17.2 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

من کی بات پروگرام کے46ویں مرحلے میں وزیراعظم کی تقریر کا متن

Urdu News

نئیدہلی؛ میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ ان دنوں بہت سے مقامات پر اچھی بارش ہو رہی ہے۔ کہیں کہیں پر زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے تشویش کی خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں اور کچھ مقامات پر ابھی بھی لوگ بارش کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی وسعت، تنوع، کبھی کبھی بارش بھی پسند – ناپسند یدگی  کے طور پر دکھائی دیتی ہے، لیکن ہم بارش کو کیا الزام دیں، انسان ہی ہے جس نے ماحولیات سے جدوجہد کا راستہ منتخب کر لیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ کبھی کبھی فطرت ہم سے خفا ہو جاتی ہے۔ اور اسلیے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے – ہم ماحولیات سے پیار کریں، ہم ماحولیات کا تحفظ کریں، ہم ماحولیات کے محافظ بنیں، تو فطرت میں جو چیزیں ہیں ان میں توازن اپنے آپ بنا رہتا ہے۔

گزشتہ دنوں ویسے ہی ایک قدرتی آفت نے پوری دنیا کی توجہ اپنے جانب مبذول کی، انسانی دماغ کو جھنجھوڑ دیا۔ آپ سب لوگوں نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا، تھائی لینڈ میں 12 نوجوان فٹبال کھلاڑیوں کی ٹیم اور ان کے کوچ گھومنے کے لیے ایک غار میں گئے۔ وہاں عام طور پر غار میں جانے اور اس سے باہر نکلنے، ان سب میں کچھ گھنٹوں کا وقت لگتا ہے۔ لیکن اس دن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ جب وہ غار کے اندر کافی اندر تک چلے گئے – اچانک بھاری بارش کی وجہ سے غار کا دروازے کے پاس کافی پانی جمع ہو گیا۔ ان کے باہر نکلنے کا راستہ بند ہو گیا۔ کوئی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے غار کے اندر کے ایک چھوٹے سے ٹیلے پر رکے رہے۔ اور وہ بھی ایک دو دن نہیں 18 دنوں تک۔ آپ تصور کر سکتے ہیں نوجوان کی دنیا میں جب سامنے موت دکھتی ہو اور لمحہ لمحہ گزارنی پڑتی ہے تو وہ لمحہ کیسا ہوگا۔ ایک جانب وہ مصیبت میں مبتلا تھے، تو دوسری جانب پوری دنیا میں انسانیت متحد ہوکر کے خدا داد انسانی خصوصیات کو ظاہر کر رہی تھی۔ دنیا بھر میں لوگ ان بچوں کو محفوظ باہر نکالنے کےلیے دعائیں کر رہے تھے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش  کی گئی کہ بچیں ہیں کہاں، کس حالت میں ہیں۔ انہیں کیسے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ اگر راحت رسانی کا کام مناسب وقت پر نہیں ہوتا تو مانسون کے سیزن میں انہیں کچھ مہینوں تک نکالنا آسان نہیں ہوتا۔ خیر جب اچھی خبر آئی تو دنیا بھر کو سکون ملا، لیکن اس پورے عمل کو ایک اور نظریے سے بھی دیکھنے کا میرا من کرتا ہے کہ پوری کارروائی کیسے چلی۔ ہر سطح پر ذمہ داری کا جو احساس ہوا وہ حیرت انگیز تھا۔ سبھی نے چاہا ، چاہے حکومت ہو، ان بچوں کے والدین ہوں، ان کے خاندان کے لوگ ہوں، میڈیا ہو، ملک کے عوام ہوں – ہر کسی نے امن اور صبر کا حیرت انگیز نظارہ پیش کیا۔ سب کے سب لوگ ایک ٹیم کی شکل میں اپنے مشن میں لگے ہوئے تھے۔  ہر کسی کا یکساں سلوک – میں سمجھتا ہوں کہ سیکھنے جیسا موضوع ہے، سمجھنے جیسا ہے۔ ایسا نہیں کہ ماں باپ  پریشان نہیں ہوئے ہوں گے، ایسا نہیں کہ ماں کی آنکھ سے آنسو نہیں نکلے ہوں گے، لیکن صبر و ضبط، پورے سماج کا امن سے بھرپور سلوک – یہ اپنے آپ میں ہم سب کے لیے سیکھنے جیسا ہے۔ اس پورے عمل میں تھائی لینڈ کی بحریہ کے ایک جوان کو اپنی جان بھی گنوانی پڑی۔ پوری دنیا اس بات پر حیران ہے کہ اتنی مشکل حالات کے باوجود پانی سے بھرے ایک اندھیرے غار میں اتنی بہادری اور صبر کے ساتھ انہوں نے اپنی امید نہیں چھوڑی۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب انسانیت ایک ساتھ آتی ہے، حیرت انگیز چیزیں رونما ہوتی ہیں۔ بس ضرورت ہوتی ہے ہم پرسکون من سے اپنے ہدف پر توجہ دیں، اس کے لیے کام کرتے رہیں۔

