نئی دہلی۔ میرے پیارے ہم وطنوں! نمسکار۔ آج پورا ملک رکشا بندھن کا تہوار منا رہا ہے۔ سبھی ہم وطنوں کو اس مقدس تہوار کی بہت بہت مبارکباد۔ رکشا بندھن کا تہوار بہن اور بھائی کے آپسی پیار اور اعتماد کی علامت مانی جاتی ہے۔ یہ تہوار صدیوں سے سماجی ہم آہنگی کی بھی ایک بڑی مثال رہی ہے۔ ملک کے تاریخ میں مختلف ایسی کہانیاں ہیں، جن میں ایک حفاظتی بندھن نے دو الگ الگ ریاستوں یا مذہبوں سے جڑے لوگوں کو یقین کی ڈور سے جوڑ دیا تھا۔ ابھی کچھ ہی دن بعد جنم آشٹمی کا تہوار بھی آنے والا ہے۔ پورا ماحول ہاتھی، گھوڑا، پالکی – جئے کنہیا لال کی، گووندا- گووندا کی نعرے سے گونجنے والا ہے۔ بھگوان کرشن کے رنگ میں شرابور ہوکر جھومنے کی خوشی الگ ہی ہوتی ہے۔ ملک کے کئی حصوں میں اور خاص کر مہاراشٹر میں دہی ہانڈی کی تیاریاں بھی ہمارے نوجوان کر رہے ہوں گے۔ سبھی ہم وطنوں کو رکشا بندھن اور جنم اشٹمی کی بہت بہت مبارکباد۔
‘پردھان منتری مہودے! نمسکار۔ اہاں چِنمئی ، بینگلورو-نگرے وجے بھارتی –وِدیالیے ، دشم –ککشایام پٹھامی۔ مہودیہ ادے سنسکرت-دِنم استی۔ سنسکرتم بھاشام سرل اِتی سروے ودنتی۔ سنسکرتم بھاشا وے متر وہ وہ اترہ سمبھاشنم اپی کُرمہ۔ اتہ سنسکرتسیہ مہتوہ – وشیے بھوتہ گہہ ابھی پرایہ اتی روپیاودتو۔’
بھگینی! چنمئی!!
بھوتی سنسکرت – پرشنم پرشٹ وتی۔
بہوتتّم! بہوتتّم!!
اہم بھوتیاہ ابھینندنم کرومی۔
سنسکرت – سپتاہ – نِمِتّم دیش واسینام
سرویشام کرتے مم ہاردک – شُبھکامناہ
میں بیٹی چنمئی کا بہت بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے یہ موضوع اٹھایا۔ ساتھیوں! رکشا بندھن کے علاوہ شراون پورنیما کے دن سنکسرت کا دن بھی منایا جاتا ہے۔ میں ان سبھی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو اس عظیم ورثہ کو سنوارنے اور لوگوں تک پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر زبان کی اپنی اہمیت ہے۔ ہندوستان اس بات پر فخر کرتا ہے کہ تمل زبان دنیا کی سب سے پرانی زبان ہے اور ہم سبھی ہندوستانی اس بات پر بھی فخر کرتے ہیں کہ کِیویدکال سے موجودہ وقت تک سنسکرت زبان نے بھی علم کی تشہیر میں بہت اہم رول انجام دیا ہے۔
زندگی کے ہر شعبے سے منسلک علم کا ذخیرہ سنسکرت زبان اور اس کے ادب میں ہے۔ خواہ وہ سائنس ہو یا ٹکنالوجی ہو، زراعت ہو یا صحت ہو، علم فلکیات ہو یا علم تعمیرات ہو، حساب ہو یا مینجمنٹ ہو، اقتصادیات کی بات ہو یا ماحولیات کی ہو، کہتے ہیں کہ عالمی حدت کے چیلنجوں سے نمٹنے کا منتر ہمارے ویدوں میں تفصیل کے ساتھ درج ہے۔ آپ سب کو جانکر خوشی ہوگی کہ ریاست کرناٹک کے شیو موگا ضلع کے مٹّور گاؤں کے باشندہ آج بھی گفتگو کے لیے سنسکرت زبان کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
