نئی دہلی، ۔فروری۔پارلیمنٹ میں صدر جمہوریہ کے جواب میں شکریہ کی تحریک پر وزیر اعظم کی جوابی تقریرکا متن حسب ذیل ہے :
’’ عزت مآب صدر محترمہ ، صدر ذی وقار محترم صدر جمہوریہ کے خطبے پر اظہار ممنونیت کرنے کے لئے میں ایوان میں آپ سب کے درمیان تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کچھ باتیں ضرور کہا چاہوں گا ۔ کل ایوان میں محترم صدر جمہوریہ کی تقریر کی تحریک شکریہ پر متعدد عزت مآب ممبران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ جناب ملّکارجن ، جناب محمد سلیم ،جناب ونود کمار ،جناب نرسمہن بھوٹا ،جناب طارق انور ، جناب پریم سنگھ ، جناب انوررضا ، جناب جے پرکاش نارائن یادو ، جناب کلیان بنرجی ، جناب ٹی وینو گوپال ، جناب آنند راؤ ارشل ، جناب آر کے بھارتی موہن سمیت تقریباََ 34 محترم ممبران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ تفصیل سے گفتگو ہوئی ۔کسی نے حمایت میں اور کسی نے مخالفت میں تقریر کی ، لیکن یہ بامعنی بحث اس ایوان میں ہوئی ۔ محترم صدر جمہوریہ کی تقریر کسی پارٹی کی نہیں ہوتی ۔ ملک کی امیدوں اور عزائم کے اظہار اور اس سمت میں جاری کاموں کا تحریری خاکہ ہوتا ہے ۔اس نظر سے صدر محترم کی تقریر کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ مخالفت برائے مخالفت کرنا کہاں تک صحیح ہوگا۔
محترمہ صدر ایوان !
ہمارے ملک میں ریاستوں کی تشکیل عزت مآب اٹل بہاری واجپئی جی نے بھی کی تھی ۔ تین نئی ریاستیں قائم کی گئی تھیں اور ان تینوں ریاستوں میں سے خواہ اترپردیش میں سے اتراکھنڈ بناہو ، خواہ مدھیہ پردیش میں سے چھتیس گڑھ بنایا گیا ہو یا بہار میں سے جھارکھنڈ بنایا گیا ہو ۔ ان کی سرکار کی دوراندیشی یہ تھی کہ تینوں ریاستیں الگ الگ ہوتے ہوئے ان کی جو تقسیم ہونی تھی ،افسران کے تبادلے ہونے تھے ۔ یہ تمام چیزیں بہ خیروخوبی ہوجائیں ۔ قیادت اگر دور اندیش ہوتو سیاسی مطلب پرستی کی رو میں فیصلے نہ لئے جاتے ہوں تو وہ فیصلے کتنے صحتمند ہوتے ہیں ، اس کی روشن مثا ل محترم اٹل بہاری واجپئی جی نے ان تینوں ریاستوں کی تشکیل کرکے دی ۔ آج اس کا احساس پورے ملک کو ہے ۔ یہ بات آپ کے کردار میں شامل ہے ۔ جب آپ نے ہندوستان کو تقسیم کیا ، ملک کے ٹکڑے کئے اورجو زہر بویا ،آزادی کے 70 سال بعد بھی ایک دن ایسا نہیں گزرتا جب اس ملک کے سو اسو کروڑ ہندوستانیوں کو نہ برداشت کرنی پڑی ہو،آپ نے ملک کے ٹکڑے کئے ،وہ بھی اس طریقے سے کئے کہ چناؤ کو پیش نظر رکھتے ہوئے افراتفری میں ایوان کے دروازے بند کرکے کئے ۔ ایوان میں نظام وسکون نہیں تھا ، اس وقت بھی آپ نے آندھرا کے لوگوں کے جذبات کا احترام کئے بغیر ریاست کو تقسیم کردیا ۔تلنگانہ کی تشکیل کے حامی ہم بھی تھے ۔ ہم آج بھی اس حق میں ہیں کہ تلنگانہ ترقی کی شاہراہ پر آْگے بڑھے لیکن اس دن آپ نے آندھرا کے ساتھ جو بیج بوئے تھے وہ سب چناؤ کی جلد بازی میں کیا ۔ یہ سب اسی کا نتیجہ ہے کہ آج چار سال بعد بھی مسائل سلگتے رہتے ہیں ۔ اس لئے آپ کو اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں ۔
صدر ایوان محترمہ !
کل میں کانگریس کے لیڈر جناب کھڑگے صاحب کی تقریر سن رہا تھا ، لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ ٹریجری بینچ سے خطاب کررہے تھے ، کرناٹک کے لوگوں سے مخاطب تھے یا اپنی ہی پارٹی کے پالیسی سازوں کو خوش کررہے تھے ۔انہوں نے اپنی تقریر محترم بشیر بدر کی شاعری سے شروع کی ۔ میں امید کرتا ہوں کہ کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے بھی ان کی یہ شاعری سنی ہوگی ۔ کل انہوں نے اپن تقریر میں محترم بشیر بد ر کا یہ شعر پڑھا : دشمنی جم کر کرو ، لیکن یہ گنجائش رہے جب کبھی ہم دوست ہوجائیں تو شرمندہ نہ ہوں
مجھے یقین ہے کہ کرناٹک کے محترم وزیر اعلیٰ نے آپ کی یہ تقریر ضرور سنی ہوگی ۔لیکن آپ نے اپنی تقریر میں محترم بشیر بدر صاحب کا یہ شعر نہیں پڑھا : جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا
مجھے نہیں معلوم کہ کرناٹک کے چناؤ کے بعد کھڑگے صاحب اس جگہ پر ہوں گے یا نہیں ۔ اس لئے یہ ان کی تقریرِرخصتی بھی ہوسکتی ہے۔ عام طور پر اس ایوان میں جب کوئی معزز ممبر پہلی بار تقریر کرتا ہے تو ہر ممبر احترام سے اس کی تقریر سنتا ہے ۔ بہتر ہوتا کہ کل کچھ معزز ممبران نے تحمل سے کام لیا ہوتا اور محترم کھڑگے صاحب کی تقریر کو اسی احترام سے سنا ہوتا ۔ جمہوریت کے لئے یہ بات بہت ضروری ہے ۔ مخالفت کرنے کا حق تو ہے لیکن ایوان کو قبضے میں لینے کا حق نہیں ہے ۔
صدر ایوان محترمہ !
میں دیکھ رہا ہوں کہ جب بھی ہمارے اپوزیشن میں کچھ لوگ جب ہماری کسی بات کی تنقید کرتے ہیں تو اس میں حقیقت کم ہوتی ہے ۔ ہمارے زمانے میں ایسا تھا ، ہمارے زمانے میں ایسا کیا گیا تھا ، ہم یہ کرتے تھے ، زیادہ تر انہی باتوں کے کیسٹ بجائے جاتے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئ کہ ہندوستان کے بعد آزاد ہونے والے ملک ہم سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھ چکے ہیں ۔ ہم آگے نہیں بڑھ پائے ۔ آپ نے ماں بھارتی کے ٹکڑے کردئے ، اس کے باوجود یہ ملک آپ کے ساتھ رہا ۔اس زمانے میں آپ ملک پر راج کررہے تھے ۔ آزادی کے بعد کی تین چار دہائیوں میں اپوزیشن برائے نام ہوا کرتی تھی ۔یہ وہ وقت تھا جب میڈیا کے اثرات بھی بہت کم تھے اور میڈیا کا جو حلقہ تھا وہ بھی اس امید میں حکومت کے ساتھ چلتا رہا کہ ملک کا بھلا ہوگا ۔ ریڈیو پوری طرح آپ ہی کے گیت گاتا تھا اور کوئی دوسری آواز وہاں سنائی نہیں دیتی تھی اور جب بعد میں ٹی وی آیا تو ٹی وی بھی آپ کے لئے پوری طرح وقف تھا ۔ان دنوں عدلیہ کے تقرر بھی کانگریس پارٹی کرتی تھی ۔ اس وقت کورٹ میں نہ کوئی پی آئی ایل ہوتی تھی نہ این جی او یعنی رضاکارتنظیموں کی بھرمار ہوتی تھی ۔ پنچایت سے پارلیمنٹ تک آپ ہی کا جھنڈا لہراتا تھا ۔ لیکن آپ نے یہ پورا وقت ایک ہی کنبے کے گیت گانے میں صرف کردیا ۔ آپ نے اپنی ساری طاقت اس بات پر لگادی کہ سارا ملک ایک ہی کنبے کو یاد رکھے ۔ ان دنوں پورے ملک کا جذبہ آزادی کے دن تھے ۔ ملک کو آگے لے جانے کا جذبہ تھا ۔ اگر آپ نے کچھ ذمہ داری کے ساتھ کام کیا ہوتا تو آپ اس ملک کو کہاں سے کہاں تک پہنچاسکتے تھے ، لیکن آپ اپنی ہی دُھن بجاتے رہے ۔ماننا پڑے گا اگر آپ نے صحیح سمت اختیار کی ہوتی ،صحیح پالیسیاں بنائی ہوتیں ، اگر آپ کی نیت صاف ہوتی تو یہ ملک آج جہاں ہے ،اس کے کئی گُنا اچھا اور آگے بڑھ چکا ہوتا ۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ کانگریس پارٹی کے لیڈروں کو لگتا ہے کہ بھارت کے نام کے ملک کی پیدائش 15 اگست 1947 کو ہوئی تھی جیسے اس سے پہلے یہ دیش تھا ہی نہیں ۔ میں حیرا ن ہو ں ، اس کو میں غرور کہوں ، ناسمجھی کہوں یا بارش کے موسم میں اپنی کرسی بچانے کی کوشش ۔ جب یہ کہا گیا کہ ملک کو نہرو نے جمہوریت دی ،دیش کو کانگریس نے جمہوریت دی ، ارے کھڑگے صاحب ! کچھ تو کم کریں ، آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ جب ہمارا ملک لچِھّوی کی سلطنت تھا ، جب یہاں بودھ روایات تھیں ، اس وقت بھی ہمارے ملک میں جمہوریت کی گونج تھی ۔
