میرے پیارے ہم وطنو، آپ سبھی کو نمسکار۔ کوٹی کوٹی (لاکھوں، کروڑوں) نمسکار۔ اور میں ’کوٹی کوٹی نمسکار‘ اس لیے بھی کہہ رہا ہوں کہ 100 کروڑ ویکسین ڈوز کے بعد آج ملک نئے جوش، نئی توانائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے ویکسین پروگرام کی کامیابی، بھارت کی صلاحیت کو دکھاتی ہے، سب کی کوشش کے منتر کی طاقت کو دکھاتی ہے۔
ساتھیو، 100 کروڑ ویکسین ڈوز کا ڈیٹا بہت بڑا ضرور ہے، لیکن اس سے لاکھوں چھوٹے چھوٹے حوصلہ افزااور فخر سے پُر کر دینے والے متعدد تجربات، متعدد مثالیں جڑی ہوئی ہیں۔ بہت سارے لوگ خط لکھ کر مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ویکسین کی شروعات کے ساتھ ہی کیسے مجھے یہ یقین ہو گیا تھا کہ اس مہم کو اتنی بڑی کامیابی ملے گی۔ مجھے یہ پختہ یقین اس لیے تھا، کیوں کہ میں اپنے ملک، اپنے ملک کے لوگوں کی صلاحیتوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے ہیلتھ کیئر ورکرز ملک کے شہریوں کی ٹیکہ کاری میں کوئی کوتاہی نہیں برتیں گے۔ ہمارے طبی ملازمین نے اپنی بے پناہ کوششوں اور عزم سے ایک نئی مثال پیش کی، انہوں نے انوویشن کے ساتھ اپنے پختہ عزم سے انسانیت کی خدمت کا ایک نیا پیمانہ قائم کیا۔ ان کے بارے میں بے شمار مثالیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ کیسے انہوں نے تمام چیلنجز کو پار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سیکورٹی کور فراہم کیا۔ ہم نے کئی بار اخباروں میں پڑھا ہے، باہر بھی سنا ہے اس کام کو کرنے کے لیے ہمارے ان لوگوں نے کتنی محنت کی ہے، ایک سے بڑھ کر ایک متعدد حوصلہ افزا مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میں آج ’من کی بات‘ کے سامعین کو اتراکھنڈ کے باگیشور کی ایک ایسی ہی ہیلتھ ورکر پونم نوٹیال جی سے ملوانا چاہتا ہوں۔ ساتھیو، یہ باگیشور اتراکھنڈ کی اُس سرزمین سے ہے جس اتراکھنڈ نے سو فیصد پہلا ڈوز لگانے کا کام پورا کر دیا ہے۔ اتراکھنڈ سرکار بھی اس کے لیے مبارکباد کی مستحق ہے، کیوں کہ بہت دور دراز کا علاقہ ہے، مشکل علاقہ ہے۔ ویسے ہی، ہماچل نے بھی ایسی مشکلات میں سو فیصد ڈوز کا کام کر لیا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ پونم جی نے اپنے علاقے کے لوگوں کی ٹیکہ کاری کے لیے دن رات محنت کی ہے۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی نمستے۔
پونم نوٹیال:- سر پرنام۔
جناب وزیراعظم:- پونم جی اپنے بارے میں بتائے ذرا ملک کے سامعین کو۔
پونم نوٹیال:- سر میں پونم نوٹیال ہوں۔ سر میں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں چانی کورالی سنٹر میں ملازم ہوں۔ میں ایک اے این ایم ہوں سر۔
جناب وزیر اعظم:- پونم جی میری خوش قسمتی ہے مجھے باگیشور آنے کا موقع ملا تھا وہ ایک طرح سے تیرتھ کا علاقہ رہا ہے وہاں قدیم مندر وغیرہ بھی ہیں، میں بہت متاثر ہوا تھا صدیوں پہلے کیسے لوگوں نے کام کیا ہوگا۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر
جناب وزیر اعظم:- پونم جی کیا آپ نے اپنے علاقے کے سبھی لوگوں کی ٹیکہ کاری کروالی ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، سبھی لوگوں کا ہو چکا ہے
جناب وزیر اعظم:- آپ کو کسی قسم کی دقت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے کیا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر۔ سر ہم لوگ جیسے بارش ہوتی تھی وہاں پہ اور روڈ بلاک ہو جاتا تھا۔ سر، ندی پار کرکے گئے ہیں ہم لوگ نا! اور سر گھر گھر گئے ہیں، جیسے این ایچ سی وی سی کے تحت ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ جو لوگ سنٹر میں نہیں آ سکتے تھے، جیسے بزرگ لوگ اور معذور افراد، حاملہ عورتیں، دھاتری عورتیں – یہ لوگ سر۔
جناب وزیر اعظم:- لیکن، وہاں تو پہاڑوں پر گھر بھی بہت دور دور ہوتے ہیں۔
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- تو ایک دن میں کتنا کر پاتے تھے آپ!
