نئی دلی، ویسے تو اگست کا مہینہ، تاریخ میں اہم واقعات سےبھرپور ہے، 8 اگست ‘‘بھارت چھوڑو تحریک’’، 15 اگست کو یوم آزادی، 19 اگست‘‘ عالمی یوم انسانیت، 20 اگست ‘‘سدبھاؤنا دیوس’’، 5 اگست کو 370 ختم ہونا،یہ سب ہندوستان کی تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھے جانے والے دن ہیں۔
وہیں یکم ، اگست،مسلم خواتین کو تین طلاق کی غلط روایت،سماجی بُرائی سے آزاد کرانے کا دن، ہندوستان کی تاریخ میں ‘‘مسلم خواتین کے حقوق کے دن’’ کی حیثیت سے درج ہو چکا ہے۔
‘‘ تین طلاق’’یا‘‘طلاق بدعت’’ جو نہ توآئینی طور پر درست تھا اور نہ ہی اسلام کی رُو سےجائز تھا۔ پھر بھی ہمارے ملک میں مسلم خواتین کے استحصال سے بھرپور،غیر قانونی، غیر آئینی، غیر اسلامی عمل‘‘ تین طلاق’’،‘‘ ووٹ بینک کےتاجروں’’ کی ‘‘ سیاسی سرپرستی’’ میں پھلتا پھولتا رہا۔
یکم اگست، 2019 ہندوستانی پارلیمنٹ کی تاریخ کا وہ دن ہے،جس دن کانگریس،کمیونسٹ پارٹی، ایس پی،بی ایس پی،ترنمول کانگریس سمیت تمام نام نہاد ‘‘سیکولرزم کے سیاسی علمبرداروں’’ کی مخالفت کے باوجود، ‘‘ تین طلاق’’ کے عمل کو ختم کرنے کے بل کو قانون بنایا گیا۔ ملک کی آدھی آبادی اور مسلم خواتین کے لئے یہ دن آئینی-بنیادی-جمہوری اور مساوات کے حقوق کا دن بن گیا۔ یہ دن ہندوستانی جمہوریت اور پارلیمانی تاریخ کے سنہرے اوراق کا حصہ رہے گا۔
‘‘ طلاق ثلاثہ’’ کی غلط روایت کے خلاف، قانون تو 1986 میں بھی بن سکتا تھا، جب شاہبانوں معاملے میں سپریم کورٹ نے ‘‘ تین طلاق’’سے متعلق اہم فیصلہ لیا تھا۔ اس وقت لوک سبھا میں صرف کانگریس ممبران کی تعداد 545 میں سے 400 سے زیادہ اور راجیہ سبھا میں 245 میں سے 159 تھی،لیکن کانگریس کے جناب راجیو گاندھی کی حکومت نے5مئی 1986 کواس اکثریتی طاقت کا استعمال مسلم خواتین کے حقوق کو کچلنے اور ‘‘ تین طلاق’’، ظلم و بربریت کی غلط روایت کو مضبوطی دینے کیلئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے لئے پاریمنٹ میں آئینی حقوق کا استعمال کیا۔
کانگریس نے کچھ ‘‘تنگ نظر متشددین’’اور دباؤ کا شکار ہو کر مسلم خواتین کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کا مجرمانہ گناہ کیا تھا۔ کانگریس کے ‘‘ لمحوں کی خطا’’، مسلم خواتین کے لئے ‘‘دہائیوں کی سزا’’ بن گئی۔ جہاں کانگریس نے ‘‘ووٹ کا اُدھار’’، کی فکر کی تھی، وہیں مودی سرکار‘‘ساماجِک سدھار’’، معاشرتی اصلاح کیلئے فکر مند تھی۔
ہندوستان آئین سے چلتا ہے، کسی شریعت یا مذہبی قانون کے ذریعہ نہیں، اس سے قبل بھی ملک میں سَتی پرتھا، کمسنی کی شادی جیسی غلط روایتوں کو ختم کرنے کے لئے بھی قوانین بنائے گئے ۔ ٹرپل طلاق قانون کا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا،خالصتاً یہ قانون بدکاریوں،ظلم، معاشرتی برائیوں اور صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے پاس کیا گیا۔ یہ مسلم خواتین کے مساوات سے متعلق آئینی حقوق کے تحفظ کا موضوع تھا۔ زبانی طور پر تین بار طلاق کہہ کر طلاق دینا،خطوط،فون،یہاں تک کہ پیغام،واٹس ایپ کے ذریعے طلاق دینے کے معاملات سامنے آنے لگےتھے، جو کہ کسی بھی حساس ملک کی حکومت کے لئے ناقابل قبول تھا۔
دنیا کے بہت سے مسلم اکثریت ملکوں نے پہلے ہی ‘‘تین طلاق’’ کو غیر قانونی اور غیراسلامی بتا کر ختم کر دیا تھا۔مصر، دنیا کا سب سے پہلا اسلامی ملک ہے، جس نے 1929 میں ‘‘ تین طلاق’’ کو ختم کیا، غیرقانونی اور قابل سزا جرم قرار دیا۔ 1929 میں سوڈان نے تین طلاق پر پابندی لگائی۔
1956 میں پاکستان، 1972 بنگلہ دیش، 1959 میں عراق، ملک شام نے 1953 میں، ملیشیا نے 1969 میں، اس پر پابندی لگائی۔ اس کے علاوہ قبرص،اردن،الجیریا،ایران،برونیئی،مورکّو، قطر، یو اے ای جیسے اسلامی ممالک نے تین طلاق ختم کیا اور سخت قانون بنائے، لیکن ہندوستان کو، مسلم خواتین کو اس غلط روایت کے غیر انسانی ظلم سے آزادی دلانے میں تقریباً 70سال لگ گئے۔
