نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ ملک میں زرعی شعبے کے فروغ کے لئے زرعی ٹکنالوجی کو اطلاعاتی ٹکنالوجی کے ساتھ ملانا چاہیے۔ وہ آج آندھرا پردیش میں وزاگ کے مقام پر آندھرا پردیش زرعی تکنیکی چوٹی کانفرنس 2017 کا افتتاح کرنے کے بعد وہاں موجود افراد سے خطاب کررہے تھے۔ آندھرا پردیش کے وزیراعلی جناب چندر بابو نائیڈو ، آندھراپردیش کے زراعت، باغبانی، ریشم سازی اور زرعی مصنوعات کو ڈبہ بند کرنے کے محکمے کے وزیر جناب سومی ریڈی چندر موہن ریڈی، آندھرا پردیش کے انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر جناب گنتا سری نواس راؤ، آندھرا پردیش کے اوقاف کے وزیر جناب پیڈی کونڈلا مانک یالا راؤ اور دیگر معزز اشخاص بھی اس موقع پر موجود تھے۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ زراعت ہمارے ملک کی معیشت میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔ زراعت میں ماہی گیری اور جنگلاتی ترقی کے ذریعہ 12۔2011 کی قیمتوں کی بنیاد پر 17۔2016 کے دوران گروس ویلیو ایڈٹ (جی وی اے) میں اپنا تقریباً 17 فیصد حصہ درج کرایا۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہمیں بہت سے مہیب چیلنجوں کا سامنا ہے اور ہم نے اپنے لئے 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا ایک زبردست نشانہ مقرر کیا ہے۔اگر ہمیں یہ نشانہ حاصل کرنا ہے تو پیداوار کے مختلف وسائل کی رفتار 33 فیصد زیادہ کرنی ہوگی۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ معمول کے مطابق کام سے یہ نشانہ حاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہمیں جدت طرازی سے کام لینا ہوگا اور کسانوں کو معلومات اور ٹکنالوجی سے آگاہ کرنے کے لئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں پیداواریت بڑھانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ بڑھی ہوئی پیداوار کے فائدے تمام کسانوں تک پہنچیں۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہماری ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے ضروری ہے کہ ہم خوراک کی یقینی فراہمی سے متعلق خود اپنی حکمت عملی مرتب کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اضافہ شدہ پیداوار اور اناج کی موثر تقسیم کے ذریعہ ہم ملک کو اس مقصد کے حصول تک پہنچا سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی بھوکا نہ رہے اور ہر شخص کو کافی غذائیت والی خوراک فراہم ہو۔ آندھرا پردیش کی زرعی اور تکنیکی چوٹی کانفرنس 2017 عالمی لیڈروں ، اسٹار اپ کی بنیاد کی رکھنے والوں اور ٹکنالوجی کے ماہرین کے لئے ایک بہترین موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ آندھرا پردیش اور ملک کے باقی حصوں میں بھی زرعی کایا پلٹ کے لئے اختراعی نوعیت کے امور پر تبادلہ خیال کریں۔
نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ٹکنالوجی کے استعمال سے کسانوں کی زندگی میں کئی طریقوں سے بہتری آسکتی ہے۔ و ہ زمین کی صحیح حالت کے بارے میں معلوم کرسکتے ہیں، جس سے انہیں یہ پتہ چل سکتا ہے کہ ان کی زمین پر کونسی قسم کی فصل اچھی رہے گی۔ اس کے علاوہ موسم سے متعلق معلومات بھی پہلے سے حاصل کی جاسکتی ہے، پیداواریت اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لئے کھیتی باڑی کو ترقی دینے اور اسے متنوع بنانے کے لئے کام کیا جاسکتا ہے، ڈیری اور فاریسٹری جیسے دیگر متعلقہ پیشے اپنائے جاسکتے ہیں، پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے، بارش کے پانی سے آبپاشی کی جاسکتی ہے۔ چیک باندھوں کی تعمیر،ڈریپ اور چھڑکاؤ کے ذریعہ آبپاشی وغیرہ کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بنیادی ڈھانچے مثلاً سڑکوں، قابل بھروسہ، معیاری بجلی، گوداموں، کولڈ اسٹوریج، ریفریجٹیڈ گاڑیاں اور بازاروں میں اناج جمع کرنے کے شیڈ وغیرہ کی تعمیر کی جاسکتی ہے، مزید یہ کہ خوراک کو ڈبہ بند کرنے ، مناسب شرح سود پر قرضے کی فراہمی اور کسان دوست بیمہ پالیسیاں اور مارکٹ جیسے اقدامات بھی کئے جانے چاہیئں۔ ہمیں اپنے کسانوں کی زندگی میں تبدیلی لانے کے لئے مل جل کر اور پالیسی بند طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی وسائل کا بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