آپ کو ایک بات جان کر حیرت ہوگی کہ سنسکرت ایک ایسی زبان ہے، جس میں لامتناہی الفاظ کی تخلیق ممکن ہے۔ دو ہزار دھاتو، 200 لاحقہ، 22 سابقہ اور سماج سے لاتعداد لفظوں کی تخلیق ممکن ہے اور اس لیے کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے احساس یا موضوع کو صحیح طور پر بیان کیا جا سکتا ہے اور سنسکرت زبان کی ایک خاصیت رہی ہے، آج بھی ہم کبھی اپنی بات کو طاقت ور بنانے کے لیے انگریزی کوٹیشن کا استعمال کرتے ہیں۔ کبھی شعر و شاعری کا استعمال کرتے ہیں لیکن جو لوگ سنسکرت سے اچھی طرح واقف ہیں، انہیں معلوم ہے کہ بہت ہی کم لفظوں میں اتناسٹیک بیان سنسکرت کے الفاظ سے ہوتا ہے اور دوسرا یہ ہماری سرزمین سے، ہماری روایت سے جڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے اسے سمجھنا بھی بہت آسان ہوتا ہے۔
جیسے زندگی میں استاد کی اہمیت سمجھانے کے لیے کہا گیا ہے –
ایکم پی اکشرمستو، گرو ششیام پربودھیت۔
پرتویام ناستی تد-درویم ، ید –دتّوا ہریہ نرنی بھوت۔
یعنی کوئی گرو اپنے طلباء کو ایک بھی حرف کا علم دیتا ہے تو پوری سرزمین میں ایسی کوئی شئے یا دولت نہیں، جس سے طلباء اپنے استاد کا وہ قرض ادا کر سکے۔ آنے والے ٹیچرس ڈے کو ہم سبھی اسی احساس کے ساتھ منائیں۔ علم اور گرو ناقابل موازنہ ہیں ۔ بیش قیمت ہیں۔ ماں کے علاوہ استاد ہی ہوتے ہیں، جو بچوں کے خیالات کو صحیح سمت دینے کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں اور جس کا سب سے زیادہ اثر بھی زندگی بھر نظر آتا ہے۔ ٹیچرس ڈے کے موقع پر عظیم مفکر اور ملک کے سابق صدر بھارت رتن ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن جی کو ہم ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔ ان کی یوم پیدائش کو ہی پورا ملک ٹیچرس ڈے کے طور پر مناتا ہے۔ میں ملک کے سبھی استادوں کو آنے والے ٹیچرس ڈے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی سائنس، تعلیم اور طلبا کے تئیں آپ کی خود سپردگی کے جذبے کا استقبال کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! سخت محنت کرنے والے یہ ہمارے کسانوں کے لیے مانسون نئی امیدیں لے کر آتا ہے۔ شدید گرمی سے جھلستے پیڑ پودے، خشک ندیوں کو راحت دیتا ہے لیکن کبھی کبھی یہ بھاری بارش اور تباہ کن سیلاب بھی لاتا ہے۔ فطرت کے ایسے صورتحال بنے ہیں کہ کچھ جگہوں میں دوسری جگہوں سے زیادہ بارش ہوئی۔ ابھی ہم سب لوگوں نے دیکھا۔ کیرالہ میں شدید سیلاب نے عوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ آج ان سخت حالات میں پورا ملک کیرالہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہماری تعزیت ان خاندانوں کے ساتھ ہیں، جنہوں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے، زندگی کے جو نقصانات ہوئے ہیں، اس کی بھرپائی تو نہیں ہو سکتی لیکن میں غم میں ڈوبے ہوئے خاندانوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سوا سو کروڑ ہندوستانی دکھ کے اس لمحے میں آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ میری دعاہے کہ جو لوگ اس قدرتی آفات میں زخمی ہوئے ہیں ، وہ جلد سے جلد صحت یاب ہو جائیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ریاست کے لوگوں کے جذبے اور بہادری کے ساتھ کیرالہ فوراً ہی پھر سے اٹھ کھڑا ہوگا۔
