نئی دہلی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے کہا ہے کہ سوامی وویکانند ہندو کلچر کے عملی پیکر تھے۔ ان کے پیغام کی معنویت آج بھی برقرار ہے اور اس کی گونج پورے ہندوستان میں سنائی دیتی ہے۔ جناب ایم وینکیا نائیڈو آج شکاگو امریکہ میں دوسری عالمی ہندو کانفرنس 2018 کے اختتامی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ اس کانفرنس کا انعقاد سال 1893 میں شکاگو کے اندر منعقدہ عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ میں سوامی وویکانند کے خطاب کی 125ویں سالگرہ منانے کے لئے کیا گیا تھا۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ ہندوستان کے انمول ورثے کا تحفظ کا کرنا ہی سچی حب الوطنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان اپنے علم اور دانش مندی سے کڑواہٹ سے بھرپور پوری دنیا کو بہترین فراست فراہم کرسکتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ قدیم ہندوستان کا غیرمعمولی وژن ایسا پیغام دیتا ہے جس کی معنویت ابدی، لافانی اور زندہ و جاوید ہے، کیونکہ یہ جامع، مربوط اور آفاقی پیغام ہے۔ جب کبھی دنیا کو انتشار، تنازع، نفرت اور ناانصافی کے خطرات درپیش ہوتے ہیں، ہندوستان کی آواز اس کے لئے جامع حل پیش کرتا ہے، جو کہ ہندوستان کی دو ہزار سالہ تہذیب سےماخوذ ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ دنیا بھر میں مالا مال مذہبی اور ثقافتی عقائد کی گوناگونیت اور تنوع کا اظہار کرنے کے لئے ہے۔ اس نے دنیا کو ایک ساتھ لاکھڑا کیا ہے، تاکہ دنیا کے مختلف عقائد اور نظریات کو باہم سمجھا جا سکے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس نےامن اور رواداری کی ہماری مشترکہ جستجو اور تلاش کو مضبوط کردیا ہے۔ اس کام میں لوگ ہر عہد میں لگے رہے ہیں۔ اس پارلیمنٹ میں سوامی وویکانند کا خطاب بیحد متاثرکن رہا تھا۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ رواداری، قبولیت وحدت، تکثیریت، خدمت ، رفاہی کام، صنفی مساوات، غربت کے خاتمے اور ماحولیات کا تحفظ پر مشتمل سوامی وویکانند کے واضح پیغامات، جن کی تشہیر انھوں نے پوری دنیا میں کی، لافانی ہیں۔ ان کے انسانی اقدار کی معنویت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان اقدار کو جذبے اور عمل کے ذریعے مزید مستحکم کیا جائے۔
یہ کہتے ہوئے کہ ہندوستان اپنے لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے کے لئے امنگ سے بھرپور اصلاحی ایجنڈے کی جانب پیش قدمی کررہا ہے، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایسے وقت میں سوامی وویکانند کے اقدار جن پر ہم ہندوستانی فخر کرتے ہیں، ہماری انفرادی ترقی اور مجموعی ارتقا کے لئے رہنما ثابت ہوسکتے ہیں۔
ہمارے پاس تصورات، اقدار اور نظرئیے کے ایک قیمتی خزانے کی وراثت ہے۔ غیرمعمولی طور پر بدلتی ہوئی اس دنیا میں ہمیں ایک قابل اعتماد اور روحانی رہنما کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اس کی پیشکش دنیا کو بھی کرسکتا ہے۔ کڑواہٹ سے بھرپور اس دنیا کے لئے ہندوستان مختلف تہذیبوں سے حاصل کی گئی فراست فراہم کرسکتا ہے۔
نائب صدر جمہوریہ ہند نے دوسری عالمی ہندو کانگریس سے الگ ہٹ کر سورینام کے نائب صدر جناب ادھین اشون کے ساتھ ایک دوطرفہ میٹنگ منعقد کی اور باہمی مفادات کے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔ عالمی ہندو کانگریس کے اراکین جناب بل فوسٹر اور جناب پیٹر روزکام نے بھی نائب صدر جمہوری ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو سے ملاقات کی اور ہند- امریکہ تعلقات میں ہورہی پیش رفت اور معاصر اہمیت کے حامل متعدد مسائل کےتعلق سے مشترکہ مفاہمت کو سراہا۔ مختلف کمپنیوں کے 12 چیف ایگزیکٹیو افسران نے بھی جناب ایم وینکیا نائیڈو سے ملاقات کی اور اپنے تجربات ساجھا کئے۔ نائب صدر جمہوریہ ہند نے ہندوستان کی پالیسیوں اور انتظامی اصلاحات کا ایک خاکہ بیان کیا، بالخصوص ملک میں تجارت کو آسان بنائے جانے سے متعلق معاملےکے بارے میں انہوں نے بات کی۔