پونم نوٹیال:- سر کلومیٹر کا حساب – 10 کلومیٹر کبھی 8 کلومیٹر۔
جناب وزیر اعظم:- خیر، یہ تو ترائی میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو یہ سمجھ نہیں آئے گا 10-8 کلومیٹر کیا ہوتا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ کے 10-8 کلومیٹر مطلب پورا دن چلا جاتا ہے۔
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- لیکن ایک دن میں کیوں کہ یہ بڑی محنت کا کام ہے اور ٹیکہ کاری کا سارا سامان اٹھا کر کے جانا۔ آپ کے ساتھ کوئی معاون رہتے تھے کہ نہیں؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، ٹیم ممبر، ہم پانچ لوگ رہتے تھے سر نا!
جناب وزیر اعظم:- ہاں
پونم نوٹیال:- تو اس میں ڈاکٹر ہو گئے، پھر اے این ایم ہو گئی، فارماسسٹ ہو گئے، آشا ہو گئی، اور ڈیٹا انٹری آپریٹر ہو گئے۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا وہ ڈیٹا انٹری، وہاں کنیکٹویٹی مل جاتی تھی یا پھر باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے؟
پونم نوٹیال:- سر کہیں کہیں مل جاتی، کہیں کہیں باگیشور آنے کے بعد کرتے تھے، ہم لوگ۔
جناب وزیر اعظم:- اچھا! مجھے بتایا گیا ہے پونم جی کہ آپ نے آؤٹ آف دی وے جاکر لوگوں کا ٹیکہ لگوایا۔ یہ کیا تصور آیا، آپ کے من میں خیال کیسے آیا اور کیسے کیا آپ نے؟
پونم نوٹیال:- ہم لوگوں نے، پوری ٹیم نے، عہد کیا تھا کہ ہم لوگوں سے ایک آدمی بھی نہیں چھوٹنا چاہیے۔ ہمارے ملک سے کورونا بیماری دور بھاگنی چاہیے۔ میں نے اور آشا نے مل کر ہر ایک آدمی کی گاؤں وائز ڈیو لسٹ بنائی، پھر اس کے حساب سے جو لوگ سنٹر میں آئے ان کو سنٹر میں لگایا۔ پھر ہم لوگ گھر گھر گئے ہیں۔ سر، پھر اس کے بعد، چھوٹے ہوئے تھے، جو لوگ نہیں آ پاتے سنٹر میں،
جناب وزیر اعظم:- اچھا، لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی، سمجھایا، ہاں جی!
جناب وزیر اعظم:- لوگوں کا جوش ہے، ابھی بھی ویکسین لینے کا؟
پونم نوٹیال:- ہاں جی سر، ہاں جی۔ اب تو لوگ سمجھ گئے ہیں۔ فرسٹ میں بہت دقت ہوئی ہم لوگوں کو۔ لوگوں کو سمجھانا پڑتا تھا، کہ یہ جو ویکسین ہے محفوظ ہے، اور اثر دار ہے، ہم لوگ بھی لگا چکے ہیں، تو ہم لوگ تو ٹھیک ہیں، آپ کے سامنے ہیں، اور ہمارے اسٹاف نے، سب نے، لگا لیا ہے، تو ہم لوگ ٹھیک ہیں۔
جناب وزیر اعظم:- کہیں پر ویکسین لگنے کے بعد کسی کی شکایت آئی۔ بعد میں
پونم نوٹیال:- نہیں، نہیں سر۔ ایسا تو نہیں ہوا
جناب وزیر اعظم:- کچھ نہیں ہوا
پونم نوٹیال:- جی
جناب وزیر اعظم:- سب کو اطمینان تھا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیر اعظم:- کہ ٹھیک ہو گیا
پونم نوٹیال:- ہاں جی
جناب وزیراعظم:- چلئے، آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اور میں جانتا ہوں، یہ پورا علاقہ کتنا مشکل ہے اور پیدل چلنا پہاڑوں پہ۔ ایک پہاڑ پہ جاؤ، پھر نیچے اترو، پھر دوسرے پہاڑ پہ جاؤ، گھر بھی دور دور اس کے باوجود بھی، آپ نے، اتنا بڑھیا کام کیا
پونم نوٹیال:- شکریہ سر، میری خوش قسمتی آپ سے بات ہوئی میری۔
آپ جیسے لاکھوں ہیلتھ ورکرز نے ان کی محنت کی وجہ سے ہی بھارت سو کروڑ ویکسین ڈوز کا پڑاؤ پار کر سکا ہے۔ آج میں صرف آپ کا ہی شکریہ ادا نہیں کر رہا ہوں، بلکہ بھارت کے ہر اس شہری کا شکریہ ادا کر رہا ہوں، جس نے ’سب کو ویکسین –مفت ویکسین‘ مہم کو اتنی اونچائی دی، کامیابی دی۔ آپ کو، آپ کی فیملی کو میری طرف سے بہت ساری نیک خواہشات۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ جانتے ہیں کہ اگلے اتوار، 31 اکتوبر کو، سردار پٹیل جی کی جنم جینتی ہے۔ ’من کی بات‘ کے ہر سامعین کی طرف سے، اور میری طرف سے، میں آئرن مین کو نمن کرتا ہوں۔ ساتھیو، 31 اکتوبر کو ہم ’راشٹریہ ایکتا دیوس‘ کے طور پر مناتے ہیں۔ ہم سبھی کی ذمہ داری ہے کہ ہم اتحاد کا پیغام دینے والی کسی نہ کسی سرگرمی سے ضرور جڑیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، حال ہی میں گجرات پولیس نے کچھّ کے لکھپت قلعہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی نکالی ہے۔ تریپورہ پولیس کے جوان تو ایکتا دیوس منانے کے لیے تریپورہ سے اسٹیچو آف یونٹی تک بائیک ریلی کرر ہے ہیں۔ یعنی، مشرق سے چل کر مغرب تک ملک کو جوڑ رہے ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس کے جواب بھی اُری سے پٹھان کوٹ تک ایسی ہی بائیک ریلی نکال کر ملک کے اتحاد کا پیغام دے رہے ہیں۔ میں ان سبھی جوانوں کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ جموں و کشمیر کے ہی کپواڑہ ضلع کی کئی بہنوں کے بارے میں بھی مجھے پتہ چلا ہے۔ یہ بہنیں کشمیر میں فوج اور سرکاری دفتروں کے لیے ترنگا سلنے کا کام کر رہی ہیں۔ یہ کام حب الوطنی کے جذبے سے بھرا ہوا ہے۔ میں ان بہنوں کے جذبے کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ کو بھی، بھارت کے اتحاد کے لیے، بھارت کی عظمت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔ دیکھئے گا، آپ کے من کو کتنا سکون ملتا ہے۔
ساتھیو، سردار صاحب کہتے تھے کہ – ’’ہم اپنے اتحاد سے ہی ملک کو نئی عظیم بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اگر ہم میں اتحاد نہیں ہوا تو ہم خود کو نئی نئی مصیبتوں میں پھنسا دیں گے۔‘‘ یعنی قومی اتحاد ہے تو اونچائی ہے، ترقی ہے۔ ہم سردار پٹیل جی کی زندگی سے، ان کے خیالات سے، بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ملک کی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی حال ہی میں سردار صاحب پر ایک پکٹوریل بائیوگرافی شائع کی ہے۔ میں چاہوں گا کہ ہمارے سبھی نوجوان ساتھی اسے ضرور پڑھیں۔ اس سے آپ کو دلچسپ انداز میں سردار صاحب کے بارےمیں جاننے کا موقع ملے گا۔
پیارے ہم وطنو، زندگی مسلسل پیش رفت چاہتی ہے، ترقی چاہتی ہے، اونچائیوں کو پار کرنا چاہتی ہے۔ سائنس بھلے ہی آگے بڑھ جائے، ترقی کی رفتار کتنی ہی تیز ہو جائے، عمارت کتنی ہی عالیشان بن جائے، لیکن پھر بھی زندگی ادھوراپن محسوس کرتی ہے۔ لیکن، جب ان میں گیت موسیقی، آرٹ، رقص و ڈرامہ، ادب جڑ جاتا ہے، تو ان کی شان، ان کی جاودانی، کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایک طرح سے زندگی کو مثبت بننا ہے، تو یہ سب ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے، اس لیے ہی کہا جاتا ہے کہ یہ سبھی ہنر ہماری زندگی میں ایک کیٹالسٹ کا کام کرتے ہیں، ہماری توانائی بڑھانے کا کام کرتے ہیں۔ انسانی ذہن کی گہرائی کو فروغ دینے میں، ہمارے ذہن کی گہرائی کی راہ ہموار کرنے میں بھی، گیت موسیقی اور مختلف فنون کا بڑا رول ہوتا ہے، اور ان کی ایک بڑی طاقت یہ ہوتی ہے کہ انہیں نہ وقت باندھ سکتا ہے، نہ سرحد باندھ سکتی ہے اور نہ ہی اختلاف رائے باندھ سکتا ہے۔ امرت مہوتسو میں بھی اپنے فن، ثقافت، گیت، موسیقی کے رنگ ضرور بھرنے چاہئیں۔ مجھے بھی آپ کی طرف سے امرت مہوتسو اور گیت موسیقی فن کی اس طاقت سے جڑے بہت سارے مشورے موصول ہو رہے ہیں۔ یہ مشورے، میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔ میں نے انہیں وزارت ثقافت کو مطالعہ کے لیے بھیجا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ وزارت نے اتنے کم وقت میں ان مشوروں کو بڑی سنجیدگی سے لیا، اور اس پر کام بھی کیا۔ انہی میں سے ایک مشورہ ہے، حب الوطنی کے گیتوں سے جڑا مقابلہ! آزادی کی لڑائی میں الگ الگ زبان، بولی میں، حب الوطنی کے گیتوں اور بھجنوں نے پورے ملک کو متحد کیا تھا۔ اب امرت کال میں، ہمارے نوجوان، حب الوطنی کے ایسے ہی گیت لکھ کر، اس پروگرام میں مزید توانائی بھر سکتے ہیں۔ حب الوطنی کے یہ گیت مادری زبان میں ہو سکتے ہیں، قومی زبان میں ہو سکتے ہیں، اور انگریزی میں بھی لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن، یہ ضروری ہے کہ یہ تخلیقات نئے بھارت کی نئی سوچ والی ہوں، ملک کی موجودہ کامیابی سے تاثر لے کر مستقبل کے لیے ملک کو عزم فراہم کرنے والی ہوں۔ وزارت ثقافت کی تیاری تحصیل سطح سے قومی سطح تک اس سے جڑے مقابلے کرانے کی ہے۔