بودھ وفاق ایک ایسا نظام تھا ،جو گفتگو ، تبادلہ خیال اورووٹنگ کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا عمل اختیار کرتا تھا ۔ جناب کھڑگے صاحب ! آپ تو کرناٹک سے آتے ہیں ، ایک ہی کنبے کی بھگتی کرکے شاید آپ کے یہاں بیٹھنے کی جگہ بچی رہے لیکن کم سے کم جگت گرو بشیشورجی کی بے عزتی تو مت کیجئے ۔ آپ کرناٹک سے آتے ہیں ، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ جگت گرو بشیشور ہی تھے ، جنہوں نے اس زمانے میں انوبھو منڈپم کا نظام رائج کیا تھا ۔ یہ بارہویں صدی کا زمانے تھا او ر گاؤں کے سارے فیصلے جمہوری طریقے سے کئے جاتے تھے ۔ یہی نہیں خواتین کو بااختیار بنانے کا کام بھی ان دنوں میں کیا جاتا تھا ۔ایوان میں ، اجلاس میں خواتین کی موجودگی لازمی ہوتی تھی ۔ جگت گرو بشیشورجی کے دور میں جمہوریت کی تجویز پیش کرنے کا کام بارہویں صدی میں اس ملک میں ہوا تھا ، جمہوریت ہمار ی رگوں میں ہے ، ہماری روایت میں ہے ۔ بہار کی تاریخ گواہ ہے کہ لچھوی سلطنت سے پہلے بھی یہاں جمہوریت کی روایت قائم تھی ، یہاں اتفاق اور اختلاف کو مانا جاتا تھا ۔ آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ آپ منموہن سنگھ جی کی سرکار میں وزیر رہے ہیں ، آپ ہی کی پارٹی کے لیڈر نے ابھی جب پارٹی میں چناؤ چل رہے تھے تو انہوں نے میڈیا سے کیا کہا تھا ، انہوں نے کہا تھا جہانگیر کی جگہ شاہجہاں آئے شاہجہاں کی جگہ اورنگزیب آئے ، کیا وہاں چناؤ ہوا تھا ۔ ہمارے یہاں بھی یہی ہوا ۔ آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں ، آپ جمہوریت پر بحث کرتے ہیں ، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کون سی جمہوریت کی بات کرتے ہیں کہ جب آپ کے سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی حیدرآباد کے ہوائی اڈے پر اترتے ہیں ، وہاں آپ ہی کی پارٹی کے منتخب وزیر اعلی ٰ شیڈیول کاسٹ سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ائیر پورٹ پر انہیں ریسیو کرنے آئے تھے ۔ جمہوریت پر بھروسہ کرنے والے لوگ جن نہرو جی کے نام پر جمہوریت کی ساری روایت وقف کرتے ہیں ، جناب راجیو گاندھی جی نے حیدرآباد ہوائی اڈے پراترتے ہی وہاں کے دلت وزیر اعلیٰ کی بے عزتی کی تھی ۔ ایک منتخب وزیر اعلیٰ ٹی انجیا کی بے عزتی کی تھی ۔ آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو یہ سوال اٹھتا ہے اور یہ تیلگو دیشم پارٹی اور یہ این ٹی راما راؤ بے عزتی کی اسی آگ سے پیدا ہوئے تھے ، ٹی انجیا کی بے عزتی کی گئی تھی ، ان کا احترام بحال کرنے کے لئے اپنی فلمی دنیا چھوڑ کی آندھرا کے عوام کی خدمت کے لئے میدان میں آنا پڑا تھا ۔
آپ جمہوریت کی بات سمجھارہے ہیں ۔ اس ملک میں آپ نے 90 بار بلکہ 90 سے بھی زائد بار دفعہ 356 کا غلط استعمال کرکے ریاستی سرکاروں کو، ان ریاستوں میں بڑھتی ہوئی پارٹیوں کو اکھاڑ کر پھینک دیا تھا ۔آپ نے پنجاب میں اکالی دل کے ساتھ کیا کیا ۔ اآپ نے تامل ناڈو میں کیا کیا ، آپ نے کیرل میں کیا کیا ، آپ نے اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے ہی نہیں دیا ۔ آپ نے اپنے کنبے کی جمہوریت کو جمہوریت مانا ، آپ ملک کو گمراہ کررہے ہیں ۔ یہی نہیں جب ضمیر کی آواز اٹھتی ہے تب جمہوریت کو دبوچ لیا جاتا ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ کانگریس نے صدر جمہوریہ کے عہدہ جلیلہ کے لئے نیلم سنجیوا ریڈی کو پسند کیا تھا ۔ راتوں رات ان کی پشت میں چھرُا بھونک دیا گیا ۔ پارٹی کے منظور شدہ امید وار کو شکست دے گی گئی اور اتفاق سے وہ بھی آندھرا پردیش سے ہی آتے تھے ۔ آپ نے ٹی انجیا کے ساتھ کیا کیا ۔ آپ نے سنجیو ریڈی کے ساتھ کیا کیا ، یہی نہیں بلکہ ابھی ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے دورا اقتدار میں وزیر اعظم کی کابینہ میں جمہوری طریقے سے لیا گیا اہم ترین فیصلہ آپ ہی کی پارٹی کی سرکار اور آپ کی پارٹی کے ایک عہدے دار نے پریس کانفر نس بلاکر پریس کے سامنے کیبنیٹ کے اس فیصلے کو پارا پار ا کردیا ۔آپ کے منھ سے جمہوریت کی باتیں زیب نہیں دیتیں ، اس لئے آپ ہمیں جمہوریت کا سبق نہ پڑھائیں ۔
میں ذرا تاریخ کی ایک اور بات کرنا چاہتا ہوں ، کیا یہ سچ نہیں کہ کانگریس کی قیادت کے لئے چناؤ ہوا تھا اور 15 کانگریس کمیٹیوں میں سے 12 کمیٹیوں نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو چنا تھا ، اس کے باوجود قیادت سردار ولبھ بھائی پٹیل جی کو نہیں دی گئی ، وہ کون سی جمہوریت تھی ۔ پنڈت نہرو جی کو بٹھادیا گیا ۔ اگر ملک کے پہلے وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل ہوتے تو کشمیر کا حصہ پاکستان کے زیر قبضہ نہ ہوتا ۔
