نئی دہلی، سپریم کورٹ نے 10 اپریل 2019 کو 36 رافیل طیارے کی خریداری معاملےپر حکم جاری کیا ہے۔ ایک نظر ثانی عرضداشت کے ذریعہ عرضی گذاروں نے پٹیشن دائر کی تھی کہ جن دستاویزات پر بھروسہ یا اعتماد کیا گیا ہے ان میں سے کچھ دستاویزات کو عوام کے تجزیے کے لئے سامنے نہیں لایا ہے۔ مرکزی حکومت نے ، نظر ثانی عرضداشتوں کا جائزہ لیتے وقت کہا تھا کہ جن زمروں میں دستاویزات کو رکھا گیا ہے وہ قابل اعتبار نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے جو حکم آج جاری کیا ہے اس کے تحت حکومت نظر ثانی عرضداشتوں پر فیصلہ لیتے وقت ا ن دستاویزات کا بھی جائزہ لے گا۔ یہ ریوپٹیشن کافی وقت سے زیر التوا ہیں اور ان پر سنوائی ابھی باقی ہے۔
سپریم کورٹ نے 14 دسمبر 2018 کے اپنے مدلل فیصلے اور حکم نامے میں رٹ پٹیشن کو پہلے ہی خارج کر دیا تھا۔
اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ عرضی گزار، قومی سلامتی اور دفاع سے متعلق ایک معاملے پر چنندہ اور اندرونی خفیہ مشاورات کی نامکمل تصویر پیش کرنے کی نیت سے ان دستاویزات کا استعمال کر رہے ہیں۔ عرضی گذاروں کے ذریعہ پیش کئے گئے دستاویزات یہ نکالنے میں ناکامیاب ہیں کہ کیسے ان معاملات سے نپٹا جائے اور حل نکالا جائے گا اور مجاز اتھارٹی سے اس سلسلے میں کیسے ضروری منظوری حاصل کی جائے گی۔ عرضی گذاروں کی جانب سے یہ چنندہ اور حقیقت سچائی کی نامکمل پیشکش اور ریکارڈز ہیں۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے ذریعہ مطلوبہ ضروری معلومات عدالت کو فراہم کرائی ہیں اور عدالت کے احکامات کے مطابق عرضی گزاروں کو بھی نیز مجوزہ طریقہ کار کے مطابق عدالت کو بھی یہ معلومات فراہم کرائی ہیں ۔حکومت نے سی اے جی کو مطلوبہ تمام ریکارڈس اور فائلیں بھی مہیا کرائی ہیں۔ حکومت کی خصوصی تشویش اس بات کو لے کر ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق حساس اور درجہ بند معلومات منظر عامپر دستیاب ہوں گی۔