18 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

سنگا پور فِنٹیک فیسٹِول میں وزیراعظم کی کلیدی تقریر

Urdu News

نئیدہلی: ۔سرمائے  کی دنیا کی معروف وبااثر آواز سنگا پور کے نائب وزیر اعظم تھرمن شن موگو رتنم ، فنٹیک کے سرکرد ہ ادارے سنگاپور کی مالی اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب روی مینن

اور 100سے بھی زائد ملکو ں کے ہزاروں  مندوبین حضرات  نمسکار !

سنگاپور فنٹیک  فیسٹول میں پہلے سربراہ مملکت کی حیثیت سے کلیدی خطاب کرنا میرے لئے  انتہائی عزت وافتخار کی بات ہے ۔

یہ دراصل مستقبل پر توجہ مرکوز کرنے والے ہندوستانی نوجوانوں  کو خراج تحسین ہے ۔

یہ ہندوستان پر چھاجانے والے مالیاتی انقلاب  اور ہندوستان کے 1.3  ارب  عوام کی زندگی میں   بہتر تبدیلیوں کا اعتراف ہے ۔

یہ مالیات اور ٹکنالوجی کی تقریب ہے ۔اس کے ساتھ ہی یہ مالیات اور ٹکنالوجی کا میلہ بھی ہے ۔

یہ روشنیوں کے ہندوستانی تیوہار دیپا ولی کا موسم ہے ۔روشنیوں کا یہ تیوہار دنیا بھر میں ایمانداری  ، امید ،علم اور آسودگی کی فتحیابی  کے طور پر منایا جاتا ہے۔سنگا پور میں دیوالی کے دیے آج بھی روشن نظر آرہے ہیں ۔فنٹیک فیسٹول بھی  دراصل عقائداور نظریات کی تقریب ہے ۔

فنٹیک فیسٹول   دراصل جدت طرازی کے جذبے  اور تصورات کی تقریب  پر یقین رکھنا ۔

نوجوانوں کی توانائی  اورتبدیلیوں کے لئے ان کے جوش وجذبے  پر یقین رکھنا  ۔

دنیا کو  زندگی کرنے کی بہتر جگہ بنانے میں یقین رکھنا۔دراصل ا س   سنگاپور فنٹیک فیسٹول  کی  روح کی حیثیت رکھتا ہے ۔

اور یہ بات بھی باعث حیرت نہیں  کہ محض  تین سال کی قلیل مدت میں یہ دنیا کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا ہے ۔

سنگاپور مالیات کا عالمی ہب رہا ہے  اور اب یہ ملک  مالیات کے ڈجیٹل مستقبل کی سمت میں   ایک زبردست زقند   لگا  رہا ہے ۔

اسی سال جون میں  میں نے یہیں ہندوستان کا روپے کارڈ  اور بین الاقوامی ادائیگی کا موبائل ایپ لانچ کیا تھا ۔یہ ایپ     ہندوستانی عالمی معیار کی  یونیفائڈ  پیمنٹ انٹر فیس یا یوپی آئی  کے استعمال کے ساتھ کام کرتا ہے ۔

آج مجھے  آسیان ملکوں  کے مالیاتی اداروں  اور فنٹیک فرموں کو  ہندوستان کے بینکوں   اور فنٹیک کمپنیوں کو ایک دوسرے کےساتھ  الحاق کا  ایک عالمی

پلیٹ فارم لانچ کرنے کا اعزاز حاصل ہوگا۔

ہندوستان اور سنگاپور ہندوستانی اور آسیان ملکوں کے  چھوٹے اور اوسط درجے کے کاروباری اداروں   کو ایک دوسرے کے درمیان رابطہ کاری کے لئے کام کررہے ہیں ۔یہ دونوں ملک  ایک ہندوستانی پلیٹ فارم پر کام کرتے ہوئے اسے  عالمی پیمانے تک  وسعت دینے کے لئے کام کررہے ہیں۔

          میں نے اسٹارٹ اپ سرکلز میں  گشت کرنے والے  ایک مشورے کے بارے میں سنا ہے ۔  جس میں کہا گیا ہے کہ

