نئی دہلی:جون، آج 21 جون 2017 بروز بدھ روس کے شہر نووسبرسک میں ٹیکنو پروم 2017 میں ’’میک ان رشیا: ڈبل پرپز انڈسٹریلائزیشن‘‘ کے موضوع پر منعقدہ مکمل اجلاس میں دفاع ،خزانہ اور تجارتی امور کے وزیر جناب ارون جیٹلی کی تقریر کا پورا متن درج ذیل ہے:
’’پانچویں انٹرنیشنل فورم فار ٹیکنالوجیکل ڈیولپمنٹ ٹیکنو پروم کے مکمل اجلاس میں تقریر کرنا میرے لیے نہایت خوشی کی بات ہے۔ تقریر کے لیے دعوت نامہ ارسال کرنےپر میں جناب روگوزن اور دیگر منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔روس کے سائنس اور ٹکنالوجی کی راجدھانی اور نہایت خوبصورت شہر نووسبرسک کا دورہ کرکے بھی مجھے بیحد خوشی ہوئی ہے۔اس شہر کی ہمہ جہت ترقی اور روس کی مجموعی ترقی میں اس شہر کے تعاون سے بھی میں بیحد متاثر ہوا ہوں۔ اپنے آغاز سے لے کر پچھلے پانچ برسوںمیں 50 سے زائد تجارتی تقریبات اور بیحد متاثر کن 6ہزار شرکاءکے ساتھ ٹیکنا لوجی کے میدان میں ٹیکنو پروم سرکردہ بین الاقوامی فورم بن چکا ہے۔اس سال سائنٹفک ، ٹیکنالوجیکل اور اختراعی شعبوں میں نہایت اہم ٹیکنالوجیوں پر فوکس نے اس تقریب کونہایت اہم ،ٹیکنالوجیکل مصنوعات اور دیگر ٹیکنالوجیوں میں بصیرت کا حامل اور تجارتی مواقع کے لیے کلیدی فورم بنا دیا ہے۔
خواتین و حضرات!
اس سال ہندوستان اور روس سفارتی تعلقات کی 70ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ پچھلے سات دہائی سے زائد عرصے میں ہمارے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے ہیں۔ہندوستان کے لیے روس کے ساتھ تعلقات نہایت اہم اور خارجہ پالیسی میں اولیت کے حامل ہیں۔روس ہندوسان کاایک قابل اعتماد اور ہر زمانے میں ساتھ دینے والا پارٹنر ہے۔ 2000 میں ہندـروس اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے اعلانیہ پر دستخط کے بعد دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات کافی بہتر ہوئے ہیں۔ متعدد شعبوں میں ہمارے درمیان اشتراک و تعاون بڑھا ہے۔آج ہم نہایت خوشگوار اور ایک دوسرے کے لیے سودمند سیاسی تعلقات ، دفاع اور سلامتی میں اشتراک و تعاون، تجارتی اور اقتصادی ساجھیداری، سائنس اور ٹیکنالوجی کے خوشگوار رشتے اور تہذیبی وثقافتی رابطے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔فوجی تکنیکی اشتراک و تعاون کے شعبے میں روس کے ساتھ ہماری طویل مفاہمت اور وسیع اشتراک محض فروخت کنندہ اور خریدار کے رشتے سے بالاتر ہوکراعلیٰ دفاعی نظاموں کی تیاری اور ترقی میں مشترکہ تحقیق اور ریسرچ کی سطح تک پہنچ چکا ہے۔برہموز میزائل نظام اور ہندوستان میں اعلیٰ معیار کے سکھوئی 30 ائرکرافٹ کی پیداوار ہمارے دو طرفہ اشتراک و تعاون کا حالیہ ثبوت ہے۔آج دونوں ملکوں کے مابین دو طرفہ اشتراک و تعاون تقریبا دفاع کے تمام شعبوں میں ہے۔
دوستو!