ابھی دسمبر میں کانگریس کے عہد ہ صدارت کا چناؤ ہوا تھا یا تاجپوشی ۔ آپ ہی کی پارٹی کے ایک نوجوان نے آواز اٹھائی ۔وہ اپنی امید واری کا فارم بھرنا چاہتے تھے ۔آپ نے اس کو بھی روک دیا ۔ آپ جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں ۔میں جانتا ہو ں آواز دبانے کے لئے یہ تمام کوششیں ناکام رہیں گی ۔ سننے کے لئے ہمت چاہئے ہوتی ہے اور اسی لئے صدر ایوان محترمہ ! یہ ہمارے سرکار کی خصوصیت ہے کہ ہم ایک ایسا ورک کلچر لانا چاہتے ہیں ، جس کا مقصد محض اعلانات کرکے اخبارات کی سرخیاں بٹورنا نہ ہو ۔ منصوبوں کا اعلان کرکے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک دینا یہ ہمارا ورک کلچر نہیں ہے ۔ ہم ان چیزوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ، جن کو مکمل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ اچھی بات کسی بھی سرکار کی یا کسی کی بھی کیوں نہ ہو ، اگر اٹکتی ہے ، ملک کا نقصان ہوتا ہے تو ہم اسے ٹھیک کرکے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیونکہ جمہوریت میں سرکاریں آتی رہتی ہیں جاتی رہتی ہیں ، ہم اسی اصول کو ماننے والے ہیں ۔ کیا یہ بات سچ نہیں ہے کہ پچھلی سرکار میں یہی ملازمین تھے ، یہی فائلیں تھیں لیکن 11 کلومیٹر قومی شاہراہیں ہی روزانہ تعمیر ہوپاتی تھیں ۔ آج ایک روز میں 22 کلومیٹر قومی شاہراہ تعمیر کی جاتی ہے ۔ سڑکیں آپ بھی بناتے تھے ،روڈ ہم بھی بناتے ہیں ، پچھلی سرکار کے آخری تین برسوں میں 80 ہزار کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی گئیں ۔ ہماری سرکار کے تین سال میں ایک لاکھ 20 ہزار کلومیٹر سڑکیں تعمیر کی گئیں ۔ پچھلی سرکار کے آخری تین برسوں میں تقریباََ 1100 کلومیٹر نئی ریلوے لائنیں تعمیر کی گئیں، ہماری سرکار کے تین برسوں میں 2100 کلومیٹر نئی ریل پٹریاں بچھائی گئیں ۔ پچھلی سرکار کے آخری تین برسوں کے دوران 2500 کلومیٹر ریلوے لائنوں کی برق کاری کی گئی ، ہماری سرکار کے تین برسوں میں 4300 کلومیٹر سے زائد ریلوے لائنوں کی برق کاری کی گئی ۔ 2011 کے بعد پچھلی سرکار 2014 تک پچھلی سرکار کے دوران آپ کے طریقے کیا تھے ۔ آپ تو یہی کہیں گے کہ یہ اسکیم ہماری تھی ، آپٹیکل فائبر نیٹ ورک کے لئے آپ کے کام کرنے کے طریقے کیا تھے ۔ جب تک رشتہ دارں کا میل نہ بیٹھے ، اپنوں کا میل نہ بیٹھے ، گاڑی آگے چلتی ہی نہ تھی ۔ 2011 کے بعد سے 2014 تک آپ نے محض 59 پنچایتوں میں آپٹیکل فائبر نیٹ ورک پہنچایا ۔ہم نے آنے کے بعد اتنے کم وقت میں ایک لاکھ سے زائد پنچایتوں میں آپٹیکل فائبر نیٹ ور ک پہنچادیا ۔ کہاں تین برس میں 60 سے کم گاؤں اور کہاں تین برس میں ایک لاکھ سے بھی زائد گاؤں ۔ کوئی حساب ہی نہیں ہے ۔ اسی لئے پچھلی سرکار نے شہری ہاؤسنگ اسکیم 939شہروں میں نافذ کی تھی ، آج پردھان منتری آواس یوجنا اربن 4320 شہروں میں نافذ کی جاچکی ہے ۔ آپ تین سال میں ایک ہزار سے کم اور ہم تین سال میں چار ہزار سے بھی زائد ۔ پچھلی سرکار کے آخری تین برسوں میں بارہ ہزار میگاوا ٹ کی قاقبل تجدید توانائی کی اہلیت جوڑی ۔ اس سرکا ر نے اپنے تین برسوں میں 22000 میگاواٹ سےبھی زیادہ قابل تجدیدتوانائی پیدا کی ۔ جہازرانی کی صنعت اور کارگو ہینڈلنگ کے کام میں آپ کی سرکار کے دوران منفی نمو درج ہوتی تھی ۔ہماری سرکار نے 11فیصد سے زائد نمو کرکے دکھائی ۔ اگر آپ زمین سے جُڑے ہوتے تو شاید آپ کی یہ حالت نہ ہوتی ۔ مجھے اچھا لگا کہ کھڑگے جی نے ریلوے اور کرناٹک کا ذکر کیا ، ان کا سینہ ایک دم پھول جاتا ہے ، آپ نے بیدر – کلبرگی ریلوے لائن کا تذکرہ کیا ، ملک کو سچائی کا پتہ ہونا چاہئے ۔ یہ بات کانگریس کے مونھ سے کبھی کسی نے نہیں سنی ہوگی ۔ افتتاحی تقریر میں بھی نہیں بولے ہوں گے ، سنگ بنیاد کی تقریر میں بھی نہیں بولے ہوں گے۔ لیکن یہ سچائی ماننی ہوگی کہ 110 کلومیٹر طویل بیدر – کلبرگی ریل لائن کے منصوبے کی منظوری اٹل بہاری واجپئی جی کی سرکار میں دی گئی تھی ۔2013 سے اب تک آپ کی سرکار رہی ، آپ خود ریلوے کے وزیر رہے ، یہ آپ ہی کے پارلیمانی حلقے کا علاقہ ہے ، لیکن اتنے برسوں میں محض 37 کلومیٹر ریل لائن کا کام ہوا اور وہ کام بھی جب ہوا جب یدییو رپا وزیر اعلیٰ تھے ، انہوں نے اِنی شیٹو لیا تب جاکر آپ کی سرکار نے اٹل جی کے سپنے کو آگے بڑھانے کا کام شروع کیا اور وہ بھی جب چناؤ آیا اور آپ نے محسوس کیا کہ یہ ریلوے لائن چل پڑے تو اچھا ہوگا ۔ 110 کلومیٹر کا جو باقی کام تھا ہم نے پورا کیا ۔ اتنے کم وقت میں 72 کلومیٹر کا کام پورا کیا ۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ یہ اپوزیشن کے لیڈر کا پارلیمانی حلقہ ہے ۔ ہم ایسا گناہ نہیں کرتے ۔علاقہ آپ کا تھا لیکن کام ملک کا تھا۔ ہم نے یہ اسکیم مکمل کرکے ملک وقوم کو وقف کی تو آپ کو درد ہوا ۔ ا س درد کی دوا عوام نے آپ کو بہت پہلے ہی دے دی تھی ۔
صدر ایوام محترمہ !
ایک دوسری بات باڑھ میر ریفائنری کی کی جارہی ہے ۔چناؤ سے قبل پتھر پر نام کندہ کردیا جائے گا تو گاڑی چل جائے گی ۔ آپ نے پتھر پر نام تو کندہ کروادیا لیکن ہم نے آکر دیکھا تو سارا کام کاغذ پر ہوا تھا ۔ زمین پر نہ منظوری تھی نہ زمین ۔آپ کی غلطیوں کو ٹھیک کرتے ہوئے اس پوری یوجنا کو حکومت ہند اور راجستھان سرکار کو زبردست مغز پچی کرنی پڑی تب آج وہ کام شروع ہوچکا ہے ۔
آسام میں دھولہ سادیہ پُل کا افتتاح جب ہم نے کیا تو کچھ لوگوں کو تکلیف ہوگئی ۔یہ کہہ دینا آسان ہے کہ یہ کام تو ہمارا تھا ۔ لیکن یہ کبھی نہیں کہا گیا کہ جب اس برج کا کام چل رہا تھا تو ایوان میں اس پر سوال اٹھے ۔ کبھی ایوان میں یہ بات کہنے کی ایمانداری نہیں دکھائی گئی کہ اس کام کا فیصلہ بھی اٹل بہاری واجپئی سرکار میں ہوا تھا ۔2014 میں ہماری سرکار بننے کے بعد وہ برج تعمیر ہوا ۔ اتنا ہی نہیں ، میں فخر سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہماری سرکار وہ سرکار ہے ، جس نے ملک میں سب سے طویل سرنگ ، سب سے طویل گیس پائپ لائن سمندر کے اندر سب سے طویل پُل اورسب سے تیز رفتار ٹرین کے فیصلے لئے ۔ ہم نے اپنے دور اقتدار میں ہی 104 سیٹلائٹ مدار میں پہنچانے کا کام مکمل کیا ۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔محترم صدر جمہوریہ نے بھی اپنی تقریر میں اس کا ذکر کیا ۔ میں کہنا چاہوں گا کہ جمہوریت کیسے کی جاتی ہے ۔ اقتدار میں رہتے ہوئے سب کا ا حترام کیسے کیا جاتا ہے ، لال قلعہ سے کی جانے والی تقریریں نکال دیجئے ۔ لال قلعہ سے ہرکانگریسی لیڈر کی تقریر دیکھ لیجئے ،کسی بے بھی یہ نہیں کہا کہ ملک میں جوترقی ہورہی ہے ، اس میں سبھی سرکاروں کا اشتراک شامل ہے ۔ سابقہ سرکار وں کی خدمات شامل ہے ۔ یہ نریندر مودی ہے جو لال قلعہ سے کہتا ہے کہ ملک آج جہاں پہنچا ہے، اسے وہاں پہنچانے میں پرانی سبھی سرکاروں کی خدمات شامل ہے ۔
