نئی دہلی، ہماچل پردیش کے گورنر جناب بندارو دتہ تریہ جی، وزیراعلیٰ جے رام ٹھاکر جی، سکم کے وزیراعلیٰ پریم سنگھ تمانگ جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی پرہلاد پٹیل جی، انوراگ ٹھاکر جی، نیتی آیوگ کے وائس چیئرمین ڈاکٹر راجیو کمار جی، یو اے ای کے بھارت میں سفیر ڈاکٹر البانیٰ، صنعت کی دنیا کے عظیم ساتھی، یہاں موجود دیگر معززین اور میرے پیارے ساتھیو! دھرمشالہ میں گلوبل انویسٹر سمٹ !!!
یہ تصور نہیں ، سچائی ہے، بے مثال اور ناقابل یقین ہے، مبارک ہو آپ کو ۔ یہ ہماچل پردیش کا ایک اسٹیٹمنٹ ہے، پورے ملک کو ، پوری دنیا کو ، کہ ہم بھی اب کمر کس چکے ہیں۔
آج ہماچل کہہ رہا ہے – ہاں ، ہم آ چکے ہیں!!! اس لئے سب سے پہلے میں ہماچل پردیش سرکار ،جے رام جی اور ان کی ٹیم کو ماں جوالا جی سے متصل اس اجلاس کے انعقاد کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔
آج ہم سبھی ایک ایسے مقام پر جمع ہوئے ہیں جہاں ذرے ذرے میں طاقت پنہا ہے۔
جہاں آکر ایک نئی توانائی ملتی ہے۔ دیویوں نے ،دیوتاؤں نے ، رشیوں نے، تپسّیہ کرنے والوں نے اس جگہ کو الوہیت عطا کی ہےاور قدرتی خوشحالی کی برکت بھی دی ہے۔ اس ماحول میں آپ سبھی دولت پیداکرنے والوں کا استقبال کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہو رہی ہے۔
پہلے اس طرح کے سرمایہ کار اجلاس ملک کے کچھ ہی ریاستوں میں ہوا کرتے تھے۔ یہاں متعدد ایسے ساتھی موجود ہیں جنہوں نے پہلے کے حالات دیکھے ہیں۔ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں اور اس کی ایک گواہ یہاں ہماچل میں ہو رہی یہ سمٹ بھی ہے۔ اب ریاستوں میں بزنس کو راغب کرنے کے لئے ، سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے ایک نئی دوڑ شروع ہوئی ہے۔
کچھ دہائی پہلے ہمارے ملک میں یہ حالات تھے کہ کون سی ریاست زیادہ چیرٹی کرے گی۔ کون زیادہ مراعات دے گی، کوئی ٹیکس معاف کرے گی، کوئی بجلی معاف کرے گی، کوئی زمین سستی بیچے گی، یہی مسابقہ چلتا رہتا تھا۔ تجربہ یہی کہتا ہے کہ اس طرح کی مسابقت نے وہ نتائج نہیں دیئے جیسی امید تھی۔ تب سرمایہ کار بھی اس انتظار میں رہتے تھے کہ اب کون سی ریاست زیادہ سے زیادہ رعایت دے گی، مراعات دے گی، اس کے سبب سرمایہ کار بھی کسی ریاست میں سرمایہ کاری کا فیصلہ ٹالتے رہتے تھے ۔ انہیں بھی لگتا تھا کہ بھائی پانچ فیصد چھوٹ کیوں لیں ہو سکتا ہے آگے 10 فیصد یا 15 فیصد کی چھوٹ مل جائے۔
لیکن ساتھیوں مجھے اطمینان ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں اس حالت میں بھی پوری طرح سے تبدیلی آ گئی ہے۔ اب ریاستی سرکاریں سمجھنے لگی ہیں کہ رعایتوں کی مسابقہ سے نہ ریاست کا بھلا ہوتا ہے اور نہ ہی صنعت کاروں کا۔
