مرکزی وزیرٹیکسٹائل محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے کہا کہ حکومت، صنعت اور تمام اسٹیک ہولڈروں کی مشترکہ کوششوں سے پی پی ای بحران ہندوستان کے لئےا یک موقع میں تبدیل ہوا ہے۔آج یہاں ’’آتم نربھر بھارت کی سمت میں ایک تحریک‘‘ کے موضوع پر منعقد ایک ویبنار میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کامیابی کا سفر ملک میں دیگر مینو فیکچرر کے لئے ایک تحریک بن گئی ہے اور کامیابی کی اس کہانی کو دوسرے سیکٹروں میں آگے بڑھایاجاسکتا ہے۔ انھوں نےکہا کہ ’’اگرچہ صحت بحران کی وجہ سے پی پی ای مینو فیکچرنگ پر زور دیا جانا ضروری تھا، لیکن پی پی ای کی کامیابی نے دوسری صنعتوں میں دیسی مینوفیکچرز کے لئے نئے دروازے کھول دئیے ہیں۔‘‘ وزیر موصوفہ نے کہا کہ حکومت اور صنعتوں کےمابین کچھ اعتماد باقی تھا، جس نے اسے کامیاب بنایا۔ حکومت کو ذ مہ دار اور محدود وقت میں چیلنج سے نمٹنے کیلئے صنعتوں کی سراہنا کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’کسی بھی صنعت نےنہ تو سبسڈی کا مطالبہ کیا اور نہ ہی حکومت نے اس کی پیش کش کی۔ ایک دوسری بات جس پر مجھے فخر ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے براہ راست 5 لاکھ مستقل روزگار وں کو یقینی بنایا ہے۔ یہ پی پی آئی اور تجرباتی انقلاب کا حصہ ہے، جسے اجاگر نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
محترمہ ایرانی نے بتایا کہ اکتوبر تک پی پی ای سوٹس اور ماسک کی مینوفیکچرنگ میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران گھریلو سطح پر 6 کروڑ پی پی ای کٹس مینو فیکچر کی گئیں جن میں سے 2 کروڑ پی پی ای سوٹس کی برآمدات کی گئی۔ 15 کروڑ سے زیادہ این-95 ماسک تیار کئے گئے جن میں سے 4 کروڑ ماسک برآمد کئے گئے۔ انھوں نے کہا کہ صفر سے آغاز کرتے ہوئے، آج ملک بھر میں 1100 سے زیادہ پی پی ای سوٹس کمپنیاں اور 200 سے زیادہ این-95 ماسک گھریلو مینوفیکچرر کمپنیاں موجود ہیں۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ ’’ہم نے بین الاقوامی معیار کی کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ ہم واحد ایسی انڈسٹری بنے ہیں جس نے پوری اقتصادی دنیا میں جاری لاک ڈاؤن کے دوران بہتری کی ہے۔ اور بہت ہی کم لاگت یا درآمدگی لاگت کے مقابلے 10 فیصد پر ایسا کرکے دکھایا ہے۔ ہم نے نہ صرف اس کی جسامت میں توسیع کی ہے، بلکہ ہم لاگت کے معاملے میں دنیا کے مقابلے سب سے بہتر ہیں۔ میرے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ انڈسٹری اور حکومت ایک ساتھ آچکی ہیں۔ ‘‘ مرکزی وزیر نے پورے اعتماد اور دل سے حمایت دینے کے لئے صنعتکاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سہولت کار کے طور پر کام کرے گی اور صنعتوں کو ان کی ترقی کے لئے معاون ماحول اور ای-کو نظام مہیا کراتی رہے گی۔
وزارت ٹیکسٹائل کے سکریٹری جناب روی کپور نے اپنے خطاب میں پی پی ای مینوفیکچرنگ میں ٹیکسٹائل وزارت کی کامیابی کی کہانی کے دستاویز تیار کرنے کے لئے انسٹی ٹیوٹ فار کومپیٹیٹونیس (آئی ایف سی) کے ذریعے کی گئی کوششوں کی تعریف کی۔ انھوں نے کہا کہ اس سفر کی شاندار بات یہ ہے کہ ہندوستان نے ایک ایسی صنعت قائم کی ہے، جس کا 60 دن پہلے تک یہاں کوئی وجود نہیں تھا۔انھوں نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ حکومت انڈسٹری کی ان کوششوں میں کس طرح مدد کررہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم منصوبہ بندی کرکےصنعتوں کو ان کی فطری حالت سے باہر نکال رہے ہیں اور انہیں ایسے فائبر اور تکنیک سے بنے ملبوسات کی جانب راغب کررہے ہیں جو انسانوں کے ذریعے بنایا گیا ہو۔ ہم مختلف منصوبوں کے ذریعے اور خام مال کی سپلائی میں آرہی روکاوٹ کو دور کرکے، ایک انتہائی سہل کپڑا پالیسی بناکرنیز کپڑوں کی تکنیک میں ایک عالمی سطح کی تجربہ گاہ کے قیام وغیرہ کے ذریعے ایک مکمل ایکو نظام تیار کررہے ہیں۔ اس طرح، پوری طرح سے نیا کپڑا ایکو نظام نافذ کیا جارہا ہے۔ اگر سب کچھ صحیح رہتا ہے تو ایک سے دو سال کے اندر ہندوستان کی کپڑا صنعت ایک نئی سمت میں قدم بڑھائے گی۔