میں آج بتانا چاہتا ہوں کہ جب میں گجرات میں وزیر اعلیٰ تھا تو وہ گجرات کا گولڈن جوبلی ائیر تھا ۔ گولڈن جوبلی ایئر منانے کے جو پروگرام کئے گئے ، اس میں جتنے بھی سابقہ گورنروں کی تقریریں تھیں ، ان کو جمع کیا ، گورنر کی تقریر کیا ہوتی ہے جیسے صدر جمہوریہ کی تقریر۔ اس میں سرکار کے کام کاج کا ذکر ہوتا ہے ، گورنر اپنی تقریر میں اپنے دور کی سرکار کے کام کاج بیان کرتا ہے لیکن ہم نے گجرات کے وجود میں آنے کے بعد سے 50سال تک کے سفر میں جتنے بھی گورنروں کی تقریریں تھیں ، جن میں ان کے دور کی سرکاروں کی تفصیلات شامل تھیں ،سب کو یکجا کرکے ایک ضخیم کتاب تیار کی ۔اسے کہتے ہیں جمہوریت ۔ آج آپ کے وہاں جاکر بیٹھنے کی نوبت اس لئے آئی ہے کہ آپ کی ذہنیت یہ رہی ہے کہ آپ ہر کام کا کریڈٹ ایک کنبے کو دیتے رہے ہیں ۔ آپ نے ملک کو قبول نہیں کیا ہے ۔اسی لئے آج دوگنی رفتار سے سڑکیں بن رہی ہیں ۔ ریلوے لائنیں تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہیں ۔ پورٹ ڈیولپمنٹ ہورہا ہے ، گیس پائپ لائن بچھائی جارہی ہے ، بند پڑے فرٹیلائزر پلانٹوں کو دوبارہ چالو کیا جارہا ہے ،روز گار کے نئے مواقع فراہم ہورہے ہیں ۔
میں ذرا اپنے کانگریس کے دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں ۔روزگار اور بے روزگاری کی تنقید کرنے والوں سے پوچھنا چاہتا ہو ں کہ آپ جب بے روزگاری کے اعداد وشمار بیان کرتے ہیں تو وہ اعداد وشمار پورے ملک کے ہوتے ہیں ۔ یہ سارا ملک جانتا ہے ۔ اگر بے روزگاری کے اعدادوشمار پورے ملک کے ہوتے ہیں توروزگار کے اعداد وشمار بھی پورے ملک کے ہی ہوتے ہیں ۔ آپ کو میری بات پر بھروسہ نہیں ہوگا ۔ آپ ریکارڈ دیکھئے ۔مغربی بنگال کی سرکار ، کرناٹک کی سرکار ، اوڈیشہ کی سرکار اور کیرل کی سرکار میں ہم تو ہیں نہیں نہ کوئی این ڈی اے ہے ۔ ان چاروں سرکاروں نے خود جو اعلانات کئے ہیں ،اس کے حساب سے ان سرکاروں کا دعویٰ ہے کہ وہاں تقریباََ ایک کروڑ لوگوں کو روزگار ملا ہے ۔ کیا اس دعوے سے انکار کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے جو مانگا ،بھارت سرکار نے اسے دینے کی منظوری دے دی ،تب جاکر ،آپ کی سرکار نے اٹل جی کے سپنوں کوآگے بڑھانے کا کام کیا ہے ۔
اب بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اورجیسا کہ صدر موصوف نے اپنی تقریر میں کہا ہے : جمہوریت کیسے کی جاتی ہے ، حکومت میں رہتے ہوئے سب کا ا حترام کیسے کیا جاتا ہے ۔ لال قلعہ سے ہونے والی تقریروں کو نکال دیجئے ۔آزادی کے بعد سبھی کانگریسی لیڈروں نے جو تقریر کی اسے نکال دیجئے ، کسی بھی کانگریس لیڈر نے یہ کہاہے کہ ملک میں جو ترقی ہورہی ہے ۔ اس میں سبھی سرکاروں کی خدمات شامل ہے۔
اس لئے آپ ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش مت کیجئے ۔ دیش میں روزگار کی فراہمی کے لئے جو کوششیں سرکار نے کی ہیں اور جواسکیمیں مرتب کی ہیں ، آپ جانتے ہیں ، ایک سال کی مدت میں 70 لاکھ ای پی ایف اندراجات کئے گئے اور وہ بھی 25سال کی عمر کے نوجوان بیٹے بیٹیوں کے ہیں کیا یہ روز گار نہیں ہیں ۔کوئی ڈاکٹر بنے ،کوئ انجنئیر بنے ،کوئی وکیل بنے یاکوئی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنے ،انہوں نے اپنے کاروبار شروع کئے ، اپنی کمپنیوں میں لوگوں کو کام دیا ، اپنا روزگار بڑھایا آپ اسے قبول کرے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ملک کے درمیانہ درجے کے کنبوں کی بات کی جائے تو اس طبقے کے نوجوان نوکری میں بھیک مانگنے والوں میں سے نہیں ہیں ،وہ عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔میں نے کئی آئی اے ایس افسر دیکھے ہیں ۔ میں پوچھتا ہو ں آپ کی اولاد کیا کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسے بھی کبھی بابو بننا پڑے گا لیکن اب زمانے بدل گیا ہے ۔ اپنے پتا جی کے سامنے ہم تھے تو ہم سرکار ی نوکری پوچھتے پوچھتے ہم یہاں آگئے ۔ ہم تواسٹارٹ اپ چالوکرنا چاہتے ہیں ۔ خواہ کوئی بھی ملک کی قیادت کرے ۔درمیانہ درجے کے کبنوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان بہت تیزوطرار ہیں ، ان کے عزائم کو مضبوط بنایا جانا چاہئے ۔ ہم نوجوانوں کے انہی عزائم کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
میں ذرا پوچھنا چاہتا ہوں ۔ یہ سب ہمارے زمانے کے گیت گاتے رہتے ہیں ۔ 80 کی دہائی میں ہمارے ملک میں یہ گونج سنائی دے رہی تھی ۔اکیسویں صد ی آرہی ہے ۔ کانگریس کے لیڈر ہر ایک کو اکیسویں صدی کا پرچہ دکھاتے تھے ۔ نوجوان لیڈر تھے ۔ نئے نئے آئے تھے ۔ اپنے نانا سے بھی زیادہ سیٹیں جیت کر آئے تھے ۔ میں نے اس زمانے میں ایک دلچسپ کارٹون دیکھا تھا ۔ جس میں پلیٹ فارم پر ایک نوجوان کھڑا تھا ۔سامنے سے ایک ریل آرہی تھی ،جس پر لکھاتھا اکیسویں صدی ۔وہ نوجوان اس طرف دوڑرہا تھا ۔کسی بزرگ نے کہا کہ کھڑے رہو وہ یہیں آنے والی ہے ۔80 کی دہائی میں اکیسویں صدی کے خواب دکھائے گئے تھے اور اکسویں صدی کی بات کرنے والی سرکار شہری ہوابازی کی پالیسی تک نہیں وضع کرپائی تھی ۔اگر اکیسویں صدی میں ایوی ایشن کی پالیسی نہ ہو تو وہ اکیسویں صدی کیسی ہوگی ۔
بھائیو بہنو ! صدر ایوان محترمہ !
ہم نے نہ صرف شہری ہوابازی کی پالیسی بنائی بلکہ چھوٹے چھوٹے شہرو ںمیں ہم نے ہوائی پٹیاں تعمیر کیں ، جہاں طیاروں کی آمدروفت شروع ہوچکی ہے ۔ شہری ہوابازی کے 80 سے زیادہ امکانات پر کام جاری ہے ۔ ٹائر -2 اور ٹائر -3 کے شہروں میں طیاروں کی پروازیں شروع ہونے والی ہیں ۔ آج ملک میں تقریباََ 450 ہوائی جہاز پرواز کررہے ہیں ۔ 900 سے زائد نئے طیارے خریدنے کا آرڈد جاری کیا جاچکا ہے ۔ میں اسے کامیابی مانتا ہوں ۔ یہ کامیابی اس لئے ملی کہ ہم فیصلے اور کام کرتے ہیں ۔ ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال کرتے ہیں ۔ ہم مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ ہم سڑک اورریل کے تعمیری کاموں کی نگرانی بھی ڈرون کے کاموں سے کرتے ہیں ۔ ہم سیٹلائٹ ٹکنالوجی سے ٹیگنگ کررہے ہیں ۔ اگر ٹوائیلیٹ بنے ہیں تو موبائل پر اس کی تصویر بھی آچکی ہے ۔ اس طرح ہم ہرچیز میں سیٹلائٹ کی ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں ۔ ہم نے آگے بڑھنے کا کام کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مانیٹرنگ کی وجہ سے کاموں میں تیزی آئی ہے ۔
