22 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

دینک جاگرن کی 75 ویں سالگرہ تقریب کے موقع پر جاگرن فورم میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Urdu News

سب سے پہلے میں دینک جاگرن کے ہر قاری کو، اخبار کی اشاعت اور اخبار کو گھر گھر تک پہنچانے کے کام سے منسلک ہر شخص  کو، خاص طور پر ہاکر برادران کو، آپ کی  ادارتی ٹیم کو جشن الماسی   پر بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں، اپنی نیک  خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

گزشتہ 75 برسوں سے آپ مسلسل ملک کے کروڑوں لوگوں کو اطلاعات سے  جوڑے ہوئے ہیں۔ ملک کی تعمیر نو میں دینک جاگرن نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے۔ ملک کو بیدار کرنے میں آپ اہم رول ادا کرتے رہے ہیں۔ بھارت چھوڑو تحریک کے پس منظر میں جو کام آپ نے شروع کیا، وہ آج نئے بھارت کی نئی امیدوں، نئے عزائم کو آگے بڑھانے میں تعاون کر رہا ہے۔ میں دینک جاگرن پڑھنے والوں میں سے ایک ہون۔ شایدآغاز وہیں سے ہوتا ہے۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ دہائیوں میں دینک جاگرن نے ملک اور سماج میں تبدیلی لانے کی مہم کو طاقت بخشی ہے۔

گزشتہ چار سالوں میں آپ کے گروپ اور ملک کے تمام میڈیا اداروں نے ملک کی تعمیر کے مضبوط ستون  کے طور پر اپنے فریضے کو  بخوبی انجام دیا ہے۔ چاہے وہ بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاو مہم ہو، چاہے سوچھ  بھارت مہم ہو۔ یہ اگر عوامی تحریک بنے ہیں تو اس میں میڈیا کا بھی ایک مثبت کردار رہا ہے۔ دینک جاگرن بھی اس میں اپنی مؤثر شراکت دینے کے لئے ہمیشہ آگے رہا ہے۔ حال میں ہی ویڈیو کانفرنس کے ذریعہ، مجھے آپ سب سے بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا۔ تب مجھے بتایا گیا تھا کہ سوچھتا کے لئے کس طرح آپ سبھی پوری لگن سے کام کر رہے ہیں۔

ساتھیوں، سماج میں میڈیا کا یہ رول آنے والے وقت میں اور بھی اہم  ہونے والا ہے۔ آج ڈیجیٹل انقلاب نے میڈیا کو، اخبارات  کو مزید وسعت دی ہے اور میرا خیال ہے کہ نیا  میڈیا نیا بھارت کی بنیاد کو اور طاقت دے گا۔

 نئے ہندوستان کی جب بھی ہم بات کرتے ہیں تو کم از کم حکومت، زیادہ سے زیادہ حکمرانی  اور سب کا ساتھ سب کا وكاس اس كے اصل ہیں اور اسی  کو لے کر  ہم بات کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسے  نظام  کی بات کرتے ہیں جو عوامی شراکت داری سے منصوبے  کی  تعمیر بھی ہو اور عوامی شراکت داری سے ہی ان پر عمل بھی ہو۔ اسی سوچ کو ہم نے  گزشتہ چار برسوں سے آگے بڑھایا ہے۔ مرکزی حکومت کے کئی منصوبوں کو عوام اپنی ذمہ داری سمجھ کر آگے بڑھا رہے ہیں۔ حکومت، سروکار اور امداد باہمی ، یہ احساس ملک میں مضبوط ہوا ہے۔