گزشتہ دنوں ہمارے ملک کے مشہور شاعر نیرج جی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ نیرج جی کی ایک خاصیت رہی تھی – امید، ایمان، عزم، خود پر اعتماد۔ ہم ہندوستانیوں کو بھی نیرج جی کی ہر بات بہت قوت دے سکتی ہے، ترغیب دے سکتی ہے – انہوں نے لکھا تھا –

’اندھیار ڈھل کر  ہی رہے گا،

آندھیاں چاہے اُٹھاؤ،

بجلیاں چاہے گراؤ،

جل گیا ہے دیپ تو اندھیار ڈھل کر ہی رہے گا۔‘

نیرج جی کو احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

’’نمستے وزیراعظم جی میران نام ستیم ہے۔ میں نے اس سال دہلی یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔ ہمارے اسکول کے بورڈ امتحان کے وقت آپ نے ہم سے ایگزام اسٹریس اور ایجوکیشن کی بات کی تھی۔ میرے جیسے طالب علم کے لیے اب آپ کا کیا پیغام ہے۔‘‘

ویسے تو جولائی اور اگست کا مہینہ کسانوں کے لیے اور سبھی نوجوانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے جب کالج کا پیک سیزن ہوتا ہے۔ ’ستیم‘ جیسے لاکھوں نوجوان اسکول سے نکل کر کے کالجز میں جاتے ہیں۔ اگر فروری اور مارچ ایگزام، پیپرس، جوابات میں جاتے ہیں تو اپریل اور مئی چھٹیوں میں مستی کرنے کے ساتھ ساتھ ریزلٹ ، زندگی میں مستقبل کی سمت طے کرنے، کیریئر کو منتخب کرنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ جولائی وہ مہینہ ہے جب نوجوان اپنی زندگی کے اس نئے مرحلے میں قدم رکھتے ہیں جب سوالات کے مرکوزیت سے ہٹ کر کٹ آف پر چلا جاتا ہے۔ طالب علموں کی توجہ گھر سے ہوسٹل پر چلی جاتی ہے۔ طالب علم والدین کی زیر نگرانی سے پروفیسر کی نگرانی میں آ جاتے ہیں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ میرا نوجوان دوست کالج کی زندگی کی شروعات سے کافی پرجوش اور خوش ہوں گے۔ پہلی بار گھر سے باہر جانا، گاؤں سے باہر جانا، ایک حفاظتی ماحول سے باہر نکل کر خود کو ہی اپنا سارتھی بننا ہوتا ہے۔ اتنے سارے نوجوان پہلی بار اپنے گھروں کو چھوڑ کر، اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دینے لیے نکل آتے ہیں۔ کئی طالب علموں نے ابھی تک اپنے اپنے کالج جوائن کر لیے ہوں گے، کچھ جوائن کرنے والے ہوں گے۔ آپ لوگوں سے میں یہی کہوں گا ، پرسکون رہیے، زندگی سے لطف لیجیے، زندگی سے بھرپور زندگی کا لطف اٹھائیں۔ کتابوں کے بغیر کوئی راستہ تو نہیں ہے، پڑھائی تو کرنی پڑتی ہے، لیکن نئی نئی چیزوں کو تلاشنے کی فطرت ہونی چاہیے۔ پرانے دوستوں کی قدر ہے۔ بچپن کے دوست بیش قیمتی ہوتے ہیں، لیکن نئے دوست کا انتخاب، بنانا اور بنائے رکھنا، یہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی سمجھداری کا کام ہوتا ہے۔ کچھ نیا سیکھیں، جیسے نئے نئے ہنر، نئی نئی زبان سیکھیں۔ جو نوجوان اپنے گھر چھوڑ کر باہر کسی اورمقامات پر پڑھنے گئے ہیں ان جگہوں کو ڈسکور کریں، وہاں  کے بارے میں جانیں، وہاں کے لوگوں کو ، زبان کو، ثقافت کو جانیں، وہاں کے سیاحتی مقامات ہوں گے – وہاں جائیں، ان کے بارے میں جانیں۔ نئی زندگی کی شروعات کر رہے ہیں سبھی نوجوانوں کو میری مبارکباد۔ ابھی جب کالج سیزن کی بات ہو رہی ہے تو میں نیوز میں دیکھ رہا تھا کہ کیسے مدھیہ پردیش کے ایک بیحد غریب خاندان  سے جڑے ایک طالب علم آشارام چودھری نے زندگی کے مشکل چیلنجوں کو پار کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی ہے۔ انہوں نے جودھ پور ایمس کےایم بی بی ایس کے امتحان مین اپنی پہلے ہی کوشش میں کامیابی حاصل کی۔ ان کے والد کچڑا چُن کر اپنے خاندان کی پرورش کرتے ہیں۔ میں ان کی اس کامیابی کے باوجود اپنی محنت اور لگن سے انہوں نے کچھ ایسا کر دکھایا ہے، جو ہم سب کو ترغیب دیتا ہے۔ چاہے وہ دلی کے پرنس کمار ہوں، جن کے والد ڈی ٹی سی میں بس ڈرائیور ہیں یا پھر کولکتہ کے ابھئے گپتا جنہوں نے فُت پاتھ پر اسٹریٹ لائٹ کے نیچے اپنی پڑھائی کی ۔ احمد آباد کی بیٹی آفرین شیخ ہو، جن کے والد آٹو رکشا چلاتے ہیں۔ ناگپور کی بیٹی خوشی ہو، جن کے والد بھی اسکول بس میں ڈرائیور ہیں یا ہریانہ کے کارتک ، جن کے والد چوکیدار ہیں یا جھارکھنڈ کے رمیش ساہو جن کے والد اینٹ بھٹا میں مزدوری کرتے ہیں۔ خود رمیش بھی میلے میں کھلونا بیچا کرتے تھے یا پھر گڑگاؤں کی معزور بیٹی انوشکا پانڈا، جو جنم سے ہی اسپائنل مسکیولر اٹروپھی نام کے ایک پیدائشی بیماری میں مبتلا ہیں، ان سب نے اپنے  عزم مصمم اور حوصلے سے  مشکلات کو پار کر – دنیا دیکھے ایسی کامیابی حاصل کی۔ ہم اپنے آس پاس دیکھیں تو ہم کو ایسے کئی مثال مل جائیں گی۔

ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی اچھا واقعہ میرے من کو توانائی دیتا ہے، ترغیب دیتی ہے اور جب ان نوجوانوں کی کہانی آپ کو کہہ رہا ہوں تو اس کے ساتھ مجھے نیرج جی کی بھی وہ بات یاد آتی ہے اور زندگی کا وہی تو مقصد ہوتا ہے۔ نیرج جی نے کہا ہے –