میں حیران ہوں اوراگرآدھارمجھے برابریاد ہے ، جب ہم چناؤ جیت کرکے آئے ۔آپ ہی کی طرف سے امیدیں پیداکی گئی تھیں کہ مودی آدھارکو ختم کردیگا۔ یہ ہمارامنصوبہ روک دیگا، مودی آدھارکو آنے نہیں دیگا۔ آپ مان کرکے چلے تھے اوراس لئے آپ نے مودی پرحملہ کرنے کے آدھارکا استعمال کیاتھا کہ مودی لائیگانہیں ۔ لیکن جب مودی اس کو سائنٹفک طریقے سے لے کرآیااور اس کا سائنٹفک استعمال کے راستے تلاش کئے جو آپ کے تصورمیں بھی نہیں تھے ، اورجب آدھارلاگوہوگا، اچھے ڈھنگ سے لاگوہوگیا ، غریب سے غریب انسان کو اچھی طرح اس کافائدہ ملنے لگا ، توآپ کو آدھار پرعمل ہونابرالگنے لگا۔ چت بھی اپنی ، پٹ بھی اپنی ۔ یہ کھیل چلتاہے کیا؟اس لئے آج 115کروڑسے زیادہ آدھاربن چکے ہیں ۔ قریب مرکزی سرکارکے 400منصوبوں کے براہ راست فائدہ منتقلی اسکیم سے غریبوں کے کھاتے میں پیسے جانے لگے ہیں ۔ 57ہزارکروڑروپے ، ارے آپ نے ایسی ایسی بیواوں کو پنشن دی ہے ، جس بیٹی کی پیدائش ہی نہیں ہوئی ، وہ کاغذوں میں بیوہ ہوجاتی ہے ۔ سالوں تک پنشن جاتی ہے ، پیسے جاتے ہیں ، اورملائی کھانے والے درمیان کے لوگ ملائی کھاتے ہیں ۔ بیوہ کے نام پر، بزرگوں کے نام پر، معذوروں کے نام پر، سرکاری خزانے سے نکلے بچولیوں کی جیب میں گئے ہیں اورسیاست چلتی رہی ہے ۔ آج آدھارکی وجہ سے براہ راست فائدہ منتقلی اسکیم سے آپ پریشان ہیں ، ایسا نہیں ہے ۔ آپ کا پریشانی کی وجہ یہ ہے جو بچولیوں کی چال تھی ، وہ بچولیوں کی چال ختم ہوئی ہے اوراس لئے جو روزگارختم ہوا ہے وہ بچولیوں کا ختم ہوگیاہے ۔ جو روزگارچلاگیاہے ، بے ایمانوں کا گیاہے ، جوروزگارگیاہے ملک کو لوٹنے والوں کا ختم ہواہے ۔
جناب صدر، چارکروڑ غریب اورمتوسط طبقے کے کنبوں کو مفت بجلی کنکشن کی فراہمی کی سہولت ہم نے دی ہے ۔آپ کہیں گے کہ لوگوں کے گھروں میں بجلی دینے کا منصوبہ ہمارے دورمیں شروع ہواتھا۔ ہوگی ،لیکن کیا بجلی تھی ؟کیاٹرانسمشن لائنیں تھیں ؟ارے 18ہزارگاوؤں میں کھمبے تک نہیں لگے تھے ،18ویں صدی میں جینے کے لئے وہ مجبورتھے ، اورآج آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہمارا منصوبہ تھا۔ اورہم کسی بھی ترقیاتی کام کو قسطوں میں نہیں کرتے ۔ہم ایک مجموعی مربوط انداز فکراور دوراندیشی کے ساتھ اورعرصہ دراز میں بارآورہونے والے منصوبوں کے ساتھ ہم چیزوں کو آگے کرتے ہیں ۔ صرف بجلی کے بارے میں بتاناچاہتاہوں ۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ سرکارکے کام کرنے کا طریقہ کیاہے ۔ہم کس طریقے سے کام کرتے ہیں ۔ بجلی نظام سدھارنے کے لئے چارکروڑمکانوں میں ، ملک میں کل مکان ہیں 25کروڑ، 4کروڑمکانوں میں بجلی کا کنکشن نہ ہونے کا مطلب ہے کہ آج بھی تقریباً20فیصد لوگ اندھیرے میں زندگی گذاررہے ہیں ۔ یہ فخرکرنے کی بات نہیں ہے ۔ اورآپ نے ہمیں یہ وراثت میں دیاہے ، جس کو پوراکرنے کی ہم کوشش کررہے ہیں ، لیکن کیسے کررہے ہیں ۔ہم نے بجلی کے نظام کو بہتربنانے کے لئے چارمرحلوں میں الگ الگ چیزوں کو ہم نے ہاتھ لگایا۔بجلی کی پیداوار، ترسیل ، تقسیم اورچوتھاہے کنکشن ۔ اوریہ ساری چیزیں ایک ساتھ ہم آگے بڑھا رہے ہیں ۔ سب سے پہلے ہم نے بجلی کی پیداوار بڑھانے پرزوردیا۔ سوراورجاہو، ہائیڈرواروجاہو، تھرمل ہو، نیوکلیئرہو، جس چھیترسے بھی بجلی ہوسکتی ہے اور اس پر زوردیکرہم نے بجلی کی پیداوارکوبڑھایا۔ ترسیلی کام میں ہم نے تیزی سے ترقی کی ۔ پچھلے تین سالوں میں ہم نے ڈیڑھ لاکھ کروڑروپے سے زائد پروجیکٹوں پرکام کیا۔ یہ پچھلی سرکارکے مقابلے میں ہماری تین سالوں کی کارگزاری 83فیصد زیادہ ہے ۔ہم نے آزادی کے بعد ملک میں کل قائم ٹرانس مشن لائن اس میں 2014کے بعد 31فیصد یعنی آزادی کے بعد جو تھا، اس میں 31فیصد اکیلے ہم آکرکے بڑھایا۔ٹرانسفارمرکیپسٹی پچھلے تین سالوں میں ہم نے 49فیصد بڑھائی ہے ۔ کشمیر سے کنیاکماری ، کچھ سے کامرو، نربادھ روپ سے بجلی کو ٹرانسمشن کرنے کے لئے سارا نیٹ ورک کاکام ہم نے کھڑا کیاہے ۔بجلی تقسیم نظام مضبوط کرنے کے لئے 2015میں اجوول ڈسکام انشورنس یوجنا یعنی کہ اودے یوجنا اور ریاستوں کو ساتھ لے کرکے ایم اویو کرکے آگے بڑھائی ہے ۔ بجلی ڈسٹریبیوشن کمپنیوں میں بہترآپریشن اور فائننشیل منیجمنٹ ثابت ہو ، اس پرہم نے بل دیاہے ۔ اس کے بعد کنکشن کے لئے گھرمیں بجلی پہنچانے کے لئے سوبھاگیہ یوجنا شروع کی ہے ۔ ایک طرف بجلی پہنچانا ، دوسری طرف بجلی بچانا ، ہم نے 28کروڑایل ای ڈی بلب بانٹے ۔ متوسط طبقے کے کنبے جو گھرمیں بجلی کا استعمال کرتے ہیں ۔28کروڑبجلی کے بلب پہنچانے کی وجہ سے 15ہزارکروڑروپے بجلی کا بل بچا ہے ، جو متوسط طبقے کے کنبوں کی جیب میں بچاہے ۔ملک کے متوسط طبقے کے فائدہ پہنچاہے ۔ ہم نے وقت خراب ہونے سے بچایاہے ، ہم نے فصول خرچی کو روکنے کی بھی ایمانداری سے کوشش کی ہے ۔
جناب صدر، یہاں پرکسانوں کے نام پرسیاست کرنے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے اورانھیں مددگارلوگ مل بھی جاتے ہیں ۔ یہ سچائی ہے کہ آزادی کے 70سال کے بعد بھی ہمارے کسان جو پیداوارکرتے ہیں ، قریب قریب ایک لاکھ کروڑروپے کی یہ جو پیداوارچیزیں ہیں ، اس میں پھل ہوں ، پھول ہوں ، سبزی ہو، اناج ہو یہ کھیت سے لے کر اسٹورتک اوربازارکے ساتھ جو سپلائی چینج چاہئے اس کی کمی کی وجہ سے وہ دولت بربادہوجاتی ہے ۔ہم نے پردھان منتری کسان سمپدایوجنا شروع کیا اورہم اس بنیادی ڈھانچے کے قوت دے رہے ہیں کہ کسان جو پیداوارکرتاہے اس کو رکھ رکھاو کا نظام ملے اوراس کے فصل برباد نہ ہو ، اس کی گارنٹی تیارہے ۔
سرکارنے سپلائی چین میں نئے بنیادی ڈھانچے کو تیارکرنے میں مدد کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔ اور اس کے بعد جو ایک لاکھ کروڑبچیں گے وہ ملک کے کسانوں کو فوڈ پروسیسنگ میں لگے ہوئے متوسط طبقے کے نوجوانوں کو گاوں میں ہی زراعت پرمبنی صنعتوں کے لئے مواقع کے امکان پیداہوئے ہیں ۔ ہمارے ملک میں جتنی زراعت کی اہمیت ہے اتنی ہی مویشی پروری کی بھی ، یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑےہوئے ہیں ۔ ہمارے دیش میں پشوپالن کے چھیترمیں آوشیک پربندھن کے آبھاو میں سالانہ 40ہزارکروڑکاسالانہ نقصان ہوتاہے ۔ ہم نے مویشیوں کی چنتاکرناکام دھینویوجنا کے ذریعہ ان پشووں کا رکھ رکھاو کی چنتاکرنے کے لئے ، ان کے اروگیہ کی چناکرنے کے لئے ایک بڑا اگریسیو کام شروع کیاہے ۔اوراس کی وجہ سے کام دھینویوجنا کا فائدہ ملک کے مویشی پالن کو اور جو کسان مویشی پالن کرتاہے ۔ان کو ایک بہت بڑی راحت ملنے والی ہے ۔ ہم دوگنا22میں کرنے کی بات کرتے ہیں ۔80میں 21ویں صدی کی بات کرنا وہ تومنظورتھا لیکن مودی اگر2018میں آزادی کے 75سال والے 2022کو یاد کرے تو آپ کو تکلیف ہورہی ہے ۔ کہ مودی 22کی بات کیوں کرتاہے ۔آپ 80میں 21ویں صدی کے گیت گاتے تھے ۔دیش کو دکھاتے رہتے تھے ،اورجب میری سرکارنردھارت کام کے ساتھ 2022آزادی کے 75سال ایک انسپی ریشن ایک پریرنا اس کو لے کر کے آگے کام کررہی ہے ۔ توآپ کو اس کی بھی تکلیف ہورہی ہے ۔ اورکسانوں کی آمدنی دوگنی کرنا ۔آپ وہموں میں اس لئے جیتے ہیں کہ آپ نے کبھی بڑا سوچا ہی نہیں ، چھوٹے من سے کچھ ہوتانہیں ۔کسان کی آمدنی دوگنا کرنے کے لئے کیا ہم اس کی لاگت میں کمی نہیں کرسکتے ۔ سوائیل ہیلتھ کارڈ کے ذریعہ یہ ممکن ہواہے ، سولرپمپ کے ذریعہ یہ ممکن ہواہے ۔ یوریانیم کوٹنگ کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے ۔ یہ ساری چیزیں کسان کی لاگت کم کرنے کے لئے کام آنے والی چیزیں ہیں ایسی متعدد چیزوں کو ہم نے آگے بڑھایاہے ۔ اسی طرح سے کسان کو اپنے کسانی کاروبارکے ساتھ ہم نے بانسوں کا فیصلہ کیا۔ اگروہ اپنے کھیت کے کنارے پربانس لگائیگا۔اورآج اس بانس کا معتبرمنڈی ہے ۔ آج ملک ہزاروں کروڑروپے کے بانس کی درآمد کرتاہے ۔آپ کی غلط نیتی کی وجہ سے ۔ کیاآپ نے بانس کو Treeکہہ دیا، پیڑکہہ دیا اوراس کی وجہ سے کوئی بانس کو کاٹ نہیں سکتاتھا۔ میرے شمال مشرق کے لوگ پریشان ہوگئے ہیں ۔ ہم میں ہے کہ ہم نے بانس کو گھانس کے زمرے میں لاکر رکھا۔ وہ کسان کی آمدنی بڑھائے گا۔اپنے کھیت کے کنارے پراگروہ بانس لگاتاہے ،اس کی چھایاسے کسان کو تکلیف نہیں ہوتی ہے ۔ اس کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ ہم دودھ کی پیداوارکربڑھاناچاہتے ہیں ۔ پرتی پشوہمارے یہاں دودھ کا اتپادن ہوتاہے ۔ اس کو بڑھایاجاسکتاہے ۔ ہم مدھومکھی پالن پرزوردیناچاہتے ہیں ۔آپ کو حیرانی ہوگی مدھومکھی پالن میں قریب قریب 40فیصد اضافہ ہواہے ۔ مدبرآمدکرنے میں ہوئے اوربہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا۔ آج دنیا مجموعی حفظان صحت ، آسان بسراوقات پرزوردے رہی ہے اور اس لئے آپ کو کیمیکل ویکس سے بچ کر بی ویکس کے لئے پوری دنیا میں بی ویکس کا بہت بڑا مارکیٹ ہے ۔ اورہمارا کسان کھیتی کے ساتھ مدھومکھی پالن کریگا۔تواس بی ویکس کی وجہ سے اس کا عمدہ طریقے سے اس کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مدھومکھی فصل کو اگانے میں بھی ایک نئی طاقت دیتی ہے ۔متعدد ایسے شعبے ہیں اوریہ سارے دودھ ادپادن ،مرغی پالن ، ماہی پروری ،بانس ہوئے ، یہ ساری چیزیں قدروقیمت میں اضافہ کرتی ہیں ۔یہ کسان کی آمدنی کو دوگناکرتی ہیں ۔ ہم جانتے ہیں جو لوگ سوچتے تھے کہ آدھارکبھی نہیں آئیگا،آگیا ، ان کو یہ بھی پریشانی تھی کہ جی ایس ٹی نہیں آئیگی اورہم سرکارکوڈبوتے رہیں گے ۔ اب جی ایس ٹی آگئی توکیاکریں ،نیاکھیل کھیلو، یہ کھیل چل رہاہے ۔ کوئی دیش کی راج نیتک نیتاگیری دیش کو نراش کرنے کا کام بھی نہیں کرتی ۔لیکن کچھ لوگوں نے اس کام کا راستہ اپنایاہے ۔ آج صرف جی ایس ٹی کی وجہ سے لوجسٹک میں جوفائدہ ہواہے ۔ ہماری ٹرک پہلے جتنا سمے جاتاتھا اس wastageجام کی وجہ ، ٹول ٹیکس کی وجہ سے ۔ آج اس کا وہ بچ گیا۔ اورہماری ٹرانسپورٹیشن کی صلاحیت کو 60فیصد ڈلیوری کی طاقت نئی آئی ہے ۔جوکام پانچ چھ دن میں ایک ٹرک جاکرکرتاتھا۔ وہ آج ڈھائی تین دن میں پوراکررہاہے ۔ اس سے ملک کو بہت فائدہ ہورہاہے ۔ ہمارے ملک کو آگے لے جانے میں متوسط طبقے کا اہم کردارہے ۔ متوسط طبقے میں مایوسی پیدا کرنے کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں ۔ ہمارے ملک کا متوسط طبقے کاانسان گڈگورننس چاہتاہے ۔ بہترین نظام چاہتاہے ۔ وہ اگرٹرین کا ٹکٹ لے تووہ اس کے حق کی سہولت چاہتاہے ۔ اگروہ کالج میں بچے کو پڑھانے کے لئے بھیجے تو اس کو اچھی تعلیم چاہتاہے ۔ بچوں کو اسکول بھیجے تو اسکول میں اچھی تعلیم چاہتاہے ۔ وہ کھانا خریدنے جائے تو کھانے کی کوالٹی اچھی ملے ، یہ متوسط طبقے کاآدمی چاہتاہے ۔ اورسرکارکایہ کام ہے کہ پڑھائی تعلیم کے لئے بہترادارہ ہو،مناسب قیمت پراس کو مکان حاصل ہو، اچھی سڑکیں ملیں ، ٹرانسپورٹ کی بہترسہولتیں دستیاب ہوں ، جدید شہری بنیادی ڈھانچہ ہو، متوسط طبقے کی امید یں اور آرزوؤ ں کو پوراکرنے کے لئے زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے یہ حکومت پچھلے ڈیڑھ سال سے قدم اٹھارہی ہے ۔ ہم نے اوریہ سن کر کہ آپ حیران ہوجائیں گے یہ لوگ انٹری لیول انکم ٹیکس دنیا میں 5فیصد کی درپرسب سے اگرکم کہیں ہے توبھارت ہندوستان میں ہے ۔ جو غریبوں کو کسی سمردھ ملک میں بھی نہیں ہے ،سمردھ دیش میں نہیں ہے وہ ہمارے یہاں ہے ۔2000کے پہلے بجٹ میں ٹیکس سے چھوٹ کی حدپچاس ہزارسے بڑھا کر ڈھائی لاکھ کردی گئی تھی ۔ اس سال بجٹ میں 40ہزارروپے کا اسٹینڈرڈ ڈیڈیکشن ہم نے منظورکیاہے ۔ سینیئرسٹی زن کو بھی ہم نے چھوٹ میں ضابطہ عطاکیاہے ۔ متوسط طبقے کو قریب 12ہزارکروڑروپے کاسالانہ نیا فائدہ جڑتاجائے یہ کام ہماری سرکارنے کیاہے ۔ پردھان منتری شہری آواس یوجنا پر31ہزارکروڑسے زیادہ ہم نے خرچ کیاہے ۔ سود میں پہلی بار اس ملک کے متوسط طبقے کے لوگوں کو راحت پہنچانے کا کام اس سرکارنے کیاہے ۔ نئے ایمس ، نئی آئی آئی ٹی ، نئے آئی آئی ایم ، 11بڑے شہروں میں میٹرو، 32لاکھ سے زیادہ اسٹریٹ ایل آئی ڈی لائٹ کردی گئی ہے ۔ اوراس لئے نئی صنعتوں ایم ایس ایم ای ، یہ کوئی انکارنہیں کرسکتا۔ ایم ایس ایم ای چھیترکے ساتھ جڑے لوگ یہ متوسط طبقے اور بالائی متوسط طبقہ ہے ۔ ڈھائی سوکروڑکے ٹرن اوور پرہم نے ٹیکس ریٹ 30فیصد سے کم کرکے 25فیصد کرکے متوسط طبقے کے سماج کی بہت بڑی خدمت کی ہے ۔ 5فیصد دیاہے ۔ 2کروڑروپے تک کاروبارکرنے والے سبھی کاروباری صرف بینکنگ ذرائع سے لین دین کرتے ہیں ۔ سرکار ان کی آمدنی کو ٹرن اوور کا 8فیصد نہیں 6فیصد مانتی ہے ۔ یعنی انھیں ٹیکس پر2فیصد کا فائدہ ہوتاہے ۔ جی ایس ٹی میں ڈیڑھ کروڑروپے تک کی ٹرن اوور والے کاروبارکی کمپوزیشن اسکیم دی اور ٹر ن اوور کا صرف ایک فیصد کی ادائیگی یہ بھی دنیا میں سب سے کم ہندوستان میں کرنے والی یہ سرکارہے ۔
عزت مآب صدرمحترم ،جن دھن یوجنا 31کروڑسے زیادہ غریبوں کے بینک اکاونٹ کھلنا، 18کروڑسے زیادہ غریبوں کو حفظان صحت بیمہ یوجنا کا فاہدہ ہو ، 90پیسے روزانہ یا ایک روپیہ مہینہ اتنا اچھاپروڈکٹ والا بیمہ ہم نے ملک کو دیا، غریبوں کو دیا۔ اورآپ ، آپ کو یہ جان کرکہ یہ سنتوش ہوگاکہ اتنے کم وقت میں ایسے غریب کنبوں کے اوپرآفت آئی توانشورنس کی یوجنا کی وجہ سے ایسے کنبوں کو دوہزارکروڑروپیہ ان کے گھرمیں پہنچ گیا۔ یہ ، یہ غیرمعمولی کام ہواہے ۔
اجوّل یوجنا کے تحت تین کروڑ تیس لاکھ ماں ۔بہنوں کو ، غریب ماں ۔بہنوں ،ارے گیس کا کنکشن کے لئے یہ ایم پی او کے کرتے پکڑکرچلنا پڑتاتھا۔ ہم سامنے سے جاکر کے یہ گیس کنکشن دے رہے ہیں اوراب تعداد ہم 8کروڑکرنے کا فیصلہ کیاہے ۔