ملک کا نوجوان آج ترقی میں خود کو حصے دار  ماننے لگا ہے۔ سرکاری اسکیموں کو اپنے پن کے نظریئے سے دیکھا جانے لگا ہے۔ اس کو لگنے لگا ہے کہ اس کی آواز سنی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکومت اور سسٹم پر یقین  آج بلند ترین سطح پر ہے۔ یہ یقین  تب پیدا ہوتا ہے جب حکومت طے شدہ ہدف حاصل کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شفافیت کے ساتھ کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ساتھیوں، جاگرن فورم میں آپ متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔ بہت سے سوال اٹھائے جائیں گے، بہت سے جواب بھی تلاش کئے جائیں گے۔ ایک سوال آپ کے منچ پر میں  بھی اٹھا رہا ہوں اور سوال میرا ہے لیکن اس کے ساتھ پورے ملک کے جذبات وابستہ ہیں۔ آپ بھی اکثر سوچتے ہوں گے، حیرت میں پڑتے ہوں گے کہ آخر ہمارا ملک پسماندہ کیوں رہ گیا۔ آزادی کی اتنی دہائیوں کے بعد۔۔ یہ کسک آپ کے دماغ میں بھی ہوگی کہ ہم كيوں پیچھے رہ گئے۔ ہمارے پاس بہت بڑی زرخیز زمین ہے، ہمارے نوجوان بہت باصلاحیت اور محنتی بھی ہیں، ہمارے پاس قدرتی وسائل کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارا ملک آگے کیوں نہیں بڑھ پایا۔ كيا وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ملک بھی جن کی تعداد بہت کم ہے، جن کے پاس قدرتی دولت بھی تقریباً نہ کے برابر ہے۔ ایسے ملک بھی بہت کم وقت میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔

یہ ہمارے ملک کے عوام کی صلاحیت ہے کہ ہمارا چندریان چاند تک پہنچ گیا۔ ہم نے بہت کم خرچ میں منگل مشن مکمل کیا۔ لیکن كيا وجہ ہے کہ اس ملک کے کروڑوں لوگوں کے گاؤں تک سڑک بھی نہیں پہنچی ہے۔

 ہندوستانیوں کی اختراعات سے دنیا جگمگا رہی ہے۔ لیکن كيا وجہ رہی ہے کہ کروڑوں ہندوستانیوں کو بجلی بھی نہیں مل پاتی تھی، آخر ہمارے ملک کے لوگ چھ دہائی سے زیادہ وقت تک بنیادی سہولتوں کے لئے بھی کیوں ترستے رہے۔ بڑے بڑے لوگ اقتدار میں آئے، بڑے بڑے خوشحال لوگ بھی اقتدار میں آئے اور چلے بھی گئے۔ لیکن دہائیوں تک جو لوگ چھوٹے چھوٹے مسائل سے برسرپیکار تھے، ان کے مسائل حل نہیں ہو سکے۔

منزلوں کی کمی نہیں تھی ، کمی نیت کی تھی، پیسوں کی کمی نہیں تھی ، جذبے کی کمی تھی ، حل کی کمی نہیں تھی ، ہمدردی کی کمی تھی، قوت کی کمی نہیں تھی بلکہ کمی تھی کام کرنے کی ثقافت کی۔ بہت آسانی سے کچھ لوگ کبیر داس جی کے اس دوحے کو بگاڑ کر کے مذاق بنا دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ’ کل کرے سو آج کر ،آج کرے سو اب ‘لیکن سوچیئے اگر یہ جذبہ ہمارے کام کرنے کی تہذیب میں دہائیوں پہلے آ گیا ہوتا تو آج ملک کی کیا تصویر ہوتی ۔

حال ہی میں میں ایلیفینٹا تک تک پانی کے اندر بچھے کیبل کے ذریعے بجلی پہنچانے کا ایک ویڈیو بہت وائرل ہو رہا تھا ۔ میری بھی نظر پڑی ، امید ہے آپ نے بھی دیکھا ہوگا۔ تصور کیجیئے کہ ممبئی سے تھوڑی ہی دور پر بسے لوگوں کو کیسا لگتا ہوگا جب وہ خود اندھیرے میں رات دن گذارتے ہوئے ممبئی کی چکا چوند کو دیکھتے ہوں ۔ اس اندھیرے میں 70 سال گذار دینے کا تصور کر کے دیکھئے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی مجھے ایک شخص نے خط لکھ کر دھیان دلایا ، اس نے خط اس لئے کہا کیونکہ میگھالیہ پہلی بار ٹرین سے جڑ گیا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے اقتدار میں آنے سے پہلے میگھالیہ ، میزور اور تریپورہ بھارت کے ریل کے نقشے میں نہیں تھے، سوچیئے کس نے کس طرح ان ریاستوں کے لوگوں کی زندگی پر اثر ڈالا ہوگا۔

