21 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا یوم آزادی کا ما قبل شام قوم کے نام پیغام

Urdu News

کل ہمارے آزادی کے 71برس پورے ہو رہے ہیں۔ کل ہم اپنی آزادی کی سالگرہ منائیں گے۔ قومی وقار کے اس موقع پر، میں آپ سبھی اہل وطن کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ 15 اگست کا دن، ہر ایک ہندوستانی کے لئے مقدس ہوتا ہے، چاہے وہ ملک میں ہو یا بیرونِ ملک۔ اس دن ہم سب اپنا ’قومی پرچم‘ اپنے اپنے گھروں، اسکولوں، دفاتر، بلدیاتی اور گرام پنچایتوں، سرکاری اور نجی عمارتوں پر پورے جوش و خروش سے لہراتے ہیں۔ ہمارا ترنگا ہمارے ملک کے قومی وقار کی علامت ہے۔ اس دن ہم ملک کی خودمختاری کا جشن مناتے ہیں اور اپنے ان اجداد کے تعاون کو جذبہ تشکر سے یاد کرتے ہیں جن کی کوششوں سے ہم نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ یہ دن تعمیر قوم میں، ان کے باقی بچے کاموں کو پورا کرنے کے لئے عہد کا بھی دن ہے جنہیں ہمارے باصلاحیت نوجوان ضرور پورا کریں گے۔

  1. سن 1947 میں14 اور 15 اگست کی نصف شب کے وقت ہمارا ملک آزاد ہوا تھا۔ یہ آزادی ہمارے اجداد اور قابل احترام مجاہدین آزادی کے برسوں کے ایثار اور شجاعت کا نتیجہ تھی۔ جنگ آزادی میں جدوجہد کرنے والے سبھی بہادر افراد و خواتین غیر معمولی طریقے سے بہادر اور دور اندیش تھے۔ اس جدوجہد میں ملک کے تمام علاقوں، معاشرے کے سبھی طبقات اور برادریوں کے لوگ شامل تھے۔ وہ چاہتے تو آسائش کی زندگی گزار سکتے تھے۔ لیکن ملک کے تئیں اپنی وفاداری کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ایک ایسے خودمختار اور ذی اقتدار بھارت کی تعمیر کرنا چاہتے تھے جہاں سماج میں برابری اور بھائی چارہ ہو۔ ہم ان کے تعاون کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔ ابھی  9 اگست کو ہی، ’بھارت چھوڑو تحریک‘ کی 76 ویں سالگرہ پر مجاہدین آزادی کو راشٹرپتی بھون میں اعزاز سے نوازا گیا۔
  2. ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایسے عظیم محبین ملک کی وراثت حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک آزاد بھارت سونپا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کچھ ایسے کام بھی سونپے ہیں جنہیں ہم سب مل کر پورا کریں گے۔ ملک کو ترقی دینے اور غریبی اور نابرابری سے نجات حاصل کرنے کے اہم کام ہم سب کو انجام دینے ہیں۔ ان کاموں کو پورا کرنے کی سمت میں ہماری قومی زندگی کی ہر کوشش ان مجاہدین آزادی کے تئیں ہمارا خراج عقیدت ہے۔
  3. اگر ہم آزادی کا صرف سیاسی مطلب اخذ کرتے ہیں تو لگے گا کہ15 اگست 1947 کے دن ہمارا مقصد پورا ہو چکا تھا۔ اس دن سامراج کے خلاف جدوجہد میں ہمیں کامیابی حاصل ہوئی اور ہم آزاد ہو گئے۔ لیکن آزادی کا ہمارا نظریہ بہت وسیع ہے۔ اس کی کوئی بندھی ٹکی اور محدود تعریف نہیں ہے۔ آزادی کے دائرے کو بڑھاتے رہنا  ایک لگاتار کوشش  ہے۔ 1947 میں سیاسی آزادی ملنے کی اتنی دہائیوں کے بعد بھی ہر ایک ہندوستانی  ایک مجاہد آزادی کی طرح ہی ملک کے تئیں اپنا تعاون دے سکتا ہے۔ ہمیں آزادی کو نئے زاویے دینے ہیں اور ایسی کوششیں کرتے رہنا ہے جن سے ہمارے ملک اور اہل وطن کو ترقی کے نئے نئے مواقع حاصل ہو سکیں۔
