نئی دہلی۔؍جولائی۔صدر جمہوریہ ہند جناب پرنب مکھرجی نے ثقافت کی وزارت کے زیر اہتمام منعقدہ اڈیشہ کی 200 سالہ پائیکا جرأتمندانہ بغاوت کی 200 سالہ تقریبات کا افتتاح کیا ہے۔ قبائلی اُمور کے وزیر جوال اورام ، اڈیشہ کے وزیراعلیٰ نوین پٹنایک ، پٹرولیم وقدرتی گیس کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) جناب دھرمیندر پردھان اور ثقافت اور سیاحت کے وزیر مملکت(آزادانہ چارج) جناب ڈاکٹر رمیش شرما بھی اس افتتاحی تقریب کے دوران موجود تھے۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ ان کے لئے درحقیقت یہ اعزاز کی بات ہے کہ وہ سال بھر چلنے والی اڈیشہ کی پائیکا بغاوت کی یادگار 200 سالہ تقریبات کے افتتاح کے موقع پر موجود ہیں ۔صدر جمہوریہ ہند نے پورے ملک کے عوام خصوصاً اڈیشہ کے عوام کو اس موقع پر مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1857 کی بغاوت سے 40 سال قبل جسے بعدازاں برطانوی نوآبادیاتی نظام کے خلاف اوّلین جنگ آزادی کے نام موسوم کیا گیا تھا، اڈیشہ کے بخشی جگبندھو کی قیادت میں ایک جنگ لڑی گئی تھی۔ بہت سارے دانشوران ، محققین اور مؤرخوں نے اشارہ کیا ہے کہ 1817 کی پائیکا بغاوت برطانوی راج کے خلاف اوّلین مسلح بغاوت تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس عوامی بیداری کے 200 سال مکمل ہونا ایک خصوصی موقع ہے۔ بخشی جگبندھو کے بہادری کے قصے اڈیشہ کے لوگوں کو اب بھی ترغیب دیتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس جدوجہد اور قربانی کو جو اڑیہ عوام کی ایک پیڑھی نے دی تھی ، کو تاریخ میں اس کا واجب مقام دیا جائے۔
صدر جمہوریہ ہند نے کہا کہ پائیکا بیداری اپنی نوعیت کی لحاظ سے اڈیشہ کے عوام کی بغاوت تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اڈیشہ کی خود مختاری اور اڈیشہ کے عوام کے حقوق کی حفاظت کی جائے۔ پائیکا بغاوت صرف پائیکاؤں کی مسلح جدوجہد نہیں تھی بلکہ بنیادی سطح پر عام انسانوں کے ذریعے چھیڑی گئی ایک قومی جنگ تھی جو برسراقتدار لوگوں سے اپنے چھینے گئے حقوق کے خلاف نبردآزما تھے اور اس کے نتیجے میں برسراقتدار لوگوں نے انہیں ظلم وستم کا نشانہ بنایا تھا۔ آج جب ہم پائیکا بغاوت کی 200 سالہ تقریبات منارہے ہیں ، ہمیں اپنے ملک کی عظیم تاریخ کو یاد کرتے ہوئے اپنے عظیم سپوتوں اور سورماؤں کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہئے۔ بخشی جگبندھو کے ساتھ پائیکا ودروہ کے ہمارے دیگر عظیم سورماؤں کو بھی خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہئے جنہوں نے ان کے شانہ بہ شانہ یہ جنگ لڑی تھی۔ ان میں دین بندھو، سمنترے مہاپاترا، دما سبودھی منجراج، سمانتا مدھابا، چندراراؤترے( تپنگا کے دل بھیرا) ، پنڈکی باہوبالیندر، کروتیباس پتسنی اور پائیکا ودروہ کے دیگر بہت سارے سورماؤں کے نام شامل ہیں۔
صدر جمہوریہ ہند نے ہماری جنگ آزادی کی تاریخ سے وابستہ اس عظیم واقعے کو اہمیت دینے اور اس کو نمایاں کرنے کیلئے حکومت کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ سال بھر چلنے والی یہ تقریبات سال کے آخر میں مستقبل میں رہنمائی فراہم کرنے کیلئے دستاویز بند کی جانی چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاریخ دانوں کو لوک گیتوں اور لوک کتھاؤں میں مضمر دیسی مواد پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے جن میں برسہابرس سے ایک پیڑھی سے دوسری پیڑھی تک اس تاریخ کو دوہرایا گیا ہے۔