آیوش بھارت یوجنا میں حیران ہوں کیاملک کے غریبوں کو صحت سہولت ملنی چاہیئں کہ نہیں ملنی چاہئیں ۔ غریب پیسے کی کمی میں علاج کروانے نہیں جاتاہے ، وہ موت کو پسند کرتاہے ۔ لیکن بچوں کے لئے وہ قرض چھوڑ کر نہیں جاناچاہتاہے ۔ کیاایسے غریب پسماندہ طبقے کے کنبوں کاتحفظ کرنے کا فیصلہ غلط ہوسکتاہے ؟ہاں آپ کو لگتاہے کہ اس پروڈکٹ میں کوئی بدلاو کرنا ہے تو اچھے پوزیٹو سدھارلے کر کے آئیے ۔ میں خود وقت دینے کے لئے تیارہوں ۔ تاکہ ملک کے غریبوں کو پانچ لاکھ روپے تک سالانہ خرچ کریں اس کے کام آئے سرکارلیکن آپ اس کے لئے بھی اس طریقے کی بیان بازی کررہے ہیں ۔ اچھی یوجنا ہے ، ضرورمجھے سجھائیے ، ہم مل بیٹھ کر کے نکی کریں گے ، طے کریں گے ۔
محترمہ اسپیکر صاحبہ، ہماری حکومت نے جو قدم اٹھائے ہیں اتنے سرکار کے جماعت کے لئے سوچنے کے طور طریقے میں بدلاؤ کیا ہے۔ جن دھن یوجنا نے غریب کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے ، بینک میں پیسے جمع کررہا ہے۔ روپے ڈیبٹ کارڈ استعمال کررہا ہے۔ وہ بھی اپنے آپ کو خوشحال کنبو ں کی برداری میں دیکھ رہا ہے۔ سووچھ بھارت مشن نے خواتین کے اندر ایک بہت بڑا اعتماد پیدا کرنے کا کام کیا ہے۔ مختلف قسم کی تکلیفوں سے اس کو آزادی دینے کا سبب بنا ہے۔ اجولا یوجنا غریب ماؤں کو دھوئیں سے آزادی دلانے کا کام کررہا ہے۔ پہلے ہمارا مزدور اچھی نوکری پانے کے لئے پرانی نوکری چھوڑنے کی ہمت نہیں کرتا تھا کیونکہ پرانے جمع پیسے ڈوب جائیں گے ۔ ہم ان کے ان کلیم 27 ہزار کروڑ روپے یونیورسل اکاؤنٹ نمبر دے کر کے اس تک پہنچانے کا کام کیا ہے اور آگے غریب مزدور جہاں جائے گا اس کا بینک اکاؤنٹ بھی ساتھ ساتھ چلتا جائے گا۔ یہ کام کیا ہے۔ بدعنوانی اور کالا دھن ابھی بھی آپ کو رات میں نیند آتی، میں جانتا ہوں آپ کی بے چینی بدعنوان کے سبب ضمانت پر جینے والے لوگ ، بدعنوانی کے کاموں سے بچنے والے نہیں ہیں۔ کوئی بھی بچنے والا نہیں ہے، پہلی بار ہوا ہے ملک میں چار چار سابق وزرائے اعلی ہندستان کی عدالتوں نے ان کو قصور وار دیا ہے۔ اور جیل میں زندگی گذارنے کے لئے مجبور ہونا پڑا ہے۔ یہ ہمارا کمٹمنٹ یعنی عہد ہے۔ ملک کو جنہوں نے لوٹا ہے ان کو ملک کو لوٹانا پڑے گا اور اس کام میں کبھی پیچھے ہٹنے والا نہیں ہے میں لڑنے والا انسان ہوں اس لئے ملک میں آج ایک ایمانداری کا ماحول بنا ہے۔ ایک ایماندار ی کا اتسو ہے۔ زیادہ تر لوگ آگے آرہے ہیں۔ ان کو بھروسہ ہے کہ انتظامیہ کے پاس خزانہ میں جو پیسے جائے گا پائی پائی کا حساب ملے گا۔ وہ کام ہورہا ہے۔
آج میں ایک موزوں کو ذرا تفصیل سے کہنا چاہتا ہوں کچھ لوگوں کو جھوٹ بولو زور سے جھوٹ بولو بار بار جھوٹ بولو یہ فیشن ہوگیا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ نے بار بار اس بات کو کہا ہے کہ تو بھی ان کی مدد کرنے ، چاہنے والے لوگ، سچ کو دبا دیتے ہیں اور جھوٹ بولنے والے لوگ چوراہے پر کھڑے ہوکر زور سےجھوٹ بولتے رہتے ہیں اور وہ مسئلہ ہے این پی اے کا میں اس ایوان کے توسط سے اسپیکر صاحبہ آپ کے ذریعہ آج ملک کو بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ این پی اے کا معاملہ ہے کیا؟ ملک کو پتہ چلنا چاہئے کہ این پی اے کے پیچھے یہ پرانی سرکار کے کاروبار ہیں اور یہ صد فی صد پرانی سرکار ذمہ دار ہے ۔ ایک فی صد بھی کوئی اور نہیں ہے۔ آپ دیکھئے انہوں نے ایسی بینکنگ پالیسیاں بنائیں جس میں بینکوں پر دباؤ ڈالے گئے ۔ ٹیلی فون جاتے تھے اپنے چہیتوں کو قرض ملتا تھا وہ قرض پیسہ نہیں دے پارہے تھے ۔ بینک، لیڈر، سرکار اور بچولیئے مل کر ا س کی دوبارہ ڈھانچہ بندی کرتے تھے۔ بینک سے گیا پیسہ کبھی بینک میں آتا ہی نہیں تھا۔ بینک پر کاغذ پر آتا جاتا پھر آتا جاتا چل رہا تھا اور ملک ، لوٹا جارہا تھا۔ انہوں نے اربوں اربوں روپیہ دے دیا ہم نے بعد میں آکر کے آتے ہیں ہمارے دھیان میں موضوع آیا اگر مجھے سیاست کرنی ہوتی تو میں پہلے ہی دن ملک کے سامنے وہ سارے سچ رکھ دیتا لیکن ایسے وقت بینکوں کی حالت کی بات ملک کی اقتصادی حالت کو تباہ کردیتی ملک میں ایک ایسا بحران کا ماحول آجاتا اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا اور اس لئے آپ کے پاپوں کو دیکھتے ہوئے صبح ہوتے ہی میں نے مون رکھا۔ میرے ملک کی بھلائی کے لئے آپ کے الزام میں برداشت کرتا رہا ملک کی بھلائی کے لئے لیکن اب بینکوں کو ہم نے ضروری طاقت دی ہے اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے سامنے سچ آنا چاہئے یہ این پی اے آپ کا پاپ تھا اور میں یہ آج اس مقدس ایوان میں کھڑا رہ کر کہہ رہا ہوں میں جمہوریت کے مندر میں کھڑا ر ہ کر کہہ رہا ہوں ہماری سرکار آنے کے بعد ایک بھی قرض ہم نے ایسی نہیں دیا ہے جس کو این پی اے کی نوبت آئی ہو اور آپ نے چھپایا آ پ نے کیا کیا۔ آپ نے اعدادوشمار غلط دیئے جب تک آپ تھے آپ نے بتایا کہ این پی اے 36 فی صد ہے ہم نے جب دیکھا اور 2014 میں ہم نے کہا کہ بھئی جھوٹ نہیں چلے گا سچ کہو۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ اور جب سارے کاغذات کھنگالنا شروع کئے تھے آپ نے جو ملک کو بتایا تھا وہ غلط اعدادوشمار تھے۔ 82 فی صد این پی اے تھا، 82 فی صد مارچ 2008 میں بینکوں کے ذریعہ دیا گیا کل ایڈوانس 18 لاکھ کروڑ روپے اور ہم نے چھ سال میں آپ دیکھئے کیا حال ہوگیا ۔ 8 میں 18 لاکھ کروڑ روپے جب تک مارچ 2000 تک بیٹھے تھے یہ 18 لاکھ کروڑ پہنچ گیا 52 لاکھ کروڑ روپیہ جو ملک کے غریب کا پیسہ آپ نے لوٹا تھا اور لگاتار ہم دوبارہ ڈھانچہ بندی کرتے رہے کاغذات پر ہاں قرض آگیا قرض دے دیا آپ ایسے ہی ان کو بچاتے رہے کیونکہ بیچ میں بچولئے تھے کیونکہ وہ آپ کو چاہتے تھے کیونکہ آپ کا اس میں کوئی نہ کوئی مفاد چھپا ہوا تھا اور اس لئے آپ نے یہ کام کیا ہم نے یہ طے کیا کہ جو بھی تکلیف ہو گی ، لیکن صاف صفائی اور میری سووچھتا مہم صرف چوراہے تک نہیں ہے میری سووچتھا مہم اس ملک کے شہریوں کے لئے ان خیالات میں بھی ہے اور اس لئے ہم نے اس کام کو کیا ہے۔