ساتھیو، ایسے ہی ’من کی بات‘ کے ایک سامع نے مشورہ دیا ہے کہ امرت مہوتسو کو رنگولی کے فن سے بھی جوڑا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں رنگولی کے ذریعے تہواروں میں رنگ بھرنے کی روایت تو صدیوں سے ہے۔ رنگولی میں ملک کی تکثیریت کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ ناموں سے، الگ الگ تھیم پر رنگولی بنائی جاتی ہے۔ اس لیے، وزارت ثقافت اس سے بھی جڑا ایک قومی مقابلہ کرانے جا رہا ہے۔ آپ تصور کیجئے، جب آزادی کی تحریک سے جڑی رنگولی بنے گی، لوگ اپنے دروازے پر، دیوار پر، کسی آزادی کے متوالے کی تصویر بنائیں گے، آزادی کے کسی واقعہ کو رنگوں سے دکھائیں گے، تو امرت مہوتسو کا بھی رنگ اور بڑھ جائے گا۔
ساتھیو، ایک اور فن ہمارے یہاں لوری کا بھی ہے۔ ہمارے یہاں لوری کے ذریعے چھوٹے بچوں کو آداب سکھائے جاتے ہیں، ثقافت سے ان کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ لوری کی بھی اپنی رنگا رنگی ہے۔ تو کیوں نہ ہم، امرت کال میں، اس فن کو بھی دوبارہ زندہ کریں اور حب الوطنی سے جڑی ایسی لوریاں لکھیں، نظمیں، گیت، کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں جو بڑی آسانی سے، ہر گھر میں مائیں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنا سکیں۔ ان لوریوں میں جدید بھارت کا حوالہ ہو، 21ویں صدی کے بھارت کے خوابوں کی عکاسی ہو۔ آپ تمام سامعین کے مشورے کے بعد وزارت نے اس سے جڑا مقابلہ بھی کرانے کا فیصلہ لیا ہے۔
ساتھیو، یہ تینوں مقابلے 31 اکتوبر کو سردار صاحب کی جینتی سے شروع ہونے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وزارت ثقافت اس سے جڑی ساری جانکاری دے گی۔ یہ جانکاری وزارت کی ویب سائٹ پر بھی رہے گی، اور سوشل میڈیا پر بھی دی جائے گی۔ میں چاہوں گا کہ آپ سبھی اس سے جڑیں۔ ہمارے نوجوان ساتھی ضرور اس میں اپنے فن کا، اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ اس سے آپ کے علاقے کا فن اور ثقافت بھی ملک کے کونے کونے تک پہنچے گا، آپ کی کہانیاں پورا ملک سنے گا۔
پیارے ہم وطنو، اس وقت ہم امرت مہوتسو میں ملک کے بہادر بیٹے بیٹیوں کو، ان عظیم روحوں کو یاد کر رہے ہیں۔ اگلے مہینے، 15 نومبر کو ہمارے ملک کی ایسی ہی عظیم شخصیت، بہادر سپاہی، بھگوان برسا منڈا جی کی جنم جینتی آنے والی ہے۔ بھگوان برسا منڈا کو ’دھرتی آبا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے بابائے زمین۔ بھگوان برسا منڈا نے جس طرح اپنی ثقافت، اپنے جنگل، اپنی زمین کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی، وہ دھرتی آبا ہی کر سکتے تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی ثقافت اور جڑوں کے تئیں فخر کرنا سکھایا۔ غیر ملکی حکومت نے انہیں کتنی دھمکیاں دیں، کتنا دباؤ بنایا، لیکن انہوں نے آدیواسی ثقافت کو نہیں چھوڑا۔ قدرت اور ماحولیات سے اگر ہمیں محبت کرنا سیکھنا ہے، تو اس کے لیے بھی دھرتی آبا بھگوان برسا منڈا ہمارے لیے بڑے حوصلہ کا باعث ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی حکومت کی ہر اس پالیسی کی پرزور مخالفت کی، جو ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی تھی۔ غریب اور مصیبت سے گھرے لوگوں کی مدد کرنے میں بھگوان برسا منڈا ہمیشہ آگے رہے۔ انہوں نے سماجی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے سماج کو بیدار بھی کیا۔ اُلگولان تحریک میں ان کی قیادت کو بھلا کون بھلا سکتا ہے! اس تحریک نے انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جس کے بعد انگریزوں نے بھگوان برسا منڈا پر بہت بڑا انعام رکھا تھا۔ برطانوی حکومت نے انہیں جیل میں ڈالا، ان کے اوپر اس قدر ظلم ڈھائے کہ 25 سال سے بھی کم عمر میں وہ ہمیں چھوڑ گئے۔ وہ ہمیں چھوڑ کر گئے، لیکن صرف جسم سے۔