سرمایہ کاروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے مناسب ماحولی نظام حاصل ہو،انسپیکٹر راج سے نجات ملے ، ہر موڑ پر سرکار کے پرمٹ راج کا شکار نہ ہونا پڑے۔ ان دنوں سرکار اس ماحولی نظام کو بنانے کی مسابقت میں آگے آ رہی ہیں، انتظام و انصرام کو سہل اور آسان بنا رہی ہیں ۔قوانین میں تبدیلی کر رہی ہیں، غیر ضروری قوانین کو ختم کر رہی ہیں۔ ریاستوں میں یہ مسابقہ جتنا بڑھے گا ہماری صنعت بھی عالمی پلیٹ فارم پر مسابقہ کرنے کے لئے پوری طرح سے اہل بنے گی۔
دوسرے صنعت کاروں سے مقابلہ کرنے کی ان کی صلاحیت بڑھے گی۔ اس کا فائدہ ریاستوں کو ہوگا ، ریاست کے عوام کو ہوگا، ہم وطنوں کو ہوگا اور ہندوستان تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے گا۔
صنعت کی دنیا بھی تو شفافیت اور صاف ستھرے انتظام کو پسند کرتی ہے۔ بلا وجہ کے قانون و ضوابط ، حکومت کا بہت زیادہ دخل کہیں نہ کہیں صنعتوں کے بڑھنے کی رفتار کو روکتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اسے سوچ کے ساتھ ہماچل پردیش سرکار بھی کئی نئی مراعات لے رہی ہے، اہم فیصلے کر رہی ہے، صحیح سمت میں سرکار بھی کام کر رہی ہے، یہاں واحد ونڈو کلیئرنس کے انتظام کا معاملہ ہو، زمین الاٹمنٹ کو شفاف کیا جانا یا پھر صنعت مخصوص ،پالیسی کو وضع کرنا ، ان اقدامات نے یہاں کے دوستانہ ماحول کو تجارت کے موافق بھی بنا دیا ہے۔
یہاں انڈسٹری کے بڑی بڑی اہم شخصیات موجود ہیں۔ آپ سبھی ، صنعت کی دنیا کے دیگر ساتھی اسے بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جب کمپنی کی الگ الگ اکائیاں اچھا ریزلٹ دیتی ہیں تو کمپنی کا بھی ریزلٹ اپنے آپ بہتر ہو جاتا ہے۔ اس لئے ریاستوں میں تب سب کچھ بہتر ہوتا ہے۔
تو اس کا سیدھا اثر ملک کے نتیجوں پر پڑتا ہے ۔ ہماچل جیسی دیگر ریاستوں میں ہو رہے بدلاؤ کی وجہ سے ہی آج بھارت کی پہچان پہلے سے کہیں بہتر ، تجارت موافق مرکز کے طور پربنی ہے۔
آج ہندوستان میں ترقی کی گاڑی نئی سوچ، نئے طریقہ کار کے ساتھ چار پہیوں پر چل رہی ہے۔ ایک پہیہ سوسائٹی کا، جو پُر امید ہے۔ ایک پہیہ سرکار کا ، جو نئے بھارت کے لئے حوصلہ فراہم کرنے والا ہے۔ایک پہیہ انڈسٹری کا ، جو ہمت دکھانے والا اور ایک پہیہ معلومات کا ، جس کو باہمی طور پر ساجھا کیا جا سکتا ہے۔اس طرح سے ان چار پہیوں پر ہم تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
آج حکومت جو بھی فیصلے لے رہی ہے وہ بھارت کے مفاد کے عین مطابق ، بھارت کے سماج کی امیدوں کے مطابق لے رہی ہے۔ آج سرکار غریب کے گھر ، صحت ، ہنر پر توجہ مرکوز کر رہی ہے، تو ساتھ ساتھ سرمایہ کاری اور خود کے روزگارپر بھی زور دے رہی ہے۔
