نئی دہلی، سیاحت اور ثقافت کے وزیر جناب پرہلاد سنگھ پٹیل اور دونوں وزارتوں کے سینئر عہدیداروں نے آج وزارت کی مختلف اسکیموں اور پروجیکٹوں پر ہونے والے اخراجات اور سیاحت اور ثقافت کے فروغ کے لئے مالی کمیشن کی طرف سے ریاستوں کو دی جانے والی ترغیبات کو پیش کرنے کے لئے جناب این کے سنگھ کی سربراہی میں 15 ویں مالی کمیشن سے ملاقات کی۔
15 ویں مالی کمیشن کے چیئر مین جناب این کے سنگھ نے کہا کہ سیاحت اور ثقافت کے شعبے مالی کمیشن کے لئے بہت اہم ہیں کیونکہ یہ رو زگار پیدا کرنے ، آمدنی میں اضافہ کرنے کے انجن ہیں اور ملک کو مربوط کرنے اور بین الاقوامی تعلقات کے فروغ کے لئے بہت اہم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیشن کو ان شعبوں کے مخصوص مسائل کے بارے میں معلومات حاصل ہے جن میں سے زیادہ تر پرانے وقت سے جاری ہیں۔ چیئر مین کا خیال تھا کہ اے ایس آئی قانون 1958 میں بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ، جسے عرصے سے تاحال نہیں بنایا گیا ہے اور جو موجودہ وقت سے میل نہیں کھاتا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ تاریخی عمارتوں کے رکھ رکھاؤ کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کی ساجھے داری کی ہمت افزائی کی جانی چاہئے اور بین الاقوامی اور ملکی سیاحوں کے درمیان ان تاریخی عمارتوں کو پوری طرح پیش کیا جانا چاہئے۔ میٹنگ میں گھریلو سیاحت پر وزیراعظم کی طرف سے دیئے گئے زور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور چیئر مین نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ اسکولی طلباء کو ملک کے مختلف حصوں میں بھیجنے کو اسکولی نصاب میں شامل کرکے اسے لازمی بنایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو ایچ آر ڈی کے مرکزی وزیر جناب رومیش پوکھریال کے ساتھ بھی اٹھاچکے ہیں، میٹنگ میں ہوٹل کی صنعت کو درپیش مسائل اور کنکٹی ویٹی کے بنیادی ڈھانچے میں کمی پر تبادلہ خیال کیا گیا جس کی وجہ سے پورے ملک میں سیاحت کے فروغ میں رکاوٹ آرہی ہے۔
سیاحت کی وزارت نے کمیشن کو مطلع کیا کہ –
- سیاحت کی وزارت نے ترقی اور فروغ کے لئے کچھ چیزوں کی نشان دہی کی ہے، جس میں (1) بحری جہاز کا سفر ، (2) مہم جوئی ، (3) میڈیکل (جسے طبی سفر، صحت سے متعلق سیاحت اور عالمی حفظان صحت بھی کہا جاتا ہے) ، (4) ویل نیس (آیوروید، یوگا ، یونانی، سدھا اور ہومیوپیتھی شامل ہیں)، (5) گولف ، (6) پولو ، (7) میٹنگیں، کانفرنسز اور نمائشیں، (8) ماحولیات سیاحت ، (9) فلمی سیاحت ، (10) پائیدار سیاحت شامل ہیں۔
- انسانی وسائل کا بندوبست اور خدمات فراہم کرنے والوں کے لئے صلاحیت سازی اور میزبانی سے متعلق تعلیم فراہم کرنا ، جو بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کے معاملے میں سیاحتی مقامات آسان رسائی اور سہولیات کی دستیابی جیسے وزارت کے اہم معاملات ۔
- سیاحتی بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لئے سیاحت کی وزارت کے کام، ویزا ضابطوں میں نرمی ، سیاحتی خدمات فراہم کرنے والوں کے ذریعے معیاری خدمات کی فراہمی ضمانت ، ملک کو 365 دن کے سیاحتی مقام کے طور پر پیش کرنا اور پائیدار طریقے سے سیاحت فروغ دینا۔
- سیاحت کی وزارت سیاحتی مقامات کو عالمی سطح کے مقامات کی طرح جامع ترقی دے گا جس میں بنیادی ڈھانچے ، سہولیات کے فروغ کے علاوہ ترجمانی کے مراکز اور مرکزی وزارتوں ، ریاستی حکومتوں اور صنعتی فریقوں کے ساتھ تال میل سے ہنر مندی کے فروغ پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