دوسرے عالمی ہندو کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں آپ سبھی کے ساتھ شرکت کرکے مجھے واقعی بیحد مسرت ہورہی ہے۔ میں بیحد خوش ہوں کہ آپ سبھی لوگ دنیا کے مختلف خطوں، سورینام سے فیجی تک اور موریشس سے تھائی لینڈ تک کے ملکوں سے سفر کرکے یہاں اس شہر میں سوامی وویکانند کے خطاب کی 125ویں سالگرہ منانے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں۔بلاشبہ ان کا خطاب جدید دنیا کی تاریخ میں ایک بے مثال واقعہ تھا، جس کی یاد ضرور منانی چاہئے۔ یہ وہ لمحہ ہے جس کا جشن ضرور منانا چاہئے۔ ایک مرتبہ نہیں بلکہ بار بارمنانا چاہئے۔
دنیا کے گرد کرسٹوفر کولمبس کے بحری سفر کو منانے کےایک حصے کے طور پر منعقدہ عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ پوری دنیا میں مذہبی عقائد اور ثقافتی روایات کی گوناگونیت کو منانے کے لئے منعقد کی گئی تھی۔ اس نے دنیا کے مختلف عقائد و نظریات کو آپس میں سمجھنے کے لئے دنیا کو ایک ساتھ لاکھڑا کیا تھا۔ اس پارلیمنٹ نے امن اور رواداری کی مشترکہ جستجو اور تلاش کو مزید تقویت بخشی، جس کی تلاش میں انسان صدیوں سے مصروف رہا ہے۔ اس پارلیمنٹ میں سوامی وویکانند کا خطاب بیحد متاثرکن رہا تھا۔ جیسا کہ عالمی مذاہب کی جنرل کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر جے ایچ باروز نے کہا ’’حاضرین پر سوامی وویکانند کے زبردست اثرات مرتب ہوئے تھے۔ پارلیمنٹ کے سائنٹفک گوشے کے صدر جناب مرون میری اسنیل نے کہا کہ سوامی وویکانند بلاشبہ پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ ہردلعزیز اور تاثیر رکھنے والے شخص تھے۔ سوامی وویکانند کی تقریر اور تعبیر میں ہندوستانی مفکرین کا عظیم وژن پنہاں تھا۔ پارلیمنٹ میں ان کی تقریر کا اصل محور نئی دنیا کو دریافت کرنے کی نمائش کرنا تھا، تاہم سوامی وویکانند کی تقریر میں روحانی خوشحالی کی دریافت کو موضوع سخن بنایا گیا، جس کے سبب صدیوں سے دنیا کا وجود قائم و دائم ہے۔
ہم ہندوستان میں اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ایک سو پچیس سال قبل اس کانفرنس میں لوگوں کے اذہان و قلوب کو ایک آواز نے اس حد تک متاثر کیا تھا کہ ان کی آواز کی گونج اب بھی سنائی دیتی ہے اور دنیا بھر کے مختلف خطوں پر آج بھی ان کے گہرے اثرات مرتب ہیں۔ میرے خیال کے مطابق ایسا اس لئے ممکن ہوسکا کہ قدیم ہندوستان کے غیرمعمولی وژن نے ایک ایسے پیغام کو وجود بخشا جو کہ لافانی ہے۔ اس پیغام کی معنویت ابدی اور زندہ جاوید ہے، کیونکہ یہ جامع، مربوط اور آفاقی پیغام ہے۔ عظیم ہندوستانی رزمیہ رامائن میں کہا گیا ہے کہ جب تک اس دنیا میں پہاڑ باقی رہیں گے اور جب تک دریا بہتے رہیں گے، رامائن کی کہانی بدستور مقبول عام رہے گی۔ رامائن کی سچائی یہ ہے کہ وہ علم کا ایک وسیع خزانہ ہے، جس کو ہندوستان نے دنیا کو دیا۔
جب کبھی دنیا کو انتشار، تنازع، نفرت اور ناانصافی کے خطرات درپیش ہوتے ہیں، ہندوستان کی آواز اس کے لئے جامع حل پیش کرتا ہے، جو کہ ہندوستان کی دو ہزار سالہ تہذیب سےماخوذہے۔ 11 ستمبر 1893 کو شکاگو میں اپنی افتتاحی تقریر میں سوامی وویکانند نے کہا تھا کہ ہمارا ملک وہ ملک ہے جس نے دنیا کو رواداری اور آفاقی طور پراخذو قبول کرنا سکھایا۔ ہندوستان نہ صرف آفاقی رواداری میں یقین رکھتا ہے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کو حقیقی تصور کرتا ہے۔