آج جتنی اہمیت سروس ڈلیوری پر ہے ،اتنی ہی توجہ بزنس کا ماحول بہتر کر نے پر بھی ہے۔اس کا بھی نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 2014 سے 2019 کے درمیان بھارت نے تجارت کو آسان بنانے کی زمرہ بندی میں 79 رینک کی بہتری کی ہے۔ گذشتہ سال ہم نے 10 میں سے 6 انڈیکیٹرس اس میں اصلاح کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس بار دیوالیہ پن کے شعبے میں ہندوستان نے بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ اس زمرے میں ہم نے 50 سے زیادہ رینک کی اصلاح کی ہے۔
یہ درجہ بندی بہتر ہونے کا مطلب صرف اعداد و شمار کاپھیر بدل نہیں ہے۔ درجہ بندی بہتر کرنے کا مطلب ہے کہ ہماری سرکار زمین پر جا کر زمین کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے فیصلے لے رہی ہے۔ اصول بنا رہی ہے ،یہاں جو لوگ بیٹھے ہیں انہیں پتہ ہے کہ کیسے پہلے ایک ایک اجازت نامہ کے لئے مہینوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔
یہ صرف درجہ بندی میں اصلاح نہیں بلکہ بھارت میں بزنس کرنے کی طریقے میں ایک انقلاب ہےاور اس انقلاب میں سال درسال ہم نئی چیزیں جوڑتے جا رہے ہیں، نئی اصلاح کر رہے ہیں۔ آج کے عالمی منظر نامے میں ہندوستان اگر آج مضبوطی سے کھڑا ہے تو اس لئے ، کیونکہ ہم نے اپنی معیشت کی بنیادوں کو کمزور نہیں ہونے دیا ہے۔
ہم نے کلّی معیشت میں اپنی صلاحیت برقرار رکھی ہے اور مالی نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کی ہے۔ آج جب گلوبل اکنامک ایکٹی وٹی 3 فیصد تک نیچے آ گئی ہے، ہندوستان 5 فیصد کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ حال میں جو رپورٹیں آئی ہیں ۔ وہ یہ امید جتا رہی ہے کہ ہندوستان آنے والے مہینوں میں اور تیزی سے آگے بڑھے گا۔
ہماری نیت نیک ہے اور حساس ہے ، ہمارے فیصلوں میں مضبوطی ہے اور ارادوں میں بھی ۔ کوئی تصورنہیں کر سکتا تھا کہ جی ایس ٹی کبھی بھارت میں نافذ ہوگا ہم نے یہ کر کے دکھایا۔ دیوالیہ ہونے کی حالت میں ملک کی کمپنیوں کے پاس کوئی واضح نکلنے کا راستہ نہیں تھا۔
آج دیوالیہ پن اور دیوالیہ پن سے متعلق ضابطے –آئی بی سی نہ صرف ایک سچائی ہیں بلکہ لاکھوں کروڑ کی پھنسی ہوئی رقم کے واپسی کا سبب بن رہے ہیں۔ بینکنگ اصلاحات بھی برسوں سے رکی ہوئی تھی۔ اس سمت میں بھی تیزی کے ساتھ، بلند حوصلے کے ساتھ ہماری ہی سرکار آگے بڑھی، کل ہی ہم نے ملک کے متوسط طبقے کو دھیان میں رکھتے ہوئے لیکن کل شام کو ہم نے کابینہ میں متوسط طبقے کے کنبے کو دھیان میں رکھتے ہوئے ایک بہت بڑا فیصلہ لیا ہے۔ اس فیصلے سے ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ خاندانوں کے اپنے گھر کے خوابوں کو ، ان کے برسوں سے ادھورے خوابوں کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور اسی ارادے کے ساتھ ہم نے ملک کو پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کا نشانہ رکھا ہے۔
ہماری سرکار سرکاری کام کاج کو رکاوٹوں سے پاک کرنے پر زور دے رہی ہے۔ بینک محکمہ ذاتی کوارڈینیشن کو بڑھا رہی ہے کہ مقررہ وقت میں فیصلے لے رہی ہے۔