’گیت آکاش کو دھرتی کا سنانا ہے مجھے،

ہر اندھیرے کو اجالے میں بُلانا ہے مجھے،

پھول کی گندھ سے تلوار کو سر کرنا ہے،

اور گا-گا کے پہاڑوں کو جگانا ہے مجھے‘

میرے پیارے ہم وطنوں، کچھ دن پہلے میری نظر ایک خبر پر گئی، لکھا تھا – ’دو نوجوانوں نے کیا مودی کا سپنا ساکار‘ ۔ جب اندر خبر پڑھی تو معلوم ہوا کہ کیسے آج ہمارے نوجوان ٹیکنالوجی کا اسمارٹ اور کریٹیو یوز کر کے عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک بار امریکہ کے سین جونس شہر، جسے ٹکنالوجی ہب کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہاں میں ہندوستانی نوجوانوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔ میں نے ان سے اپیل کی تھی۔ وہ ہندوستان کے لیے اپنے ٹیلینٹ کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں، یہ سوچیں اور وقت نکال کر کے کچھ کریں۔ میں نے برین – ڈرین کو برین – گین میں تبدل کرنے کی اپیل کی تھی۔ رائے بریلی کے دو آئی ٹی پروفیشنلس، یوگیش ساہو جی اور رجنیش واجپئی جی نے میرے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک کوشش کی۔ اپنے پروفیشنل اسکلس کا استعمال کرتے ہوئے یوگیش جی اور رجنیش جی نے مل کر ایک اسمارٹ گاؤں ایپ تیار کیا ہے۔ یہ ایپ نہ صرف گاؤں کے لوگوں کو پوری دنیا سے جوڑ رہا ہے بلکہ اب وہ کوئی بھی جانکاری اور خبر خود کے موبائل پر ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ رائے بریلی کے اس گاؤں تودھک پور کے شہریوں، گرام – پردھان، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، سی ڈی او، سبھی لوگوں نے اس ایپ کے استعمال کے لیے لوگوں کو بیدار کیا۔ یہ ایپ گاؤں میں ایک طرح سے ڈیجیتل تحریک لانے کا کام کر رہا ہے۔ گاؤں میں جو ترقی کے کام ہوتے ہیں، اسے اس ایپ کے ذریعے ریکارڈ کرنا، ٹریک کرنا، مانیٹر کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس ایپ میں گاؤں کی فون ڈائریکٹری، نیوز سیکشن ایوینٹ لسٹ، ہیلتھ سینٹر اور انفارمیشن سینٹر موجود ہے۔ یہ ایپ کسانوں کے لیے بھی کافی فائدہ مند ہے ۔ ایپ کا گرامر فیچر ، کسانوں کے درمیان فیکٹ ریٹ، ایک طرح سے ان کی پیداواریت کے لیے ایک مارکیٹ پیلیس کی طرح کام کرتا ہے۔ اس واقعہ کو اگر آپ باریکی سے دیکھیں گے تو ایک بات ذہن میں آئے گی وہ نوجوان امریکہ میں، وہاں کے رہن سہن، سوچ وچار اس کے درمیان زندگی جی رہا ہے۔ کئی سالوں پہلے ہندوستان چھوڑا ہوگا لیکن پھر بھی اپنے گاؤں کی باریکیوں کو جانتا ہے، چیلنجوں کو سمجھتا ہے اور گاؤں سے جذباتی طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس وجہ سے، وہ شاید گاؤں کو جو چاہیے ٹھیک اس کے مطابق کچھ بنا پائے۔ اپنے گاؤں، اپنی جڑوں سے وہ جڑاؤ اور وطن کےلیے کچھ کر دکھانے کا جذبہ ہر ہندوستانی کے اندر فطری طور پر ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی وقت کی وجہ سے، کبھی دوریوں کی وجہ سے ، کبھی حالات کی وجہ سے، اس پر ایک ہلی سی راکھ جم جاتی ہے، لیکن اگر کوئی ایک چھوٹی سی چنگاری بھی، اس کو چھو لے تو ساری باتیں پھر ایک بار ابھر کر کے آ جاتی ہیں اور وہ اپنے گزرے ہوئے دنوں کی طرف کھینچ کر لے آتی ہیں۔ ہم بھی ذرا تحقیق  کر لیں کہیں ہمارے کیس میں بھی تو ایسا نہیں ہوا ہے، حالات، دوریوں نے کہیں ہمیں الگ تو نہیں کر دیا ہے، کہیں راکھ تو نہیں جم گئی ہے۔ ضرور سوچیے۔

