نئی دہلی۔؛ زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب رادھا موہن سنگھ نے آج ترو اننت پورم، کیرالہ میں منعقدہ قومی کیلا میلہ – 2018 سے خطاب کیا۔ قومی کیلا میلہ، 2018 میں جناب رادھا موہن سنگھ کا خطاب حسب ذیل ہے: –
کیلا ترقی پذیر استوائی ممالک میں لاکھوں لوگوں کے لیے وسیع فائبر پر مشتمل کھانے کی فصل ہے جس کی کاشت تقریباً چار ہزار سال پرانی یعنی 2020 قبل مسیح سے کی جا رہی ہے۔ کیلے کی اہم پیداوار کا مقام ہندوستان ہے اور ہندوستان کے استوائی و ساحلی خطے میں وسیع پیمانے پر اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ حالیہ برسوں میں گھریلو کھانے کی اشیاء، تغذیہ بخش اشیاء اور دنیا کے کئی حصوں میں سماجی تحفظ کے طور پر کیلے کی اہمیت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہندوستان میں گزشتہ 2 دہائیوں میں بوائی کا شعبہ، پیداوار اور پیداواریت کے لحاظ سے کیلے کی کاشت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
آج دنیا کے 130 ممالک میں 5 ملین ہیکٹیئر رقبے میں کیلے کی کاشت کی جاتی ہے جس میں کیلے (ایف اے او، 2013) کی 103.63 ملین ٹن پیداوار ہوتی ہے۔ دنیا میں کیلے کی سب سے زیادہ پیداوارہندوستان میں ہوتی ہے۔ ہندوستان میں کیلے کی پیداواریت 37 میٹک ٹن فی ہیکٹیئر ہے۔ حالانکہ ہندوستان میں کیلے کی کاشت دنیا کے مقابلے میں 15.5 فیصد رقبے میں کی جاتی ہے لیکن ہندوستان میں کیلے کی پیداواردنیا کے مقابلے میں 25.58 فیصد ہوتی ہے۔ اس طرح کیلا ایک اہم فصل کے طور پر ابھر ہو رہا ہے۔ کیلا عام صارفین کی پہنچ میں ہے۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ کیلے کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کیلے کی گھریلو مانگ سال 2050 تک بڑھ کر 60 ملین ٹن ہو جائے گی۔ کیلے اور اس کی پیداوار کی برآمد کی کافی گنجائش ہے جس سے کیلے کی مزید مانگ بڑھ سکتی ہے۔ کیلا اور پلینٹینس مسلسل عالمی سطح پر حیرت انگیز اضافہ درج کر رہے ہیں۔ سال بھر کیلے کی دستیابی، قوت برداشت، مختلف اقسام، ذائقہ، تغذیہ و طبی خصوصیت کی وجہ سے کیلا سبھی زمروں کے لوگوں کے درمیان ذائقہ دار پھل بنتا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے کیلے کی برآمدات کے بہتر امکانات ہیں۔
دنیا بھر میں کیلے کی پیداوار افریقہ، ایشیا، کیریبین اور لاطینی امریکہ میں مرکوز ہے جو وہاں کی آب و ہوا کے حالات کی وجہ سے ہے۔ ہماری مربوط باغبانی ترقی مشن (جس میں اعلی مستعدی والے پودوں کو اپنانے، ٹسیو کلچر پلانٹس کا استعمال اور پی ایچ ایم بنیادی ڈھانچے میں دیگر سرگرمیوں کو فروغ دیا جاتا ہے) کے تحت مختلف سرگرمیوں کو چلانے کی وجہ سے کیلے کی کاشت کے شعبے میں کافی توسیع ہوئی ہے اور کیلے کی پیداواراور پیداواریت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ابھی تک گزشتہ تین سالوں اور چھ مہینوں کے دوران 11809 پیک ہاؤسیس، 34.92 لاکھ میٹرک ٹن کولڈ اسٹوریج تعمیر کئے گئے ہیں۔ کیلے کی غذائیت، بہت زیادہ نفع بخش اور اس کی برآمداتی صلاحیت سے متعلق بڑھتی ہوئی بیداری کی وجہ سے کیلے کی کاشت کاری کے شعبے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پورے ملک میں کیلے کی کاشت کرنے والے کسانوں کو 3.5 سالوں کے دوران موجودہ حکومت کی مربوط باغبانی ترقی مشن اسکیم کی وجہ سے کافی فائدہ حاصل ہوا ہے۔
شہر کاری اور قدرتی سائٹس پر جنگلی کیلے کی کاشت کاری میں کمی کی وجہ سے کیلے کی دستیابی جینیاتی طور پر متفرق قسموں کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ موسا نامی جنگلی پرجاتیوں اور اس کی معاون قسمیں نامیاتی ذرائع کی تعمیر کرتی ہیں۔ نامیاتی اور غیرنمیاتی دباؤ ایسے اہم مسائل ہیں جن سے بڑے پیمانے پر پیداواری میں کمی آتی ہیں۔ حالانکہ کیلے کی پیداواری سے متعلق مسائل ایک شعبے سے دوسرے شعبے میں مختلف ہوتی ہے پھر بھی زیادہ تر مسائل اب بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ مسائل کی اس قسم کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے کیلے کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بنیادی، اسٹریٹجک اور اصلاح تحقیق کی ضرورت ہے۔
کیلے اور پلینٹینس کے عمل میں نتائج کو حاصل کرنے کے لیے موجودہ جیو ٹیکنالوجی اوزار / عمل کی شرائط اس مسئلہ کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور اس کا اصل اثر مستقبل میں دیکھنے کو ملے گا۔ سال 2050 میں 60 ملین ٹن پیداوار کے مقصد کے ساتھ کھاد، آب پاشی، کیڑے مار انتظام اور ٹی آر 4 جیسی بیماریوں کے علاج جیسے اخراجات میں اضافہ جیسی کثیر پیداواری مسائل کا کیلے کے پیداواریت کو بڑھانے کے لیے حل تلاش کیا جا رہا ہے۔
جینیاتی طور پر انجینئرنگ، مرکزی پیداوار، سبسٹریٹ ڈائنامکس، نامیاتی کاشتکاری، انوائس کٹ اور بیماریوں کی روک تھام، فیزیولوجیکل، نامیاتی و غیر نامیاتی دباؤ، انتظامی امور کے لیے حیاتیاتی وکیمیائی اور جینیاتی بنیاد، فصل کے بعد ٹیکنالوجی کو اپنانا، کٹائی کے بعد ٹیکنالوجی اپنانا اور فضلہ سے پیسہ جمع کرنا جیسے شعبوں میں فروغ دینے کے لیے نئے عمل کو شروع کیا جا رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس اجلاس میں کیے گئے تبادلۂ خیالات سے تحقیق کو مضبوط بنانے کا بنیاد حاصل ہوگا اور کیلےکی تحقیق میں اس کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے نئی راہ ہموار ہوگی اور اعلیٰ شرح ترقی کے لیے مستقبل کی چیلنجوں کا حل ہوگا جس سے کسانوں کی آمدنی کو دوگنی کی جا سکے گی۔