  • اپنے ادارے کے جوکھم بھرے  کا روبار کی پونجی میں دس فیصداضافہ کرنا اور سرمایہ کاروں کو بتانا کہ آپ ایک پلیٹ فارم چلارہے ہیں  ،کوئی باقاعدہ کاروبار نہیں ۔
  • اگر آپ اپنے  جوکھم  بھرے کاروبار کی پونجی میں  20 فیصد اضافہ کرنا چاہتے ہیں  تو آپ سرمایہ کاروں کو یہ بتائیں کہ آپ                                                                                                                                                                                                                                                                                    ’’فنٹیک اسپیس ‘‘ میں کام کررہے ہیں ۔
  • لیکن اگر آپ  واقعی سرمایہ کارو ں کی جیبیں  خالی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بتائیں کہ آپ ’’ بلاک چینز ‘‘  استعمال کررہے ہیں ۔

یہ آپ کو  مالیات کی دنیا میں  تبدیلی پیدا کرنے والی ابھرتی ٹکنالوجی   کے امکانات اورجوش وجذبے   سے واقفیت   بہم کراتا ہے ۔

یقیناََ تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ  اکثر مالیہ ہی نئی ٹکنالوجی اوررابطہ کاری  استعمال کرتا ہے ۔

          ہم آج ٹکنالوجی کے ذریعہ  لائی جانے والی تاریخی تبدیلیوں کے دور میں جی رہے ہیں ۔

          ڈیسک ٹاپ سے کلاؤڈ تک ، انٹر نیٹ سے سوشل میڈیا تک،  انفارمیشن ٹکنالوجی خدمات سے انٹر نیٹ کی  وسیع وعریض  دنیا تک ہم نے ایک انتہائی قلیل مدت میں طویل مسافت طے کی ہے ۔ کاروباروں میں آج بھی روزانہ رخنہ اندازیاں  ہوتی رہتی ہیں ۔

          عالمی معیشت کاکردار تبدیل ہورہا ہے ۔ٹکنالوجی نئی دنیا میں  مقابلہ جاتی سرگرمیوں  اورطاقت  کی نئی تعریفیں   وضع کررہی ہے ۔

          اور  اس سے زندگیوں میں تبدیلیوں کے لامحدود مواقع پید اہورہے ہیں ۔

          میں نے 2014  میں  اقوام متحدہ میں کہا تھا کہ ہمیں اس بات  پر یقین کرنا ہی ہوگا کہ  ترقیات  اورتفویض  اختیارات  فیس بک  ،ٹوئیٹر  یا موبائل فون کی رفتار سے  پھیلائی جاسکتی ہیں  ۔

          آج پوری دنیا کے تصورات  تدریجی رفتار سے حقیقت بنتے جارہے ہیں ۔

          ہندوستان میں اس نے حکمرانی اور  خدمات کی فراہمی کے نظام  میں زبردست   تبدیلیاں   پیدا کی ہیں۔اس نے  جدت طرازی  ، امیدوں اور مواقع  کے نئے دور کا آغاز کیا ہے ۔اس نے کمزوروں کو بااختیار بنایا ہے  اور حاشئے  پر پڑے لوگوں کو مرکزی قومی دھارے میں شامل کیا ہے۔ اس نے معاشی رسائی کو مزید جمہوری بنایا ہے ۔

          میری سرکار 2014  میں   اس  شمولیتی ترقی کے مشن کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی ،  جو  ہر شہری  اوردوردراز کے مواضعات میں آباد انتہائی کمزورلوگوں کی زندگیوں میں بھی تبدیلیاں  پیدا کرے گی۔

          واقعی یہ مشن سبھی کے لئے  مالیاتی شمولیت کی ایک ٹھوس بنیاد ہے ۔ یہ کام  ہندوستان جیسے بڑے ملک میں   آسان نہیں تھا۔

          پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ اس مقصد کو عقل وخرد  کے مشورے  کی طویل مدت کے  بجائے اسے مہینوں کی مدت میں حاصل کرلیا جائے ۔

          فنٹیک  کی طاقت اور ڈجیٹل رابطہ کاری کی رسائی کے ساتھ  ہم نے یاک ناقابل یقین رفتار سے  انقلاب برپا کردیا ہے ۔ایسا انقلاب برپا کردیا ہے ،جس کی اندازہ کاری بھی  آسان نہیں ہے ۔

          اب  مالیاتی  شمولیت    1.3 ارب ہندوستانی شہریوں کے   لئے حقیقت کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔ ہم نے محض کچھ برسوں کی مدت میں ہی  آدھار یا  بنیاد کے نام سے  1.2  ارب  بایو میٹرک  شناختیں   تیار کی ہیں ۔