نائب صدر جہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈو نے یہ بھی کہا کہ
مجھے آندھرا پردیش زرعی تکنیکی چوٹی کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر آپ کے ساتھ شامل ہونے پر بڑی خوشی محسوس ہورہی ہے۔
ہمارا ملک زرعی ماحولیاتی تنوع رکھنے والا ایک ایسا ملک ہے جس کے دیہی علاقوں کی 64 فیصد افرادی قوت زراعت سے وابستہ ہے اور دیہی خالص داخلی پیداوار کا 39 فیصد پیدا کرتا ہے۔
حصول آزادی کے بعد پچھلے 70 سال پیداوار کے اعتبار سے بڑے اہم رہے۔ ملک کی اناج کی پیداوار میں 8.7 فیصد کا اضافہ ہوا اور یہ 17۔2016 میں 273.83 ملین ٹن کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی۔
خوراک و زراعت کی عالمی تنظیم نے بھی یہ اعتراف کیا ہے ’’ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ دودھ، دالیں اور پٹسن پیدا کرنے والا ملک ہے اور وہ چاول ، گیہو، گنا، مونگ پھلی، سبزیاں، پھل اور کپاس پیدا کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔1950 میں اناج کی اس کی پیداوار 50 ملین ٹن تھی، جو 15۔2014 میں 5 گنا سے بھی زیادہ ہوکر 257 ملین ٹن ہوگئی۔ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے جو سالانہ 130 ملین ٹن دودھ پیدا کرتا ہے۔ڈیری شعبے میں دیہی علاقوں کے سب سے زیادہ لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے، خاص طور پر خواتین کو۔10 ملین ٹن سے زیادہ پیداوار کے ساتھ ہندوستان مچھلی کی پیداوار اور ریشم سازی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے جبکہ پہلا نمبر چین کا ہے‘‘۔
خوراک کی آج کی مسلسل فراہمی کی صورتحال کے بارے میں ہم تساہل سے کام نہیں لے سکتے۔ ہمیں اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
خوراک کی ڈبہ بندی پر خاص زور دیا جانا چاہیے۔ کسانوں کو اپنے منصوبے اور زراعت پر مبنی صنعتیں شروع کرنے کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال پر آمادہ کرنا بہت ضروری ہے۔ کسانوں کو جدید ترین ٹکنالوجی اور تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں۔
زرعی مصنوعات کی فروخت اور ان کی اچھی قیمت حاصل کرنا بیشتر کسانوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔کسان ابھی تک مقامی منڈیوں پر انحصار کرتے ہیں اکثر انہیں اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔قابل بھروسہ اور صحیح وقت پر معلومات ملنا، اس سلسلے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ‘ای۔ نام ’نامی اقدام کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کے تحت زرعی مصنوعات کے لئے ای تجارتی پلیٹ فارم کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ یہ کانفرنس ایک ایسی ریاست میں منعقد ہورہی ہے، جہاں سے سورج اگتا ہے اور وشاکھا پٹنم جیسے شہر میں جو کہ ایک اسمارٹ سٹی ہے، جس میں حکومت کو زراعت کو ترجیح دینی چاہیے۔ ملک میں زرعی شعبے کو بہتر بنانے کا سب سے بہتر حل دریاؤں کو آپس میں ملانے کا ہے۔
آندھرا پردیش ہندوستان میں بہت سی اہم فصلیں اگانے والی ریاست ہے۔ یہ اناج اور تلہن اگانے والی سرکردہ ریاست ہے۔ یہ ریاست آم، مرچ اور ہلدی کی کاشت کرنے والی ایک اہم ریاست ہے۔ 17۔2016 کے دوران باغبانی میں 16.8 فیصد اور ماہی گیری اور ایکوا کلچر میں 30.1 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
مجھے امید ہے کہ سائنس داں، ٹکنالوجی کے ماہرین اور پالیسی ساز نیز پروگرام پر عمل درآمد سے وابستہ افراد ایک ایسی حکمت عملی اپنائیں گے جس سے آندھرا پردیش اور ہندوستان کے زرعی منظر نامے میں اہم اور پائیدار تبدیلی رونما ہوگی۔