’’معزز وزیراعظم جی نمسکار، میں سنتوش کاکڑے کولہاپور، مہاراشٹر سے بات کر رہا ہوں۔ پنڈھر پور کی واری یہ مہاراشٹر کی پرانی روایت ہے۔ ہر سال یہ بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تقریباً 7-8 لاکھ ورکری اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس عجیب پروگرام کے بارے میں ملک کے باقی عوام بھی بیدار ہوں، اس لیے آپ واری کے بارے میں جانکاری دیجیے۔‘‘

سنتوش جی آپ کے فون کال کے لیے بہت بہت شکریہ۔

صحیح معنی میں پنڈھر پور واری اپنے آپ میں ایک اہم سفر ہے۔ ساتھیوں اشاڈھی ایکادشی جو اس بار 23 جولائی، کو تھی اس دن کو پنڈھرپور واری کی عالیشان پارینیتی کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔ پنڈھر پور مہاراشٹر کے سولاپور ضلعے کا ایک مقدس شہر ہے۔ آشاڑھی ایکادشی کے تقریباً 20-15دن پہلے  سے ہی وارکرنی یعنی ترتھ یاتری پالکیوں کے ساتھ پنڈھر پور کے سفر کے لیے پیدل نکلتے ہیں۔ اس سفر، جسے واری کہتے ہیں، میں لاکھوں کی تعداد میں وارکری شامل ہوتے ہیں۔  سنت گیانیشور اور سنگ تکارام جیسے مہان سنتوں کی پادوکا، پالکی میں رکھ کر وٹھل وٹھل گاتے، ناچتے ، بجاتے پیدل پنڈھرپور کی جانب چل پڑتے ہیں۔ یہ واری تعلیم، سنسکار اور شردھا کی تروینی ہے۔ ترتھ یاتری بھگوان وٹھل ، جنہیں وٹھوا یا پانڈورنگ بھی کہا جاتا ہے ان کے درشن کے لیے وہاں پہنچتے ہیں۔ بھگوان وٹھل غریبوں، پسماندوں، متاثروں کے مفاد کی حفاظت کرتے ہیں۔ مہاراشٹر، کرناٹک، گوا، آندھرا پردیش، تلنگانہ وہاں کے لوگوں میں کافی یقین ہے، بھگتی ہے۔ پنڈھرپور میں ویٹھوا مندر جانا اور وہاں کی خاصیت، خوبصورتی اور روحانی خوشی کا اپنا ایک الگ ہی تجربہ ہے۔  ’من کی بات‘ سننے والوں سے میری درخواست ہے کہ موقع ملے تو ایک بار ضرور پنڈھر پور واری کا تجربہ کریں۔ گیانیشور، نام دیو، ایک ناتھ، رام داس، تکارام – لاتعداد سنت مہاراشٹر میں آج بھی لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ اندھ وشواس  کے خلاف لڑنےکی قوت دے رہے ہیں اور ہندوستان کے ہر کونے میں یہ سنت رواج ترغیب دیتا رہا ہے۔  چاہے وہ ان کے بھاروڈ ہو یا ابھنگ ہو ہمیں ان سے ہم آہنگی ، محبت اور بھائی چارے کا اہم پیغام ملتا ہے۔ اندھ شردھا کے خلاف شردھا کے ساتھ سماج لڑ سکے اس  کی تعلیم ملتی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت وقت پر سماج کو روکا، ٹوکا اور آئینہ بھی دکھایا اور یہ یقینی بنایا کہ پرانے رواج ہمارے سماج سے ختم ہوں اور لوگوں میں  محبت، مساوات اور انصاف کے عادت آئیں۔ ہماری یہ ہندوستانی سرزمیں بیش قیمتی سرزمیں ہے جیسے سنتوں کی ایک عظیم روایت ہمارے ملک میں رہی، اسی طرح سے  مضبوط ماں بھارتی کو  وقف شدہ عظیم شخصیات نے، اس سرزمین کو اپنی زندگی وقف کر دی۔ ایک اسے ہی عظیم شخصیت ہیں لوک مانیہ تلک جنہوں نے کئی ہندوستانیوں کے من میں اپنی گہری چھاپ چھوڑی ہے۔ ہم 23 جولائی کو تلک جی کی یوم پیدائش اور 01 اگست کو ان کی برسی میں ان کو یاد کرتے ہیں۔ لوک مانیہ تلک بہادری اور  اعتماد سے لبریز تھے۔ ان میں برطانوی حکومتوں کو ان کی غلطیوں کا آئینہ دکھانے کی قوت تھی۔ انگریز لوک مانیہ تلک سے اتنا زیادہ ڈرے ہوئے تھے کہ انہوں نے 20 سالوں میں ان پر تین بار غداری کا الزام لگانے کی کوشش کی، اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں، لوک مانیہ تلک اور احمد آباد میں ان کے ایک مجسمہ کے ساتھ جڑی ہوئی ایک حیرت انگیز واقعہ آج ہم وطنوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ اکتوبر 1916 میں لوک مانیہ تلک جی احمد آباد جب آئے، اس زمانے میں آج سے تقریباً سو سال پہلے 40000 سے زیادہ لوگوں نے ان کا احمد آباد میں استقبال کیا تھا اور یہیں سفر کے دوران سردار ولبھ بھائی پٹیل کو ان سے بات چیت کرنے کا موقع ملا تھا اور سردار ولبھ بھائی پٹیل لوک مانیہ تلک جی سے بہت زیادہ متاثر تھے اور جب 01 اگست ، 1920 کو لوک مانیہ تلک جی کا انتقال ہوا اسی وقت انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ احمد آباد میں ان کا مجسمہ بنائیں گے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل احمد آباد نگر نیگم کے میئر منتخب ہوئے اور فوراً ہی انہوں نے لوک مانیہ تلک کے مجسمے کے لیے وکٹوریا گارڈن کو چنا اور یہ وکٹوریا گاڑدن جو برطانیہ کی مہارانی کے نام پر تھا۔ ظاہر طور پر برطانوی حکومت اس سے ناخوش تھے اور کلکٹر اس کے لیے منظوری دینے سے مسلسل منع کرتا رہا لیکن سردار صاحب، سردار صاحب تھے۔ وہ اٹل تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ چاہے انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑے، لیکن لوک مانیہ تلک جی کا مجسمہ بن کر رہے گا۔ آخر کار مجسمہ بن کر تیار ہو گیا اور سردار صاحب نے کسی اور سے نہیں بلکہ 28 فروری 1929 – اس کا افتتاح مہاتما گاندھی سے کرایا اور سب سے بڑے مزے کی بات ہے اس افتتاحی اجلاس میں، اس تقریر میں پوجیہ باپو نے کہا کہ سردار پٹیل کے آنے کے بعد احمد آباد نگر نگم کو نہ صرف ایک آدمی ملا ہے بلکہ اسے وہ ہمت بھی ملی ہے جس کی وجہ سے تلک جی کے مجسمہ کی تعمیر ممکن ہو پائی ہے۔ اور میرے پیارے ہم وطنوں، اس مجسمہ کی خاصیت یہ ہے کہ تلک کی ایسی انمول مورتی ہے جس میں وہ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں، اس میں تلک کے ٹھیک نیچے لکھا ہے ’سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے’ اور یہ سب انگریزوں کے اس دور کی بات تو سنا رہا ہوں۔ لوک مانیہ تلک جی کی کوششوں سے ہی گنیش اتسو کی روایت شروع ہوئی۔ عوامی گنیش اتسو روایتی شردھا اور جشن کے ساتھ ساتھ سماجی بیداری، جمعیت، لوگوں میں یکسانیت کے جذبہ کو آگے بڑھانے کی ایک متاثر کن ذریعہ بن گیا تھا۔ ویسے وہ ایک وقت تھا جب ضرورت تھی کہ ملک انگریزوں کےخلاف لڑائی کے لیے ایک جٹ ہو، ان تہواروں نے ذات پات کے بندھنوں کو توڑتے ہوئے سبھی کو ایک جٹ کرنے کا کام کیا۔ وقت کے ساتھ ان تہواروں کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے قدیمی وراثت اور تاریخ کے ہمارے بہادر ہیروؤں کے تئیں آج بھی ہماری نوجوان نسل میں کریز ہے۔ آج کئی شہروں میں تو ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو تقریباً ہر گلی میں گنیش پنڈال دیکھنے کو ملتا ہے۔ گلی کے سبھی کنبے ساتھ مل کر کے اسے منعقد کرتے ہیں۔ ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے بھی ایک بہترین موقع ہے، جہاں وہ لیڈرشپ اور آرگنائزیشن جیسے ہنر سیکھ سکتے ہیں، انہیں خود کے اندر  پیدا کر سکتے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں! میں نے پہلے بھی یہ درخواست کی تھی اور جب لوک مانیہ تلک جی کو یاد کر رہا ہوں تب پھر سے ایک بار آپ سے درخواست کرونگا کہ اس بار بھی ہم گنیش اتسو منائیں، دھوم دھام سے منائیں، جی جان سے منائیں لیکن ایکو فرینڈلی گنیش اتسو منانے کی کوشش کریں۔ گنیش جی کی مورتی سے لے کر سجانے کا سامان سب کچھ ایکو فرینڈلی ہو اور میں تو چاہوں گا ہر شہر  میں ایکو فرینڈلی گنیش اتسوکے الگ مقابلہ ہوں،  ان کو انعام دئے جائیں اور میں تو چاہوں گا کہ مائی گوو پر بھی اور نریندر مودی ایپ پر بھی ایکو فرینڈلی گنیش اتسو کی چیزیں وسیع پرچار کے لیے رکھی جائیں۔ میں ضرور آپکی بات لوگوں تک پہنچاؤنگا۔ لوک مانیہ تلک نے ہم وطنوں میں خود  اعتمادی بیدار کر کے انہوں نے نعرہ دیا تھا – ’سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے اور ہم لے کر رہیں گے‘۔ آج یہ کہنے کا وقت ہے سوراج ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے اور ہم اسے لے کر رہیں گے۔ ہم ہندوستانی کی پہنچ بہتر حکمرانی اور ترقی کے اچھے نتائج تک ہونی چاہیے۔ یہی وہ بات ہے جو ایک نئے ہندوستان کی تعمیر کرے گی۔ تلک کے جنم کے 50 سالوں بعد ٹھیک اسی دن یعنی 23 جولائی کو بھارت ماں کے ایک اور سپوت کا جنم ہوا، جنہوں نے اپنی زندگی اس لیے قربان کر دی تاکہ ہم وطن آزادی کی ہوا میں سانس لے سکے۔ میں بات کر رہا ہوں چندر شیکھر آزاد کی۔ ہندوستان میں کون سا ایسا نوجوان ہوگا جو ان لائنوں کو سن کر ترغیب حاصل نہیں کرے گا –