میں نے روس کے نائب وزیر اعظم روگوزن کے ساتھ ہند ـروس اعلیٰ سطحی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی افتتاحی میٹنگ کی مشترکہ صدارت کی ہے۔ ہم دونوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے سائنٹفک اور ٹیکنالوجیکل اشتراک و تعاون کو اپنے مستقبل کے تعلقات کے مرکز میں رکھیں گے۔اس نئے میکنزم سے دونوں ملکوں کے درمیان اشتراک و تعاون میں مزید اضافہ ہوگا اور اشتراک و تعاون کے نئے شعبے سامنے آئیں گے۔
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے حکومت تشکیل دینے کے فورا بعد ہی ہندوستان میں مینو فیکچرنگ کو فروغ دینے کے لیے فلیگ شپ پروگرام ’میک ان انڈیا‘ کی شروعات کی۔ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ آج ٹیکنالوجیکل اختراع اور معلومات سے بھرپور تجارتی ماڈلوں والی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں مینوفیکچرنگ اسی وقت آگے بڑھ سکتی ہے جب اختراع اور تجارت کے درمیان ہم معاشی رشتہ قائم کرنے کے قابل ہوں گے۔ مجھ سے کہا گیا ہے کہ آج میں چند خیالات کو آپ کے ساتھ شیئر کروں کے کس طرح ہم دفاعی مینوفیکچرنگ کے سیکٹر کو، جو کہ میک ان انڈیا کے اقدام میں شناخت کئے گئے کلیدی شعبوں میں سے ایک ہے،ترقی دینا چاہتے ہیں ۔سب سے پہلے ہم نے ساجھیداری بشمول مشترکہ کمپنیاں اور ہندوستان اور غیر ملکی کمپنیوں کے درمیان ٹیکنالوجی شراکت داری قائم کرنے کے لیے مختلف پالیسیوں کی شروعات کی اوراپنے طریقہ کار میں تبدیلی لائی۔ روسی کمپنیوں کو، جن کو ہندوستان میں اور ہندوستان کے ساتھ کام کرنے کاپہلے سے ہی طویل تجربہ ہے،اس عمل میں قائدانہ رول لینے کے لیےسب سے مقدم رکھا گیا ہے۔
وزیر اعظم کے ذریعے میک ان انڈیااقدام کے اعلان کے بعد سے دفاعی پیداوار کے شعبے میں ہمیں نجی کمپنیوں کی جانب سے زبردست جوش و خروش اور شراکت داری دیکھنے کو ملا ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں دفاعی مینوفیکچرنگ کے شعبے میں پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سےمکمل تجارتی جذبہ دیکھنے کو ملے گا۔یہاں ہم یہ بات پھر دہراتے ہیں کہ دفاعی ہارڈ ویئراور آلات کے شعبے میں سب سےقدیم، سب سے بڑےاور سب سے زیادہ قابل اعتماد پارٹنر کی حیثیت سےروس کو دفاعی پیداوار میں میک ان انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کے لیےہندوستانی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک و تعاون قائم کرنے میں زیادہ آسانی ہوگی ۔مزید برآں ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجیکل ترقی چھوٹے سے چھوٹے ہارڈ وئیر اجزاء اور سافٹ وئیر اجزا ء اوربڑے سے بڑے اجزاء سمیت سبھی شعبوں پر محیط ہے۔اس وجہ سے ہم اجزاء اور ذیلی نظاموں کے شعبوں میں صلاحیت پیدا کرنے پرخصوصی زور دے رہے ہیں۔ایک طریقہ جس کے ذریعے ہم اس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اندرون ملک تیار کردہ پیداوار کو ترغیبات دینا ہے،بالخصوص ہماری دفاعی خریداری میں ترقی اور مینو فیکچرنگ میں گھریلو ڈیزائن تیار کرنے کے لیے انعام دینا ہے۔2016 کے دفاعی خریداری طریقہ کار (ڈی پی پی)کے پچھلے ایڈیشن میں ہم نے دفاعی تحویل میں ایک نئے زمرے ’بائی(آئی ڈی ڈی ایم) کو متعارف کیا، جس کے تحت پہلی ترجیح ایسے سازو سامان اور آلات کو دی جائے گی جو اندرون ملک ڈیزائن کیا گیا ، تیار کردہ اور مینو فیکچرنگ کیا ہوا ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کی اس سے ہندوستانی کمپنیوں کو ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کرنے میں تحریک ملے گی۔نئے ڈی پی پی نے ڈیزائن ، ڈیولپمنٹ اور مینوفیکچرنگ میں ہندوستانی صنعت کی بڑی شراکت داری اور اندرون ملک تیار کرنے کے لیے نئے ضوابط بنائے ہیں۔ ہندوستانی کمپنیاں ڈیزائن اور ترقی کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس شعبے میں بھی روسی کمپنیوں کی کفایتی اور جدید تر ٹیکنالوجیکل صلاحیتیں اہم سرمایہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