          ہماری جن دھن یوجنا کا مقصد ہر ہندوستانی شہری کو ایک بینک کھاتہ دستیاب کرانا ہے ۔ محض تین برس کی محدود مدت میں    ہم نے بینکوں میں  330  ملین نئے کھاتے کھولے ہیں ۔آج  شناخت ،وقار او ر مواقع کے  330  ملین ذرائع موجود ہیں ۔

          2014  میں مشکل سے 50  فیصد لو گوں کے بینک کھاتے تھے لیکن آج  ہر ہندوستانی کا ایک بینک کھاتہ موجود ہے ۔

          اس لئے آج  ایک ارب سے زائد بایو میٹرک شناختیں  ، ایک ارب سے زائد  بینک کھاتے  اور ایک ارب سے زائد سیل فون   ہندوستان کو دنیا  کا س سے بڑا  عوامی ڈھانچہ  بناتے ہیں ۔

سرکار کے فراہم کردہ  3.6  لاکھ کروڑ روپے یا  50 ارب ڈالر کی مالیت کے  فوائد اب لوگوں تک راست طورسے پہنچائے جارہے ہیں ۔

اب کسی دوردراز  کے گاؤں میں رہنے والے کسی غریب شہری کو  اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے یا تو طویل سفر کرنا پڑے گا نہ کسی بچولئے کو   رقم دینی ہوگی ۔

اب نقلی کھاتے  سرکاری مالیات   سے خون نہیں چوس سکیں گے ۔ہم نے  اس رساؤ کا تدارک کرکے  80  ہزار کروڑروپے  یا بارہ ارب ڈالر سرمائے کی بچت کی ہے ۔ اب غیر یقینی حالات میں زندگی گزارنے والے لاکھوں لوگوں کو ان کے کھاتوں میں بیمہ فراہم کرایا جارہا ہے اور ان کے دورضعیفی میں ان کی پنشن کی سلامتی کو یقینی بنایا جارہا ہے ۔

اب ایک طالبعلم اپنے  وظیفے  کی رقم راست طور سے اپنے کھاتے میں  حاصل کرتا ہے ۔اب اسے طویل کاغذی کارروائی کے عمل سے نہیں کزرنا  پڑتا ۔

اب  آدھار پر مبنی  چار لاکھ مائیکرو اے ٹی ایم مشینوں کے ذریعہ بینکوں کی خدمات  گاؤں کے  ہر شہری کے  دروازے تک بہم کرائی جاچکی ہیں۔

اوراب  اس  ڈجیٹل ڈھانچے نے  دنیا کی سب سے بڑی حفظان صحت  کی اسکیم ’’آیوشمان ‘‘  کے آغاز میں مدد کی ہے ۔ اس اسکیم سے  500  ملین ہندوستانیوں کو   کفایتی شرحوں  پر حفظان صحت کے بیمے کی سہولت دستیاب ہوگی۔

اس نے  مدرا اسکیم کے ذریعہ چھوٹے کاروباریوں کے لئے چھوٹے کاروباریوں کو  145  ملین    تک وسعت دینے میں معاونت کی ہے۔  محض چار برس کی مختصر مدت میں     یہ رقم  6.5  لاکھ کروڑ روپے  یا 90  ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے ۔اس میں سے 75 فیصد سے زائد قرض  خواتین کو دئے گئے ہیں ۔

ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے ہم نے انڈیا پوسٹ  پیمنٹ بینک لانچ کیا ہے  اور اب  ملک کے  150  ہزارسے زائد ڈاکخانے  اور 30  لاکھ سے زائد ڈاک ملازمین   ٹکنالوجی کا استعمال  کرکے  بینکنگ کی خدمات گھر گھر تک  پہنچارہے ہیں ۔

یقیناََ  ڈجیٹل رابطہ کاری کے لئے  مالیاتی شمولیت  اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے ۔

آج   ہندوستان کی  ایک لاکھ 20  ہزار سے زائد   مواضعاتی کونسلوں کو   30  لاکھ کلومیٹر طویل فائبر آپٹک کیبلس  کے ذریعہ جوڑا جاچکا ہے ۔