’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے،

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘

ان جملوں نے اشفاق اللہ خاں، بھگت سنگھ، چندر شیکھر آزاد جیسے مختلف نوجوانوں کو ترغیب دی۔ چندر شیکر آزاد کی بہادری اور آزادی کے لیے ان کا جنون، اس نے کئی نوجوانوں کو ترغیب دی۔ آزاد نے اپنی زندگی کو داؤں پر لگا دیا، لیکن غیر ملکی حکومت کے سامنے وہ کبھی نہیں جھکے۔ یہ میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے مدھیہ پردیش میں چندر شیکھر آزاد کے گاؤں علی راج پور جانے کا موقع بھی حاصل ہوا۔ الہ آباد کے چندر شیکھر آزاد پارک میں بھی گلہائے عقیدت پیش کرنے کا موقع ملا اور چندر شیکھر آزاد جی وہ بہادر شخص تھے جو غیرملکیوں کی گولی سے مرنا نہیں چاہتے تھے –جیئیں گے تو لڑتے لڑتے اور مریں گے تو بھی آزاد بنے رہ کر کے مریں گے یہی تو خاصیت تھی ان کی۔ ایک بار پھر سے بھارت ماتا کے دو عظیم سپوتوں – لوک مانیہ تلک جی اور چندر شیکھر آزاد جی کو  شردھا کے ساتھ نمسکار کرتا ہوں۔

ابھی کچھ ہی دن پہلے فن لینڈ میں چل رہی جونیئر انڈر -20 عالمی ایتھلیٹکس چمپئن شپ میں 400 میٹر کی دوڑ، اس مقابلہ میں ہندوستان کی بہادر بیٹی اور کسان کی بیتی ہیما داس نے گولڈ میڈل جیت کر تاریخ  رچ دی ہے۔ ملک کی ایک اور بیٹی ایکتا بھیان نے میرے خط کے جواب میں انڈونیشیا سے مجھے ای میل کیا ابھی وہ وہاں ایشئن گیمز کی تیاری کر رہی ہیں۔ ای میل میں ایکتا لکھتی ہیں – ’کسی بھی ایتھلیٹ کی زندگی میں سب سے اہم لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ ترنگا پکڑتا ہے اور مجھے فخر ہے کہ میں نے وہ کر دکھایا۔‘ ایکتا ہم سب کو بھی آپ پر فخر ہے۔ آپ نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ ٹیونیشیا میں عالمی پیرا ایتھلیٹکس گرانڈ پرکس  2018 میں ایکتا نے گولڈ اور کانسے کے تمغہ جیتے ہیں۔ ان کی یہ حصولیابی خاص اس لیے ہے کہ انہوں نے اپنے چیلنج کو ہی اپنی کامیابی کا ذریعہ بنا دیا۔ بیٹی ایکتا بھیان 2003 میں ، روڈ ایکسیڈینٹ کی وجہ سے اس کے جسم کا آدھا حصہ نیچے کا حصہ ناکام ہو گیا، لیکن اس بیٹی نے ہمت نہیں ہاری اور خود کو مضبوط بناتے ہوئے یہ مقام حاصل کیا۔ ایک اور ویویانگ یوگیش کٹھونیا جی نے، انہوں نے برلن میں پیرا ایتھلیٹکس گرانڈ پرکس میں ڈسکس تھرو میں گولڈ میڈل جیت کر عالمی ریکارڈ بنایا ہے۔ ان کے ساتھ سندر سنگھ گرجر نے بھی جیولین میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ میں ایکتا بھیان جی، یوگیش کٹھونیا جی اور سندر سنگھ جی آپ سبھی کے حوصلے اور جذبے کو سلام کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ اور آگے بڑھیں، کھیلتے رہیں، کھلتے رہیں۔

میرے پیارے ہم وطنوں، اگست مہینہ تاریخ کے مختلف واقعات، تہواروں کی گہما گہمی سے بھرا رہتا ہے، لیکن موسم کی وجہ سے کبھی کبھی بیماری بھی گھر میں گھس آتی ہے۔ میں آپ سب  کو بہتر صحت کے لیے ، حب وطنی کی ترغیب جگانے والے، اس اگست مہینے کے لیے اور صدیوں سے چلے آ رہے مختلف تہواروں کے لیے، بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ پھر ایک بار من کی بات کے لیے ضرور ملیں گے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More