نئی دہلی، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہر کسان کو ترقی پسند کسان ہونا چاہئے مرکزی وزیر زراعت جناب نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ کسانوں کو نئی ٹیکنالوجیوں اور نئی پیش رفتوں کو اپنے کھیتوں میں استعمال کرنا چاہئے اور انہیں سائنسدانوں نیز مقامی کرشی وگیان کیندروں سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہئے۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے کسانوں کی خوشحالی کے لئے ذہن سازی کے سلسلے میں ٹیکنالوجیکل ایجادات اور حکمت عملی کے دو روزہ ذہن ساز اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ ‘گاؤں، غریب ،کسان’ ہمیشہ وزیر اعظم کے ذہن میں رہتے ہیں اور اس سلسلے میں کئے جانے والے تمام اقدامات کا مقصد کسانوں کی آمدنی 2022ء تک دوگنا کرنا ہے ۔جناب تومر نے اس اجلاس کا افتتاح آج نئی دہلی میں وزائے مملکت جناب پرشوتم روپالا اور جناب کیلاش چودھری کی موجودگی میں کیا۔
وزیر موصوف نے کہا کہ زراعت کو ایک اہم شعبہ ہونے کی حیثیت سے معیشت کو مستحکم بنانے والا رول ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس شعبے کی جدید کاری اور ٹیکنالوجیکل پیش رفت متعلقہ شعبے کے لئے ضروری ہے، جس کے لئے آئی سی اے آر زبردست رول ادا کرسکتا ہے۔وزیر موصوف نے یہ بھی کہا کہ کسانوں کے ساتھ بات چیت کا یہ سلسلہ جو جولائی میں راجستھان کے ساتھ شروع ہوا تھا تمام دوسری ریاستوں کے ساتھ بھی جاری رہنا چاہئے اور یہ کہ اس اقدام سے زرعی برادری کی خوشحالی میں یقینی طورپر مدد ملے گی۔ کسانوں سے جدید ٹیکنالوجیاں اپنانے کی اپیل کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ اس دوروزہ اجلاس میں جو تبادلہ خیال ہوگا اور اس کا جو نتیجہ نکلے گا اسے زرعی کھیتوں میں اپنایا جانا چاہئے۔
زرعی سیکٹر کے بڑے چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے مثلاً مارکیٹ تک رسائی اور زرعی برآمدات کا فروغ، جناب تومر نے کہا کہ ان میں ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ کسانوں کو ان کی مصنوعات کی مناسب قیمت نہیں ملتی۔انہوں کہا کہ اس کے لئے کسانوں اور اس شعبے میں کام کرنے والے تحقیق کاروں کے درمیان بہتر تال میل کی ضرورت ہے، تاکہ زرعی مصنوعات میں بہتری لائی جاسکے۔بھارتی مصنوعات کو اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ دنیا کی دیگر مصنوعات کا مقابلہ کرسکے اور اس طرح انہیں بازار سے بہتر قیمت مل سکے۔حالانکہ کسانوں کو سبسڈی اور سرکاری امداد ملتی ہے، تاہم ان کا مقصد پوری طرح حکومت کی امداد پر انحصار کرنا نہیں،بلکہ مصنوعات میں بہتری لانے کے لئے خود اپنے طورپر اقدامات کرنا ہونا چاہئے۔مربوط اور نامیاتی کاشت کاری کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ زراعت کو صرف اناج اُگانے تک محدود نہیں رہنا چاہئے، بلکہ مربوط زراعت کا طریقہ اپنایا جانا چاہئے، جس میں ماہی پروری ، مرغی پالن، مویشی پالن اور شہد کی مکھیوں کو پالنے جیسی سرگرمیاں اپنائی جاتی ہیں اور اسے بھی زراعت کا ایک حصہ سمجھا جاتا ہے۔اگر ہر کسان یہ کام کرنے لگے تو جی ڈی پی کے سلسلے میں زراعت کا حصہ بڑھ جائے گا۔
وزارت زراعت کے سیکریٹری جناب سنجے اگروال نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ مرکزی حکومت کسی خاس ریاست کے بارے میں تبادلہ خیال کررہی ہے اور وہ بھی کسانوں سے براہ راست۔ سیکریٹری موصوف نے یہ بھی کہا کہ بینک کاری کے کام کاج کو اب آسان بنادیا گیا ہے اور کسان آسانی سے اپنے کھاتے کھول سکتے ہیں۔کسانوں پر زور دیتے ہوئے کہ وہ کسانوں کی نئی پنشن اسکیم –پی ایم من دھن یوجنا میں شامل ہوجائیں۔ سیکریٹری موصوف نے کہا کہ جو کسان پی ایم کسان اسکیم میں پہلے ہی اندراج کرا چکے ہیں، انہیں ان کے رجسٹرڈ موبائل فون پر تمام اطلاعات ملنا شروع ہوجائیں گی۔
ڈاکٹر ترلوچن مہاپاتر ، سیکریٹری (ڈی اے آر ای) اور ڈی جی (آئی سی اے آر)نے نئی اور جدید ٹیکنالوجیاں اپنائے جانے پر زور دیا، جس سے کسانوں کی آمدنی 2022ء تک دوگنا کرنے کے نشانے کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے چند مسائل کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر مہاپاتر نے کہا کہ تبادلہ خیال اس بات پر ہونا چاہئے کہ کس طرح مصنوعات کی مناسب قیمت کو یقینی بنایا جائے، ایف پی اوز،سائنسدانوں اور اداروں کے رول کے ذریعےمارکیٹ میں بہتری لائی جائےاور ان ریاستوں میں فصلوں کے تنوع کو ممکن بنایا جائے۔
وزیر موصوف نے اس موقع پر آئی سی اے آر کے مختلف اداروں کی طرف سے تیار کردہ تشخیصی کِٹوں اور ٹیکوں کی شروعات بھی کی اور 8 آئی سی اے آر موبائل ایپلی کیشنز کا آغاز کیا۔ ذہن سازی کے اس دو روزہ اجلاس میں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے 300 سے زیادہ کسان طلباء، صنعت کار، وائس چانسلرز اور اداروں کے ڈائریکٹرز شرکت کررہے ہیں۔