30  لاکھ سے زائد کامن سروس سینٹروں  نے  مواضعات میں  ڈجیٹل رسائی کی سہولت دستیاب کرادی ہے ۔ ان سے کو زمینوں کے حساب کتاب ،قرض  ، بیمہ ، بازار اور ان  کی  پیداوار کی  بہترین   قیمتوں تک   ہمارے کسانوں کی رسائی کو بہتر بنادیا ہے ۔ان سے خواتین کو   صحت اور صفائی کا سامان بھی  دستیاب کرایا جاتا ہے ۔

اگر فنٹیک کی پیدا کردہ   تبدیلی  –  ڈجیٹل ادائیگی  اور سودو ں کا نظام نہ ہوتا تو کوئی دوسرا وسیلہ انہیں  موثر نہیں بناسکتا تھا۔

ہندوستان  مختلف النوع حالات  اور چیلنجوں   کا ملک ہے۔    اس لئے ہمارے  تدارکات اور سد باب کے طریقے  بھی متنوع ہونے چاہئیں  ۔  ہمارا ڈجیٹائزیشن اس لئے کامیاب رہا  ہے کیونکہ ادائیگی سب کی ضروریات کی تکمیل کرتی ہے ۔

جو لوگ موبائل  اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں  ،  ان کے لئے  اپنی ادائیگی کا سچا پتہ  استعمال کرتے ہوئے ۔کھاتوں  کے درمیان   ادائیگی کے عمل  کا انتہائی جدید ترین ،سہل ترین اور لامحدود پلیٹ فارم دستیاب ہے ۔

وہ لوگ جو انٹرنیٹ کے بغیر موبائل استعمال کرتے ہیں  ،  ان کے لئے بارہ زبانوں میں  یو ایس ایس ڈی کا نظام موجود ہے ۔

اوران لوگوں کے لئے جو نہ تو  موبائل استعمال کرتے ہیں نہ انٹر نیٹ  ۔آدھار پر مبنی ادائیگی کا نظام موجود ہے ،جس میں  بایو میٹرک کا استعمال کیا جاتا ہے ۔اس میں اب تک  ایک ارب سے زائد سودوں کا اندراج ہوچکا ہے اور محض دو برس کی مختصر مدت میں اس میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے۔

روپے ( رو-پے )   کے نظام سے  سبھی کو  ادائیگی کارڈ تک رسائی حاصل ہوگئی ہے ۔  ان میں  250  ملین سے زائد وہ لو گ ہیں  ،  جن کے  گزشتہ چار برس کی مدت میں  بھی بینک کھاتے نہیں تھے۔

ہندوستان میں  کارڈس  سے کیوآر اور ویلیٹ تک   ڈجیٹل ادائیگیوں میں تدریجی اضافہ جاری ہے ۔آج ہندوستان کے 128  بینکوں  کو  یوپی آئی کی رابطہ کاری کی سہولت دستیاب ہے ۔

گزشتہ  24  ؤمہینوں کی مختصر مدت میں ہی یوپی آئی کے سودوں   میں  150  گنا اضافہ ہوا ہے  اور اب ہر ماہ  ادائیگیوں  کی مالیت میں  30 فیصد سے زائد اضافہ ہورہا ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود مجھے مواقع  ،اثر انگیزی  ،شفافیت اور  اس  سہولت  سے  حوصلہ مل رہا ہے  ، جس سے ڈجیٹل ادائیگیاں  پیدا ہورہی ہیں ۔

اب ایک دوکاندار آن لائن جاکر  اپنے سامان کی فرد  اور حساب کتاب تیار کرسکتا ہے اور اس کی وصولیابیوں  میں تیز رفتاری پیدا ہوسکتی ہے۔

آج  پھل پیداکرنے والوں ،کسانوں  اور دیہی فن کاروں کے لئے   بازاروں تک رسائی  راست اور قریبی ہوگئی ہے ۔

اب  ان کی کمائی اور ادائیگیوں میں تیزی سے اضافہ ہورہا  ہے ۔

اب ایک مزدوربغیر اپنی دہاڑی کا نقصان کئے ہوئے  اپنی اجرت حاصل کرسکتا ہے یا اپنی رقم جمع کراسکتا ہے ۔

ہرڈجیٹل ادائیگی سے وقت  کی بچت ہوتی ہے ۔ علاوہ ازیں اس سے ہماری قومی بچت میں  بھی زبردست اضافہ  ہوتا ہے  اور ہمارے افراد کی  پیداوار ی صلاحیت میں  اضافہ اور ہماری معیشت کی نمو میں اضافہ ہوتا ہے ۔

