنے کی ضرورت ہے۔ آج وقت کی ہی نہیں، بلکہ پوری بنی نوع انسانی کی مانگ ہے کہ بھارت اپنی حالت کو بدلے۔ ساتھیو، آج دنیا جامع حفظان صحت کا راستہ کھوج رہی ہے، لیکن اسے راستہ نہیں مل رہا ہے۔ وہ بہت امید سے بھارت کی آیورویدک اور یوگک طاقت کو دیکھ رہی ہے۔ اسے بھی بھروسہ ہورہا ہے کہ یوگ اور آیوروید میں بھارت کا تجربہ پوری دنیا کی فلاح میں کام آسکتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ بھی اہم وقت ہے کہ اب ایک پل بھی نہ گنوایا جائے۔ عہد کرکے آگے بڑھا جائے، اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

ساتھیو، بھارت کی ایک ‘ایک شت وپرا بہودا ودنتی’ کی فکر سبھی طرح کے نظام ادویہ، یا نظام صحت پر بھی نافذ ہیں۔ ہم ہر طرح کے نظام صحت کا احترام کرتے ہیں اور سبھی کی ترقی کے متمنی ہیں۔ بھارت میں روحانی جمہوریت کی طرح ہی طریقہ ہائے علاج کی بھی جمہوریت بھی ہے۔ سبھی کو اپنی ترقی کا حق حاصل ہے، سبھی کا احترام ہے۔ سبھی طرح کے نظام صحت کو آگے بڑھانے کے پیچھے حکومت کا مقصد ہے کہ غریبوں کو سستے سے سستا علاج آسانی سے دستیاب ہو۔

اس وجہ سے صحت کے شعبے میں ہمارا زور دو اہم چیزوں پر لگاتار رہا ہے۔ پہلا، تدارکی حفظان صحت اور دوسرا یہ کہ حفظان صحت کے شعبے میں واجبی لاگت اور رسائی میں اضافہ۔

تدارکی حفظان صحت پر زور دیتے ہوئے ہم نے مشن اندر دھنش کی شروعات کی تھی، تاکہ 2020 تک ان سبھی بچوں کو ٹیکے لگادئیے جائیں، جو عام طور پر چلائی جانے والی ٹیکا کاری کی مہم میں چھوٹ جاتے ہیں۔ سرکار نے طے کیا کہ ایسے بچوں کا پورے طریقے سے ٹیکا کرن کرکے انہیں بارہ طرح کی بیماریوں سے بچایا جائے۔ مشن اندر دھنش کے تحت اب تک ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچوں اور لگ بھگ 70 لاکھ حاملہ خواتین کو ٹیکے لگائے جاچکے ہیں۔

یہ حکومت کی کوششوں کا ہی اثر ہے کہ ملک میں ٹیکہ کاری کی جو رفتار سالانہ ایک فیصد کی شرح سے بڑھ رہی تھی، وہ مشن اندر دھنش کے بعد سے ساڑھے چھ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

ابھی اسی مہینے حکومت نے اس مشن کو اور مرتکز کردیا ہے۔ شدید توجہ کے ساتھ مشن اندر دھنش کی شروعات کی گئی ہے ، جس کے تحت ان ضلعوں، شہروں، قصبوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی، جہاں ٹیکہ کاری کا احاطہ سب سے کم ہے۔ اگلے ایک سال تک دیش کے 173 ضلعوں میں ہر مہینے ہفتے میں ساتھ دن، لگاتار، ٹیکہ کاری مہم چلے گی۔ حکومت کا مقصد ہے کہ دسمبر 2018 تک ملک مکمل بیماریوں سے محفوظ کرنے کے طریقے کے ذریعہ احاطہ کرلیا جائے۔

ساتھیو، پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ حفظان صحت کی ذمہ داری صرف وزارت صحت کی ہے۔ لیکن ہماری سوچ الگ ہے۔ شدید توجہ کے ساتھ مشن اندر دھنش میں اب حکومت کی 12 الگ الگ وزارتوں، یہاں تک کہ وزارت دفاع کی بھی مدد لی جارہی ہے۔

بھائیو اور بہنو، تدارکی حفظان صحت ایک اور سستا اور صحت مند طریقہ ہے، صفائی۔ صفائی کو اس حکومت نے عوامی تحریک کی طرح گھر گھر پہنچایا ہے۔ حکومت نے تین برسوں میں پانچ کروڑ سے زیادہ بیت الخلاؤں کی تعمیر کرائی ہے۔ صفائی کو لے کر لوگوں کا انداز فکر کس طرح بدلا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ اب بیت الخلاؤں کو کچھ لوگوں نے عزت گھر کہنا شروع کردیا ہے۔ ابھی آپ نے کچھ دنوں پہلے آئی یونیسیف کی رپورٹ پڑھی ہوگی، اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو کنبہ گاؤں میں ایک بیت الخلا بنواتا ہے ، اس کے سالانہ پچاس ہزار روپے تک بچتے ہیں، ورنہ یہی پیسے اس کی بیماریوں کے علاج میں صرف ہوجاتے ہیں۔

تدارکی حفظان صحت کو بڑھاوا دینے کے ساتھ ہی حکومت صحتی خدمات میں لاگت کے لحاظ سے واجبیت اور رسائی بڑھانے کے لیے شروع سے ہی جامع طریقہ کار اختیار کئے ہوئے ہے۔ میڈیکل کالجوں میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والوں کے لیے پی جی میڈیکل نشستوں میں اضافہ کیا گیا ہے، اس کا سیدھا فائدہ ہمارے نوجوانوں کو تو ملے گا ہی، ساتھ ہی غریبوں کو علاج کے لیے ڈاکٹر بھی آسانی سے دستیاب ہوں گے۔ ملک بھر کے لوگوں کو بہتر علاج اور صحت دستیاب کرانے کے لیے مختلف ریاستوں میں نئے ایمس بھی کھولے جارہے ہیں۔ اسٹنٹ کے داموں میں بھاری تخفیف، گھٹنوں کی تبدیلی کی لاگت پرکنٹرول کرنے جیسے فیصلے بھی لیے گئے ہیں۔ جن اوشدھی کیندروں کے توسط سے بھی غریبوں کو سستی دوائیں دستیاب کرائی جارہی ہیں۔ ساتھیوں مجھے بتایا گیا ہے کہ اس سال تقریباً 24 ملکوں میں ہمارے غیر ممالک میں قائم مشن بھی آیوروید کا دن منارہے ہیں۔ گذشتہ تیس برسوں سے دنیا میں آئی ٹی انقلاب دیکھا گیا ہے، اب آیوروید کی سرکردگی میں صحتی انقلاب رونما ہونا چاہئے۔ آئیے ہم اس مبارک دن پر عہد کرتے ہیں ۔

‘‘ ہم آیوروید کی مشق کریں گے، ہم آیوروید کو زندہ رکھیں گے اور ہم آیوروید کے لیے جئیں گے۔’’

بھائیو اور بہنو، آپ سبھی کو یوم آیوروید، آل انڈیا آیوروید ادارہ کی بہت بہت مبارکباد کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، بہت بہت شکریہ۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More