ہم نے یوجنا بنائی چار سال لوگ رہے ہم نے ری کیپٹلائزیشن پر کام کیا ہے۔ ہم نے دنیا بھر کے تجربے پر مطالعہ کیا ہےا ور ملک کے بیکنگ سیکٹر کو طاقت بھی دی ہے۔ طاقت دینے کے بعد آج میں پہلی بار چار سال آپ کے جھوٹ کو جھیلتا رہتا۔ آج میں ملک کے سامنے پہلی بار یہ جانکاری دے رہا ہوں۔ 18 لاکھ سے 52 لاکھ، 18 لاکھ کروڑ سے 52 لاکھ کروڑ لوٹا دیا آپ نے ، اور آج جو پیسے بڑھ رہے ہیں وہ اس وقت کے آپ کے پاپ کا سود ہے۔ یہ ہماری سرکار کے دیئے ہوئے پیسے نہیں ہیں۔ یہ جو اعدادوشمار بدلا ہے وہ 52 لاکھ کروڑ پر سود جو لگ رہا ہے اس کا ہے اور ملک بھی اس پاپ کے لئے آپ کو معاف نہیں کرے گا۔ اور کبھی نہ کبھی تو ان چیزوں کا حساب آپ کو دینا پڑے گا۔
میں دیکھ رہا ہوں ہٹ اور رن والی سیاست چل رہی ہے کیچڑ پھینکو اور بھاگ جاؤ جتنا زیادہ کیچڑ اچھالو گے کمل اتنا ہی زیادہ کھلنے والا ہے اور اچھالو جتنا اچھالنا ہے۔ اچھالو اور اس لئے میں زرا کہنا چاہتا ہوں آپ اب اس میں کوئی الزام نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن ملک طے کرے گا کہ کیا ہے۔ آپ نے قطر سے گیس لینے کا بیس سال کا کانٹرکٹ کیا تھا اور جس نام سے گیس کا کانٹریکٹ کیا تھا ہم نے آکر قطر سے بات کی ہم نے اپنا موقف رکھا ۔ ہند سرکار بندھی ہوئی تھی آپ جو سودا کر گئے تھے ہم کو اس کو نبھانا تھا کیونکہ ملک کی سرکار اپنی ایک خصوصیت ہوتی ہے لیکن ہم نے ان کو حقائق کے سامنے رکھا ۔ ہم نے ان کو مجبور کیا اور میرے پیارے ہم وطنوں کو خوشی ہوگی ،۔ اسپیکر صاحبہ یہ مقدس ایوان میں مجھے یہ کہتے ہوئے اطمینان ہو رہا ہے کہ ہم نے قطر سے دوبارہ بات چیت اور گیس کی جو ہم خرید ی کرتے تھے تقریباً تقریباً 8 ہزار کروڑ روپے ملک کا ہم نے بچایا۔
آپ نے 8 ہزار کروڑ روپے زیادہ دیا تھا، کیوں دیا، کس لئے دیا، کیسے دیا کیا اس کے لئے سوالیہ نشان کھڑے ہوسکتے ہیں وہ ملک طے کرے گا مجھے نہیں کہنا ہے اسی طرح سے میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ آسٹریلیا کے اندر گیس کے لئے ہند سرکار کا ایک سودا ہوا تھا گیس ان سے لی جانی تھی ہم نے ان سے بھی مذاکرات کئے ، لمبے عرصے کا کیا اور آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا ۔ ہم نے چار ہزار کروڑ روپیہ اس میں بچایا۔ ملک کے حق کا پیسہ ہم نے بچایا کیوں دیا کس لئے دیا کب دیا۔ کس کے لئے دیا۔ کس لئے دیا۔ ان سارے سوالات کے جواب آپ کبھی دیں گے نہیں ، مجھے معلو م ہے ملک کی عوام جواب مانگنے والی ہے۔
چھوٹا سا موضوع ایل ای ڈی بلب کوئی مجھے بتائے کیا سبب تھا کہ آپ کو وقت نے وہ بلب تین سو ، ساڑھے تین سو روپے میں بکتا تھا ، ہندسرکار تین سو ، ساڑھے تین سو میں خریدتی تھی کیا سبب ہے کہ وہ ہی بلب تکنالوجی میں کوئی فر ق نہیں کوئی کوالٹی میں فرق نہیں ، دینے والی کمپنی ساڑھے تین سو کا بلب 40 روپے میں کیسے آنے لگا، ذرا کہنا پڑے گا، آپ کو کہنا پڑے گا آپ کو جواب دینا پڑے گا مجھے بتائیں سولر انرجی کیا وجہ ہے کہ آپ کے وقت سولر پاور یونٹ 12 روپے ، 13 روپے 14 ، 15 روپے لوٹو جس کو بھی لوٹنا ہے لوٹو بس ہمار ا خیال رکھو۔ اسی منتر کو لے کر کہ چلا آج وہی شمسی پاور دو روپے 3 روپے کے بیچ میں آگیا ہے لیکن ا س کے باوجودہم آپ پر بدعنوانی کے الزام نہیں لگاتے ، ملک کو لگانا ہے ، لگائے گا میں اس میں اپنے آپ کو صابر رکھنا چاہتا ہوں لیکن یہ حقیقت بول رہی ہے کہ کیا ہورہا تھا اور آج دنیا میں بھارت کی عزت اور آبرو بڑھی آج ہندستان کے پاسپورٹ کی طاقت ساری دنیا میں جہاں ہندستان کا پاسپورٹ لے کر جاتا ہے سامنے ملنے والا آنکھ اونچی کرکے فخر کے ساتھ دیکھتا ہے۔ اس کو شرم آتی ہے غیر ملکوں میں جاکر کے ملک کی غلط طریقے سے پیش کررہے ہو جب ملک ڈوکلام کی لڑائی لڑ رہا تھا کھڑا تھا، آپ چین کے لوگوں سے بات کررہتے تھے آپ کو یاد ہونا چاہئے ۔ پارلیمانی نظام جمہوریت ملک اپوزیشن ایک ذمہ دار فریق کیا ہوتا ہے۔ شملہ قرار دداد جب ہوئی اندرا گاندھی جی نے بے نظیر بھٹو جی کے ساتھ اقرار نامہ کیا ۔ ہماری پارٹی کا اقرار تھا لیکن تاریخ گواہ ہے اٹل بہاری واجپئی اندرا جی سے وقت مانگا اندرا جی کو ملنے گئے اور ان کو بتایا کہ ملک کے مفاد میں یہ غلط ہورہا ہے بس ہم نے باہر آکر اس وقت ملک کا کوئی نقصان نہیں ہونے دیا تھا۔ ملک کی ہماری ذمہ داری ہوتی تھی جب ہماری فوج کا جوان سرجیکل اسٹرائیک کرتا ہے ، آپ سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب ملک میں کامن ویلتھ گیم ہو ا اس ملک میں ایک کامن ویلتھ گیم ہوا ابھی بھی کیسی کیسی چیزیں لوگوں کے دل میں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں اس سرکار میں آنے کے بعد 54 ملکوں کا انڈیا ، افریقہ، چوٹی کانفرنس ہوئی، برکس چوٹی کانفرنس ہوئی ، فیفا انڈر 17 کا ورلڈ کپ ہوا، اتنی بڑی بڑی اسکیمیں ہوئیں اور ابھی 26 جنوری کو دس ملکوں کے سربراہ آکر بیٹھے تھے اور میرا ترنگا لہر ا رہا ہے۔ آپ نے سوچا نہیں تھا کبھی اور جس دن نئی سرکار کای حلف بردار ہوئی اور سارک ملکوں کے سربرا ہ ا ٓکر بیٹھ گئے تو آپ کے دل میں سوال تھا کہ 70 سال میں ہمیں کیوں سمجھ میں نہیں آیا چھوٹا من بڑی بات نہیں کرسکتا ہے۔
اسپیکر صاحبہ ایک نیو انڈیا کا خواب آپ کو لے کر کے ملک آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔ مہاتما گاندھی نے ینگ انڈیا کی بات کہی تھی سوامی وویکا نند جی نے نئے ہندستان کی بات کہی تھی ، ہمارے سابق صدر پرنب مکھرجی نے جب عہدہ پر تھے تب بھی نئے ہندستان کا خواب سب کے سامنے رکھا تھا آؤ ہم سب مل کر نئے ہندستان کو بنانے کے عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ جمہوریت میں نکتہ چینی کرنا جمہوریت کی طاقت ہے یہ ہونا چاہئے تبھی تو امرت نکلتا ہے۔ لیکن جمہوریت جھوٹے الزامات لگانے کا اختیار نہیں دیتا ہے۔ اپنی سیاسی روٹیاں سیکنے کے لئے ملک کو مایوس کرنے کا حق نہیں دیتا ہے اور اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ صدر جمہوریہ ہند کے مشترکہ اجلاس کے خطاب کو بولنے والوں نے بول دیا۔ اب ذرا آرام سے اس کو پڑھے ، پہلی بار پڑھنے پر سمجھ میں نہیں آیا تو دوبارہ پڑھے۔ زبان سمجھ نہیں آئی ہے تو کسی کی مد د لے۔ لیکن جو بلیک وائٹ میں سچ لکھا گیا ہے اس کو نکارنے کا کام نہ کرے۔ اسی ایک جذبہ کے ساتھ صدر جمہوریہ کے مشترکہ خطاب پر جن جن بااحترام ممبروں نے اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں میں ان کا خیر مقدم کرتا ہوں اورمیں سب کو کہتا ہوں کہ اتفاق رائے سے صدر جمہوریہ کے مشترکہ خطاب کو ہم قبول کریں اسی امید کے ساتھ آپ نے جو وقت دیا میں آپ کا بہت بہت شکر گذار ہوں۔