نئی دہلی، کامرس وصنعت اور شہری ہوابازی کے وزیر جناب سریش پربھو نے کہا ہے کہ بھارت دنیا میں ایک سب سے بڑا قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں توسیع کا پروگرام چلارہا ہے۔ جس وقت یہ پروگرام کامیاب ہوجائے گا تو یہ بھارت کو’’سن شائن کنٹریز‘‘ (سورج کی روشنی والے ملک) کے وسط میں پہنچادے گا ۔ بین الاقوامی شمسی اتحاد پروجیکٹ 120 سے زیادہ ملکوں میں شمسی توانائی کی ترقی اور فروغ کے لئے کام کررہا ہے۔
آج نئی دہلی میں قابل تجدید توانائی مذاکرات میں تقریر کرتے ہوئے جناب سریش پربھو نے کہا کہ بھارت نے 2030 تک غیر معدنی ایدھن کے وسائل سے بجلی کی کل پیداوار کا 40 فیصد حصہ حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی شمسی اتحاد مارکیٹ میں مثبت اشارے دے رہا ہے اس وجہ سے سبھی ملک قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کرنا چاہتے ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کی دستیابی کی ہمت افزائی کررہے ہیں اور اس طرح قابل تجدید توانائی میں مالی سرمایہ کاری کو فروغ مل رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت ہند کا ہدف 2022 تک 20 جی ڈبلیو شمسی بجلی کی صلاحیت نصب کرنا تھا جسے چار سال پہلے یعنی جنوری 2018 میں شمسی پارکوں کے ذریعے حاصل کرلیا گیا ہے۔ اب بھارت نے 2022 تک مزید 100 جی ڈبلیو شمسی بجلی حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
ان مذاکرات کی وجہ سے کئی قومی اور بین الاقوامی فریقین قابل تجدید توانائی کے سیکٹر کو درپیش مختلف چیلنجوں پر تبادلہ خیال کے لئے یکجا ہوئے ہیں۔ چھتوں پر شمسی پینل لگانے ، صاف توانائی میں سرمایہ کاری کا رجحانات ، قابل تجدید توانائی میں کٹوتی کے معاملے سے نمٹنے اور ابھرتی ہوئی معیشوں میں قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ میں خطرات وغیرہ پر مذاکرات کے دوران تبادلہ خیال کیا گیا۔
قابل تجدید توانائی مذاکرات کا انعقاد ماحولیات اور پانی سے متعلق توانائی کی کونسل (سی ای ای ڈبلیو) نے نئی اور قابل تجدید توانائی کی وزارت ، بین الاقوامی شمسی اتحاد ، بین الاقوامی توانائی ایجنسی ، شکتی سسٹینبل انرجی فاؤنڈیشن (ایس ایس ای ایف) اور آر ای این -21 کے اشتراک سے منعقد کئے تھے۔ مذاکرات کے اس ایڈیشن میں مارکیٹ کی تشکیل اور مارکیٹ کے رجحانات پر خصوصی توجہ دی گئی۔