نئی دہلی۔ صدرجمہوریہ ہند جناب رامناتھ كووند نے آج کو ہریانہ کے سونی پت میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ ٹیکنالوجی انٹر پرنیورشپ اینڈ مینجمنٹ (این آئی ایف ٹی ای ایم ) کے پہلے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کیا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے، صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان کی معیشت اسی وقت سے زراعت پر مبنی رہی ہے جب سے ہمارے اجداد نے وادئ سندھ میں اناج اگانے شروع کیا تھا۔ غذائیت سے بھرپور اناج اور مختلف دالوں کی مختلف قسمیں ہندوستانی تجربے کی علامت ہیں۔ اسی طرح، کھانے پینے کی عادات اور برتن ہر ضلع میں نہ سہی لیکن ہر ریاست میں مختلف ہیں۔ یہ ہندوستان کی وسیع اور متنوع ثقافت کا ایک لازمی جزو ہے جو ہماری طاقت ہے۔ اس طاقت کی بنیاد ہمارے کسان ہیں۔ لاکھوں کسان، مرد و خواتین محنت کرتے ہیں اور بڑی جانفشانی کے ساتھ ہمارے لیے غذا فراہم کرتے ہیں۔ صدر جمہوریہ نے کہا کہ وہ نہ صرف خوراک کی سلامتی میں بلکہ قومی سلامتی میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے کسان جو بے لوث ہوکر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں ، اکثر بہت کم فائدہ اٹھاتے ہیں اور انہیں مارکیٹ اور مانسون کی غیر یقینی صورتحال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایک معاشرہ اور فرد کے طور پر اپنے کسانوں کی زندگی بہتر بنانے اور انہیں فطرت اور موسم کی نوعیت کی اور کسی حد تک مطالبہ اور فراہمی کی غیر یقینی صورتحال سے آزاد کرانا ہمارا فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کا عزم ہے اور حکومت نے اس کے لئے کئی پالیسیاں اور پروگرام مرتب کیے ہیں ۔ ان پروگراموں کے لئے فوڈ چین سے منسلک سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال لازمی ہے۔ اور این آئی ایف ٹی کی طرح کے ادارے اور یہاں سے گریجویٹ ہونے والے طلباء اہم کردار ادا کریں گے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہمارے شہروں میں سماجی رویوں میں تبدیلی اور بڑی تعداد میں انفرادی خاندان کا عروج کے ساتھ ساتھ ڈبہ بند غذائی پیدوار کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ عالمی معیار کے ساتھ کھانے اور اس کے اجزاء، تحفظ اور لیبلنگ کے معیار کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھانے کی صنعت کا تجزیہ کرنے اور ہمارے ملک میں طرز زندگی سے متعلق بڑھتی ہوئی بیماریوں کا آسان حل تلاش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
صدر جمہوریہ نے کہا کہ اسی سماجی پس منظر میں این آئی ایف ٹی ای ایم کا ظہور ہوا ہے ۔ اس ادارے کے گریجویٹ سائنس اور ٹیکنالوجی، کاروباری ادارے اور کھانے کی پراسیسنگ انڈسٹری کے ساتھ منسلک کسانوں کےلیے مرکزی نقطہ کے طور پر کام کریں گے۔ صنعت، ریگولیٹرز، پالیسی سازوں، صارفین، مالی اور کریڈٹ ادارے اور بلاشبہ کسانوں کے درمیان شراکت داری قائم کرنا ان کی ذمہ داری ہوگی۔