ہماری کوشش ٹیکس نظام کو مسابقہ جاتی اور شفاف بنانے کی ہے ۔ اس کڑی میں ہی کارپوریٹ ٹیکس سے جڑا تاریخی فیصلہ لیا گیا ہے۔ آج ہندوستان دنیا کی سب سے کم کارپوریٹ ٹیکس نظاموں میں سے ایک ہے۔ اس سال یکم اکتوبر کے بعد جو بھی نئی گھریلو کمپنیاں کھی ہیں ان کے لئے کارپوریٹ ٹیکس گھٹا کر صرف 15 فیصد کر دیا گیا ہے۔
پچھلے مہینے ای-اسسمینٹ اسکیم نافذ کی جا چکی ہے۔ یعنی ٹیکس نظام میں اب ہیو من انٹر فیس کو کم سے کم کیا جا رہا ہے۔اس سے مزید شفافیت آئے گی اور ٹیکس سے جڑے معاملوں کا بھی تیزی سے نپٹارا ہوگا۔
5 ٹریلین ڈالر کا ہدف صرف سرکار کا نہیں ہے ۔ یہ ہدف ملک کے ہر ریاست کے تعاون سے ہی مکمل ہوگا۔ ہمارے یہاں ہر ریاست میں بہت سے امکانات ہیں، ریاست کے ہر ضلع میں امکانات ہیں، بہت صلاحیت ہے ۔ اس صلاحیت کا جتنا زیادہ فائدہ سرکار یں، ہماری صنعتی دنیا ، ہماری بہت چھوٹی صنعت، ہمارا سروس سیکٹر اٹھائے گا، اتنی ہی تیزی سے ہی ہم آگے بڑھیں گے۔
صلاحیت کو جب پالیسی کا ساتھ ملتا ہے تو کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ یہ کارکردگی ہی ترقی لاتی ہے۔ یعنی ضلع کی ،ریاست کی، ملک کی ترقی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ میں آپ کو ایک اور مثال دیتاہوں اس مثال میں بین الاقوامی درجہ بندی بھی ہے، صلاحیت بھی ہے اور ہماچل کے لئے تو یہ بہت ہی اہم ہے۔ہماچل پردیش کے لئے آج ہم نے جو سیاحت کے سیکٹر میں درجہ بندی کی ہے۔ اس کا سیدھا فائدہ آج ہماچل کو ملنے کی امید ہے۔
سال 2013 میں بھارت عالمی اقتصادی فورم کے سفر اور سیاحت اور مسابقتی اشاریہ میں 65 ویں مقام پر تھا ۔ آج ہم 34 ویں مقام پر ہیں۔ آخر یہ تبدیلی کیسے آئی۔ پانچ سال پہلے ہندوستان میں سالانہ 75-70لاکھ غیر ملکی سیاح آتے تھے۔ گذشتہ سال یہ تعداد ایک کروڑ غیر ملکی سیاحوں کو پار کر چکی ہے۔ آخر یہ اضافہ کیسے ہوا؟
2014 میں ہندوستان کے لوگوں کو سیاحت کے سیکٹر سے غیر ملکی زر مبادلہ میں ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ روپئے کی کمائی ہوئی تھی۔ وہیں پچھلے سال یہ غیر ملکی زر مبادلہ بڑھ کر تقریباً 2 لاکھ کروڑ روپئے پہنچ گیا ۔ یہ بدلاؤ بھی کیسے آیا؟
ہم نے سیاحت کے سیکٹر کی صلاحیت کو سمجھا ،سفر اور سیاحت کے شعبے میں پالیسی اپنائی ،درجنوں نئے ملکوں کو ای ویزا کی سہولت دی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ کارکردگی پوری طرح بدل گئی ، درجہ بندی بدل گئی۔
آج ہندوستان میں ٹورزم کو ایک پیکج کی طرح فروغ دیا جا رہا ہے۔ نیچر ہو ایڈوینچر ہو،اسپریچول ہو ، میڈیکل ہویا ایکو ہو ہر طرح کے ٹورزم پر زور دیا جا رہا ہے اور ہماچل اس معاملے میں امکانات سے بھر پور ہے۔ اتنی اچھی طرح انعقاد آج یہاں ہو رہا ہے۔ اس لئے کانفرنس ٹورزم کے امکانات تو ہمیں صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ہم اس صلاحیت کو سمجھ لیں گے تو ترقی بہت دور نہیں رہ جائے گی۔