جناب نریندر مودی کی حکومت نے ‘‘ تین طلاق’’ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے قانون بنایا۔ سپریم کورٹ نے 18 مئی 2017 کو تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ جہاں کانگریس نے اپنی اکثریتی طاقت کا استعمال مسلم خواتین کو ان کے حقوق سے محروم رکھنے کے لئے کیا تھا، وہیں مودی حکومت نے مسلم خواتین کے سماجی، اقتصادی، بنیادی، جمہوری حقوق کے تحفظ کیلئے فیصلہ کیا۔
آج ایک سال ہوچکا ہے،اس دوران ‘‘ تین طلاق’’یا‘‘ طلاق بدعت’’کے معاملات میں 82 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے اوراگر اِس طرح کا کوئی معاملہ ہوا بھی، تووہاں قانون نےاپنا کام کیا ہے۔
وزیراعظم جناب نریندر مودی کی حکومت،ہر طبقے کو بااختیار بنانے اورمعاشرتی اصلاحات کیلئے وقف ہے۔ کچھ لوگوں کی غیر منطقی باتیں ہوتی ہیں کہ مودی حکومت کوصرف مسلم خواتین کی ہی فکر کیوں ہے؟ ان کی معاشی،معاشرتی،تعلیمی خودمختاری کے لئے کچھ کیوں نہیں کرتے؟تو اُن کی معلومات کیلئے بتانا چاہتا ہوں کہ گذشتہ اِن 6 برسوں میں مودی حکومت کی ، ہمہ جہت ترقی، شمولیت پر مبنی خودمختاری کی کوششوں کا فائدہ سماج کے سبھی طبقوں کے ساتھ مسلم خواتین کو بھی ہوا ہے۔
پچھلے چھ برسوں میں 3 کروڑ،87 لاکھ اقلیتی طلباء-طالبات کو وظائف دیئے گئے ہیں، جن میں 60 فیصد لڑکیاں ہیں۔ پچھلے 6 سالوں میں، ‘ہنر ہاٹ’ کے توسط سے، لاکھوں دستکاروں اور کاریگروں کو روزگار کے مواقع ملے،جس میں کافی تعداد میں مسلمان خواتین شامل ہیں‘‘ سیکھو اور کماؤ’’، ‘‘غریب نواز سوروزگارمنصوبہ’’ ، ‘‘استاد’’، ‘‘ نئی منزل’’، ‘‘نئی روشنی’’ وغیرہ جیسے روزگار کوشل وکاس یوجنا کے ذریعے گذشتہ 6 سالوں میں 10 لاکھ سے زیادہ اقلیتوں کو روزگار اور روزگار کے مواقع میسر ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں مسلمان خواتین شامل ہیں۔اس کے علاوہ مودی حکومت کے ذریعے 2018 میں شروع کئے جانے والے محرم کےبغیر خواتین کے حج پر جانے کے عمل کے تحت ، اب تک بغیر محرم کے حج پر جانے والی خواتین کی تعداد 3040 ہو چکی ہے۔ اس سال بھی، 2300 سے زیادہ مسلم خواتین نے بغیر ‘‘محرم’’ (مرد رشتہ داروں) کے حج پر جانے کے لئے درخواست دی تھیں، ان خواتین کوحج 2021 میں اسی درخواست کی بنیاد پر حج کے لئے بھیجا جائے گا، ساتھ ہی آئندہ سال بھی جو خواتین بغیر کسی محرم کے حج پر جانے کے لئے نئی درخواست دیں گی، ان سبھی کو بھی حج کے سفر پر بھیجا جائے گا۔
صرف یہی نہیں،مودی سرکار کی دیگر معاشرتی طور پر بااختیار بنانے کی اسکیموں کے فوائد مسلم خواتین کو برابر ملے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج حزب اختلاف بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ معاشرتی،اقتصادی اورتعلیمی طورپر بااختیار بنانے کے لئے کئے جا رہے کاموں میں کسی بھی طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ مودی سرکار کے ‘‘عزت کے ساتھ بااختیار ہونا، بغیر کسی منھ بھرائی کے ترقی’’ کا نتیجہ ہے کہ 2 کروڑ غریبوں کو مکانات دیئے گئے ہیں، تو اس میں 31 فیصد اقلیت ہیں،خاص طور پر مسلم برادری ہیں۔22 کروڑ کسانوں کو ، کسان سمّان ندھی کے تحت مستفید کیا گیا، تو اُس میں بھی 33 فیصد سے زیادہ اقلیتی طبقے کے غریب کسان ہیں۔8کروڑ سے زیادہ خواتین کو ‘‘اجولا یوجنا’’ کے تحت مفت گیس کنکشن دیا گیا،تو اس سے 37 فیصد اقلیتی برادری کے غریب کنبے مستفید ہوئے۔24کروڑ لوگوں کو ‘‘مُدرا یوجنا’’ کے تحت کاروبار سمیت دیگر معاشی سرگرمیوں کے لئے آسان قرضے دیئے گئے ہیں، جس میں 36 فیصد سے زیادہ اقلیتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ دہائیوں سے تاریکی میں ڈوبے، ہزاروں گاوؤں میں بجلی پہنچائی گئی، تواس کا زبردست فائدہ اقلیتوں کو بھی ہوا۔ ان تمام اسکیموں کا فائدہ بڑے پیمانے پر مسلم خواتین کو بھی ہوا، اور وہ بھی ترقی کے کامیاب سفر کی ہمسفر بنی ہیں۔
از:مختار عباس نقوی، مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور