نئی دہلی۔27 دسمبر میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ آج 27 دسمبر ہے۔ چار دن بعد ہی 2021 کی شروعات ہونے جا رہی ہے۔ آج کی ‘من کی بات’ ایک طرح سے 2020 کی آخری ‘من کی بات’ ہے۔ اگلی ‘من کی بات’ 2021 میں شروع ہوگی۔ ساتھیو، میرے سامنے آپ کے لکھے ہوئے بہت سے خطوط ہیں۔’ مائی گو’ پر جو آپ اپنی رائے بھیجتے ہیں، وہ بھی میرے سامنے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے فون کرکے اپنی بات بتائی ہے۔ زیادہ تر پیغامات میں، گذرے ہوئے سال کے تجربات ، اور، 2021 سے وابستہ عہد ہیں۔ کولہاپور سے انجلی جی نے لکھا ہے کہ نئے سال پر، ہم، ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں تو اس بار ہم ایک نیا کام کریں۔ کیوں نہ ہم، اپنے ملک کو مبارکباد دیں، ملک کے تئیں بھی نیک خواہشات کا اظہار کریں۔ انجلی جی، واقعی، بہت ہی اچھی رائے ہے۔ ہمارا ملک 2021 میں کامیابیوں کی نئی بلندیوں پر جائے ، دنیا میں ہندوستان کی شناخت اورمضبوط ہو، اس سے بڑی تمنا اور کیا ہوسکتی ہے۔
دوستو ، ممبئی کے ابھیشیک جی نے نمو ایپ پر ایک پیغام پوسٹ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2020 نے جو کچھ دکھایا ، جوکچھ سکھایا ، اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ کو رونا سے جڑی تمام باتیں انہوں نے لکھی ہیں۔ ان خطوں میں، ان پیغامات میں، مجھے، ایک بات جومشترک نظر آ رہی ہے، خاص نظر آ رہی ہے، وہ میں آج آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔زیادہ تر خطوں میں لوگوں نے ملک کی صلاحیت ، ہم وطنوں کی اجتماعی طاقت کی بھرپور ستائش کی ہے۔ جب جنتا کرفیو جیسا جدید تجربہ پوری دنیا کے لیے تحریک بن گئی ، جب، تالی تھالی بجاکر ملک نے کورونا واریرس کو عزت بخشی تھی، اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا، اسے بھی کئی لوگوں نے یاد کیا ہے ۔
ساتھیو، ملک کے عام آدمی نے اس تبدیلی کو محسوس کیا ہے۔ میں نے ملک میں امید کا ایک حیرت انگیز بہاؤ بھی دیکھا ہے۔ بہت سارے چیلنجزآئے۔ بہت سارے بحران بھی آئے۔کورونا کے باعث دنیا میں سپلائی چین کے سلسلے میں بہت سی رکاوٹیں بھی درپیش ہوئیں، لیکن ، ہم نے ہر بحران سے نیا سبق لیا۔ ملک میں ایک نئی صلاحیت نے بھی جنم لیا۔ اگر آپ الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں تو اس صلاحیت کا نام ‘خود انحصاری’ ہے۔
دوستو ، دہلی میں رہنے والے ابھینو بنرجی نے اپناجو تجربہ مجھے لکھ کر بھیجا ہے ،وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ ابھینو جی کو اپنی رشتہ داری میں بچوں کو تحفے دینے کے لئے کچھ کھلونے خریدنے تھے ، لہذا ، وہ دہلی کے جھنڈے والان بازار گئے تھے۔ آپ میں سے بہت سے لوگوں کو معلوم ہوگا ، یہ بازار دہلی میں سائیکلوں اور کھلونوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ پہلے وہاں مہنگے کھلونوں کا مطلب بھی درآمد شدہ کھلونے ہوتا تھا اور سستے کھلونے بھی باہر سے آئے تھے۔ لیکن ابھینو جی نے خط میں لکھا ہے کہ اب وہاں کئی دکاندار ، صارفین کو یہ کہہ کر کھلونے بیچ رہے ہیں کہ یہ اچھا کھلونا ہے ، کیونکہ یہ ہندوستان میں بنایا گیا ہے ‘میڈ اِن انڈیا’ ہے۔ صارفین بھی ہندوستان میں بنے کھلونوں کی ہی مانگ کر رہے ہیں۔ یہ تو ہے ، یہ ایک سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی ہے۔ یہ ایک زندہ و جاوید ثبوت ہے۔ ہم وطنوں کی سوچ میں کتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے ، اور وہ بھی ایک سال کے اندر ۔اس تبدیلی کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ ماہرین معاشیات بھی اپنے پیمانے پر اسے وزن نہیں کرسکتے ہیں۔