اس سے نہ صر ف یہ کہ ٹیکسوں کی وصولیابی میں  بھی  بہتری پیداہوتی ہے بلکہ ہماری معیشت میں  بھی صفائی اور شفافیت  پیدا ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں  ڈجیٹل ادائیگی سے  امکانات کے نئے دروازے کھلتے ہیں ۔

ڈاٹا اینالیٹکس  یعنی اعدادوشمار کے تجزئے اور آرٹیفیشیل  انٹیلی جنس  سے ہمیں  عوام الناس کے لئے   اضافہ شدہ قدروقیمت  کا نظام  تیار کرنے میں  آسانیاں  پیدا ہورہی ہیں  ،جس میں  معمولی قرض   یا قرض سے عاری تاریخ  کے حامل لوگوں کو قرض دیا جانا بھی شامل ہے ۔

مالیاتی شمولیت   بہت چھوٹے ،  چھوٹے  اور درمیانہ درجے کے کاروبار کی توسیع میں  بھی مدد حاصل ہوتی ہے ۔

اب یہ تمام امور  ایک برس قبل شروع کئے جانے والے   گڈس اینڈ سروسز ٹیکس     کے ملک گیر ڈجیٹل   نظام میں شامل ہیں ۔

اب بینک انہیں   قرض فراہم کرارہے ہیں  ۔ اس کے ساتھ ہی  قرض  کے متبادل پلیٹ فارم   ، مالیہ کاری کے جدت طراز طریقے  پیش کررہے ہیں ۔ اب انہیں   خطیر شرح سود  پر بازار سے  غیر رسمی قرض  حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔

اور اب اسی ماہ ہم نے  بہت چھوٹے ،چھوٹے اوردرمیانہ درجے کے کاروباروں  کے لئے  ایک کروڑروپے یا   ایک لاکھ 50  ہزار ڈالر تک کے  قرضوں ک منظوری کا وعدہ کیا ہے ۔یہ قرض  محض  59  منٹ کی کمترین مدت میں  بینک  جائے بغیر دستیاب  کرا ئے جاسکیں گے ۔

یہی دراصل  فنٹیک کے کاروبار  ، ملازمت اور   آسودگی  کی طاقت ہے ۔

ڈجیٹل ٹکنالوجی سے   نہ صرف شفافیت  پیدا ہورہی ہے بلکہ  سرکار کی گورنمنٹ                                         ای – مارکیٹر                          جی ای ایم    جیسی  جدت طرازیوں کے ذریعہ بدعنوانیاں  بھی ختم  کی جارہی ہیں  ۔ یہ سرکار ی ایجنسیوں کےذریعہ کی جانے والی خریداریوں کا ایک مربوط  پلیٹ فارم ہے ۔

یہ سب کچھ فراہم کراتا ہے ۔ تلاش   اور موازنہ  ،  ٹینڈر ،  آن لائن آرڈر کرنا ،ٹھیکے تیار کرنا اور ادائیگیاں   ،قصہ مختصر ساری سہولیتں دستیاب کراتا ہے ۔

آج  اس کی 6  لاکھ سے زائد مصنوعات موجود ہیں ۔تقریباََ  30  ہزار خریدار تنظیمیں  اور  ایک لاکھ 50  ہزار سے زائد فروخت کاروں   اور خدمات  فراہم کاروں  کا اندراج اس پلیٹ فارم پر کیاجاچکاہے ۔

          آج ہندوستان میں  فنٹیک  کی جدت طرازیوں اور کاروبار کا ایک دھماکہ سا ہورہا ہے ۔ اس نے ہندوستان کو  دنیا بھر میں  ایک تیزرفتاری سے    ترقی کرنے والا فنٹیک  اور اسٹارٹ اپ ملک بنادیا ہے ۔آج ہندوستان میں  فنٹیک اور صنعت 4.0  تیزی کے ساتھ  ابھررہے ہیں ۔

          آج ہمارے نوجوان  ایسے ایپ تیار کررہے ہیں ، جن سے   کاغذ کے بغیر ،نقدی کے بغیر  ، موجودگی کے بغیر  ، محفوظ سودوں  کے خواب   کو  ہر ایک کے  لئے ممکن بناتے ہیں ۔   یہی دراصل انڈیا اسٹیک   کی حقیقی حیرت ہے ، جو  بہت ہی سادہ طریقے سے  ایپلی کیشن پرامنگ انٹر فیس  کو یقینی بناتے ہیں ۔

