نئی دہلی، صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند نے آج بینگلورو میں دی ہندو کے چوتھے سالانہ کانفرنس ‘دی ہڈل’ سے خطاب کیا۔
صدر جمہوریہ نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘دی ہندو’ کے ذریعہ منعقد پروگرام ‘دی ہڈل’ میں شرکت کرنے میں انھیں خوشی ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ‘دی ہندو’ایک ایسا نام ہے جو نہ صرف ہندوستان کی ثقافتی تنوع کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اپنے اندر ایک تاریخی عہد بھی سموئے ہوا ہے، جو ثقافتی حوالے سے دنیا میں انوکھا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہندو اشاعتی گروپ نے اپنی ذمہ داری اور اخلاقی صحافت کے توسط سے اس عظیم ملک کی روح کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے صحافت کے پانچ بنیادی اصولوں- صداقت ، آزادی، انصاف،انسانیت اور سماجی بہبود – پر زور دینے کے لیے ان کی ستائش کی۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان کی معاشرتی نفسیات میں بحث ومباحثہ کو سچ تک پہنچنے کا ہمیشہ وسیلہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ سچ کا تصور حالات سے مشروط ہوتا ہے۔ بحث ومباحثہ، غور وفکر اور سائنسی رجحانات کے ذریعہ سچ پر چھائے بادل کو مؤثر ڈھنگ سے دور کیا جاتا ہے۔ تعصب اور تشدد سچ کی تلاش کو ختم کردیتا ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ کبھی کبھی ضد اور ذاتی عصبیت بھی سچ کو مسخ کردیتے ہیں۔ گاندھی جی کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر ہمیں اس سوال پر غور کرنا چاہئے: کیا سچ کو ایک فکر کی شکل میں تلاش کرنا موزوں نہیں ہوگا؟ گاندھی جی نے ہمیں سچ کی تلاش میں مسلسل چلتے ہوئے راستہ دکھایا جو بالآخر اس کائنات کو خوشحال بنانے والی ہر مثبت خصوصیات پر مشتمل ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے صحافت اور جمہوریت کو از سر نو زندگی بخشی ہے۔ یہ عمل جاری ہے لیکن فی الحال اپنے ابتدائی دور میں ہے۔ ساتھ ہی، اس نے کئی خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔ نئی میڈیا کافی تیز اور مقبول ہے اور لوگ وہی منتخب کرسکتے ہیں جو وہ دیکھنا ، سننا یا پڑھنا چاہتے ہیں۔ لیکن روایتی میڈیا نے کذشہ کئی سالوں سے خبر کی تصدیق کے لیے مہارت کو فروغ دیا ہے اور یہ عمل مہنگا ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ہم جلد ہی ایک مثالی صورت حال تک پہنچیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس دوران روایتی میڈیا کو سماج میں اپنے کردار پرخود احتسابی سے کام لینا ہوگا اور قارئین کے اعتماد کو از سر نو بحال کرنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔ باشعور شہری یعنی غیرجانبدار صحافت کے بغیر جمہوریت نامکمل ہے۔