عام لوگوں میں تو بھگوان برسا منڈا ہمیشہ کے لیے رچے بسے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے لیے ان کی زندگی حوصلہ کی طاقت بنی ہوئی ہے۔ آج بھی ان کی بہادری اور شجاعت سے بھرے لوک گیت اور کہانیاں بھارت کے وسطی علاقے میں کافی مقبول ہیں۔ میں ’دھرتی آبا‘ برسا منڈا کو سلام کرتا ہوں اور نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کے بارے میں مزید پڑھیں۔ بھارت کی جدوجہد آزادی میں ہماری آدیواسی برادری کے مخصوص تعاون کے بارے میں آپ جتنا جانیں گے، اتنے ہی فخر کا احساس ہوگا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آج 24 اکتوبر کو یو این ڈے، یعنی ’اقوام متحدہ کا دن‘ منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سے ہی بھارت اس سے جڑا رہا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارت نے آزادی سے پہلے 1945 میں ہی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے تھے۔ اقوام متحدہ سے جڑا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا اثر اور اس کی طاقت بڑھانے میں، ہندوستانی خواتین نے بڑا رول نبھایا ہے۔ 48-1947 میں جب یو این ہیومن رائٹس کا یونیورسل ڈکلریشن تیار ہو رہا تھا تو اس ڈکلریشن میں لکھا جا رہا تھا کہ ’’تمام مردوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ لیکن بھارت کے ایک وفد نے اس پر اعتراض جتایا اور پھر یونیورسل ڈکلریشن میں لکھا گیا – ’’تمام انسانوں کو یکساں بنایا گیا ہے‘‘۔ یہ بات جنسی برابری کی بھارت کی صدیوں پرانی روایت کے موافق تھی۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ محترمہ ہنسا مہتہ وہ وفد تھی جن کی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا، اسی دوران، ایک دیگر وفد محترمہ لکشمی مینن نے جنسی برابری کے ایشو پر زوردار طریقے سے اپنی بات رکھی تھی۔ یہی نہیں، 1953 میں محترمہ وجیہ لکشمی پنڈت، یو این جنرل اسمبلی کی پہلی خاتون پریزیڈنٹ بھی بنی تھیں۔
ساتھیو، ہم اس سرزمین کے لوگ ہیں، جو یہ یقین کرتے ہیں، جو یہ پرارتھنا کرتے ہیں:
ॐ द्यौ: शान्तिरन्तरिक्षॅं शान्ति:,
पृथ्वी शान्तिराप: शान्तिरोषधय: शान्ति:।
वनस्पतय: शान्तिर्विश्र्वे देवा: शान्तिर्ब्रह्म शान्ति:,
सर्वॅंशान्ति:, शान्तिरेव शान्ति:, सा मा शान्तिरेधि।।
ॐ शान्ति: शान्ति: शान्ति:।।
بھارت نے ہمیشہ عالمی امن کے لیے کام کیا ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ بھارت 1950 کے عشرے سے لگاتار اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ رہا ہے۔ غریبی ہٹانے، ماحولیاتی تبدیلی اور مزدوروں سے متعلق مسائل کے حل میں بھی بھارت سرکردہ رول نبھاتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ یوگ اور آیوش کو مقبول بنانے کے لیے بھارت ڈبلیو ایچ او یعنی عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ مارچ، 2021 میں ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا تھا کہ بھارت میں روایتی میڈیسن کے لیے ایک گلوبل سنٹر قائم کیا جائے گا۔
ساتھیو، اقوام متحدہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے آج مجھے اٹل جی کے الفاظ بھی یاد آ رہے ہیں۔ 1977 میں انہوں نے اقوام متحدہ کو ہندی میں مخاطب کرکے تاریخ رقم کی تھی۔ آج میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو، اٹل جی کے اس خطاب کا ایک حصہ سنانا چاہتا ہوں۔ سنئے، اٹل جی کی بارعب آواز –