- ان مقاصد کے حصول کے لئے سیاحت کی وزارت کی اہم اسکیمیں مندرجہ ذیل ہیں:
اے- سودیش درشن – کے خصوصی موضوع کے تحت سیاحتی سرکٹ کا مربوط فروغ
بی- پرشاد – یاترا کے احیاء اور روحانی وراثت کو فروغ دینے کی مہم کا قومی مشن
سی- سیاحتی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے مرکزی ایجنسیوں کو امداد
ڈی- میزبانی سمیت گھریلو فروغ اور تشہیر (ڈی پی پی ایچ)
ای- مارکیٹنگ کے فروغ میں امداد سمیت بیرونی ملکوں میں فروغ اور تشہیر
ایف- آئی ایچ ایم ایس ؍ ایف سی آئی وغیرہ کے لئے امداد
جی- خدمات فراہم کرنے والوں کے لئے صلاحیت سازی (سی بی ایس پی)۔
- سیاحت کی وزارت نے کہا ہے کہ ریاستی حکومتوں کو زمین فراہم کرکے اور کم معروف سیاحتی مقامات کو ترقی دے کر اور راستوں میں سہولیات فراہم کرکے مہمان نوازی کی صنعت کی صلاحیت سازی کے ساتھ سیاحتی مقامات میں بنیادی ڈھانچے کے فروغ میں تعاون میں ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔
- وزارت نے مشورہ دیا ہے کہ سیاحت کے سیکٹر میں ریاستوں کی کارکردگی کو بیرونی زر مبادلہ کے حصول اور غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے جانچا جانا چاہئے۔ اگرچہ بیرونی زر مبادلہ کا حصول قومی سطح پر آر بی آئی کے ذریعے کیا جاتا ہے اس لئے ریاستوں کے لئے الگ الگ اعداد وشمار پیش کرنا ممکن نہیں اور یہ اس مقصد کے لئے مناسب نہیں ہوں گے۔
- سیاحت کی وزارت میں مختلف ریاستوں میں آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی جانچ کے لئے ایک نظام موجود ہے، جسے سیاحت کے سیکٹر میں ریاستوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ غیر ملکی سیاحوں کی آمد سے متعلق ریاستوں کے دعووں کی سیمپل سروے کے ذریعے تصدیق کی جاسکتی ہے اور ریاستوں کو کارکردگی کی بنیاد پر ترغیبات فراہم کی جاسکتی ہیں۔
- اس کے علاوہ سیاحت کی وزارت نے درخواست کی کہ ریاستوں کی کارکردگی کو مندرجہ ذیل اہم پیمانوں کو استعمال کرکے وسیع فریم ورک میں جائزہ لیا جاسکتا ہے؛
اے- سیاحت پر ریاست کے اخراجات
بی- سیاحوں کی آمد
سی- مخصوص ہوٹلوں کے کمروں کی موجودگی
ڈی- مارکیٹنگ مہم کے اثرات
ای- کارو بار میں آسانی
ایف- ہوٹل کے کمروں کی دستیاب تعداد
جی- پالیسی رہنما خطوط اور ترغیبات
ایچ- سیاحوں کے نظریات
- سیاحت کی وزارت نے 2020 سے 2025 کے دوران ہونے والے اخراجات کو اس طرح پیش کیا ہے:
سال |
روپے کروڑ میں |
2020-21 |
3740.33 |
2021-22 |
4987.24 |
2022-23 |
4920.10 |
2023-24 |
4484.33 |
2024-25 |
3904.03 |
میزان |
22036.03 |
- ثقافت کی وزارت کی طرف سے کمیشن کو مطلع کیا گیا کہ ثقافتی شعبے میں کلیدی تبدیلی شامل ہے۔ پروگرام کو ہر سطح پر پائیدار ترقی سے متعلق حکمت عملی سے مربوط کیا جاناچاہئے اور کمیونٹی کی امنگوں اور ضرورتوں کا خیال رکھا جاناچاہئے جہاں ثقافتی اثاثے پائے جائیں۔ پائیدار، وراثتی تحفظ عزم اور مقامی کمیونٹی کے علاوہ کنزرویشن پالیسی کی شمولیت پر منحصر ہے ۔ کامیاب ہونے کے لئے وراثت کی مقامی کمیونٹی اسٹورڈ شپ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مقامی کمیونٹیز کے لئے سماجی اقتصادی فائدے فراہم کئے جائیں۔ اس لئے وراثتی اور سماجی اقتصادی ترقی کے تحفظ کے درمیان ایک براہ راست رابطہ قائم کیا جائے۔
- وراثتی تحفظ میں جاری پیشہ وارانہ اور ادارہ جاتی کوششوں کو مضبوط کیاجائے گا۔مقامی کمیونٹی اور مختلف انٹرسٹ گروپوں کی وابستگی پر اثر ڈالنے کے لئے شرکت پر مبنی طریقہ کار استعمال کیاجائے گا۔