  4. ہمارے کسان کروڑوں ہم وطنو کے لئے اناج پیدا کرتے ہیں جن سے پہلے کبھی وہ ملے بھی نہیں ہوتے۔ وہ ملک کے لئے خوراک سلامتی اور تغذیہ کی حامل خوراک فراہم کراکے ہماری آزادی کو قوت فراہم کرتے ہیں۔جب ہم ان کے کھیتوں کی پیداوار اوران کی آمدنی بڑھانے کے لئے جدید تکنالوجی اور دیگر سہولتیں مہیا کراتے ہیں تب ہم اپنے مجاہدین آزادی کے خوابوں کے بھارت کی تعمیر کرتے ہیں۔
  5. ہمارے سپاہی سرحدوں پر ،برفیلے پہاڑوں پر،  چلچلاتی دھوپ میں، سمندر اور آسمان میں، پوری بہادری اور چوکسی کے ساتھ، ملک کی حفاظت میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرکے ہماری آزادی کو یقینی بناتے ہیں۔ جب ہم ان کے لئے بہتر ہتھیار دستیاب کراتے ہیں، اندرونِ ملک ہی  دفاعی سازو ساما ن کے لئے سپلائی چین بناتے ہیں اور سپاہیوں کو بہبودی سہولتیں فراہم کرتے ہیں، تب ہم اپنے یوم آزادی کے خوابوں کے بھارت کی تعمیر کرتے ہیں۔
  6. ہماری پولس اور نیم فوجی دستے متعدد طرح کی چنوتیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہیں، نیز جرائم کی روک تھام اور قانون و انتظام کی بھی حفاظت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ قدرتی آفات کے وقت وہ ہم سب کو سہارا دیتے ہیں۔ جب ہم ان کے کام کاج اور ذاتی زندگی میں اصلاح لاتے ہیں، تب ہم اپنے مجاہدین آزادی کے خوابوں کا بھارت بناتے ہیں۔
  7. خواتین کاہمارے سماج میں ایک خصوصی کردار ہے۔ کئی معنوں میں خواتین کی آزادی کو وسعت دینے میں ہی ملک کی آزادی کی معنویت پوشیدہ ہے۔ اس عملی حقیقت کا ادراک گھروں میں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی شکل میں اور گھر سے باہر اپنے فیصلوں کے مطابق زندگی گزارنے کی ان کی آزادی میں کیا جا سکتا ہے۔ انہیں اپنے طور سے جینے کا اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنے کا محفوظ ماحول اور موقع حاصل ہونا چاہئے۔ وہ اپنی صلاحیت کا استعمال چاہے گھر کی ترقی میں کریں یا ہماری ورک فورس یا اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں اہم تعاون دے کر کریں، انہیں اپنے متبادل کا انتخاب کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔ ایک قوم اور ایک سماج کی شکل میں ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ خواتین کو زندگی میں آگے بڑھنے کے تمام حقوق اور اہلیتیں دستیاب ہوں۔
  8. جب ہم، خواتین کے ذریعہ چلائی جا رہی صنعتوں یا اسٹارٹ اپ کے لئے اقتصادی وسائل دستیاب کراتے ہیں، کروڑوں گھروں میں ایل پی جی کنکشن پہنچاتے ہیں، اور اس طریقے سے، خواتین کو بااختیار بناتے ہیں، تب ہم اپنے مجاہدین آزادی کے خوابوں کا بھارت بناتے ہیں۔
  9. ہمارے نوجوان، بھارت کی توقعات اور آرزؤں کی بنیاد ہیں۔ ہماری جنگ  آزادی میں نوجوانوں اور بزرگوں سبھی کی سرگرم شرکت تھی۔ لیکن اس جنگ میں جوش بھرنے کا کام خاص طور سے نوجوان طبقے نے کیا تھا۔ آزادی کی چاہت میں، بھلے ہی انہوں نے الگ الگ راستوں کا انتخاب کیا ہو،  لیکن وہ سبھی آزاد بھارت، بہتر بھارت اور یکساں بھارت کے اپنے آئیڈیلس اور عہد پر قائم رہے۔