ہم یہاں ایک واقعہ کا جشن منانے کے لئے اکٹھا ہوئے ہیں۔ ہم یہاں دنیاکو دیکھنے کے ہندوستان کے نقطہ نظر کے اہم پہلو کا جشن منانے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس ان اہم شخصیات کو سننے کا بھی موقع تھا جنھوں نے اس پیغام کو عام کرنے کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ تین روزہ کانفرنس کے اختتام کے قریب ہم آچکے ہیں۔ اس موقع پر میں اپنی ملک کے مشترکہ تہذیبی ورثے کے چند اہم پہلوؤں کی نشان دہی کرنا چاہوں گا، جس کا اظہار نہایت مؤثر انداز میں اور چابک دستی کے ساتھ جدید ہندوستان کے عظیم دانشور سوامی وویکانند نے کیا تھا۔
اس پروگرام کو عالمی ہندو کانگریس کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن سوال اٹھتا ہے کہ ہندو ازم اصل میں کیا ہے؟ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے اس کو بخوبی واضح کیا تھا ’’ہندو مذہب کی تعریف کرنا، نیز مناسب انداز سے اس کو بیان کرنا نہایت مشکل امر ہے بلکہ ناممکن ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب کے برخلاف ہندو مذہب اپنے کسی پیغمبر کا دعویٰ نہیں کرتا ہے۔ اس مذہب میں کسی ایک خدا کی عبادت نہیں کی جاتی ہے۔ یہ مذہب کسی ایک عقیدے کو بیان نہیں کرتا ہے۔ اسی طرح سے یہ مذہب کسی ایک فلسفیانہ تصورمیں یقین نہیں رکھتا ہے۔ اس مذہب میں مذہبی عقائد یا روایات کے ایک طریقے کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو مذہب میں کسی مذہب یا نسل کے روایتی طور پر تنگ مذہبی رسومات کو تسلی فراہم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وسیع طور پر ہندو مذہب کو ایک طریقۂ حیات قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سے زیادہ ہندو مذہب کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’طریقۂ حیات‘‘ کے بنیادی اجزاء کیا ہیں؟ مجھے ان میں سے چند اہم چیزوں کو یہاں بیان کرنے دیجئے۔
پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارا وژن نہایت وسیع ہے۔ ہندو مذہب کے ماننے والے افراد کے لئے پوری دنیا ایک کنبے کی مانند ہے۔ ہندو مذہب کے مطابق پوری دنیا بشمول جاندار اور غیرجاندار اشیاء، ایک ہی اجزاء سے بنی ہوئی ہیں۔ ان کے اندر ایک جیسی روحانی قوت ہے۔ بھگوان وشنو کے ہزاروں ناموں میں سے ایک نام ’’وشوم‘‘ (یعنی دنیا) ہے۔ ہندو مذہب کو تسلیم کرنے والے افراد کا اعتقاد ہے کہ پوری کائنات خدا کا مظہر ہے۔ اس دنیا کی ہر جاندار اور غیرجاندار شئے میں خدا کا ظہور ہے۔
ہم دنیا کی ہر شئے اور ہر فرد کو ربانی تصور کرتے ہیں، جس کا برابری کے ساتھ عزت اور احترام کیا جائے۔ دنیا کو دیکھنے کا ہمارا یہ نقطہ نظر، ساتھی اشیاء اور ان کی ضرورتوں پر مرکوز ہے۔ ہم قدرتی وسائل اور ماحولیات کے تحفظ کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ ہم ایک زیادہ پائیدار کرۂ ارض بنانا چاہتے ہیں۔ اس اصول کی صدائے بازگشت ہمیں مہاتما گاندھی کے اس بیان میں سنائی دیتی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’فطرت کے پاس انسان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی کچھ ہے، لیکن انسان کی حرص و طمع کو پورا کرنے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘
ہندو مذہب کا تیسرا اصول رواداری اور تکثیریت کو قبول کرنا ہے۔ ویدوں میں ذکر ہے کہ متعدد معاملات کے متعدد احوال اور امکانات ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب میں کوئی ایک عقیدہ یا واحد راستہ موجود نہیں ہے۔
ہندو مذہب کا چوتھا اصول اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ کثرت میں وحدت ہے۔ سوامی وویکانند نے اپنے خطاب میں اس جانب واضح توجہ دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’کثرت میں وحدت فطرت کا طریقہ ہے اور ہندو اسے تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ ہم ہندو ہر ایک مذہب کو تسلیم کرتے ہیں۔