- مقامی کمیونٹیز اور این جی اوز کے لئے عملی، تکنیکی اور اسمال اسٹارٹ اپ کی شکل میں پروگرام میں مدد فراہم کی جائے گی۔
- ثقافت کی وزارت کا خیال ہے کہ ملک کی وراثت کے تحفظ ، رکھ رکھاؤ اور اس کی مناسب دیکھ بھال کے لئے محکمہ آثار قدیمہ کو مستحکم کئے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ مرکز اور ریاستی سرکاروں اور تعلیمی و تحقیقی اداروں کے ذریعہ یادگاروں اور آثار قدیمہ کے تحفظ اور ترقی کے لئے ایک جامع مربوط منصوبہ تیار کیاجائے۔ یونیسکو زمرہ -2 علاقائی سینٹر قائم کئے جائیں گے۔
- غیر تحفظ والی وراثتی عمارتوں، یادگاروں ، آثار قدیمہ کے مقامات اور تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لئے کوششیں کی جائیں گی۔ مختلف اسکالروں کے لئے فیلو شپ قائم کی جائیں گی۔ کلچرل ہیریٹیج کونسل تشکیل دی جائے گی اور آخر میں ثقافتی وراثتی وسائل کی میپنگ کی جائے گی۔ اسکولوں کو مقامی تاریخ ایکولوجی اور علاقے کی ثقافتی وراثت کی میپنگ میں شامل کیاجائے گا۔ جہاں وہ واقع ہیں۔
- ایک بڑی تعداد میں سائنس میوزیم ایچ آر ڈی کی وزارت اور سائنس و تکنالوجی کی وزارت کے اشتراک سے قائم کئے جائیں گے۔ ان سائنس میوزیم کے تین حصے ہوں گے۔ ایک اسکول، کالج اور ٹیچروں کے لئے پیڈا گوگی سینٹر، دوسرا طلبا کے لئے سائنس ایکٹیویٹی سینٹر اور تیسرا عام لوگوں کے لئے سائنس ایکسپلو ریٹوریم ہوگا۔
- ایک میکانیزم قائم کیاجائے گا تاکہ محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) ریاستی سرکار وں کے سائنسی اداروں، یونیورسٹیوں میں اینتھرو پولوجی کے محکموں، اینتھرو پولوجیکل مطالعات میں شامل این جی اوز اوراسی طرح کے دیگراداروں کے ذریعہ مجوزہ پروجیکٹوں کے لئے مالی امداد فراہم کراسکے۔
- علم نوع انسان کے شعبے میں تحقیقی نتائج کے پھیلاؤ اوردستاویزات کے لئے ریاستی سرکاروں، اداروںاور تنظیموں کو امداد بھی فراہم کی جائے گی۔
- یہ اپنا الگ فن پاروں کےمجموعے کو فروغ دے گا اور یہ ایک درخشاں ثقافتی مرکز ہوگا۔یہ وسطی دہلی میں تقریباً 20-15 ہیکٹڑ زمین پر محیط ہوگا۔
- اسی طرح کے سینٹر مناسب وقت پر کولکاتہ، چنئی اور دیگر بڑے شہروں میں بھی قائم کئے جاسکتے ہیں۔
- ہندوستان کو چاہئے کہ وہ پروقار وینس بینالے آف آرٹ میں ایک مستقل موجودگی کے قیام کا پتہ لگا ئے۔یہ جگہ صرف آرٹ بینالے کے لئے ہی استعمال نہیں ہوگی بلکہ برابر طور پر آثار قدیمہ کے پروقار وینس بینالے کے لئے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔
وزارت نے پیش کیا ہے کہ
- مرکزی حکومت ریاستی اکیڈیمیوں کو بنانے میں ریاستی سرکار کے ساتھ مل جل کر کام کریں جو ہر ریاست کے لیٹریری آرٹ اور ویوژول کے علاوہ آرٹ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ میں ایک نمایاں رول ادا کرتی ہیں۔حکومت مخصوص شعبوں میں سینٹرل آف ایکسلینٹ کے طور پر کام کرنے کے لئے مخصوص یونیورسٹیوں ، قومی اہمیت کے اداروں، تحقیقی اداروں اور ثقافتی تنظیموں کے ساتھ اشتراک کرسکتی ہیں۔ البتہ ان اداروں کی آٹو نومی کااحترام کیاجائے گا۔
- شفافیت لانے کے لئے الیکٹرانک ادائیگیاں آن لائن ایپلی کیشنز اور ماہرین کمیٹیوں کی منٹ میں آن لائن دستیابی جیسے بہت سے اقدامات شروع کئے گئے ہیں۔
مختلف ثقافتی اداروں میں کام کے لئے عملے کی تربیت اور صلاحیت سازی ایک اہم ضرورت ہے۔ فی الحال کچھ تربیت فراہم کی جارہی ہے لیکن ایک محدود طریقے سے حکومت کی نگرانی میں مختلف اداروں کے ساتھ تربیت کی سہولت قائم ہے۔