  10. ہم اپنے نوجوانوں کی ہنر مندی کو یقینی بناتے ہیں، انہیں تکنالوجی ، انجینئرنگ اور صنعت کاری کے لئے، نیز فن اور صناعی کے لئے ترغیب دیتے ہیں۔ انہیں موسیقی تخلیق کرنے سے لے کر موبائل ایپس بنانے کے لئے اور کھیل کے مقابلوں میں عمدگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اسی طریقے سے جب ہم اپنے نوجوانوں کی بے پناہ صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، تب ہم اپنے مجاہدین آزادی کے خوابوں کا بھارت بناتے ہیں۔
  11. میں نے تعمیر قوم کی کچھ مثالیں پیش کی ہیں۔ ایسی متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ در حقیقت وہ ہندوستانی جو اپنا کام پورے خلوص اور لگن سے انجام دیتا ہے، جو سماج کو اخلاقیات سے بھرپور  تعاون دیتا ہے، چاہے وہ ڈاکٹر ہو، نرس ہو، مدرس ہو، سرکاری ملازم ہو، فیکٹر ی کارکن ہو، تاجر ہو، بزرگ ماں باپ کی دیکھ بھال کرنے والی اولاد ہو، یہ تمام اپنے اپنے ڈھنگ سے آزادی کے آئیڈیلس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ سبھی شہری جو اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں اور اپنا وعدہ نبھاتے ہیں، وہ بھی جدوجہد آزادی کے آئیڈیلس پر عمل کرتے ہیں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے جو اہل وطن قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظا کر تے ہیں اور اپنے سے آگے کھڑے لوگوں کے حقوق کا احترام کرتے ۔ وہ بھی ہمارے مجاہدین آزادی کے خوابوں کا بھارت بناتے ہیں۔ یہ ایک بہت چھوٹی سی کوشش ہے۔ آیئے، کوشش کریں، اسے ہم سب اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
  1. جو کچھ میں نے کہا ہے، کیا وہ اب سے دس ۔بیس برس پہلے برمحل نہیں رہا ہوگا۔ کچھ حد تک، یقینی طور سے یہ بر محل رہا ہوگا۔ پھر بھی آج ہم اپنی تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جو اپنے آپ میں بہت مختلف ہے۔ آج ہم کئی ایسے اہداف کے قریب ہیں جن کے لئے ہم برسوں سے کوشاں رہے ہیں۔ سب کے لئے بجلی، کھلے میں رفع حاجت سے نجات، سبھی بے گھروں کو گھر اور از حد ناداری کو دور کرنے کے ہدف اب ہماری رسائی میں ہیں۔ آج ہم ایک ایسے فیصلہ کن دور سے گزر رہے ہیں، ایسے میں ہمیں اس بات پر زور دینا ہے کہ ہم دھیان بٹانے والے موضوعات میں نہ الجھیں اور نہ ہی بے معنی تنازعات میں پڑ کر اپنے اہداف سے صرف نظر کریں۔
  2. قریب تین دہائیوں کے بعد ہم سب آزادی کی 100ویں سالگرہ منائیں گے۔ پوری دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہمیں دنیا کے مقابلے زیادہ تیز رفتار سے تبدیلی لانی ہوگی ۔ آج جو فیصلے ہم لے رہی ہیں ۔ جوبنیاد ہم ڈال رہے ہیں، جو پروجیکٹ ہم شروع کر رہے ہیں اور جو سماجی اور اقتصادی پہل قدمیاں ہم کر رہے ہیں انہیں سے یہ طے ہوگا کہ ہمارا ملک کہاں تک پہنچا ہے۔ ہمارے ملک میں بدلاؤ اور ترقی تیزی سے رونما ہو رہی ہے اور اس کی ستائش بھی ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں اس طرح کے بدلاؤ ہمارے عوام، ہمارے دانش مند شہریوں اور معاشرے اور حکومت کی شراکت سے عملی شکل لیتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے ہمارا انداز فکر یہی رہا ہے کہ ایسی تبدیلی سے معاشرے کے نادار طبقے اور غربا کی زندگی بہتر بنیں۔
  3. میں آپ کو صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ اس وقت گرام سوراج مہم کے تحت سات اہم پروگراموں کا فائدہ ہمارے سب سے غریب اور محروم شہریوں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ ان خدمات میں بجلی، بینکنگ، بہبودی اور بیمہ پروگراموں کے ساتھ ساتھ دشوار گزار علاقوں تک ٹیکہ کاری کی سہولتیں پہنچانا شامل ہے۔ گرام سواراج مہم کے دائرے میں ان 117 توقعاتی اضلاع کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی ہمارے ترقی کے سفر میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
  4. ان اضلاع کی آبادی میں، درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ ہمارے سامنے معاشرتی اور اقتصادی اہرام میں سب سے نیچے رہ گئے اہل وطنوں  کے معیار زندگی کو تیزی سے سدھارنے کا اچھا موقع ہے۔ گرام سواراج مہم کا کام صرف سرکار کے ذریعہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ یہ مہم حکومت اور سماج کی مشترکہ کوششوں سے چل رہی ہے۔ ان کوششوں میں ایسے شہری سرگرم ہیں جو کمزور طبقات کی مشکلات کو کم کرنے، ان کی تکلیف بانٹنے اور سماج کو کچھ دینے کے لئے ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں۔
  5. ہندوستانی روایت میں مفلوک الحال کی خدمت کو سب سے اچھا کام کہا گیا ہے۔ بھگوان بدھ نے بھی کہا تھا کہ ’ابھتو ریت کلیانے‘ یعنی بہبودی کام ہمیشہ مستعدی سے کرنا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم سبھی اہل ہند، معاشرے اور ملک کی بہبود کے لئے مستعدی کےساتھ اپنا تعاون دیتے رہیں گے۔
  1. یوم آزادی کی ہمیشہ ہی ایک خصوصی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن اس مرتبہ، اس مخصوص دن سے ایک خاص بات جڑی ہے۔ اب سے کچھ ہی ہفتوں بعد ، 2 اکتوبر سے، مہاتما گاندھی کے 150ویں یوم پیدائش کی تقریبات شروع ہو جائیں گی۔ مہاتما گاندھی جی نے ہماری ہی تحریک آزادی  کی قیادت نہیں کی ، بلکہ وہ ہمارے اخلاقی راہبر بھی تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ ہندوستان کے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے ، مجھے افریقہ کے ممالک کا سفر کرنے کی خوش نصیبی حاصل ہوئی۔ پورے عالم میں، ہر جگہ، جہاں جہاں پر میں گیا، مکمل انسانیت کے آئیڈیل کی شکل میں گاندھی جی کو عزت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔  انہیں مجسم ہندوستان کی شکل میں دیکھا جاتا ہے۔
  2. ہمیں گاندھی جی کے خیالات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ انہیں سیاست اور آزادی کی محدود تعریفیں منظور نہیں تھیں۔ جب گاندھی جی اور ان کی اہلیہ محترمہ کستوربہ، چمپارن میں نیل کی کھیتی کرنے والے کاشتکاروں کی تحریک کے سلسلے میں  بہار گئے تو وہاں انہوں نے خاصا وقت وہاں کے لوگوں، خاص طور سے خواتین اور بچوں کو، صفائی ستھرائی اور صحت کی تعلیم دینے میں لگایا۔ چمپارن میں، اور دیگر بہت سے مقامات پر، گاندھی جی نے خود، صفائی مشن کی قیادت کی۔ انہوں نے صاف صفائی کو ضبط نفس اور جسمانی و ذہنی صحت کے لئے لازمی تسلیم کیا ۔