آفات اپنے پیچھے جس طرح کی بربادی چھوڑ جاتی ہے، وہ بدقسمتی ہے لیکن آفت کے وقت انسانیت کے بھی نظارے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کَچھ سے کام روپ اور کشمیر سے کنیا کماری تک ہر کوئی اپنے اپنے سطح پر کچھ نہ کچھ کر رہا ہے تاکہ جہاں بھی آفت آئے؛ چاہے کیرالہ ہو یا ہندوستان کے اور اضلاع ہوں اور علاقے ہوں ، عوامی زندگی پھر سے حسب معمول ہو سکے۔ سبھی عمر کے اور ہر کام کے شعبے سے جڑے لوگ اپنا تعاون دے رہے ہیں۔ ہر کوئی یقین دہانی میں مصروف ہے کہ کیرالہ کے لوگوں کی مصیبت کم سے کم کی جا سکے، ان کی تکلیف کو ہم بانٹیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مسلح افواج کے جوان کیرالہ میں چل رہے راحتی کام کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فضائی افواج ہوں ، بری افواج ہوں، بحری ا فواج ہوں، بی ایس ایف ہو، سی آئی ایس ایف ہو، آر اے ایف ہو، ہر کسی نے راحت اور بچاؤ کی مہم میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ میں این ڈی آر ایف کے بہادروں کی سخت محنت کا بھی خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ مصیبت کے اس لمحے میں انہوں نے بہت ہی بہترین کام کیا ہے۔ این ڈی آر ایف کی صلاحیت ان کے عہد بستگی اور فوراً فیصلہ لے کر حالات کو سنبھالنے کی کوشش ہر ہندوستانی کے لیے عزت و احترام کا ایک نیا مرکز بن گیا ہے۔ کل ہی اونم کا تہوار تھا، ہم دعا کریں گے کہ اونم کا تہوار ملک کو اور خاص طور سے کیرالہ کو قوت عطا کرے تاکہ وہ اس آفت سے جلد سے جلد باہر آئیں اور کیرالہ کی ترقی کے سفر کو زیادہ رفتار ملے۔ ایک بار پھر میں سبھی ہم وطنوں کی جانب سے کیرالہ کے لوگوں کو اور ملک بھر کے دیگر حصوں میں جہاں جہاں آفت آئی ہے، یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پوری دنیا مصیبت کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنوں! اس بار میں ’من کی بات‘ کے لیے آئے مشوروں کو دیکھ رہا تھا۔ تب ملک بھر کے لوگوں نے جس موضوع پر سب سے زیادہ لکھا، وہ موضوع ہے – ’ہم سب کا پیارا جناب اٹل بہاری واجپئی۔‘ غازی آباد سے کرتی، سونی پت سے سواتی وتس، کیرالہ سے بھائی پروین، مغربی بنگال سے ڈاکٹر سوپن بنرجی ، بہار کے کٹیہار سے اکھلیش پانڈے، نہ جانے کتنے بیشمار لوگوں نے نریندر مودی موبائل ایپپ پر اور مائی گوو پر لکھ کر مجھے اٹل جی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بات کرنے کی گزارش کی ہے۔ 16 اگست کو جیسے ہی ملک اور دنیا نے اٹل جی کے وفات کی خبر سنی، ہر کوئی غم میں ڈوب گیا۔ ایک ایسے قومی لیڈر، جنہوں نے 14 سال پہلے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔ ایک طرح سے گزشتہ 10 سالوں سے وہ سرگرم سیاست سے کافی دور چلے گئے تھے۔ خبروں میں کہیں دکھائی نہیں دیتے تھے، عوامی طور پر نظر نہیں آتے تھے۔ 10 سال کا وقفہ بہت بڑا ہوتا ہے لیکن 16 اگست کے بعد ملک اور دنیا نے دیکھا کہ ہندوستان کے عام عوام کے ذہن میں یہ دس سال کی مدت نے ایک لمحہ کا بھی وقفہ نہیں ہونے دیا۔ اٹل جی کے لیے جس طرح کا پیار، جو عزت اور جو غم کے احساسات پورے ملک میں امڈ آیا، وہ ان کی عظیم شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے اٹل جی کے اچھے سے اچھے پہلو ملک کے سامنے آ ہی گئے ہیں۔ لوگوں نے انہیں بہترین رکن پارلیمنٹ ، حساس مصنف، عظیم مقرر، مقبول وزیراعظم کے طور پر یاد کیا ہے اور کرتے ہیں۔گڈ گورننس کو قومی دھارے میں لانے کے لیے یہ ملک ہمیشہ اٹل جی کا شکر گزار رہے گا لیکن میں آج اٹل جی کے عظیم شخصیت کا ایک اور پہلو ہے، اسے صرف چھونا چاہتا ہوں اور یہ اٹل جی نے ہندوستان کو جو سیاسی کلچر دیا، سیاسی کلچر میں جو تبدیلی لانے کی کوشش کی، اس کو نظام کے ڈھانچے میں تبدیل کرنے کی جو کوشش کی اور جس کی وجہ سے ہندوستان کو بہت فائدہ ہوا ہے اور آگے آنے والے دنوں میں بہت فائدہ ہونے والا ہے۔ یہ بھی طے ہے۔ ہندوستان ہمیشہ 91ویں ترمیمی ایکٹ 2003 کے لیے اٹل جی کا شکر گزار رہے گا۔ اس تبدیلی نے ہندوستان کی سیاست میں دو اہم تبدیلی کیے۔
پہلا یہ کہ ریاستوں میں کابینہ کا ڈھانچہ کل اسمبلی نشستوں کے 15 فیصد تک محدود کیا گیا۔
دوسرا یہ کہ پارٹی بدلنے کے قانون کے تحت طے شدہ حد ایک تہائی سے بڑھا کر دو تہائی کر دی گئی۔
اس کے ساتھ ہی پارٹی بدلنے والوں کو نا اہل ٹھہرانے کے لیے واضح ہدایات بھی مقرر کیے گئے۔
کئی سالوں تک ہندوستان میں بھاری بھرکم کابینہ تشکیل دینے کی سیاسی ثقافت نے ہی بڑے بڑے جمبو کابینہ کے کاموں کی تقسیم کے لیے نہیں بلکہ سیاسی لیڈران کو خوش کرنے کے لیے بنائی جاتی تھی۔ اٹل جی نے اسے بدل دیا۔ ان کے اس قدم سے پیسوں اور وسائل کی بچت ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی کام کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ اٹل جی دور اندیش ہی تھے، جنہوں نے حالات کو بدلا اور ہماری سیاسی ثقافت میں صحیح روایت پیدا ہوئی۔ اٹل جی ایک سچےقوم پرست تھے۔ ان کے مدتِ کار میں ہی بجٹ پیش کرنے کے وقت میں تبدیلی ہوئی۔ پہلے انگریزوں کی روایت کے مطابق شام کے 5 بجے بجٹ پیش کیا جاتا تھا کیونکہ اس وقت لندن میں پارلیمنٹ شروع ہونے کا وقت ہوتا تھا۔ سال 2001 میں اٹل جی نے بجٹ پیش کرنے کا وقت شام 5 بجے سے بدل کر صبح گیارہ بجے کر دیا۔ ‘ایک اور آزادی’ اٹل جی کے مدت کار میں ہی انڈین فلیگ کوڈ بنایا گیا اور 2002 میں اسے کمیشنڈ کر دیا گیا۔ اس کوڈ میں کئی ایسے ضوابط بنائے گئے ہیں، جن سے سماجی مقامات پر ترنگا لہرانا ممکن ہوا۔ اسی کے تحت زیادہ سے زیادہ ہندوستانیوں کو اپنا قومی ترنگا لہرانے کا موقع مل پایا۔ اس طرح سے انہوں نے ہمارے جان سے پیارے ترنگے کو عوام کے قریب لایا۔ آپ نے دیکھا! کس طرح اٹل جی نے ملک میں چاہے انتخابی عمل ہو اور نمائندوں سے متعلق جو خرابی آئے تھے، ان میں جرأتمندانہ قدم اٹھاکر بنیادی اصلاح کیے۔ اسی طرح آج کل آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں ایک ساتھ مرکز اور ریاستوں کے انتخابات کرانے کے بارے میں مباحثے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس موضوع کے حق میں اور اس کے خلاف دونوں میں لوگ اپنی اپنی باتیں رکھ رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے اور جمہوریت کے لیے ایک اچھا اشارہ بھی ہے۔ میں ضرور کہوں گا اچھی جمہوریت کے لیے ، اعلیٰ جمہوریت کے لیےاچھی روایت کو فروغ دینا، جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے مسلسل کوشش کرنا، مباحثے کو کھلے من سے آگے بڑھانا، یہ بھی اٹل جی کو ایک بہترین خراج عقیدت ہوگی۔ ان کے خوشحال اور ترقی یافتہ ہندوستان کے خواب کو پورا کرنے کا عہد دہراتے ہوئے میں ہم سب کی جانب سے اٹل جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! پارلیمنٹ میں آج کل جب بھی بحث ہوتی ہے تو اکثر رکاوٹ ، ہنگامہ آرائی اور اس کے اختتام کے بارے میں ہی ہوتی ہے لیکن اگر کچھ اچھا ہوتا ہے تو اس کی بحث اتنی نہیں ہوتی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس ختم ہوا ہے۔ آپ کو یہ جانکر خوشی ہوگی کہ لوک سبھا کی پروڈکٹیویٹی 118 فیصد اور راجیہ سبھا کی 74 فیصد رہی ۔ پارٹی کے مفاد سے اوپر اٹھ کر سبھی ارکارن پارلیمنٹ نے مانسون اجلاس کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی کوشش کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ لوک سبھا نے 21 بل اور راجیہ سبھا نے 14 بلوں کو منظور کیا۔ پارلیمنٹ کا یہ مانسون اجلاس سماجی انصاف اور نوجوانوں کی بہبود کے اجلاس کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔ اس اجلاس میں نوجوانوں اور پسماندہ طبقوں کو فائدہ پہنچانے والے کئی اہم بلوں کو پاس کیا گیا۔ آپ سب کو معلوم ہے کہ دہائیوں سے ایس سی / ایس ٹی کمیشن کی طرح ہی او بی سی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ پسماندہ طبقات کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ملک نے اس بار او بی سی کمیشن بنانے کا عہد مکمل کیا اور اس کو ایک آئینی حق بھی دیا۔ یہ قدم سماجی قانون کے مقصد کو آگے لے جانے والا ثابت ہوگا۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے ترمیمی بل کو بھی پاس کرنے کا کام اس اجلاس میں ہوا۔ یہ قانون ایس سی اور ایس ٹی کمیونٹی کے مفاد کو اور زیادہ محفوظ کرے گا۔ ساتھ ہی یہ مجرموں کو تشدد کرنے سے روکے گا اور پسماندہ طبقات میں اعتماد دلائے گا۔