          یہ لوگ   اپنے بینکوں  ،ضابطہ کاروں اور صارفین کے لئے   حل تلاش کرنے  کی مشینیں  ،  آرٹیفیشیل انٹلی جنس  اور بلوک  چین استعمال کررہے ہیں  ۔

          یہ لوگ  صحت او ر تعلیم سے   بہت چھوٹے قرض اور بیمے تک  ہمارے تمام قومی ،سماجی مشن کی پاسداری کررہے ہیں ۔

          ہندوستان میں دستیاب  صلاحیتو ں کا زبردست  مجموعہ    ڈجیٹل انڈیا  اور اسٹارٹ اپ انڈیا  جیسے اقدامات   کے پیدا کردہ    ماحولیاتی نظام   سے   زبردست فوائد حاصل ہورہے ہیں ۔اس کے لئے  امدادی  پالیسیاں  ،ترغیبات   اور مالیہ فراہمی کے پروگرام بھی چلائے جارہے ہیں ۔ یہ اس لئے بھی ہمارے لئے زیادہ  معاون ہے کہ ہندوستان میں  دنیا بھر سے زیادہ اعداوشمار کی کھپت اور ارزاں  شرحوں  پر اعدادوشمار دستیاب ہیں ۔ ہندوستان واقعی فنٹیک کی سہولیات کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والا  ملک ہے اس لئے  میں تمام فنٹیک کمپنیوں سے کہتا ہوں کہ ہندوستان آپ کی بہترین منزل ہے ۔ ایل ای ڈی بلب    تیار کرنے والی صنعت نے    ہماری معیشت کو زبردست بلندی عطا کردی ہے ۔ علاوہ ازیں اس صنعت سے ٹکنالوجی کو  عالمی سطح  پرمزید کفایتی بنا یا جاسکا ہے ۔ اسی طرح ہندوستان کے وسیع ترین بازار  فنٹیک کی کمپنیوں کو    معیاروں کے حصول  ، خطرات میں تخفیف اور  قیمتوںمیں کمی کرکے  عالمی حیثیت  حاصل کرنے کی سہولیت فراہم کراتے ہیں ۔

          مختصر یہ کہ  ہندوستان کی کہانی  فنٹیک کے چھ عظیم  ترین فوائدکی کہانی بیان کرتی ہے ،جس میں  رسائی ،شمولیت  ،رابطہ کاری ،جینے کی آسانی ،مواقع اورجوابدہی کی ذمہ داری شامل ہے ۔

          آج  پور ی دنیا میں خطہ ہند –  اوقیانوس   اور لاطینی امریکہ تک ہماری کہانیاں  نہ صرف حوصلہ افزا ہیں بلکہ  غیر معمولی جدت طرازیوں اور عام زندگی میں  تبدیلیاں  پیداکرنے کی کہانیاں  ہیں ۔

          لیکن  ابھی کچھ کیا جانا باقی ہے ۔

          ہماری توجہ سبھی کے لئے ایسی ترقی  پر مرکوز  ہونی چاہئے، جس میں    حاشئے  پر پڑے دور دراز کے  مفلوک الحال لوگوں کی ترقی  بھی شامل ہو۔  ہمیں   دنیا میں  بینک کھاتوں کی سہولت سے  محروم  1.7  ارب افراد کو    رسمی  مالیاتی بازار تک رسائی  دستیاب کرانی ہے ۔

          ہمیں   دنیا بھر کے غیر رسمی شعبوں کے  ایک ارب سے زائد مزدوروں کو  بیمے اور پنشن   کی سہولت فراہم کرانی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اب تک یہ سہولت دستیاب نہیں ہوسکی ہے ۔

          ہم فنٹیک کو  اس لئے بھی  استعمال کرسکتے ہیں کہ ہمارا کوئی بھی خواب اپنی عملی تعبیر سے محروم نہ رہ جائے ،  ہمارا کوئی بھی کاروبار مالیہ کے فقدان کے سبب ترقی  نہ کرسکے ۔

          ہمیں  اپنے مالیاتی اداروں  اور بینکوں کو خطرات کے انتظام وانصرام ، جعل سازیوں سے مقابلے   اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے  مزید بھروسے مند بنانا ہوگا اور اس عمل میں رسمی طریقے حارج نہیں  ہونے چاہئیں ۔

