16.3 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

عدیس ابابا یونیورسٹی میں صدر جمہوریہ ہند جناب رام ناتھ کووند کا خطاب

Address of the President of India Shri Ram Nath Kovind Addis Ababa University
Urdu News

نئی دہلی، میرے لئے یہ ازحد مسرت کی بات ہے کہ میں آپ سب کے درمیان اس سفر کے اختتام کے مراحل میں یہاں موجود ہوں جو میرے لئے ازحد کامیاب اور ایتھوپیا کا ازحد جذباتی سفر رہا ہے۔ میں نےصدر جمہوریہ ہند کے طور پر 2 مہینے سے قدر زائد عرصہ قبل  عہدہ سنبھالا ہے۔ جب سمندر پار میرے اس سرکاری دورے کی تیاری ہورہی تھی تو میں نے محسوس کیا کہ افریقہ جیسے ملک کے لئے یہ ازحد اہم دورہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا براعظم ہے جو ہمیشہ سے بھارت کی خارجہ پالیسی  اور بھارتی فکر میں مرکزی حیثیت کا حامل رہا ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ یہ وہی براعظم ہے  جہاں مہاتما گاندھی یعنی بابائے قوم نے سچائی اور آزادی کے لئے اپنے مشن کا آغاز کیا تھا۔

میرے اولین دورے کے لئے ایتھوپیا کو خصوصی توجہ والے ملک کے طور پر منتخب کیا جانا  اس امر کا غماز ہے کہ ہم بھارت کے لوگ  آپ کے ملک اور عالمی اداروں میں آپ کے قائدانہ کردار کو کتنی اہمیت دیتے ہیں بلکہ  وقت کی کسوٹی پر ہمارے دوستی بھی کھری اتری ہے جس کی تاریخ 2000 سال پرانی ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہمارے دونوں ملک،  ہماری تہذیبیں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ ربط و ضبط رکھتی تھیں۔

میں چائے کی سرزمین سے کافی کی سرزمین پر ایک زائر کی حیثیت سے وارد ہوا ہوں۔  دورے کے طور پر یہ ملاقات دو پرانے دوستوں کے طور پر مکمل ہے۔ آپ کا ملک اور آپ کی حکومت کی میزبانی بڑی گرمجوشانہ رہی ہے۔ آج اس ممتاز دانش گاہ میں آنا ایک اضافی اعزاز ہے کیونکہ یہ ایتھوپیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی ہے جس کی تاریخ 1950 سے تلا ش کی جاسکتی ہے۔ اسی سلسلے میں اگر ہم غور کریں تو ہم اس حال میں کھڑے ہیں جس کا نام نیلس منڈیلا کے نام پر رکھا گیا ہے جو ہمارے وقت کے ویسے ہی ہیرو تھے جیسے بہت سارے معنوں میں افریقہ کے لئے گاندھی جی تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ تاریخ کے دو عظیم ترین انسانوں  کی دعائیں  آج ہمارے ساتھ ہیں۔

ایتھوپیا اور بھارت بحر ہند کے ذریعہ منقسم اور متحد ہیں۔ صدیوں سے ایتھوپیا اور بھارت کے مابین  آنے جانے والے لوگوں نے بحر ہند میں سفر کیا ہے اور مختلف اشیا کی تجارت کی ہے جن میں سونا، ہاتھی دانت سے لیکر مسالے اور ادویہ تک شامل ہیں۔ تاہم سب سے اہم کارگو جو یہ افراد اس مقتدر سمندر کے پار لےجاتے رہے ہیں وہ ہے سرمایۂ علم۔سرمایہ علم کی پرورش تعلیم نی کی ہے اور اس کے بدلے میں علم نے اصولوں کی شکل لے لی۔ ان اقدار کی شکل لے لی جو ہمارے دونوں ممالک میں مشترکہ ہیں۔ ایتھوپیا۔ بھارت شراکت داری صحیح معنوں میں دو اذہان کو سنگم ہے۔

ہمارے دونوں ممالک کے درمیان تعلیمی تعاون، ہمارے روابط کی جان رہا ہے۔ جب ایتھوپیا نے اپنے یہاں تعلیمی شعبے کو فروغ دینے اور اس کی توسیع کی کوششیں شروع کیں، بھارت اساتذہ کو  ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے لئے مدعو کیا گیا۔ ان پیش رو نے ملک کے دور دراز علاقوں کا سفر کیا، نوجوان اذہان میں  اقدار اور نظریات کے بیج بوئے اور اپنی پوری زندگی تدریس کے مقدس پیشے کے لئے وقت کردی۔

 میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے چند افراد اب بھی یہاں رہتے ہیں اور چند شاید یہاں موجود بھی ہیں۔ میں یہ بھی ماننے پر مجبور ہوں کہ تقریباً ہر ایک ایتھوپیائی جسے کسی بھارتی استاد نے پڑھایا ہے،  اسے اس کے ذہن میں اس  زمانے کی یادیں ضرور محفوظ ہوں گی، جب وہ اپنے نشو نما کے دور میں تھا اور بھارت کے ذکر پر اس کے لبوں پر مسکراہٹ ضرور آتی ہوگی۔ میں ان تمام اساتذہ کو ان کی کوششوں کے لئے قابل تعریف سمجھاتا ہوں۔ انہوں نے ہمارے ممالک میں قابل ذکر خدمات انجام دی  ہیں۔ ہم کتنا بھی شکریہ ادا کریں، ان کا حق نہیں ادا کرسکتے۔

ابتدائی اسکولوں میں بھارتی اساتذہ کے ساتھ جو کچھ شروع ہوا، حالیہ برسوں میں اسے اعلی تعلیمی سلسلے میں منتقل کردیا گیا ہے۔ بھارتی پروفیسر ایتھوپیا میں مختلف یونیورسٹیوں میں مصروف روزگار ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ 2000 سے زائد بھارتی اساتذہ تدریس اور تعلیمی تحقیق کی کام میں ایتھوپیا  یونیورسٹیوں میں گونا گوں  شعبوں مثلاً عمرانیات، سوشل سائنسز، انجینئرنگ، بزنس منیجمنٹ اور ادویہ کے شعبوں میں مصروف عمل ہیں۔

ایتھوپیا کی یونیورسٹی میں باہر سے آئی ہوئی قابل قدر اساتذہ برادری میں  بھارتی اساتذہ کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ ہماری متعلقہ تعلیمی  برادریوں کے مابین ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ انہوں ے دونوں ممالک میں مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے مابین ایک رابطہ اور تحقیقی اشتراک بہم پہنچایا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس طرح کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

میں زور دیکر کہنا چاہوں گا کہ تعلیم کا اصل مقصد اچھے انسان کی تخلیق ہے۔ اگر آپ ایک اچھے انسان ہیں تو آپ حیات انسانی کی بنیادی  خوبی میں یقین رکھتے ہوں گے۔ آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے اور جو کچھ بھی کریں گے ، وہاں ہر حال میں یہ خوبی آپ کے ساتھ رہے گی۔ اگر آپ استاد ہیں تو آپ اچھے استاد ہوں گے۔ اگر آپ منتظم ہیں تو ہر حال میں اچھے منتظم ہوں گے۔  اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو آپ یقیناً ڈاکٹر ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ تعلیم کی اصل یہی ہے۔

دوستو !

جس طریقے سے بھارتی اساتذہ نے ایتھوپیائی اداروں میں اپنا تعاون دیا ہے، اسی طریقے سے ایتھوپیا طلبا کی ایک بڑی تعداد نے بھارت میں علم دانش اور ثقافتی شعبے میں اپنی موجودگی سے تزئین کاری کی ہے۔ ان طلبا نے اپنی ڈگریوں اور اپنے علم کا استعمال اپنی مادر وطن یعنی ایتھوپیا میں آکر کیا ہے اور وہ بھارت کے خصوصی دوست بھی ہیں۔ یہ ہمارے لئے بڑی مسرت کی بات ہے کہ بھارتی تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل  افراد اس ملک میں مقتدر مقامات پر فائز ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ خاتون اول اور کابینہ کے کم سے کم 9 وزرا اسی زمرے میں آتے ہیں۔

          بھارتی تعلیمی اداروں میں ایتھوپیائی طلبا کی قابل ذکر اور لائق خیر مقدم آمد کا آغاز  اُس وقت ہوا تھا ، جب بھارتی تکنیکی اور اقتصادی تعاون پروگرام  ، جسے عرف عام میں آئی ٹی ای سی کے نام سے جانا جاتا ہے  ، کا آغاز 1969 ء میں ایتھوپیا میں ہوا تھا ۔ بعد ازاں مختلف اسکیمیں اس فلیگ شپ پروگرام میں جوڑ دی گئیں  ۔

          ہر سال سینکڑوں ایتھوپیائی طلبا کو بھارت  اپنے افریقی  اسکالر شپ پروگرام کے تحت خوش آمدید کہتا ہے ۔ وہ پوری طرح سے سرمایہ فراہمی والی اسکالر شپ کی بنیاد پر بھارت آتے ہیں  تاکہ یا تو یہاں تحقیق کر سکیں یا اعلیٰ ڈگری حاصل کر سکیں ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک اوسط کے لحاظ سے ہر دن ایک ایتھوپیائی  جہاز پر سوار ہوتا ہے ، جس کا مقصد  ان اسکالر شپوں کو حاصل کرنا یا تربیتی پروگراموں سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے ۔  ہم دونوں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مابین  تعاون کی یہ ایک تابناک مثال ہے ۔