بھار ت کی اوّلین جنگ آزادی یعنی 1857 کی جدوجہد سے بھی قبل رونما ہونے والا پائیکا ودروہ (پائیکا بغاوت) 1817 میں اڈیشہ میں رونما ہوئی تھی اور اس نے تھوڑی دیر کیلئے بھار ت کے مشرقی حصے میں برطانوی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پائیکا افراد لازمی طور پر اڈیشہ کے گجپتی حکمرانوں کے جنگجو افراد تھے جو دوران جنگ راجاؤں کو اپنی عسکری خدمات دیا کرتے تھے اور امن کے زمانے میں کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے برطانوی اقتدار کے خلاف 1817 میں بخشی جگبندھو کی قیادت میں علم بغاوت بلند کیا تھا۔
خردا کے حکمراں رواتی طور پر جگن ناتھ مندر کے نگراں تھے اور زمین پر بھگوان جگن ناتھ کے نائب کے طور پر حکمرانی کیا کرتے تھے۔ یہ اڈیشہ کے عوام کی ثقافتی اور سیاسی آزادی کی علامت تھے۔ برطانوی حکومت نے بنگال اور مدراس کے صوبوں پر اپنا قبضہ جمانے کے بعد جنوبی اڈیشہ کی جانب قدم بڑھایا تھا اور 1803 میں اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اڈیشہ کے گجپتی کنگ منڈکا دوئم اس وقت نابالغ تھے اور جے راج گرو جو ان کے ا تالیق تھے ، انہوں نے ان کی جانب سے مزاحمت کی۔ تاہم انہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور جے راج گرو کو زندہ دو ٹکڑے کردیا گیا۔ چند سالوں کے بعد بخشی جگبندھو کی قیادت میں پائیکا افراد جو گجپتی کی فوج سے پیڑھی در پیڑھی وابستہ رہے تھے ، نے بغاوت کی ، علم بغاوت بلند کیا اور سماج کے قبائل اور دیگر طبقات سے تعاون حاصل کیا۔ یہ بغاوت مارچ 1817 میں شروع ہوئی اور بہت تیزی سے پھیلی۔ اگرچہ پائیکا افراد نے برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کیا تاہم یہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک مخصوص طبقے سے متعلق مٹھی بھر لوگوں کی بغاوت تھی۔ قبائلی گھموسر (موجودہ گنجم اور کندھمال اضلاع کے حصے) اور دیگر طبقات نے اس بغاوت میں سرگرمی سے حصہ لیاتھا۔
دراصل پائیکا ودروہ کو اس وقت ایک زبردست اعانت حاصل ہوئی جب گھموسر کے 400 قبائلی افراد نے برطانوی عہد حکومت کے خلاف بغاوت کرکے خردا میں قدم رکھا۔ پائیکا افراد نے برطانوی اقتدار کی علامت پر حملہ کیا اور پولیس تھانوں ، انتظامی اُمور کے دفتروں اور خزانے کے دفتروں پر اپنے مارچ کے دوران خردا کی جانب بڑھتے ہوئے حملہ کرکے انہیں نذرآتش کردیا اور برطانوی افراد کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔ پائیکا افراد کو کنیکا ، کجنگ، نیا گڑھ اور گھموسر کے حکمرانوں اور زمینداروں ، گاؤں کے مکھیا حضرات اور عام کسانوں سے بھرپور تعاون حاصل ہوا۔ یہ بغاوت بڑی تیزی سے پرل، پپلی، کٹک اور صوبے کے دیگر حصوں میں پھیل گئی۔ ابتداءً برطانوی افراد اس بغاوت سے حیران وپریشان ہوگئے اور انہوں نے دوبارہ اپنا قبضہ بحال کرنا چاہا، تاہم باغی پائیکاؤں سے زبرست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ متعدد جھڑپیں ہوئیں جن میں زیادہ تر باغیان کامیاب رہے تاہم برطانوی افراد نے آخر کار تین مہینوں کے اندر انہیں شکست دے دی۔
بعدازاں بڑے پیمانے پر تادیبی کارروائی شروع ہوئی اور متعدد لوگ شہید اور قید کیے گئے ، متعدد لوگوں پر ظلم وستم ڈھائے گئے ، کچھ باغیان 1819 تک گوریلا جنگ لڑتے رہے۔ تاہم انہیں گرفتار کرکے قتل کردیا گیا ۔ بخشی جگبندھو کو 1825 میں گرفتار کیا گیا اور 1829 میں زندان میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ اگرچہ پائیکا ودروہ اڈیشہ میں ایک خاص طبقے سے وابستہ سمجھا جاتا ہے جہاں بچے برطانوی اقتدار کے خلاف نبردآزمائی کی کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں تاہم اسے قومی سطح پر اتنا اہمیت نہیں حاصل ہوئی جتنی حاصل ہونی چاہئے۔