نئی دہلی، صدرجمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے آج نئی دہلی میں سپریم کورٹ کے ذریعہ منعقدہ یوم آئین کی تقریبات کا افتتاح کیا یہ تقریبات 26 نومبر 1949 کو ہمارے آئین کے نفاذ کی سالگرہ پر منایا جاتا ہے۔
اس موقع پر تقریب کرتے ہوئے صدرجمہوریہ نے کہا کہ آئین آزاد بھارت کا ایک جدید صحیحفہ ہے۔یہ ہمارے لئے سب سے عظیم ہے اور یہ صرف دفعات اور شقوں کو یکجا کئے جانے سے بلند تر ہے۔ہم ہندوستانیوں کے لئے یہ ایک تحریک دینے والا اور زندہ جاوید وستاویز ہے، ہمارے سماج کے لئے ایک مثال ہے بلکہ اس سے زیادہ بہتر سماج کے لئے بھی مثالی ہے جس کے لئے ہم کوشاں ہیں۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر اور ان کے آئین ساز اسمبلی کے ساتھی زیادہ وسیع القلب اور اپنے طریقہ کار میں زیادہ کھرے اور سچے تھے۔انہوں نے آئین میں ترمیم کے لئے لچک فراہم کی اور وہ مختلف قسم کے خیالات کو جگہ دینے والے تھے۔ ان سب سے بالا تر انہوں نے مستقبل کی نسلوں کی ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے آزادی ، انصاف، بھائی چارہ اور برابری میں توسیع کے لئے وسیع سرحدیں فراہم کیں۔ انہوں نے مستقبل کی نسلوں پریہ اعتماد کیا کہ وہ آئین کے متن میں ترمیم کرسکتے ہیں بلکہ اس پر بھی یقین کیا کہ وہ وقف بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ مستقبل کی نسلیں تعمیری ذہن کے ساتھ اس کی تشریح کرے گی۔اگر ہم اس جذبے کی سچائی پر قائم رہے تو یہ آئین آنے والے تمام دور کے لئے حالت کے لئے کار آمد ہوسکتا ہے۔
صدرجمہوریہ ہند نے کہا کہ ہندوستان رواں اس آئین کے محافظ ہے یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقتدار اعلی کا تحفظ کریں اور یہ عوام کے نام پر ہی آئین کو نافذ کیا گیا تھا۔یہ آئین ہندوستان کے شہریوں کو اختیارات فراہم کرتا ہے لیکن ہندوستان کے شہری بھی اس پر عمل کرتے ہوئے، اس کو اپناتے ہوئے، اس کا تحفظ کرتے ہوئے اور اسے برقرار رکھتے ہوئے، زیادہ با معنی طور پر الفاظ اور عمل کے ساتھ آئین کو اختیار دیتے ہیں۔آئین کسی کی حفاظت میں نہیں ہے–یہ ہر ایک کی حفاظت میں ہے۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ آئین میں شاید سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لفظ انصاف ہے۔انصاف ایک واحد ورڈ ہے لیکن انصاف بہت پیچیدہ اور با معنی لفظ ہے۔انصاف ہمارے آئین کا مقصد اور اس کا ذریعہ ہے اور یہ قومی تعمیر کا ایک عمل ہے۔انصاف کو ایک وسیع نظریہ میں دیکھاجاناچاہئے۔ اسے سماج کے ارتقاء، بدلتے ہوئے حقائق، طرز زندگی اور ٹیکنالوجی کے جم میں دیکھا جاناچاہئے۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ ہمارے عوام کی متنوع تاریخ اور عدم توازن، وراثت کو دیکھتے ہوئے ہمارا ماضی اور سماجی انصاف، ہماری قومی تعمیر کے لئے سنگ پارس کی طرح رہے ہیں۔آسان تر سطح پر یہ سماجی عدم توازن کو دور کرنے، ہم آہنگی کو فروغ دینے اور مختلف برادریوں اور گروپوں کی بھی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔سماجی انصاف برابر کے مواقع فراہم کرنے کے لئے ہے۔انصاف کا یہ پہلو 1949 میں بہت اہم تھا اور آج بھی وسیع طور پر یہ بہت اہم ہے۔اگرچہ 21 ویں صدی میں ہمارے سامنے نئے چیلنج کھڑے کئے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انصاف، چاہے وہ سیاسی ہو ، اقتصادی ہو یا سماجی ہو، یہ بہت اہم ہے اور اسے اختراعی طریقوں سے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔اسے نئی نئی صورت حال میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے حالات کے لئے بھی ضروری ہے جو ہمارے آئین سازی کرنے والوں نے اس وقت نہیں سوچی تھی۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان میں سماجی انصاف کہ معنی بہت وسیع ہوگئے ہیں اور یہ جدید شہری پیمانوں پر محیط ہیں، جن میں صاف ہوا، کم آلودہ شہر اور قصبے، آلودگی سے پاک دریا اور آبی ذخیرے ، صفائی ستھرائی، رہنے کے صاف آلات، سبز اور ماحول دوست فروغ اور ترقی شامل ہیں۔یہ تمام ماحولیاتی اور آب وہوا میں انصاف کے مضمرات ہے جو سماجی انصاف کے خاکے کے اندر آتے ہیں۔اگر کوئی بچہ فضائی آلودگی کی وجہ سے دمہ کا شکار ہوتا ہے تو سمجھاجائے گا کہ اسے سماجی انصاف کی فراہمی میں نا کامی ہوئی ہے۔
صدرجمہوریہ نے کہاکہ شاید انصاف پر سب سے زیادہ اثر ٹیکنالوجی کا پڑتا ہے۔ٹیکنالوجی انصاف کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اس کے لئے ایک چیلنج بھی ہے۔ہمیں ٹیکنالوجی کے انصاف کو معاشی انصاف کے ذیل میں دیکھناچاہئے۔یہ بات ہمارے غریب اور محروم ہم وطنوں کی ٹیکنالوجی کی رسائی کے ذمہ بالکل درست ہے۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ اختراعات میں بھی سماج میں محروم طبقوں کے لئے فائدے کے لئے کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہم ٹیکنالوجی پر مبنی آدھار سے منسلک فوائد کی براہ راست منتقلی کی مثال پیش کرسکتے ہیں۔ اس سے ہندوستان کے فلاحی پروگراموں میں بدعنوانی رقم کو خرد برد کئے جانے پر روک لگی۔
صدرجمہوریہ نے کہا کہ اختراعات اور ٹیکنالوجی نے ہمیں بہت سے فوائد فراہم کئے ہیں۔لیکن ان کے ساتھ رسائی اور راز داری پر بھی سوالیہ نشان لگا ہے۔ مثال کے طور پر اعداد وشمار کو سبھی کے لئے زیادہ اچھائی کی خاطر استعمال کے خلاف اعدادوشمار کے ذریعہ راز داری ختم ہونے کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔یہ مسائل ایسے ہیں جن کا انصاف کی فراہمی میں آنا نہ گزیر ہے شاید اس طرح کے مسائل 21 ویں صدی میں ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