  3. ان دنوں بہت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھا یا تھا کہ بھلا ان باتوں کا تحریک آزادی کے ساتھ کیا لینا دینا ہے؟ مہاتما گاندھی کے لئے آزادی کی مہم میں ان باتوں کی بہت اہمیت تھی۔ ان کے لئے یہ محض سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی جنگ نہیں تھی، بلکہ غریب سے غریب لوگوں کو بااختیار بنانے، ان پڑھ لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے اور ہر شخص، کنبے، گروپ اور گاؤں کے لئے وقار کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے حق کی جدو جہد تھی۔
  4. گاندھی جی ’سودیشی‘ پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ ان کے لئے یہ ہندوستانی صلاحیت اور حساسیت کو فروغ دینے کا مؤثر وسیلہ تھا۔ وہ دنیا کے دیگر علاقوں میں مروج نظریات کے بارے میں بیدار  تھے۔ وہ یہ مانتے تھے کہ ہندوستانی تہذیب کے مطابق ہمیں تحفظات سے آزاد ہو کر نئے نئے نظریات کے لئے اپنے ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھنی چاہئیں۔ یہ سودیشی کے لئے ان کی اپنی سوچ تھی۔ دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات کی تعریف کرنے میں ہماری معیشت، صحت، تعلیم، سماجی عزائم اور پالیسیوں کے متبادل کے انتخاب میں سودیشی کی یہ سوچ آج بھی افادیت کی حامل  ہے۔
  5. گاندھی جی کا عظیم تر پیغام یہی تھا کہ تشدد کے مقابلے عدم تشدد کی طاقت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ حملہ کرنے کے مقابلے میں خود پر قابو رکھنا کہیں زیادہ قابل تعریف ہے۔ اور ہمارے سماج میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ گاندھی جی نے عدم تشدد کا یہ ناقابل شکست ہتھیار ہمیں عطا کیا ہے۔ ان کی دیگر تعلیمات کی طرح عدم تشدد کا یہ منتر بھی، بھارت کی قدیم روایات میں موجود تھا، اور آج 21ویں صدی میں بھی، ہماری زندگیوں میں اتنا ہی فائدے مند اور افادی ہے۔
  6. اس سال ہم یوم آزادی کے موقع پر گاندھی جی کے 150 ویں یوم پیدائش کی تقریبات کے اس قدر قریب ہیں، ہم سب ہندوستانی اپنے روزمرہ کے کاموں میں ان کے بتائے گئے راستوں پر چلنے کا عہد کریں۔ ہماری آزادی کا جشن منانے  اور ہندوستانیت کے فخر کو محسوس کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا۔
  7. یہ ہندوستانیت صرف ہمارے لئے ہی نہیں ہے، یہ پوری دنیا کو ہندوستانی تہذیب کی دین ہے۔ گاندھی جی اور ہندوستان کی سوچ ’وسودھیو کٹمب کم‘ یعنی ساری دنیا ایک کنبہ ہے، سے پوری دنیا کو ایک ہی کنبہ مانتے ہیں۔ اسی لئے ہماری توجہ ہمیشہ عالمی فلاح پر ہوتی ہے۔ خواہ وہ افریقی ملکوں کی امداد کرنا ہو، تبدیلی ماحولیات کے مسئلے پر پہل قدمی ہو، اقوام متحدہ کے امن مشن کے لئے دنیا کے مختلف علاقوں میں فوج بھیجنی ہو، پڑوسی ملکوں میں قدرتی آفات کے وقت مدد پہنچانی ہو، یا پھر دنیا بھر میں کہیں بھی سنگین حالات میں گرفتار ہندوستانی شہریوں کو وہاں سے محفوظ نکالنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو بھی وہاں سے محفوظ باہر نکالنا ہو، گاندھی جی اور ہندوستان کی اسی سوچ کے مطابق ہم صحت اور انسانی فلاح کے لئے یوگ کی مشق کو اور ترقی کے لئے جدید تکنالوجی کو پوری دنیا کے ساتھ بانٹے ہیں۔ ہم سب گاندھی جی کی اولاد ہیں۔ جب ہم تنہا ایک راستے پر چلتے ہیں تب اس وقت بھی ہماری آنکھوں میں پوری انسانیت کی فلاح کے خواب ہوتے ہیں۔
  8. میں نے مختلف یونیورسٹیوں میں اپنے لیکچرز کے دوران طلبا سے زور دے کر کہا ہےکہ وہ سال میں چار یا پانچ دن کسی گاؤں میں بتائیں۔ یو ایس آر یعنی یونیورسل سوشل رسپانسبلٹی کی صورت میں کی جانے والی اس کوشش سے طلبا میں اپنے ملک کے حقائق کے بارے میں ان کی آگہی میں اضافہ ہوگا۔ انہیں سماجی فلاح کے پروگراموں سے جڑنے اور ان میں حصہ لینے کے مواقع ملیں گے۔ اور وہ ایسے پروگراموں کے اثرات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے۔ اس پہل سے طلبا کو بھی فائدہ ہوگا اور ساتھ ہی دیہی علاقوں کو بھی مدد ملے گی۔ اس سے ہماری آزادی کی جدوجہد جیسا جوش ایک بار پھر پیدا ہوگا اور ہر شہری کو تعمیر قوم سے جڑنے کی ترغیب حاصل ہوگی۔
  9. اپنے ملک کے نوجوانوں میں عینیت پسندی اور جوش دیکھ کر مجھے بہت اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ ان میں اپنے لئے، اپنے کنبے کے لئے، اپنے سماج کے لئے اور اپنے ملک کے لئے کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کا جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ اخلاقی تعلیم کی اس سے بہتر مثال نہیں ہو سکتی۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری یا ڈپلوما حاصل کرنا ہی نہیں ہے بلکہ سبھی کی زندگی کو بہتر بنانے کے جذبے کو بیدار کرنا بھی ہے۔ ایسے جذبات سے ہی حسیت اور بھائی چارے کو بڑھاوا ملتا ہے۔ یہی ہندوستانیت ہے، یہی ہندوستان ہے۔ یہ بھارت ملک ہم سب ہندوستان کے لوگوں کا ہے نہ کہ صرف حکومت کا۔
  10. متحد ہو کر ہم ’ہندوستان کے لوگ ‘اپنے ملک کے ہر شہری کی مدد کر سکتے ہیں۔ متحد ہو کر ہم اپنے جنگلات اور قدرتی وراثت کو بچا سکتے ہیں۔ ہم اپنی دیہی اور شہری بستیوں کو نئی زندگی دے سکتے ہیں۔ ہم سب غریبی، جہالت اور عدم مساوات کو دور کر سکتے ہیں۔ ہم سب مل کر، یہ سبھی کام کر سکتےہیں اور ہمیں یہ کرنا ہی ہے۔ گو کہ اس میں حکومت کے کردار کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے، لیکن صرف سرکار کا کردار ہی نہیں۔ آیئے ہم اپنی کوششوں کو آگے بڑھانے  کے لئے حکومت کے پروگراموں اور پروجیکٹوں کا پورا پورا استعمال  کریں۔ آیئے وطن کے کام کو اپنا کام سمجھیں۔ یہی فکر ہمیں ترغیب دے گی۔
  11. انہیں الفاظ کے ساتھ، میں ایک بار پھر آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو، جشن آزادی کی مبارکباد دیتا ہوں اور آپ سب کے سنہرے مستقبل کے لئے بے شمار نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More