’’یہاںمیں قوموں کی حکومت اور اہمیت کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوں۔ عام آدمی کا وقار اور ترقی میرے لیے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آخرکار ہماری کامیابیاں اور ناکامیاں صرف ایک ہی پیمانے سے ناپی جانی چاہیے کہ کیا ہم پوری انسانیت، ہر مرد و عورت اور بچے کے لیے انصاف اور عزت کی یقینی دہانی کرانے میں کوشاں ہیں۔‘‘
ساتھیو، اٹل جی کی یہ باتیں آج بھی ہماری راہنمائی کرتی ہیں۔ اس سرزمین کو ایک بہتر اور محفوظ سیارہ بنانے میں بھارت کا تعاون، دنیا بھر کے لیے بہت بڑا حوصلہ ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی کچھ دن پہلے ہی 21 اکتوبر کو ہم نے پولیس کا یادگاری دن منایا ہے۔ پولیس کے جن ساتھیوں نے ملک کی خدمت میں اپنی جانیں قربان کی ہیں، اس دن ہم انہیں خاص طور پر یاد کرتے ہیں۔ میں آج اپنے ان پولیس ملازمین کے ساتھ ہی ان کے کنبوں کو بھی یاد کرنا چاہوں گا۔ فیملی کے تعاون اور قربانی کے بغیر پولیس جیسی مشکل خدمت بہت مشکل ہے۔ پولیس سروس سے جڑی ایک اور بات ہے جو میں ’من کی بات‘ کے سامعین کو بتانا چاہتا ہوں۔ پہلے یہ تصور بن گیا تھا کہ فوج اور پولیس جیسی سروس صرف مردوں کے لیے ہی ہوتی ہے۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ دڈیولپمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں خواتین پولیس کی تعداد ڈبل ہو گئی ہے، دو گنی ہو گئی ہے۔ 2014 میں جہاں ان کی تعداد ایک لاکھ 5 ہزار کے قریب تھی، وہیں 2020 تک اس میں دو گنے سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ تعداد اب 2 لاکھ 15 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ یہاں تک کہ سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز میں بھی پچھلے سات سالوں میں خواتین کی تعداد تقریباً دو گنی ہوئی ہے۔ اور میں صرف تعداد کی ہی بات نہیں کرتا۔ آج ملک کی بیٹیاں مشکل سے مشکل ڈیوٹی بھی پوری طاقت اور حوصلے سے کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر، کئی بیٹیاں ابھی سب سے مشکل مانی جانے والی ٹریننگ میں سے ایک اسپیشلائزڈ جنگل وارفیئر کمانڈوز کی ٹریننگ لے رہی ہیں۔ یہ ہماری کوبرا بٹالیں کا حصہ بنیں گی۔
ساتھیو، آج ہم ایئرپورٹس جاتے ہیں، میٹرو اسٹیشنز جاتے ہیں یا سرکاری دفتروں کو دیکھتے ہیں، سی آئی ایس ایف کی جانباز خواتین ہر حساس جگہ کی حفاظت کرتے دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا سب سے مثبت اثر ہمارے پولیس دستہ کے ساتھ ساتھ سماج کے ذہن و دل پر بھی پڑ رہا ہے۔ خواتین سیکورٹی گارڈز کی موجودگی سے لوگوں میں، خاص کر عورتوں میں فطری طور پر ایک اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ وہ ان سے قدرتی طور پر خود کو جڑا ہوا محسوس کرتی ہیں۔ عورتوں کی حساسیت کی وجہ سے بھی لوگ ان پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ ہماری یہ خواتین پولیس ملک کی لاکھوں اور بیٹیوں کے لیے بھی رول ماڈل بن رہی ہیں۔ میں خواتین پولیس سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ اسکولوں کے کھلنے کے بعد اپنے علاقے کے اسکولوں میں وزٹ کریں، وہاں بچیوں سے بات کریں۔ مجھے یقین ہے کہ اس بات چیت سے ہماری نئی نسل کو ایک نئی سمت ملے گی۔ یہی نہیں، اس سے پولیس پر عوام کا اعتماد بھی بڑھے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آگے اور بھی زیادہ تعداد میں عورتیں پولیس سروس میں شامل ہوں گی، ہمارے ملک کی نیو ایج پولیسنگ کو لیڈ کریں گی۔
میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ کچھ برسوں میں ہمارے ملک میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، اس پر اکثر مجھے ’من کی بات‘ کے سامعین اپنی باتیں لکھتے رہتے ہیں۔ آج میں ایسے ہی ایک موضوع پر آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، جو ہمارے ملک، خاص کر ہمارے نوجوانوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کے تصورات میں چھایا ہوا ہے۔ یہ موضوع ہے، ڈرون کا، ڈرون ٹیکنالوجی کا۔ کچھ سال پہلے تک جب کہیں ڈرون کا نام آتا تھا، تو لوگوں کے من میں پہلا خیال کیا آتا تھا؟ فوج کا، ہتھیاروں کا، جنگ کا۔ لیکن آج ہمارے یہاں کوئی شادی بارات یا فنکشن ہوتا ہے تو ہم ڈرون سے فوٹو اور ویڈیو بناتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ڈرون کا دائرہ، اس کی طاقت، صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ بھارت، دنیا کے ان پہلے ممالک میں سے ہے، جو ڈرون کی مدد سے اپنے گاؤں میں زمین کے ڈجیٹل ریکارڈ تیار کر رہا ہے۔ بھارت ڈرون کا استعمال، ٹرانسپورٹیشن کے لیے کرنے پر بہت ہمہ گیر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ چاہے گاؤں میں کھیتی باڑی ہو یا گھر پر سامان کی ڈیلیوری ہو۔ ایمرجنسی میں مدد پہنچانی ہو یا قانون اور نظم و نسق کی نگرانی ہو۔ بہت وقت نہیں ہے جب ہم دیکھیں گے کہ ڈرون ہماری ان سب ضرورتوں کے لیے تعینات ہوں گے۔ ان میں سے زیادہ تر کی تو شروعات بھی ہو چکی ہے۔ جیسے کچھ دن پہلے، گجرات کے بھاؤ نگر میں ڈرون کے ذریعے کھیتوں میں نینو یوریا کا چھڑکاؤ کیا گیا۔ کووڈ ویکسین مہم میں بھی ڈرون اپنا رول نبھا رہے ہیں۔ اس کی ایک اور تصویر ہمیں منی پور میں دیکھنے کو ملی تھی۔ جہاں ایک جزیرہ پر ڈرون سے ویکسین پہنچائی گئی۔ تلنگانہ بھی ڈرون سے ویکسین ڈیلیوری کے لیے ٹرائل کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اب انفراسٹرکچر کے کئی بڑے پروجیکٹ کی نگرانی کے لیے بھی ڈرون کا استعمال ہو رہا ہے۔ میں نے ایک ایسے نوجوان اسٹوڈنٹ کے بارے میں بھی پڑھا ہے جس نے اپنے ڈرون کی مدد سے ماہی گیروں کی زندگی بچانے کا کام کیا۔
ساتھیو، پہلے اس سیکٹر میں اتنے ضابطے، قانون اور پابندیاں لگا کر رکھے گئے تھے کہ ڈرون کی اصلی صلاحیت کا استعمال بھی ممکن نہیں تھا۔ جس ٹیکنالوجی کو موقع کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا، اسے بحران کے طور پر دیکھا گیا۔ اگر آپ کو کسی بھی کام کے لیے ڈرون اڑانا ہے تو لائسنس اور پرمیشن کا اتنا جھنجٹ ہوتا تھا کہ لوگ ڈرون کے نام سے ہی توبہ کر لیتے تھے۔ ہم نے طے کیا کہ اس مائنڈسیٹ کو بدلا جائے اور نئے ٹرینڈز کو اپنایا جائے۔ اسی لیے اس سال 25 اگست کو ملک ایک نئی ڈرون پالیسی لیکر آیا۔ یہ پالیسی ڈرون سے جڑے حال اور مستقبل کے امکانات کے حساب سے بنائی گئی ہے۔ اس میں اب نہ بہت سارے فارم کے چکر میں پڑنا ہوگا، نہ ہی پہلے جتنی فیس دینی پڑے گی۔ مجھے آپ کو بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ نئی ڈرون پالیسی آنے کے بعد کئی ڈرون اسٹارٹ اپس میں غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ کئی کمپنیاں مینوفیکچرنگ یونٹ بھی لگا رہی ہیں۔ آرمی، نیوی اور ایئر فورس نے ہندوستانی ڈرون کمپنیوں کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ کے آرڈر بھی دیے ہیں۔ اور یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ہمیں یہیں نہیں رکنا ہے۔ ہمیں ڈرون ٹیکنالوجی میں سرکردہ ملک بننا ہے۔ اس کے لیے سرکار ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ میں ملک کے نوجوانوں سے بھی کہوں گا کہ آپ ڈرون پالیسی کے بعد بنے مواقع کا فائدہ اٹھانے کے بارے میں ضرور سوچیں، آگے آئیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، یو پی کے میرٹھ سے ’من کی بات‘ کی ایک سامع محترمہ پربھا شکلا نے مجھے صفائی سے جڑا ایک خط بھیجا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ – ’’بھارت میں تہواروں پر ہم سبھی صفائی کا جشن مناتے ہیں۔ ویسے ہی، اگر ہم صفائی کو، ہر دن کی عادت بنا لیں، تو پورا ملک صاف ہو جائے گا۔‘‘ مجھے پربھا جی کی بات بہت پسند آئی۔ واقعی، جہاں صفائی ہے، وہاں صحت ہے، جہاں صحت ہے، وہاں صلاحیت ہے اور جہاں صلاحیت ہے، وہاں خوشحالی ہے۔ اس لیے تو ملک سووچھ بھارت ابھیان پر اتنا زور دے رہا ہے۔