میں روسی کمپنیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہندوستانی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی تجویز لے کر آئیں اور مزید اعلیٰ قسم کے اجزاء، پرزے اور ذیلی نظاموں کی مینو فیکچرنگ کو آسان بنائیں۔ یہ روسی اصلیت کے حامل پلیٹ فارم سے شروع ہو سکتا ہے جہا ں اس کی بڑی تعداد میں ضرورت ہے۔ ایک انعام کے طورپر دفاعی آلات کی مینو فیکچرنگ کے لیے صنعتی لائنس کو واضع طور پر آسان بنا دیا گیا ہے۔اب اجزاء ، پرزے ذیلی نظاموں ،پیداواری آلات اور آزمائشی سازو سامان کی مینو فیکچرنگ کے لیے حکومت کی جانب سے کسی لائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جن چیزوں کی لیے لائنس کی ضرورت ہوتی ہے ان کی میعاد کو بھی تین سال سے بڑھا کر پندرہ سال کردیا گیا ہے۔ اس آسان طریقہ کا رکے سبب پچھلے دو برس میں دفاعی پیداوار کے شعبے میں پرائیویٹ کی موجودگی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ دفاعی سیکٹر میں میک ان انڈیا نہ صرف گھریلو ضروریات کو پورا کرے گا بلکہ یہ ہندوستانی کمپنیوں کو عالمی سپلائی چین کا حصہ بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔دفاع میں ہندوستان کی گھریلو ضروریات کے باوجود مینو فیکچرنگ اور تجارت طویل مدت میں اسی وقت پائیدار ثابت ہوگی جب یہ کمپنیاں بین الاقوامی ضروریات پر نظر رکھیں گی۔
ہندوستانی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ کمپنی قائم کرنے کے لیے روسی کمپنیاں چند چیزوں کی شناخت کر سکتی ہیں، تاکہ ان کی سپلائی دنیا بھر میں کی جاسکے۔ اس بات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے پچھلے دو برس میں ہم نے برآمدات کلیئرنس کے عمل کو کافی آسان بنا دیا ہے۔
تحقیق اور ترقی ایک دیگر شعبہ ہے جہاں روسی صنعت اور تجارتی گھرانے ہندوستانی کمپنیوں کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ہم دفاعی سیکٹر میں ٹیکنالوجی کی ترقی اور اختراع پر خصوصی زور دے رہے ہیں۔ دفاعی خریداری طریقہ کار ـ2016 میں دفاعی آلات اور نظاموں کی ترقی اور ڈیزائن کو ترغیبات دینے کی شروعات کی ہے۔ ہم ہندوستانی اور روسی کمپنیوں کے درمیان ساجھیداری کا خیر مقدم کریں گے۔ بنگلورو ، دہلی اور حیدرآباد ہندوستان کے ایسے شہر ہیں جہاں متعدد دفاع کی عالمی کمپنیوں کے ڈیزائن مراکز ہیں۔ بنگلورو تیزی کے ساتھ دنیا کا ایرو اسپیس ڈیزائن مرکز کے طوریر ابھر رہا ہے۔ روسی کمپنیوں کو بڑے پیمانے پرہندوستان میں دستیاب ہنر مند افرادی قوت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔دونوں ملک کی کمپنیوں کے لیے یہ بہترین موقع ہوگا۔
خواتین وحضرات !
گزشتہ تین برسوں کے دوران حکومت نے دفاعی پیداوار کے سیکٹر میں نجی سرمایہ کاری ، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ اور اندرون ملک تیار کرنے کو فروغ دینے کے لیےضابطہ جاتی تبدیلی کرنے کے علاوہ متعدد نئی پالیسیوں کو متعارف کرایا ہے۔ دفاعی سازو سامان کی مینو فیکچرنگ مراکز قائم کرنے کے لیے صنعت میں کافی جوش و خروش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ روسی کمپنیاں ہندوستانی کمپنیوں کے لیے فطری پارٹنر ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارے دفاعی آلات اور دفاعی ایجادات زیادہ تر روسی نژاد ہیں۔ اسپئیر پارٹس کی مینو فیکچرنگ کے لیے بڑی تعداد میں صنعتی مراکز اور سپلائی چین قائم کئے جا سکتے ہیں اور ان صنعتی مراکز کے اجزاء کو روسی کمپنیوں کی جانب سے ٹیکنالوجی منتقلی کے ذریعہ ہندوستانی اور روسی کمپنیوں کی مشترکہ کمپنی کے ذریعے تیار کیا جا سکتا ہے۔
اس سال مارچ میں ہم نے نئی دہلی میں اب تک کا سب سے بڑا ہندـ روس ملٹری انڈسٹریل کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس میں دونوں ملکوں کے 600 سے زائد تجارتی مندوبین نے شرکت کی۔ہماری کمپنیوں کے درمیان گفت وشنید کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ دونوں ملکوں کے حکومتیں ان شراکت داریوں کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔
دونوں ملکوں کے درمیان دفاع ہی اشتراک و تعاون کا ایک ممکنہ شعبہ ہے۔ ہمیں بیحد خوشی ہوگی اگر روسی کمپنیاں،بالخصوص نئی ، جدت طرازاور ٹیکنالوجی کی حامل کمپنیاں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ہندوستانی معیشت میں نئے مواقع تلاش کرنے کے لیے آگے آتی ہیں۔
میں ٹیکنوپروم کانفرنس کی پوری کامیابی کے لیے تمناکرتاہوں اور ٓنے والے برسوں میں ہندوستان اور روس کے درمیان بڑے اور وسیع سائنٹفک اور ٹیکنالوجیکل پارٹنرشپ قائم کرنے کے لیے آرزو مند ہوں۔