ہندو مذہب کا پانچواں اہم اصول کسی کو قبول کرلینا اور آپس میں گھل مل جانا ہے۔ بھگوان بودھ، مہاویر، بساوا، دھیانیشور اور تکارام، گرونانک، دیانند سرسوتی اور چیتنیا مہاپربھو جیسے سنتوں اور مذہبی مصلحین نے ہندو ازم کو ایک اہم مذہب بنادیا ہے، جس میں اصلاح اور اختراع کرنے کی پوری صلاحیت ہے۔
میں نے دنیا کو دیکھنے کے ہندو طریقۂ کار کی چند اہم پہلوؤں کی نشان دہی کردی ہے، جن پر سوامی وویکانند نے نہ صرف اپنے شکاگو کے خطاب میں بلکہ ہندوستان اور بیرون ملک اپنے لکچروں میں نہایت خوبی کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔ سوامی وویکانند نے اپنے لکچر میں کہا تھا کہ پوری انسانی نسل سے پیار اور ان کی فلاح یہی حقیقی مذہب ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ رواداری، قبولیت وحدت، تکثیریت، خدمت ، رفاہی کام، صنفی مساوات، غربت کے خاتمے اور ماحولیات کا تحفظ پر مشتمل سوامی وویکانند کے واضح پیغامات، جن کی تشہیر انھوں نے پوری دنیا میں کی، لافانی ہیں۔ ان کے پیغامات اور انسانی اقدار کی معنویت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کے پیغامات کو جذبے اور عمل کے ذریعے مزید مستحکم کیا جائے۔
ہندو ازم داخلی روحانی دنیا اور بیرونی مادی دنیا کے درمیان ایک عمل تطا بق فراہم کرتا ہے۔ اس سے ہمارے روزمرہ کے وجود اور وجود سے متعلق سوالات جن کا سامنا ہم جدید سوسائٹی کی حیثیت سے کرتے ہیں، کے درمیان وسیع پیمانے پر ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ آج دنیا عوام، خوش حالی، کرۂ ارض، امن اور شراکت داری پر مرکوز جذبے سے بھرپور اور ترقی پذیر ایجنڈے پر عمل درآمد ہے۔ دنیا کے تمام ملکوں کے ذریعے تسلیم شدہ پائیدار ترقیاتی ایجنڈہ امن پسند اور شمولیت سے بھرپور سماج کی تشکیل ہے، جو کہ خوف اور تشدد سے پوری طرح آزاد ہو۔ دنیا میں بغیر امن کے کوئی پائیدار ترقی نہیں ہوسکتی ہے اور دنیا میں کوئی بھی امن بغیر پائیدار ترقی کے قائم نہیں ہوسکتا ہے۔
ہندوستان امنگ سے بھرپور ایک ایسے اصلاحی ایجنڈے کی طرف بڑھ رہا ہے جو کہ ہندوستان کے لوگوں کی زندگیوں کو بدل دے گا۔ ایسے حالات میں جن اقدار پر ہم ایک ہندوستانی کی حیثیت سے فخر کرتے ہیں وہ ہماری انفرادی ترقی اور اجتماعی ارتقا کے لئے رہنمائی کرسکتے ہیں۔
ہمارے پاس تصورات، اقدار اور نظرئیے کے ایک قیمتی خزانہ کی وراثت ہے۔ غیرمعمولی طور پر بدلتی ہوئی اس دنیا میں ہمیں ایک قابل اعتماد اور روحانی رہنما کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اس کی پیشکش دنیا کو بھی کرسکتا ہے۔ کڑواہٹ سے بھرپور اس دنیا کے لئے ہندوستان مختلف تہذیبوں سے حاصل کی گئی فراست فراہم کرسکتا ہے۔
میں امید کرتا ہوں کہ اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے مندوبین اس ملک میں سوامی وویکانند کی تقریروں سے تحریک حاصل کریں گے۔ ان کی تقریر بنیادی انسانی اقدار اور ان اقدار کو مزید جامع اور روادار دنیا بنانے کے لئے ہندوستان کے مشترکہ عہد کی آئینہ دار ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے مقدس بادلوں سے چند قطرات ہی دنیا بھر کے پھولوں کو لہلہادیں گے۔
مجھے اپنی بات اس شانتی منتر (امن کی ایک دعا) سے ختم کرنے دیجئے۔ تمام اپنشد اسی سے شروع اور اور ختم ہوتے ہیں۔
اوم بھدرم کرنے بھیہ شرونویاما دیواہ۔
بھدرم پشیما- اکشابھیر- یاجاتراہ۔
استھیریر- انگیہ- تستووامساس- تانوبھیہ۔
ویاشیما دیواہیتم یاد-آیوہ۔
اوم شانتی، شانتی، شانتی
(کاش کہ ہم اچھی خبر سنتے، کاش کہ ہم اچھی چیز دیکھتے، کاش کہ ہم مل جل کر ایک ساتھ پوری یکسوئی،مضبوط ذہن اور اعضاء کے ساتھ کام کرتے اور اپنی زندگی بھلائی کی جستجو میں گزار دیتے)۔