اس ویبنار کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ فار کامپیٹیٹونیس (آئی ایف سی) کے ذریعے کیا گیا تھا ور اس میں اس پہل سے منسلک صنعتوں اور اداروں کے اسٹیک ہولڈرز شامل ہوئے۔ اجلاس کے دوران آئی ایف سی کے ذریعے کئے گئے ایک مطالعے پر مباحثہ بھی کیا گیا۔
آئی ایف سی کے ذریعے کرائے گئے اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ وزارت ٹیکسٹائل نے بحران کو موقع میں تبدیل ہوتے ہوئے ہندوستان کو، اعلی معیاری پی پی ای کٹس کے گلوبل ایکسپورٹ ہب کے طور پر تبدیل کردیا ہے۔ 30 جنوری 2020 کو جب ہندوستان میں کورونا وائرس کا پہلا معاملہ سامنے آیا تھا، اس وقت ہندوستان میں کووڈ-19 کے لئے موزوں فل باڈی کور آلس (جسے آئی ایس او 16603 معیاروں کے تحت زمرہ-3 سیکیورٹی سطح کی صورت میں درجہ بندی کی گئی ہے) پی پی ای کٹس نہیں بنائی جاتی تھیں۔ ہندوستان کے صحت کے شعبے کے لئے درآمدات پر ملک کے وسیع انحصار کے مضمرات کو محسوس کرتے ہوئے، حکومت نے اس بحران کو زمرہ-3 پی پی ای اور ٹیسٹنگ سویب کی ترقی کے موقع میں تبدیل کرنے کے لئے ’گو لوکل‘ اقدام کو متعارف کرایا۔ اس سلسلے میں ایم او ٹی کو فروری 2020 میں اس اقدام کی رہنمائی کرنے اور ایک مکمل ویلیو چین کے قیام کا کام سونپا گیا تھا۔ منصوبہ بندی کے عمل کے ایک حصے کے طور پر ایم او ٹی اور ایم او ایچ ایف ڈبلیو نے ایک مشترکہ مطالعہ کرایا، جس میں ٹیکسٹائل اور صحت انڈسٹری کے ماہرین، ہندوستان کی صنعتی تنظیمیں اور بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیاں شامل تھیں۔ ٹیکسٹائل وزارت نے مارچ 2020 میں پی پی ای کٹس کی مینوفیکچرنگ کے لئے مکمل طور پر اندرون ملک تعمیری صلاحت کی پہل کا آغاز کیا تھا۔
دوسرے ممالک نے جہاں اپنے یہاں سے پی پی ای کٹس کی برآمدات کو محدود کرنا شروع کردیا تھا، وہیں ہندوستان کو تخمیناً جولائی 2020 تک 2 کروڑ سے زیادہ پی پی ای کٹ اور 4 کروڑ این-95 ماسک کی ضرورت تھی۔ سبھی مشکلو ں سے نمٹنے ہوئے ہندوستان نے محض 60 دنوں میں پی پی ای فیبرک اور ملبوسات مینو فیکچروں کاایک دیسی نیٹ ورک تیار کیا۔ مئی کے درمیان تک ہندوستان نے روزانہ 4.5 لاکھ باڈی کور آل اور 2.5 لاکھ ین-95 ماسک تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تھی۔ ہندوستان نے امریکہ، یو کے، سینیگل، سلووینیا اور متحدہ عرب امارات کو پی پی ای کی برآمدات بھی شروع کردی۔ آج 200 مینو فیکچرز کے ساتھ این-95 ماسک بنانے کی صلاحیت 32 لاکھ یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔
ساؤتھ انڈیا ٹیکسٹائل ریسرچ ایسو سی ایشن (ایس آئی ٹی آر اے) نے مارچ تا اپریل 2020 میں تجربہ کے طور پر گھریلو سطح پر بنی پی پی ای کٹ کے لئے ٹیسٹنگ پروگرام کی رہنمائی کی تھی۔ بعد میں سات دیگر سرکاری اکائیوں کو پی پی ای باڈی کور آلز کے لئےجانچ اور سرٹیفیکیشن لیب کی صورت میں منظوری دی گئی ۔ ملک بھر میں پی پی ای کٹ کی مؤثر جانچ کو یقینی بنانے اور مینو فیکچرنگ کے بعد پی پی ای کٹس کی جانچ، منظوری اور ڈسپیچ سے متعلق لگنے والے وقت کو کم کرنے کے لئے ملک کے مختلف حصوں میں اسٹریٹجک طور پر ن تجربہ گاہوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
ہارورڈ بزنس اسکول کے انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ کامپیٹیٹو نیس کے عالمی نیٹ ورک میں انسٹی ٹیوٹ آف کامپیٹیٹونیس بھارتی حصہ داری کے طور پر شامل ہے۔ یہ ادارہ کمپنی اسٹریٹجی کے لئے مسابقت اور اس کے مضمرات؛ ملکوں، علاقوں اور شہروں کی مسابقت کا مطالعہ کرتا ہے اور اسے دیکھتے ہوئے کاروبار اور انتظامیہ میں سرگرم افراد کے لئے رہنما اصول تیار کرتا ہے۔ اور سماجی- اقتصادی پریشانیوں کے لئے تجاویزاس ور حل دستیاب کرائے جاتے ہیں۔