نئیدہلی: ’’مجھے آپ سبھی حضرات کا راشٹرپتی بھون میں خیر مقدم کرتے ہوئے بے حد خوشی ہورہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ اینڈ ڈی سی کا 18واں نصاب آپ سبھی کے لئے ثمرآور اور قابل قدر ہوگا۔ یقیناََ یہ ایک منفرد نوعیت کا نصاب ہے کیونکہ اس کی وجہ سے مسلح فوجوں اور سول سروسز کے ہمارے سبھی افسران یکجا ہوتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں نے ایک دوسرے سے اتنا کچھ سیکھا ہوگا ، جتنا کہ آپ نے اپنے اساتذہ سےسیکھتے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 22 شراکت دار ملکوں کے 25 افسران اس میں شرکت کررہے ہیں ۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کو اپنے نصاب اور بھارت کے اپنے تجربے سے فائدہ حاصل کرنے کا ایک بڑا موقع ملا ہوگا۔میں تمام شرکا، اساتذہ اور عملے کے افسران اور ان کے رفیق حیات کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں ، جو یہاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
عالمی ماحول ،جس میں ہم رہ رہے ہیں ، ایک چیلنج ہے اور متحرک ہے ۔ ایک وقت تھا جب سکیورٹی اور دفاع کسی قوم کے علاقائی اتحاد کو قائم کرنے کی ضرورت سمجھے جاتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے ۔ آج سکیورٹی کے تصور میں اقتصادی اورتوانائی کی سکیورٹی نیز سائبر سکیورٹی ، صحت، خوراک ، ابھرتی ہوئی ٹکنالوجی اور ماحول بھی شامل ہے ۔ہماری قومی سرحدوں سے بھی آگے ایک بڑھتی ہوئی مربوط دنیا میں سماجی اور اقتصادی بحران پہلے سے کہیں زیادہ گہرے طریقے سے ہمارے سماج پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا میں سے ہر ایک میدان میں تشویش پر کامیابی کے ساتھ قابو پانے کی ملک کی صلاحیت سے قومی طاقت کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان میں سے ہرایک میدان میں مہارت اور تجزیہ کی ضرورت ہوتی ہے ، البتہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مربوط بھی ہیں ، جو ہمارے سماج کے لئے ذمہ دار لوگوں سے ایک مربوط طریق کا ر کا تقاضہ کرتے ہیں ۔
یہ ایک بہت ہی پیچیدہ کام ہے کہ ایک مربوط طریق کار کے تحت کام کرنے کے لئے مختلف شعبوں کو یکجا کیا جائے ۔بھارت کی طرح ایک جمہوری نظام میں مختلف ایجنسیوں اور سرکار ی محکموں کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر میں صاف کہوں تو یہاں تک کہ نجی شعبے میں بھی تعاون کے ساتھ کام کرنے کے لئے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔نیز ایک دوسرے کی کارکردگی کی طاقت اور حدود کو سمجھنے کے لئے بھی ۔
اس کا مطلب ہے کہ سول سروسز کے سیاسی ایگزیکٹو اور افسران دفاعی افواج کی صلاحیتوں او ر سوچ پر بات چیت لازمی طور پر کریں ۔ اسی طرح فوجی افسران کو بھی آئینی اور انتظامی لائحہ عمل کے تئیں حساس بنائے جانے کی ضرورت ہے ۔
اس سلسلے میں کسی بھی قوم کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ اپنے متعلقہ انسانی وسائل کو کتنے موثر طریقے سے بروئے کار لاتی ہے۔اسی ضمن میں یہ بات بھی ہے کہ این ڈی سی نصاب بہت ہی اہم ہے ۔آپ سبھی حضرات سول اور فوجی افسران تقریباََ 11 مہینے کے عرصے کے لئے یکجا ہوئے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ اس سے آپ کو ایک بڑا موقع فراہم ہوگا کہ آپ اپنی مہارت اور اپنے کلاس کے ساتھیوں کے ساتھ متعلقہ منظر نامے پر بات چیت کریں ۔
اس نصاب سے آپ کو ایک دوسرے کی طاقت اور تحمل کو سمجھنے کا موقع ملا ہوگا ۔ نیز اشتراک کے لئے امکانی مواقع بھی فراہم ہوں گے۔بالآخر یہ 11 مہینے باہنر افسران کا ایک جتھہ بنانے کی راہ میں سرمایہ ہے ، جو کلی اعتبار سے سلامتی کے ایک طریقے کو سمجھ سکتے ہیں، تشکیل دے سکتے ہیں اور اس پر عمل کرسکتے ہیں۔ اس نصاب سے نہ صرف محض انفرادی ملک کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں بلکہ سلامتی سے متعلق ہماری مشترک تشویش کو سمجھنے کے لئے راستہ ہموار ہوتا ہے ۔مجھے بتایا گیا ہے کہ این ڈی سی نصاب 6 اجزا یا مطالعات پر مشتمل ہے ۔ سماجی اور سیاسی مطالعات سے بھارتی سماج اور عوام کی اہم خاصیتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔اقتصادی سکیورٹی کے مطالعے سے آپ کو ان اصولوں اور طور طریقوں کا پتہ چلتا ہے ،جن سے اقتصادی رجحانات اور جامع سکیورٹی پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
اگلے 3 مطالعات اس طرح ہیں : ؎
- بین الاقوامی سلامتی کا ماحول ۔
- عالمی معاملات بشمول ٹکنالوجی اور ماحول ۔
- بھارت کے اہم پڑوسی ممالک ۔
ان سبھی میں ان عناصر پر توجہ دی گئی ہے ، جن سے بین الاقوامی سکیورٹی کا ماحول تشکیل پاتا ہے اور بھارت کی غیر ملکی پالیسی پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ یہ نصاب اور اس کے بارے میں معلومات آپ کو بہتر طریقے سے مطلع کرے گی اور آپ کے ملک کی سکیورٹی کے بارے میں منظر نامے میں تعاون دینے کی آپ کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔
بھارت اور اس کے پڑوسی ممالک اور وسیع ایشیائی برصغیر کو سکیورٹی کے اعتبار سے بہت خطرے اور جوکھموں کا سامنا ہے ، جس نے عالمی اہمیت اختیار کرلی ہے ۔ دہشت گردی اور پُر تشدد انتہاپسندی ایسے مشترکہ چیلنج ہیں ، جو ملکوں پر بھی مبنی ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور چونکہ ایشیا عالمی ،اقتصادی نظام کا ایک مرکز اور ایک ترقیاتی مرکز بن کر ابھر رہا ہے ، لہٰذا سلامتی سے متعلق تشویش کے تحت ہمارے اقتصادی مفادات اور ترقی کے مقاصد پر توجہ میں اضافہ ہوگا ۔ خطرات سے طرف سے پیدا ہوں گے ، چاہے وہ بحری علاقہ ہو یا سائبر اسپیس ، ہمیں تیار رہنا چاہئے ۔
میں این ڈی سی اور اس نصاب کے سبھی شرکا کو اپنی نیک ترین خواہشات پیش کرتا ہوں ۔اپنے بین الاقوامی شرکا کے لئے میں امید کرتا ہوں کہ یہ ایک ایسا وقت ہے کہ جب بھارت کو اور زیادہ دریافت کیا جائے گا اور یہاں دوست بنائے جائیں گے ۔ آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے ، آپ کے ساتھ ساتھ تھوڑا سے بھارت ضرور جائے گا۔‘‘