          ہمیں ٹکنالوجی کو  تکمیل  ، ضابطہ  کاری   اور نگرانی  میں بہتری پیداکرنے کے لئے استعمال     کرنا ہوگا  تاکہ  جدت طرازیاں ترقی کرسکیں  اور خطرات پر قابو پایا جاسکے ۔

          ہمیں فنٹیک کے وسائل کو منی لانڈرنگ  اور دیگر مالیاتی جرائم  سے مقابلے کے لئے استعمال کرنا ہوگا۔

          مالیہ کا ابھرتا ہوا بازار اسی صورت میں ہماری  بین رابطہ  کاردنیا میں کامیاب ہوسکے گا ، جب  ہمارے اعداد وشمار اور نظام  بھروسے مند اور محفوظ ہو۔ہمیں    تاروں  سے مربوط  اپنے عالمی نظام کو سائبر خطرات سے بچانا ہوگا۔

          ہمیں اس امر کو  بھی یقینی بنانا ہوگا کہ فنٹیک کے کاموں کی مقدار اور رفتار عوام کی فلاح   اور فوائد کے لئے ہو نہ کہ اسے نقصان  پہنچانے کے لئے ہو۔ مالیہ میں  یہ ٹکنالوجی  انسانی  حالات میں  راست رابطہ کاری   میں بہتری   کے لئے استعمال کی جانی چاہئے  ،جس میں حاشئے پر پڑ ےدو ردراز کے غریب لوگوں کے حالات زندگی  تک  راست رسائی حاصل ہو۔

          ہمیں عوام الناس  کی بیداری میں اضافہ کرنا ہوگا اور انہیں    ان مواقع کے بارے میں   بتانا ہوگا ، جس کی شمولیتی پالیسیاں  اور ٹکنالوجی    ان کے لئے  کھلی ہوئی ہو ۔

          اس کے لئے فنٹیک کو  ایک نظام  سے زیادہ  ایک تحریک کی شکل اختیار کرنی ہوگی ۔

          ہمیں  اعدادوشمار کی ملکیت  اور بہاؤ کے ناگزیر سوالات کے تدارک  اور  عوامی اور  ذاتی  بھلائی کے لئے قوانین کے اصولوں کے ساتھ  برتے جاسکیں ۔

          آخر میں  ہمیں   مستقبل کے لئے ہنر مندی  کی تخلیق کے لئے سرمایہ کاری کرنی چاہئے اور مدت طویل کے لئے تصورات اور سرمایہ کاریوں کے  لئے تیار رہنا چاہئے ۔

          ہر صدی اپنے عہد کے مواقع اور چیلنجوں سے جانی جاتی ہے۔ مستقبل کی چہرہ کاری کے لئے    ہر نسل کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے ۔

          ہماری موجودہ نسل دنیا کے  ہر فرد کی ہتھیلی  پر مستقبل کی چہرہ کاری کرے گی۔

          شاید اب سے  پہلے ایسا کوئی خوش نصیب دور نہیں آیا ہوگا ، جس میں  اب سے زیادہ مواقع اور امکانات دستیاب رہے ہوں ۔

          دنیا کے کروڑوں  افراد کی پوری زندگی کے لئے مواقع اور خوشحالی کو  یقینی بانے کی غرض سے   ،

          دنیا کو  غریب اور امیر کے درمیان مزید مساوی انسانی  چہرہ کا ر بنانے   ،شہروں  اور مواضعات کے درمیان امیدوں اور کامیابیوں کے درمیان فرق  کو ختم کرنے کی خاطر  ۔

          ہندوستان پوری دنیا سے علم حاصل کررہا ہے اور ہم  پوری دنیا کے ساتھ  مل کر تجربات اور مہارتوں کی چہرہ کاری  کریں گے۔

          کیونکہ ہندوستان کو دوسروں سے بہت زیادہ امیدیں ہیں  اور ہم نے ہندوستان کے لئے جو خواب دیکھ رکھا ہے ، ہم اسی خواب کو پوری  دنیا کا خواب بنانا چاہتے ہیں ۔ یہ ہم سب کے لئے ایک مشترکہ سفر ہے ۔

          اندھیرے کے مقابلے روشنی  پھیلانے والے ، امیدیں اور خوشحالی  لانے والے روشنیوں کے تیوہار   دیپا ولی کی طرح  اس سال بھی دیپاولی کا تیوہار  انسانیت کے لئے  بہتر   مستقبل کے لئے کام کرنے کا نعرہ دے رہا ہے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More