پہلے ملک کس سمت میں ،کس رفتار سے چل رہا تھا اور آج کس سمت میں اور کس تیزی کے ساتھ،کس رفتار سے آگے جا رہا ہے ۔یہ میرے میڈیا کے ساتھیوں کے لئے مطالعہ کرنے اور غور و خوض کرنے کا موضوع بھی ہوتا ہے۔ کب کریں گے وہ ہم نہیں جانتے ہیں ۔سوچیئے آخر کیوں آزادی کے 67 سا ل تک صرف 38 فیصد دیہی گھروں میں ہی بیت الخلاء بنے اور کیسے ۔۔۔۔۔صرف چار سال میں ۔۔۔۔۔۔ سڑک رابطوں کو بڑھا کر 90فیصد سے زیادہ بستیوں ، گاؤں ، ٹولوں تک پہنچا دیا گیا ۔آخر سوچیئے ۔۔۔۔ کیوں آزادی کے 67 سال بعد تک صرف 55 فیصد گھروں میں ہی گیس کا کنکشن تھا۔ اور اب کیسے صرف چار سال میں گیس کنکشن کا دائرہ 90 فیصد گھروں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ سوچیئے ۔۔۔۔ آخر کیوں ۔ آزادی کے 67 سال تک صرف 70 فیصڈ دیہی خاندانوں تک بجلی کی سہولت پہنچی تھی ۔اب کیسے ۔۔۔۔ گذرے چار سالوں میں 95 فیصد دیہی گھروں تک بجلی پہنچ گئی ہے ۔

اس طرح سے سوال پوچھتے پوچھتے گھنٹوں نکل سکتے ہیں۔ نظام میں نا مکمل سے مکمل کی طرف بڑھتے ہمارے ملک نے پچھلے چار ، ساڑھے چار سالوں میں جو ترقی کی ہے وہ بے مثال ہے۔

سوچیئے۔۔۔۔ آخر کیوں ۔آزادی کے 67 سال تک ملک کے صرف 50 فیصد کنبوں کے پاس ہی بینک کھاتے تھے۔ایسا کیسے ہوا کہ آج ملک کے لگ بھگ ہر کنبے کا بینک سے ناطہ جڑ گیا ہے ۔ سوچیئے ۔۔۔۔۔ کہ آخر ایسا کیا تھا کہ آزادی کے 67 سال تک بہ مشکل چار کروڑ شہری ہی انکم ٹیکس ریٹرن بھر رہے تھے۔ سواسو کروڑ کا دیش۔۔۔۔۔۔۔ چار کروڑ، صرف چار سال میں ہی تین کروڑ نئے شہری انکم ٹیکس کے نیٹ ورک سے جڑ گئے ہیں ۔ سوچیئے۔۔۔ کہ آخر کیوں ایسا تھا کہ جب تک جی ایس ٹی لاگو نہیں ہوا تھا ، ہمارے ملک میں بلواسطہ ٹیکس نظام سے 66 لاکھ آدمی ہی رجسٹرڈ تھے اور اب جی ایس ٹی نافذ ہونے کے بعد 54 لاکھ نئے لوگوں نے رجسٹر کروایا۔

آخر پہلے کی سرکاریں ایسا کیوں نہیں کر سکیں اور اب جو ہو رہا ہے وہ کیسے ہو رہا ہے۔ لوگ وہی ہیں افسر شاہی وہی ہیں ، ادارے بھی وہی ہیں ، فائل کے جانے کا راستہ بھی وہی ہے ، ٹیبل، کرسی ، قلم وہ سب کچھ وہی ہے پھر بھی یہ بدلاؤ کیوں آیا۔ اس بات کا یہ ثبوت ہے کہ ملک بدل سکتا ہے۔ اور میں آپ کو یہ بھی یقین دلانا چاہتا ہوں کہ جو بھی بدلاؤ آیا ہے ، جو بھی تبدیلی آ رہی ہے ، تیزی آئی ہے، وہ تب تک نہیں آتی جب تک بالکل زمینی سطح پر جا کر فیصلے نہیں کئے جاتے ، ان پر عمل نہیں کیا جاتا ۔

