لکھنؤ ۱۰ اپریل : شیعوں کےمسائل اور بنیادی حقوق کے مطالبہ کے لئے،مسلمانوں کے شرعی مسائل میں بیجا مداخلت ،گائے کشی کے نام پر نام نہاد تنظیموں کی غنڈہ گردی اور بابری مسجد معاملہ کے تصفیہ کے لئے آج دفتر مجلس علماء ھند واقع حسینیہ غفرانمآب لکھنؤ میں مجلس علماء ھند کی مشاورتی کمیٹی کا اہم جلسہ منعقد ہوا ۔مشاورتی اجلاس میں مہاراشٹر ،گجرات،بنگال،دہلی،اترپردیش،تمل ناڈ ،کشمیر ،کارگل اور دیگر ریاستوں کے نمائندگان نے شرکت کی ۔اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے مجلس مشاورت کے اراکین نے کہاکہ ہمیشہ حکومتوںنے شیعوں کو انکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا ،شیعہ اقلیت در اقلیت ہونے کی بنیاد پر ہر بنیادی سہولیات سے محروم رہے ۔اقلیتوں کے نام پر دی جانے والی ضروری سہولیات بھی شیعوں کے پسماندہ علاقوں تک نہیں پہونچتیں ۔ساتھ ہی شیعوں کی ترقی و فلاح کے لئے وقف کی گئ جائدادوں پر بھی دوسروں کے قبضے ہیں یا اب تک وقف بورڈ ان جائدادوں کے ساتھ خرد برد کرتا آیاہے اسلئے شیعہ طبقہ سماجی،و تعلیمی طور پر حاشیہ پر ہے،علماء نے مطالبہ کیا کہ اوقاف کی حفاظت کے لئے اعلیٰ پیمانے پر جانچ کرائی جائے کیونکہ سب سے زیادہ نقصان شیعہ اوقاف کا ہواہے ۔جلسہ میں مطالبہ کیا گیا کہ شیعوںکے مسائل اور حالات کےصحیح اندازہ کے لئے حکومت کمیشن تشکیل دے تاکہ اس رپوٹ کی روشنی میں شیعہ فرقہ کی ترقی و فلاح کے لئے کام ہوسکے ۔علماء نے کہاکہ موجودہ سرکار کا نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ہے اس لئے شیعوں کی ترقی کے لئے مضبوط لائحۂ عمل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر انکے مسائل کو حل کیا جاسکے ۔علماء نے کہاکہ سچر کمیٹی کی رپوٹ میں بھی شیعہ مسلک کے مسائل کو نظرانداز کیا گیا ۔علماء نے کہاکہ ہمارا قدیمی مطالبہ ہے کہ حکومتوں کی طرف سے جو بھی پیکیج مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اس میں شیعہ مسلک کو ۲۰ فیصد ریزرویشن دیا جائے تاکہ شیعوں کی پسماندگی دورہوسکے۔
مجلس علماء ھند کے اراکین نے کہاکہ تین طلاق کا مسئلہ کچھ مسالک کا مسئلہ ہے لہذا اس میں کسی بھی تنظیم یا بورڈ کو مداخلت کا حق نہیں ہے ۔علماء نے کہا کہ شیعہ تنظیمیں ان مسائل میں بے سبب مداخلت کرکے حالات خراب نہ کریں۔ اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے مسلک کے شرعی مسائل میں مداخلت کرنا ماحول کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔علماءنے واضح طورپر کہاکہ قرآن و سنت کی روشنی میں فقہ جعفری میں طلاق کا مسائلہ حل شدہ ہے لہذا اس مسئلے میں ہمیں مداخلت کی ضرورت نہیں ہے ۔علماء نے اتحاد اسلامی کا ثبوت دیتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کے جتنے بھی مشترک مسائل ہیں ان میں ہم مسلمانوں کے ساتھ ہیں ۔
گائے کشی کے نام پر نام نہاد تنظیموں کی غنڈہ گردی کی مذمت کرتے ہوئے علماء نے کہاکہ مرکزی حکومت ایسی تنظیموں پر پابندی عائد کرے جو گائے کے تحفظ کے نام پر انسانوں کا بے دریغ خون بہارہی ہیں اور غنڈہ گردی کو فروغ دے رہی ہیں ۔علماء نے کہاکہ اسلام کسی کے بھی مقدسات کی توہین کی اجازت نہیں دیتاہے۔
علماء نے بابری مسجد معاملہ کے تصفیہ پربات کرتے ہوئے کہاکہ بابری مسجد کے مسئلہ کاحل اگر بات چیت کے ذریعہ ہوجائے تو اچھاہے ۔اگر بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کا حلم ممکن نہیں ہے تو آخری راستہ سپریم کورٹ ہے ۔تمام مسلمان سپریم کورٹ کے فیصلے کا استقبال کریں گے ۔
مجلس عاملہ نے طے کیاہے کہ اوقاف کی حفاظت اور شیعوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے وہ وزیر اعظم ،وزیر داخلہ ،اقلیتی وزیراور وزیراعلیٰ اترپردیش کو خط لکھے گی تاکہ شیعوں کی پسماندگی دور ہوسکے ۔اجلاس میں مولانا حسین مہدی حسینی (صدر مجلس علماء ھند )ممبئی مہاراشٹر ،مولانا سید کلب جواد نقوی (جنزل سکریٹری ) ،مولانا محسن تقوی دہلی (نائب صدر )مولانا نعیم عباس نوگانوں سادات (نائب صدر )،مولانا غلام محمد مہدی خان چنئی،مولانا میر اظہر علی علی پوربنگلور،مولانا کرامت حسین جعفری مہاراشٹر ،مولانا آغا سید حسن موسوی سرینگر کشمیر،مولانا سید محمد حسین لطفی کارگل ،مولانا صفدرحسین جونپوری ،مولانا اطہر عباس کلکتہ، مولانا محمد رضا غروی ،مولانا عابدعباس دہلی ،مولانا رضاحسین لکھنؤ،مولانا تسنیم مہدی لکھنؤ ،مولانا موسی رضا لکھنؤ،مولانا احتشام الحسن لکھنؤ مولانا نثار احمد زین پوری لکھنؤ ،اور مولانا تقی حیدر موجود رہے۔مجلس مشاورت کے علاوہ پریس کانفرنس میں مولانا فیروزحسین،مولانا شباہت حسین اورمولانا وصی عابدی بھی شریک ہوئے۔مجلس مشاورت کی میٹنگ کے بعد جلد ہی مجلس علماء ھند کا اجلاس ہر ریاست میں منعقد ہوگا اور نئی کمیٹیاں تشکیل دی جائینگی تاکہ تیزی سے منصوبوں پر کام ہوسکے ۔