ساتھیو، مجھے رانچی سے سٹے ایک گاؤں سپاروم نیا سرائے، وہاں کے بارے میں جان کر بہت اچھا لگا۔ اس گاؤں میں ایک تالاب ہوا کرتا تھا، لیکن لوگ اس تالاب والی جگہ کو کھلے میں رفع حاجت کے لیے استعمال کرنے لگے تھے۔ سووچھ بھارت ابھیان کے تحت جب سب کے گھر میں بیت الخلاء بن گیا تو گاؤں والوں نے سوچا کہ کیوں نہ گاؤں کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ خوبصور ت بنایا جائے۔ پھر کیا تھا، سب نے مل کر تالاب والی جگہ پر پارک بنا دیا۔ آج وہ جگہ لوگوں کے لیے، بچوں کے لیے، ایک عوامی مقام بن گیا ہے۔ اس سے پورے گاؤں کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ میں آپ کو چھتیس گڑھ کے دیئور گاؤں کی عورتوں کے بارے میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ یہاں کی عورتیں ایک سیلف ہیلپ گروپ چلاتی ہیں اور مل جل کر گاؤں کے چوک چوراہوں، سڑکوں اور مندروں کی صفائی کرتی ہیں۔
ساتھیو، یوپی کے غازی آباد کے رام ویر تنور جی کو لوگ ’پانڈ مین‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ رام ویر جی تو میکینکل انجینئرنگ کی پڑھائی کرنے کے بعد نوکری کر رہے تھے۔ لیکن ان کے من میں صفائی کی ایک ایسی روشنی پیدا ہوئی کہ وہ نوکری چھوڑ کر تالابوں کی صفائی میں جٹ گئے۔ رام ویر جی اب تک کتنے ہی تالابوں کی صفائی کرکے انہیں دوبارہ زندہ کر چکے ہیں۔
ساتھیو، صفائی کی کوشش تبھی پوری طرح کامیاب ہوتی ہے جب ہر شہری صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھے۔ ابھی دیوالی پر ہم سب اپنے گھر کی صاف صفائی میں تو مصروف ہونے ہی والے ہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں دھیان رکھنا ہے کہ ہمارے گھر کے ساتھ ہمارا آس پڑوس بھی صاف رہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنا گھر تو صاف کریں، لیکن ہمارے گھر کی گندگی ہمارے گھر کے باہر، ہماری سڑکوں پر پہنچ جائے۔ اور ہاں، میں جب صفائی کی بات کرتا ہوں تب براہ کرم سنگل یوز پلاسٹک سے نجات کی بات ہمیں کبھی بھی بھولنی نہیں ہے۔ تو آئیے، ہم عہد کریں کہ سووچھ بھارت ابھیان کے جوشش کو کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہم سب مل کر اپنے ملک کو پوری طرح صاف بنائیں گے اور صاف رکھیں گے۔
میرے پیارے ہم وطنو، اکتوبر کا پورا مہینہ ہی تہواروں کے رنگوں میں رنگا رہا ہے اور اب سے کچھ دن بعد دیوالی تو آ ہی رہی ہے۔ دیوالی، اس کے بعد پھر گووردھن پوجا، پھر بھائی دوج، یہ تین تہوار تو ہوں گے ہی ہوں گے، اسی دوران چھٹھ پوجا بھی ہوگی۔ نومبر میں ہی گرونانک دیو جی کی جینتی بھی ہے۔ اتنے تہوار ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی تیاریاں بھی کافی پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ سب بھی ابھی سے خریداری کا پلان کرنے لگے ہوں گے، لیکن آپ کو یاد ہے نہ، خریداری مطلب ’ووکل فار لوکل‘۔ آپ لوکل خریدیں گے تو آپ کا تہوار بھی روشن ہوگا اور کسی غریب بھائی بہن، کسی کاریگر، کسی بنکر کے گھر میں بھی روشنی آئے گی۔ مجھے پورا بھروسہ ہے کہ جو مہم ہم سب نے مل کر شروع کی ہے، اس بار تہواروں میں اور بھی مضبوط ہوگی۔ آپ اپنے یہاں کے جو لوکل پراڈکٹس خریدیں، ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر شیئر بھی کریں۔ اپنے ساتھ کے لوگوں کو بھی بتائیں۔ اگلے مہینے ہم پھر ملیں گے، اور پھر ایسے ہی ڈھیر سارے موضوعات پر بات کریں گے۔
آپ سبھی کا بہت بہت شکریہ! نمسکار!