آپ تصور کیجئے ۔۔۔ اگر ملک کے شہریوں کو دہائیوں پہلے ہی لازمی ضروریات فراہم کی گئی ہوتی تو ہمارا ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہوتا ۔ ملک کے شہریوں کے لئے یہ سب کرنا میرے لئے خوش قسمتی کی بات ہے۔ لیکن یہ اتنی ہی بد قسمتی کی بات ہے کہ ملک کو اس کے لئے اسنے برسوں تک ترسنا پڑا۔

جب ہمارے ملک کے غریب ،کمزور اور محروم لوگوں کو تمام بنیادی سہولتیں میسر ہو جائیں گی ۔۔۔۔۔ انہیں بیت الخلاء ، بجلی ، بینک اکاونٹ ، گیس کنیکشن ، تعلیم ، بیماری جیسے چیزوں کی فکر سے آزادی مل جائے گی تو پھر میرے ملک کے غریب خود ہی اپنی غریبی کو شکست دے دیں گے ۔ یہ میرا یقین ہے ۔ وہ غریبی سے باہر نکل آئیں گے اور ملک بھی غریبی سے باہر نکل آئے گا،گذرے چار برسوں میں آپ اس تبدیلی کو ہوتے ہوئے دیکھ بھی رہے ہیں۔ اعدادو شمار اس کی گواہی دے رہی ہے لیکن یہ سب پہلے نہیں ہوا اور پہلے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ غریبی کم ہو جائے گی تو غریبی ہٹاؤ کا نعرہ کیسے دے پائیں گے۔ پہلے اس لئے نہیں ہوا کیونکہ جب بنیادی سہولیات سب کو مل جائیں گی تو ووٹ بینک کی سیاست کیسے ہوگی، استحصال کیسے ہوگا۔

 آج جب ہم ملک کے صد فیصد لوگوں کو قریب قریب سبھی ضروری سہولتیں دینے کی قریب پہنچ گئے ہیں تو ہندوستان دوسرے دور میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہے۔ ہم کروڑوں بھارتیوں کی امیدوں، آرزؤ ں کو پورا کرنے کے قریب ہیں۔ آج ہم نیو انڈیا کے عہد سے سدھی کے سفر کی جانب گامزن ہیں۔ اس سفر میں جس طرح ٹکنالوجی کا استعمال بھارت کررہا ہے، وہ دنیا کے ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے لیے بھی ایک ماڈل بن رہا ہے۔

آج ہندوستان میں کنکٹی ویٹی سے لے کر کمیونیکیشن تک، کمپٹیشن سے لے کر سہولتوں تک زندگی کے ہر پہلو کو تکنیک سے جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے۔ تکنیک اور انسانی ہمدردیوں کی طاقت سے آسان زندگی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ ہمارے انتظامات تیزی سے نئی دنیا کی ضرورتوں کے لیے تیار ہورہے ہیں۔ شمسی توانائیوں، حیاتیاتی ایندھنوں اس پر جدید ترین انتظامات کئے جارہے ہیں۔

ملک میں آج اکیسویں صدی کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے نیکسٹ جنریشن بنیادی ڈھانچہ تیار ہورہا ہے۔ہائی وے ہو، ریلوے ہو، ایئروے ہو، واٹر وے ہو،چوطرفہ کام کیا جارہا ہے۔حال میں آپ نے دیکھا کس طرح وارانسی اور کولکاتا کے درمیان واٹر وے کی نئی سہولت ہوگئی ہے۔ اسی طرح ملک میں بنی بغیر انجن ڈرائیور والی ٹرین، ٹرین 18 اور اس کا ٹرائل تو آپ کے اخباروں میں شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ ہوائی سفر کی صورت تو یہ ہوگئی ہے کہ آج اے سی ڈبوں میں چلنے والے مسافروں سے زیادہ لوگ اب ہوائی ہوائی جہاز میں اڑنے لگے ہیں۔ یہ اس لیے ہورہا ہے، کیونکہ سرکار چھوٹے چھوٹے شہروں کو ٹیئر2شہروں، ٹیئر3 شہروں کو بھی اڑان یوجنا سے جوڑ رہی ہے۔ نئے ایئرپورٹ اور ایئرروٹ کو ترقی دے رہی ہے۔ انتظامات میں ہر طرف بدلاؤ کیسے آرہا ہے، اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ایل پی جی سلینڈر ریفل کے لیے پہلے کئی دن لگ جاتے تھے، اب صرف ایک دو دن میں ہی ملنا شروع ہوگیا ہے۔ پہلے انکم ٹیکس ری فنڈ ملنے میں مہینوں لگ جاتے تھے۔ یہ بھی اب کچھ ہفتوں میں ہونے لگا ہے۔ پاسپورٹ بنوانا بھی پہلے مہینوں کا کام تھا اب وہی کام ایک دو ہفتے میں ہوجاتا ہے۔ بجلی، پانی کا کنکشن اب آسانی سے ملنے لگا ہے۔ سرکار کی زیادہ تر خدمات اب آن لائن دستیاب ہیں، موبائل فون پر ہیں۔اس کے پیچھے کا ایک ہی جذبہ ہے کہ عام آدمی کو انتظامات سے الجھنا نہ پڑے، جوجھنا نہ پڑے، قطار نہ لگے، بدعنوانی کے امکانات کم ہوں اور روزمرہ کی پریشانی سے نجات ملے۔

 سرکار نہ صرف خدمات کو گھر گھر تک پہنچانے کے لیے عہد بستہ ہے بلکہ اسکیموں کا فائدہ  ضرورت مندوں تک ضرور پہنچے، اس کے لیے بھی سرکار سنجیدہ کوشش کررہی ہے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت مل رہے گھروں، اجولا یوجنا کے تحت مل رہے گیس کے کنکشن ہوں، سوبھاگیہ یوجنا کے تحت بجلی کا کنکشن ہوں، بیت الخلا کی سہولت ہو، ایسی تمام اسکیموں کے مستفدین تک سرکار خود جارہی ہے۔ ان کی پہچان کررہی ہے، انہیں ان سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے تحریک دے رہی ہے۔ ملک کے 50 کروڑ سے زائد غریبوں کی صحت کو تحفظ فراہم کرنے والی پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا (پی ایم جے اے وائی) یعنی آیوشمان بھارت یوجنا تو ویلفیئر اور فیئرپلے کا بہترین نمونہ ہے۔

ڈجیٹل تکنیک آٹومیشن اور انسانی فائدے کی چیزوں کو کیسے عام لوگوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ آیوشمان بھارت میں دکھتا ہے۔ اس اسکیم کے مستفدین کی پہچان پہلے کی گئی، پھر ان کی جانکاری کو، ڈیٹا کو تکنیک کے توسط سے جوڑا گیا اور پھر گولڈن کارڈ جاری کئے جارہے ہیں۔ گولڈن کارڈ اور آیوشمان دوست یعنی تکنیک اور انسانی فائدے کی چیزوں کے سنگم سے غریب کو سرکاری اسکیم کا فائدہ بالکل مفت مل رہا ہے۔

 ابھی اس اسکیم کو سو دن بھی نہیں ہوئے ہیں۔ صرف تین مہینے سے بھی کم وقت گزرا ہے اور اب تک ملک کے ساڑھے چار لاکھ غریب اس سے فائدہ اٹھا چکے ہیں یا ابھی اسپتال میں اپنا علاج کرارہے ہیں۔ حاملہ خواتین کی سرجری سے لے کر کینسر جیسی خطرناک بیماریوں تک کا علاج آیوشمان بھارت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔

اس ہال میں بیٹھے ہوئے، اس چکاچوند سے دور رہ رہے دیگر لوگوں کے بارے میں سوچئے کہ یہ لوگ کون ہیں۔ یہ محنت کش ہیں، یہ کام گار ہیں، کسان ہیں، کھیت اور کارخانے میں مزدوری کرنے والے لوگ ہیں، ٹھیلا چلانے والے، رکشا چلانے والے لوگ ہیں، کپڑے سلنے کا کام کرنے والے لوگ ہیں، کپڑے دھو کر زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں، گاؤں اور شہروں کے وہ لوگ جو مہلک بیماری کا علاج صرف اس لیے ٹالتے رہتے تھے، کیونکہ ان کے سامنے ایک بہت بڑا سوال ہمیشہ رہتا تھا۔ اپنی دوا پر خرچ کریں یا کنبے کے لیے دو وقت کی روٹی پر خرچ کریں، اپنی دوا پر خرچ کریں یا بچوں کی پڑھائی پر خرچ کریں۔ غریبوں کو اس سوال کا جواب آیوشمان بھارت یوجنا کے طور پر مل چکا ہے۔