ابھی یہاں جو کافی ٹیبل بک ریلیز ہوئی ہے یا جو فلم دکھائی گئی ہے اس میں ہماچل کی صلاحیت کو توسیع دی گئی ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں سولن جاتا تھا، تو کئی بورڈ لگے دیکھتا تھا کہ مشروم سٹی میں آپ کا استقبال ہے۔ اسی طرح لاہول اسپیتی کے آلو، کلو کی شال ، کانگڑا کی پینٹنگ بھی تو مشہور ہے لیکن اکثر جو لوگ باہر سے آتے ہیں انہیں یہ کم ہی پتہ ہوتا ہے کہ ہر ضلع کو پہچان دینے والی ان اشیاء کو کیسے فروغ دیا جائے اس بارے میں بھی نئے طریقے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے میں یہ بھی کہوں گا کہ ہماچل کی صلاحیت اور امکانات اب بھی غیر استعمال شدہ ہیں۔
اب سوچیئے،ہماچل میں آئی آئی ٹی ہے، ٹرپل آئی ٹی ہے، این آئی ٹی ہے، سی آئی پی ای ٹی ہے، آئی آئی ایف ٹی پر کام ہو رہا ہے۔ ایسے میں یہاں ٹیکنالوجی کی توسیع کا امکان ہے۔ یہاں کے سیب ، ناشپاتی، پلم جیسے پھلوں سے لے کر ٹماٹر، گچھی ، مشروم ،شملہ مرچ جیسے سبزیوں تک کی مانگ ہے۔ اس لئے یہاں کے فوڈ ، فوڈ پروسیسنگ ، فارمنگ اور فارما سیکٹر میں زبردست صلاحیت ہے۔
یہاں ہمیشہ سے نامیاتی کاشت کاری ہوتی رہی ہے۔ ملک کی ایسی شاید ہی کوئی دوا ساز کمپنی ہو جو ہماچل میں دوائیوں کی مینوفیکچرنگ نہ کرتی ہو،اس سیکٹر کی توسیع کے لئے بھی یہاں کافی امکانات ہیں۔
ہاں، میں مانتا ہوں کہ ان زبردست امکانات کے درمیان، پہلے ہماچل میں ایک خلاء محسوس ہوتا تھا۔ یہ خلاء تھا معیاری بنیادی ڈھانچہ اور سرکاری ضابطوں کے سہل بنانے کا ۔ مرکزی حکومت نے ریاستی سرکار کے ساتھ مل کر اس خلاء کو بھرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ جب سے یہاں جے رام جی کی ٹیم کو موقع ملا ہے تب سے یہ عمل اور تیز ہو گیاہے۔
آج ہماچل میں بنیادی ڈھانچہ اور کنکٹیوٹی سے جڑی متعدد منصوبوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ پن بجلی کے ساتھ ساتھ قابل تجدید توانائی کے دوسرے ذرائع ہوں یا پھر روڈ ، ریل یا ایئر کنکٹی وٹی ، ہر سطح پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اڑان یوجنا کے تحت ہماچل پردیش نے ہیلو ٹیکسی سیوا کا آغاز کیا ہے۔ شملہ ، دھرمشالہ ، کلو ، چنڈی گڑھ اس سہولت سے جڑ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری سے قومی شاہراہوں کی بھی توسیع کی جا رہی ہے۔ روہتانگ سرنگ کا کام پورا ہونے کا فائدہ تو لاہول اسپیتی اور لداخ تک کو ملے گا۔ وہیں نینگل ڈیم ،تلواڑا ریل لائن ، چنڈی گڑھ ، بدّی ریل لائن ،اونا ہمیر پور ریل لائن اور بھانو پلّی بلاسپور – ریل لائنیں پورے علاقے کی کنکٹیوٹی کو نئی شکل عطا کرے گی۔ آئندہ کچھ برسوں میں ملک کے بنیادی ڈھانچے پر 100 لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کا فائدہ ہماچل پردیش کو بھی ملنے والا ہے۔