          اس کے علاوہ ،  پین – افریقی  ای نیٹ ورک پروجیکٹ بھی موجود ہے ، جو تعلیمی اور صلاحیت سازی اشتراک کے معاملے میں  افریقی ممالک میں  ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔  اس میں  ایتھوپیا اور بھارت کا ایک کورس بھی شامل ہے ۔ یہ 2009 ء میں مرتب کیا گیا تھا ۔ عدیس ابابا میں  8 برس قبل وضع کیا گیا تھا ۔ یہ افریقہ اور بھارت کے 48 ممالک کو مربوط کرتا ہے ۔

یہ نیٹ ورک بھارت میں 5 مقتدر یونیورسٹیوں کے توسط سے  ٹیلی ایجوکیشن خدمات فراہم کرتا ہے ۔  اس کے ساتھ ساتھ ٹیلی میڈیسن خدمات بھی فراہم کی جاتی ہیں ۔ آپریشن کے پہلے مرحلے میں تقریباً 7000 طلباء نے بھارتی یونیورسٹیوں سے پوسٹ گریجویٹ ، انڈر گریجویٹ اور ڈپلومہ سرٹیفکیٹ کورس مکمل کئے تھے ۔  حکومت ہند اب اس فریم ورک کو  آن لائن کورس فراہم کرکے وسعت دینے  کی کوشش کر رہی ہے اور ان کے درجات کو بہتر بنا رہی ہے تاکہ پورے افریقہ کے طلبا کو آن لائن کورس فراہم ہو سکیں ۔

دوستو

          صدر جمہوریہ نے کہا کہ ایتھوپیا اور ہندوستان دونوں نو جوان ممالک ہیں ۔ ہندوستان کے 65 فی صد عوام 35 سال سے کم عمر کے ہیں اور ایتھوپیا کے 64 فی صد عوام 25 سال سے کم عمر کے ہیں ۔ ہمیں ایک جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ یہ سینٹرس ہمارے طلباء اور نو جوان لوگوں کو تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں اور ہنر مند بنا رہے ہیں ، جن سے وہ 21 ویں صدی کی معیشت میں خود کو کھڑا کرسکیں  اور اپنی توقع کے مطابق روز گار حاصل کر سکیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے اندر یہ احساس بھی کار فرما رہے کہ ترقی اور فروغ  کو پانی اور موسمیاتی تبدیلی کی تشویشات  کو ذہن میں رکھتے ہوئے آگے بڑھا جائے اور صاف ستھری  اور قابل احیاء توانائی کے شعبے میں موجودہ جدت طرازی اور مواقع کو بروئے کار لایا جائے ۔

          اس کے علاوہ ، ایک ایسے اقتصادی ماڈل کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ، جو مقامی برادریوں  کی ضروریات کی تکمیل کر سکے نہ کہ اُن سے کچھ تقاضہ کرے ۔ افریقہ کے مستقبل  کے لئے یہ ایک بنیادی شرط ہے اور جہاں تک بھارت کے مستقبل کا سوال ہے تو ہمارا مستقبل مشترکہ ہے اور ہمارے نو جوانوں کے مستقبل کے لئے بھی یہی مناسب ہے ۔   اس معاملے میں ایتھوپیا  اور در اصل پورا افریقہ بھارت کو  ایک  کمر بستہ اور حساس شراکت دار پائیں گے ۔

          ہم نے ، ہمیشہ  ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر حالات کا سامنا کیا ہے ۔ 1940 ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران بھارتی سپاہیوں نے ایتھوپیائی سپاہیوں کو  غیر ملکی حملے سے ، اپنے ملک کو آزاد کرانے  کی کوششوں   میں تعاون دیا تھا ۔    عجب بات یہ ہے کہ یہ اس وقت ہوا تھا، جب خود بھارت آزاد نہیں ہوا تھا ۔ ایتھوپیائی اور بھارتی لوگوں نے  لمبے عرصے سے  ایک دوسرے  کو جانا ہے اور ایک دوسرے پر بھروسہ کیا ہے ۔

          ممالک اور معاشروں کے مابین دوستانہ تعلقات  فروغ پاتے ہیں اور بالیدہ ہوتے ہیں ۔ تقریباً اسی ڈھنگ سے ، جیسے ایتھوپیا کی  قہوہ  کی تقریب  منعقد ہوتی ہے ۔  اس طرح کے دوستانہ  تعلقات کے نتائج  فوری طور پر سامنے نہیں آتے ۔ یہ کم دوری کی دوڑ نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ایک طویل دوڑ ہوتی ہے اور یقینی طور پر بکیلا اور گیبرسیلاسی کی سرزمین  طویل دوری کے دوڑنے والوں  کی قدر و قیمت سے واقف بھی ہے اور ان کو تحفظ بھی دیتی ہے ۔

          بھارت میں ، ایتھوپیا  کو ایک طویل دوری تک دوڑنے والے شراکت دار کی حیثیت حاصل ہے ۔  آیئے ، ہم ہر بندش اور رکاوٹ کو ایک ساتھ مل کر پار کریں ۔

          آپ سب کا شکریہ اور آپ سب کے لئے میری نیک ترین خواہشات ۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More