 غریب کو بااختیار بنانے کا یہ کام صرف یہیں تک محدود رہنے والا نہیں ہے۔ اس کو آنے والے وقت میں توسیع کرنی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ بچولیوں کو تکنیک کے ذریعے ہٹایا جائے۔ پیداوار کرنے والے افراد اور صارفین کو جتنا ممکن ہو اتنا ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔ بدعنوانی چاہے کسی بھی سطح پر ہو ہماری نیتی واضح بھی ہے اور سخت بھی ہے۔ اس سیکٹر میں کی جارہی ان کوششوں کو دنیا بھی دیکھ رہی ہے اور اس لیے بھارت کو امکانات اور مواقع کا ملک بتایا جارہا ہے۔

 جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں کہ پچھلے دنوں ارجنٹینا میں جی۔20 کا اجلاس ہوا، اس اجلاس میں آئے رہنماؤں سے میری بات چیت ہوئی، ہم نے اپنی باتیں بھی دنیا کی طاقتور معیشتوں کے درمیان رکھی، جو اقتصادی جرائم کرنے والے ہیں، بھگوڑے ہیں، ان کو دنیا میں کہیں بھی محفوظ پناہ گاہ نہ ملے، اس کے لیے ہندوستان نے کچھ تجاویزبین الاقوامی برادری کے درمیان رکھے۔ مجھے یہ اعتماد ہے کہ ہماری یہ مہم آج نہیں تو کل، کبھی نہ کبھی رنگ لائے گی۔

اس اعتماد کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کی بات کو دنیا سن رہی ہے۔ سمجھنے کی کوشش کررہی ہے۔ ہمارے دنیا کی تمام ملکوں سے رشتے بے حد دوستانہ ہوگئے ہیں۔ اس کے نتائج آپ سبھی اور پورا ملک بھی دیکھ رہا ہے۔ تجربہ بھی کررہا ہے۔ ابھی تین چار دن پہلے ہی اس کا ایک اور نمونہ آپ نے دیکھا ہے۔ یہ سب ممکن ہورہا ہےہماری خوداعتمادی کے سبب۔ ہمارے ملک کی خوداعتمادی کے سبب۔

آج بڑے اہداف، کڑے اور بڑے فیصلوں کے لیے اگر ہمت سرکار کرپاتی ہے تو اس کے پیچھے ایک مضبوط سرکار ہے۔ مکمل اکثریت سے منتخب سرکار ہے۔ ان نیو انڈیا کے لیے سرکار کا فوکس جامع وسائل، سنسکار، روایت، تہذیب اور سلامتی پر ہے۔ترقی کی 5 دھارا جو ترقی کی گنگا کو آگے بڑھائے گی ۔یہ ترقی کی 5 دھارا بچوں کی پڑھائی، نوجوانوں کو کمائی، بزرگوں کو دوائی، کسانوں کو سینچائی اور جن جن کی سنوائی ہے۔ یہ پانچ دھارائیں اسی کو مرکز میں رکھتے ہوئے سرکار ترقی کی گنگا کو آگے بڑھا رہی ہے۔

نئے بھارت کے نئے سپنوں کو حقیقت بنانے میں دینک جاگرن کی، پورے میڈیا جگت کی بھی ایک اہم کردار رہنے والا ہے۔ سسٹم سے سوال کرنا یہ آپ کی ذمہ داری ہے اور آپ کا حق بھی ہے۔ میڈیا کے مشورے اور آپ کی تنقیدوں کا تو میں ہمیشہ استقبال کرتا رہا ہوں۔ اپنی آزادی کو بنائے رکھتے ہوئے، اپنی غیر جانبداری کو قائم رکھتے ہوئے دینک جاگرن گروپ ملک کی تعمیر کے لیے منظم کام کرتا رہے گا۔ اسی امید، اسی بھروسے کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ آپ سبھی کو 75 برس پورے کرنے کے لیے پھر سے مبارکباد اور روشن مستقبل کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More