ملک کی خواتین کے خلاف کوئی بھی مہذب سماج کسی بھی طرح کے ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا۔ عصمت دری کے مجرموں کو ملک برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے پارلیمنٹ نے مجرمانہ قانون ترمیمی بل کو پاس کر سخت سے سخت سزا کی گنجائش رکھی ہے۔ عصمت دری کے مجرموں کو کم سے کم 10 سال کی سزا ہوگی، وہیں 12 سال سے کم عمر کے بچیوں سے عصمت دری کرنے پر پھانسی کی سزا ہوگی۔ کچھ دن پہلے آپ نے اخباروں میں پڑھا ہوگا مدھیہ پردیش کے مندسور میں ایک عدالت نے صرف دو مہینے کی سماعت کے بعد نابالغ سے عصمت دری کے دو مجرموں کو پھانسی کی سزا سنائی ہے۔ اس کے پہلے مدھیہ پردیش کے کٹنی میں ایک عدالت نے صرف پانچ دن کی سماعت کے بعد مجرموں کو پھانسی کی سزا دی۔ راجستھان میں بھی وہاں کی عدالتوں نے بھی ایسے ہی فوری فیصلے کیے ہیں۔ یہ قانون خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے معاملوں کو روکنے میں اثردار رول ادا کرے گا۔ سماجی تبدیلی کے بغیر اقتصادی ترقی ادھوری ہے۔ لوک سبھا میں تین طلاق بل کو پاس کر دیا گیا، حالانکہ راجیہ سبھا کے اس اجلاس میں ممکن نہیں ہو پایا ہے۔ میں مسلم خواتین کو یقین دلاتا ہوں کہ پورا ملک انہیں انصاف دلانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ کھڑا ہے۔ جب ہم ملک کے مفاد میں آگے بڑھتے ہیں تو غریبوں، پسماندوں، مظلوموں اورمحروموں کے زندگی میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مانسون اجلاس میں اس بار سب نے مل کرایک مثال پیش کیا ہے۔ میں ملک کے سبھی ارکارن پارلیمنٹ کا عوامی طور پر آج دل سے شکر گزار ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنوں! ان دنوں کروڑوں ہم وطنوں کی توجہ جکارتہ میں ہو رہے ایشیئن گیمس پر لگا ہوا ہے۔ ہر دن صبح لوگ سب سے پہلے اخباروں میں ،ٹیلی ویژن میں، خبروں میں، سوشل میڈیا پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس ہندوستانی کھلاڑی نے میڈل جیتا ہے۔ ایشیئن گیمس ابھی بھی چل رہے ہیں۔ میں ملک کے لیے میڈل جیتنے والی سبھی کھلاڑیوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ان کھلاڑیوں کو بھی میری جانب سے بہت بہت مبارکباد ، جن کا مقابلہ ابھی باقی ہیں۔ ہندوستان کے کھلاڑی خاص کر شوٹنگ اور ریسلنگ میں تو بہترین مظاہرہ کر ہی رہے ہیں لیکن ہمارے کھلاڑی ان کھیلوں میں بھی تمغہ لا رہے ہیں ، جن میں پہلے ہمارا مظاہرہ اتنا اچھا نہیں رہا ہے، جیسے ووُش اور روونگ جیسے کھیل – یہ صرف تمغہ نہیں ہیں – رزلٹ ہیں – ہندوستانی کھیل اور کھلاڑیوں کے آسمان چھوتے حوصلوں اور خوابوں کا۔ ملک کے لیے میڈل جیتنے والوں میں بڑی تعداد میں ہماری بیٹیاں شامل ہیں اور یہ بہت ہی مثبت اشارہ ہے – یہاں تک کہ میڈل جیتنے والے نوجوان کھلاڑیوں میں 15-16 سال کے ہمارے نوجوان بھی ہیں۔ یہ بھی ایک بہت اچھا اشارہ ہے کہ جن کھلاڑیوں نے میڈل جیتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر چھوٹے قصبوں اور گاؤوں کے رہنے والے ہیں اور ان لوگوں نے سخت محنت سے اس کامیابی کو حاصل کیا ہے۔
