نئی دہلی۔ وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ہاؤسنگ اور شہری امور جناب ہردیپ سنگھ پوری نے کہا ہے کہ مرکز نے این ڈی اے حکومت نے مکانات کے خریداروں کے مسائل کا مثبت حل نکالنے کا عہد کررکھا ہے۔ تاکہ وہ جلد از جلد اپنے مکانات حاصل کرسکیں۔ موصوف آج پونہ میں اولین علاقائی ورکشاپ کے افتتاح کے موقع پر اپنا افتتاحی خطبہ دے رہے تھے۔ اس ورکشاپ کا موضوع تھا آر ای آر اے- زمین جائیداد کے شعبے میں شفافیت اور جوابدہی کے ایک نئے عہد کا آغاز- نفاذ کے دو برس اور آئندہ کا لائحہ عمل (مغربی خطہ)۔ اپنے افتتاحی خطبے کے دوران وزیر موصوف نے اشارہ کیا کہ ملک میں اب تک یعنی آزادی کے حصول کے تقریباً 70 برس بعد تک زمین جائیداد کے شعبے کے لیے کوئی ریگولیٹر نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ 2016 کا سال اس امر کا انکشاف کرے گا کہ یہ سال ایک خاص اہمیت کا سال رہا ہے ہے۔ کیونکہ یہ وہی سال ہے جب این ڈی اے حکومت نے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں زمین جائیداد(ضابطہ بندی اور ترقیات) ایکٹ مجریہ 2016 وضع کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ زمین جائیدا د کے شعبے سے متعلق متعدد شراکت داران یعنی ڈیولیپرس، مکانات کے خریدار حکام ، صدر نشین اور سینئر حکام کے ساتھ مالی ادارے، خصوصی عدالتیں اور ریاستی حکام، جن کا تعلق بھارت کے مغربی حصے سے ہے، نے اس ورکشاپ میں حصہ لیا۔
مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ 2016 کے برس میں زمین جائیداد کے شعبے کی شکل ہمیشہ کے لیے بدل دی ہے اور ایک نئے عہد یعنی آر ای آر اے کے مابعد کے عہد کی صبح طلوع ہوئی ہے۔ آر ای آر اے کے اہم نکات میں اعتماد، قواعد و ضوابط، اصول اور ضابطہ بندیاں شامل ہیں۔ جبکہ 2016 سے قبل کے عہد میں ایسا نہیں تھااور وہ عہد ، عدم اعتماد، جعلسازی، دھوکہ بازی، وعدہ خلافی پر مشتمل تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت مکانات کے خریدار ، ڈیولیپرس کے رحم و کرم پر ہوا کرتے تھے اور زمین و جائیداد کے شعبے میں نظم و ضبط لانا اس سنگ میل قانون سازی کا بنیاد مقصد تھا۔ انھوں نے کہا کہ 20 برس یا اگر 10 برس پہلے بھی آر ای آر اے وجود میں رہا ہوتا تو صارفین کو عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹانا پڑتا۔ کیونکہ آر ای آر اے کی سخت تجاویز نے یقینی طور پر اس امر کو لازم بنایا ہوتا جس میں ایک ایسا ایکو نظام وجود میں آتا، جس میں رات و رات آپریٹر بننے والوں کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔ انھوں نے مزید کہا کہ اب ہمارے پاس ایک ایسی حکومت ہے جو بے باک اور فیصلہ کن اصلاحات میں یقین رکھتی ہے اور جس نے ایماندار ٹیکس دہندہ کی زندگی میں تبدیلی لانے کا عہد کررکھا ہے۔ ہم ریاستوں کو بھی اپنے یہاں تیزی سے ایسا ہی ضابطہ جاتی نظام نافذ کرنے کے لیے کہیں گے، جیسا کہ آر ای آر اے کے تحت ہم نے فراہم کرایا ہے۔
جناب پوری نے کہا کہ زمین جائیداد سے متعلق ایکٹ میونسپل قوانین وضع کرنے اور اپارٹمنٹ ملکیت ایکٹ میں موجودہ کمیوں کو پورا کرتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ سودے (خریداری اور فروخت کاری) کو منظم بنایا جائے اور معاہدات کا نفاذ ممکن ہو۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایکٹ ریاستوں کو اپنے یہاں ریگولیٹری اتھارٹی اور اپیلی خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی گنجائش فراہم کرکے وفاقی جذبے کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ یہاں مرکزی حکومت کا کردار صرف اُن مرکزی دائرہ کار کے تحت آنے والے علاقوں تک محدود ہے جہاں مماثل قانون سازی ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس ایکٹ کی کوشش یہ ہے کہ ڈیولیپروں اور صارفین دونوں کے مابین ذمہ داریوں کی تخصیص و تقسیم اس انداز میں عمل میں آئے کہ دونوں کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے اور پرموٹر اور پرچیزر کے مابین اطلاعات کی شکل میں رابطہ قائم رہے۔ معاہدہ جاتی شرائط صاف و شفاف ہوں۔ کم از کم بنیاد پر معیارات اور احتساب واضح ہوں اور تنازعات کا تیز رفتار حل نکالنے والا میکانزم بھی فراہم ہو۔ انھوں نے اشارہ کیا کہ یہ ایکٹ اس مقصد کے ساتھ وضع کیا گیا ہے کہ اطلاعات ساجھا کرنے کے لیے ایک آن لائن نظام فراہم کرایا جائے تاکہ صارفین کے مفادات کا تحفظ ہوسکے اور انھیں پروجیکٹ کے نفاذ کی بروقت اطلاعات حاصل ہوسکیں۔ انھوں نے آر ای آر اے کے مختلف مفادات اور فوائد ، جو آر ای آر اے کے ذریعے فراہم کرائے گئے ہیں، ان کا بھی ذکر کیا۔
بھارت زمین جائیدا د کے شعبے میں تغیراتی اصلاحات، جو گذشتہ چند برسوں کے درمیان رونما ہوئی ہیں، ان کا ذکر کرتے ہوئے ، جناب پوری نے کہا کہ سی آر ای ڈی اے آئی- جے ایل ایل رپورٹ کے متعلق بھارتی مجموعی گھریلو پیداوار میں ہاؤسنگ شعبے کا تعاون 2020 تک بڑھ کر 11 فیصد تک پہنچ جانے کی توقع ہے، جو موجودہ مجموعی گھریلو شرح نمو 5 سے 6 فیصد سے بڑھ جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے تعمیراتی شعبے کی مالیت 2020 تک 180 ارب اور 2027 تک 350 ارب ڈالر ہوجانے کی امید ہے۔
آر ای آر اے کے نفاذ کے بعد سے ہونے والی ترقی پر زور دیتے ہوئے جناب پوری نے کہا کہ ملک کی 28 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے آر ای آر اے کے تحت قواعد کا اعلان کیا ہے۔ تاہم اس میں جموں و کشمیر اور شمال مشرقی خطے کی چھ ریاستیں شامل نہیں ہیں، کہ وہاں زمینی امور سے متعلق مسائل درپیش ہیں۔ علاوہ ازیں مغربی بنگال نے بھی ان قواعد کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ان تمام ریاستوں نے ادارے بھی قائم کرلئے ہیں (12 باقاعدہ اور 16 عبوری ادارے) 20 ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اب تک رئیل اسٹیٹ اپیلیٹ ٹریوبنل قائم کئے جاچکے ہیں۔ کل 17 ریاستوں/ مرکزی کے زیر انتظام علاقوں نے آن لائن اندراج کی سہولت دستیاب کراتےہوئے اپنے اپنے ویب پورٹل بھی لانچ کرالئے ہیں اور اب تک 31 ہزار 475 رئیل اسٹیٹ پروجیکٹ اور 24 ہزار رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کا اندراج آر ای آر اے کے تحت کیا جاچکا ہے۔
اس موقع پر وزیر موصوف نے اپنی تقریر میں یہ بھی بتایا کہ مہاراشٹر ملک کی وہ پہلی ریاست ہے جس نے آر ای آر اے کی دفعات کی عمل آوری شروع کی اور رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی آف مہاراشٹر قائم کی، جو مہا آر ای آر اے کے نام سے مشہور ہے۔ مہا آر ای آر اے متعدد ایسے اقدامات کیے ہیں، جن سے مہاراشٹر، آلٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولیشن (اے ڈی آر ) کے ذریعے مفاہمت کا نظام مرتب کرنے والی پہلی ریاست ہوگئی ہے، جس کا مقصد پریشان حال گھریلو خریداروں کا مسائل کا سدباب کرنا ہے اورمہاراشٹر کے ڈیولیپرس کے ساتھ گھریلو پریشان حال خریداروں کے تدارک کی غرض سے ایک پر امن حل اور قابل قبول حل دستیاب کرانا ہے۔ یاد رہے کہ مہاراشٹر میں ملک کے سب سے زیادہ 17 ہزار 567 رئیل اسٹیٹ ایجنٹ ہیں، جن میں 1645 ایجنٹس متعلقہ اداروں میں مندرج ہیں۔ یہ ادارے کسی بھی دیگر ادارے سے اعلیٰ تر حیثیت کے حامل ہیں۔
جناب پوری نے کہا کہ مدھیہ پردیش میں آر ای آر اے کی پوری طرح سے تعمیل کی جاچکی ہے۔ اس ریاست میں اس کے لیے باقاعدہ اتھارٹی اور ٹریبونل قائم کئے جاچکے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے ویب پورٹل بھی فعال ہیں، تاکہ پروجیکٹ اور ایجنٹ کا اندراج کیا جاسکے۔ انھوں نے مزید کہا کہ گجرات سرکار نے بھی حال ہی میں اپنی ایک ریگولیٹر اتھارٹی قائم کی ہے اور راجستھان اور گوا جیسی ریاستیں آر ای آر اے کی عمل آوری کی سمت میں پیش رفت کررہی ہیں۔