آج صحیح معنیٰ میں ہماچل ہندوستان کی ترقی کی کہانی کو نئی روشنی دینے کے لئے تیار ہے اور میرے اس اعتماد کے پیچھے ہماچل کی میری اپنی سمجھ ہے۔ ہماچل بزنس کے لئے ہر ضروری شرط کو پورا کرتا ہے۔ بزنس کے لئے امن چاہئے، وہ ہمیشہ ہماچل کی طاقت رہی ہے۔ تنوع کو قبول کرنے والے سوسائٹی چاہئے، وہ ہماچل میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ یہاں جغرافیائی اور لسانی تنوع بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک دوسرے کی بولی کئی بار سمجھ تک نہیں آتی لیکن ایک دوسرے سے بے حد لگاؤ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہماچل پردیش ملک کے ان ریاستوں میں سے ہے جہاں خواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ ہماچل کے کونے کونےمیں آپ کو کاروبار، تجارت میں لگے لوگ دکھ جائیں گے۔ وہ سرکار کا انتظار نہیں کرتے جو بھی وسائل ان کے پاس ہوتے ہیں وہ انہی سے شروعات کردیتے ہیں ۔ یہاں کے لوگوں میں ایک فطری صنعت کاری کا جذبہ ہے جس کا فائدہ سرمایہ کاروں کو ہوتا ہے۔
اتنا ہی نہیں ہماچل پردیش ملک کے دفاع کے شعبے میں بھی بہت بڑی طاقت ہے۔ یہاں کا کوئی خاندان ایسا نہیں ہے جو فوجی اہلکاروں سے نہ جڑا ہو۔اور دوسری بات ہے آپ ہماچل کے کسی گاؤں میں بیٹھو گے کیونکہ میرا یہاں کافی تجربہ رہا ہے اور گاؤں والوں سے باتیں کروگے تو ایک طرح سے آپ کو وہاں بہت چھوڑا بھارت ملے گا۔ ہمارے سبکدوش فوجیوں کے طور پر ہماچل پردیش کے پاس ان کا تجربہ بہت بڑا اسکل سیٹ ہے۔ متعدد سیکٹروں کے لئے اور خاص کر دفاعی انڈسٹریز کے لئے یہ افرادی قوت بہت کام آ سکتی ہے۔
ہماچل کی کمیونٹی اور یہاں کی صلاحیت ، آپ کا سرمایہ اور یہاں کی پالیسی میں واضح پن بہت بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنے گی۔ اور جب آپ یہاں کے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیں گے ان کی صلاحیت کا استعمال کریں گے تو فائدہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔
آخر میں آپ سبھی کا ایک بار پھر اس سمٹ میں حصہ لینے کے لئے بہت بہت مرہون منت ہوں۔ اور میں آج مہمان نہیں میں بھی ایک طرح سے ہماچلی ہی ہوں۔ اور اس لئے آپ میرے یہاں آئے ہیں، آپ سب میرے مہمان ہیں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہماچل کی سرزمین پر اپنا نصیب آزمایئے،ہماچل آپ کو آشیرواد دیتا رہے گا۔ آپ پھلیں گے پھولیں گے ۔بہت زیادہ ترقی کریں گے ، ہماچل بھی بڑھے گا، ہندوستان بھی بڑھے گا اور آپ بھی بڑھیں گے اسی ایک اعتماد کے ساتھ ایک بار پھر آپ سبھی کو ، جے رام جی اور ان کی ٹیم کو بہت بہت نیک خواہشات۔