29 اگست کو ہم قومی کھیل دن منائیں گے اس موقعے پر میں سبھی کھیل کے شائقین کو مبارک باد دیتا ہوں، ساتھ ہی ہاکی کے جادوگر عظیم کھلاڑی جناب دھیان چند جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
میں ملک کے سبھی شہریوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ضرور کھیلیں اور اپنی صحت کا خیارل رکھیں کیونکہ صحتمند ہندوستان ہی بھرپور اور خوشحال ہندوستان کی تعمیر کرے گا۔ جب انڈیا فٹ ہوگا تبھی ہندوستان کے روشن مستقبل کی تعمیر ہوگی۔ ایک بار پھر میں ایشیئن گیمس میں تمغہ حاصل کرنے والوں کو مبارکباد دیتا ہوں ساتھ ہی باقی کھلاڑیوں کے اچھے مظاہرے کی دعا کرتا ہوں۔ سبھی کو قومی کھیل دن کی بھی بہت بہت مبارکباد۔
‘‘پردھان منتری جی نمسکار! میں کانپور سے بھاونا ترپاٹھی ایک انجینئرنگ کی طالبہ بات کر رہی ہوں۔ پردھان منتری جی پچھلے من کی بات میں آپ نے کالج جانے والے طلبا و طلبات سے بات کی تھی، اور اس سے پہلے بھی آپ نے ڈاکٹروں سے ، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹس سے باتیں کیں۔ میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ آنے والے 15 ستمبر کو جو کہ ایک انجینئرس ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے ، اس موقع پر اگر آپ ہم جیسے انجینئرنگ کے طلباء و طالبات سے کچھ باتیں کریں، جس سے ہم سب کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ہمیں بہت خوشی ہوگی اور آگے آنے والے دنوں میں ہمیں اپنے ملک کے لیے کچھ کرنے کی ترغیب بھی ملے گی، شکریہ۔’’
نمستے بھاونا جی، میں آپ کی سوچ کی قدر کرتا ہوں۔ ہم سبھی نے اینٹ – پتھروں سے گھروں اور عمارتوں کو بنتے دیکھا ہے لیکن کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ تقریباً بارہ – سو سال پہلے ایک وسیع پہاڑ کو جو کہ صرف سنگل اسٹون والا پہاڑ تھا، اسے ایک خوبصورت، وسیع اور خوبصورت مندر کی شکل دے دیا گیا – شاید تصور کرنا مشکل ہو، لیکن ایسا ہوا تھا اور وہ مندر ہے – مہاراشٹر کے ایلورا میں قائم کیلاش ناتھ مندر۔ اگر کوئی آپ کو بتائے کہ تقریباً ہزار سال پہلے گرینائٹ کا 60 میٹر سے بھی لمبا ایک ستون بنایا گیا اور اس کے چوٹی پر گرینائٹ کا تقریباً 80 ٹن وزنی ایک پہاڑ کے ٹکڑے کو رکھا گیا – تو کیا آپ یقین کریں گے۔ لیکن، تمل ناڈو کے تنجاور کا برہدیشور مندر وہ مقام ہے، جہاں فن تعمیر اور انجینئرنگ کے اس غیریقینی میل کو دیکھا جا سکتا ہے۔ گجرات کے پاٹن میں 11ویں صدی کی رانی کی واو دیکھ کر ہر کوئی حیرت میں رہ جاتا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین انجینئرنگ کی لیباریٹری رہی ہے۔ ہندوستان میں کئی ایسے انجینئر ہوئے، جنہوں نے ناقابل تصور کو تصور کے قابل بنایا اور انجینئرنگ کی دنیا میں چمتکار کہے جانے والے مثال پیش کیے ہیں۔ عظیم انجینئروں کی ہماری وراثت میں ایک ایسا ہیرا بھی ہمیں ملا، جس کے کام آج بھی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور وہ تھے بھارت رتن ڈاکٹر ایم وشویشوریّا ۔ کاویری ندی پر ان کے بنائے کرشن راج ساگر ڈیم سے آج بھی لاکھوں کی تعداد میں کسان اور عوام فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ ملک کے ایک حصے میں تو ان کی پوجا کی جاتی ہی ہے، باقی پورے ملک بھی انہیں بہت ہی عزت اور احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ انہیں کی یاد میں 15 ستمبر کو انجینئرس ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ان کے بتائے راستوں پر چلتے ہوئے ہمارے ملک کے انجینئر پوری دنیا میں اپنی الگ شناخت بنا چکے ہیں۔ انجینئرنگ کی دنیا کے معجزوں کی بات جب میں کرتا ہوں، تب مجھے آج 2001 میں گجرات کے کچھ میں جو تباہ کن زلزلہ آیا تھا، تب کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ اس وقت میں ایک رضا کار کے طور پر وہاں کام کرتا تھا تو مجھے ایک گاؤں میں جانے کا موقع ملا اور وہاں مجھے 100 سال سے بھی زیادہ عمر کی ایک ماں سے ملنے کا موقع ملا اور وہ میری طرف دیکھ کر ہمارا مذاق اڑا رہی تھی، اور وہ کہہ رہی تھی، دیکھو یہ میرا مکان ہے – کچھ میں اس کو بھونگا کہتے ہیں – بولی اس میرے مکان نے تین – تین زلزلے دیکھے ہیں۔ میں نے خود تین زلزلے دیکھے ہیں۔ اسی گھر میں دیکھے ہیں۔ لیکن کہیں پر آپ کو کوئی بھی نقصان نظر نہیں آیا۔ یہ گھر ہمارے بزرگوں نے یہاں کی فطرت کے مطابق، یہاں کے ماحول کے مطابق بنائے تھے اور یہ بات وہ اتنے فخر سے کہہ رہی تھی تو مجھے یہی خیال آیا کہ صدیوں پہلے بھی ہمارے ماہر انجینئروں نے مقامی حالات کے مطابق کیسی تعمیر کی تھی کہ جس کی وجہ سے عوام محفوظ رہتے تھے۔ اب جب ہم انجینئرس ڈے مناتے ہیں تو ہمیں مستقبل کے لیے بھی سوچنا چاہیے۔ جگہ جگہ پر ورک شاپس کرنے چاہیے۔ بدلتے ہوئے زمانے میں ہمیں کن کن نئی چیزوں کو سیکھنا ہوگا؟ سکھانا ہوگا؟ جوڑنا ہوگا؟ آج کل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایک بہت بڑا کام ہو گیا ہے۔ قدرتی آفاتوں سے دنیا جوجھ رہی ہے۔ ایسے میں اسٹرکچرل انجینئرنگ کی نئی شکل کیا ہو؟ اس کے کورسز کیا ہوں؟ طلبا کو کیا سکھایا جائے؟ تعمیر ماحول دوست کیسے ہو؟ لوکل میٹرئلس کا ویلیو ایڈیشن کر کے کنسٹرکشن کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟ زیرو ویسٹ یہ ہماری ترجیح کیسے بنے؟ ایسی مختلف باتیں جب انجینئرس ڈے مناتے ہیں تو ضرور ہمیں سوچنی چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنوں! تہواروں کا ماحول ہے اور اس کے ساتھ ہی دیوالی کی تیاریاں بھی شروع ہو جاتی ہے۔ ’من کی بات‘ میں ملتے رہیں گے، من کی باتیں کرتے رہیں گے اور اپنے من سے ملک کو آگے بڑھانے میں بھی ہم یکجا ہوتے رہیں گے۔ اسی ایک احساس کے ساتھ آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ۔ پھر ملیں گے۔