دوستو ، مجھے وشاکھاپٹنم سےوینکٹ مرلی پرساد جی نے جو لکھا ہے اس میں بھی ایک الگ ہی قسم کا تصور ہے۔ وینکٹ جی نے لکھا ہے میں آپ کو 2021 کے لئےاپنا اے بی سی اٹیچ کر رہا ہوں ۔ مجھےکچھ سمجھ نہیں آیا کہ آخر اے بی سی سے ان کا کیا مطلب ہے۔ تب میں نے دیکھا کہ وینکٹ جی نے خط کے ساتھ ایک چارٹ بھی منسلک کیا ہے۔ میں نے اس چارٹ کو دیکھا ، اور پھر سمجھ گیا کہ اے بی سی کا ان کا مطلب ہے – خود انحصار بھارت چارٹ – اے بی سی۔ یہ بہت دلچسپ ہے۔ وینکٹ جی نے ان تمام چیزوں کی ایک مکمل فہرست بنائی ہے جنہیں وہ روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ اس میں الیکٹرانکس ، اسٹیشنری ، خود کی دیکھ بھال کرنے والی اشیاء، اس کے علاوہ اور بہت کچھ شامل ہے۔ وینکٹ جی نے کہا ہے کہ ، ہم جانے انجانے میں ان غیر ملکی مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں جن کا متبادل ہندوستان میں آسانی سے دستیاب ہے۔ اب انہوں نے قسم کھائی ہے کہ میں ان ہی مصنوعات کا استعمال کروں گا جن میں ہمارے ہم وطنوں کی محنت اور پسینہ شامل ہے۔
دوستو ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ، انہوں نے کچھ اوربھی کہا ہے ، جو مجھے کافی دلچسپ لگا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ہم ایک خود انحصار ہندوستان کی حمایت کر رہے ہیں ، لیکن ہمارے مینوفیکچررز کے لیے بھی واضح پیغام ہونا چاہئے کہ وہ مصنوعات کے معیار سے کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ بات تو درست ہے ۔ صفر اثر ، صفر عیب کی سوچ کے ساتھ کام کرنے کا یہ صحیح وقت ہے۔ میں ملک کے صنعت کاروں اور صنعتوں کے رہنماؤں سے گزارش کرتا ہوں کہ ملک کے عوام نے مضبوط قدم اٹھایا ہے ، مضبوط قدم آگے بڑھایا ہے۔ ووکل فار لوکل کا نعرہ آج گھر گھر میں گونج رہا ہے۔ ایسے میں اب یہ یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے کہ ہماری مصنوعات عالمی معیار کی ہوں۔ جو بھی عالمی طور پر بہترین ہے ، ہم اسے ہندوستان میں بنا کر دکھائیں۔ اس کے لیے ہمارے کاروباری ساتھیوں کو آگے آنا ہوگا۔ اسٹارٹ اپ کو بھی آگے آنا ہوگا۔ ایک بار پھر ، میں وینکٹ جی کو ان کی بہترین کاوشوں کے لئے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
دوستو ، ہمیں اس جذبے کو برقرار رکھنا ہے ، زندہ رکھنا ہے اور اسے فروغ دیتے رہنا ہے ۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور ہم وطنوں سے ایک بار پھر گذارش کروں گا ۔ آپ بھی ایک فہرست تیار کریں ۔دن بھر ہم جن چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، ان تمام چیزوں کے بارے میں سوچیں اور دیکھیں کہ غیر دانستہ طور پر بیرون ملک بنی کون سی چیزیں ہماری زندگی میں داخل ہوگئی ہیں۔ایک طرح سے ، ہمیں قیدی بنا لیا ہے۔ان کے ہندوستان میں بنائے گئے متبادل کا پتہ لگائیں ، اور یہ بھی طے کریں کہ آئندہ سے ہندوستان کے محنت کش لوگوں ، ان کے پسینے سے تیار کردہ مصنوعات کا ہم استعمال کریں ۔ آپ ہر سال نئے سال کی قراردادیں لیتے ہیں ، اس بارایک قرار دار اپنے ملک کی خاطر بھی ضرور لینا چاہیے ۔
میرے پیارےہم وطنو ، ہمارے ملک میں ، دہشت گردوں سے، ظالموں سے ، ملک کے ہزاروں سال پرانی تہذیب و ثقافت ، اپنے رسم و رواج کو بچانے کے لئے کتنی قربانیاں دی گئی ہیں ، آج انہیں یاد کرنے کا بھی دن ہے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند جی کے صاحبزادے جوراور سنگھ اور فتح سنگھ کو دیوارمیں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ ظالم چاہتے تھے کہ صاحبزادے اپنا عقیدہ ترک کردیں ، عظیم گرو روایت کی تعلیمات چھوڑ دیں۔ لیکن ہمارے صاحبزادوں نے اتنی کم عمر میں بھی غضب کی ہمت اور خواہش کا مظاہرہ کیا۔ دیوار میں چنے جانے کے وقت ، پتھر لگتے رہے ، دیواریں اونچی ہوتی رہیں، موت سامنے ہی منڈلا رہی تھی ، لیکن پھر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ آج ہی کے دن گرو گوبند سنگھ جی کی ماں ماتا گوجری کی بھی شہادت ہوئی تھی۔ تقریبا ایک ہفتہ قبل ، گرو تیغ بہادر جی کا بھی یوم شہادت تھا۔ مجھے یہاں ، دہلی میں ، گرودوارہ رکاب گنج جا کر ، گرو تیغ بہادر جی کو خراج عقیدت پیش کرنے ، ماتھا ٹیکنے کا موقع ملا۔ اسی مہینے گرو گووند سنگھ جی سے تحریک حاصل کر کے متعدد لوگ زمین پر سوتے ہیں۔ لوگ گرو گووند سنگھ جی کےخاندان کے لوگوں کے ذریعہ دی گئی شہادت کو انتہائی جذباتی طور پر یاد کرتے ہیں۔ اس شہادت نے پوری انسانیت ، ملک کو، ایک نئی تعلیم عطا کی۔ اس شہادت نے ہماری تہذیب کو محفوظ رکھنے کا بہت بڑا کام کیا۔ ہم سب اس شہادت کے مقروض ہیں۔ ایک بار پھر ، میں گرو تیغ بہادر جی ، ماتا گوجری جی ، گرو گووند سنگھ جی ، اور چاروں صاحبزادوں کی شہادت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ، متعدد شہادتوں نے ہندوستان کی موجودہ شکل کو محفوظ رکھا ہے، برقرار رکھا ہے۔
میرے پیارےہم وطنو ، اب میں آپ کو ایسی بات بتانے جارہا ہوں ، جس سے آپ کو خوش بھی ہوں گے اور فخر بھی ہوگا۔ 2014 اور 2018 کے درمیان ، ہندوستان میں چیتوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ 2014 میں ، ملک میں چیتے کی تعداد لگ بھگ 7،900 تھی ، جبکہ 2019 میں ان کی تعداد بڑھ کر 12،852 ہوگئی۔ یہ وہی چیتے ہیں جن کے بارے میں جم کاربیٹ نے کہا تھا : “جن لوگوں نے چیتوں کو فطرت میں آزادانہ طور پر گھومتے نہیں دیکھا ، وہ اس کے حسن کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ اس کے رنگوں کی خوبصورتی اور اس کے چال کے دلکشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ” ملک کی بیشتر ریاستوں میں ، خاص طور پر وسطی ہندوستان میں ، چیتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ چیتے کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاستوں میں مدھیہ پردیش ، کرناٹک اور مہاراشٹر سرفہرست ہیں۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ چیتے کو برسوں سے پوری دنیا میں خطرات لاحق ہیں ، دنیا بھر میں ان کے رہنے کی جگہ کو نقصان ہوا ہے۔ ایسے وقت میں ، ہندوستان نے چیتوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ کرکے پوری دنیا کو راستہ دکھایا ہے۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ پچھلے کچھ سالوں میں ، ہندوستان میں شیروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے ، شیروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نیز ہندوستانی جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ بہت سارے افراد ، سول سوسائٹی ، کئی ادارے بھی ہمارے درختوں اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ میں شامل ہیں وہ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ساتھیو، میں نے تمل ناڈو کے کوئمبٹور میں دلوں کو چھو لینے والی کوششوں کے بارے میں پڑھا۔ آپ نے بھی سوشل میڈیا پر اس کے نظارے دیکھے ہوں گے۔ ہم سبھی نے انسانوں کے لیے وہیل چیئر دیکھی ہے ، لیکن کوئمبٹور کی ایک بیٹی گایتری نے اپنے والد کے ساتھ مل کر ایک متاثر کتے کے لئے وہیل چیئر بنادی۔ یہ حساسیت حوصلہ افزا ہے ، اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب انسان ہر جاندار کے ساتھ ہمدردی اور شفقت سے بھر پور ہو۔ دہلی این سی آر اور ملک کے دوسرے شہروں میں سخت سردی کی لپیٹ میں بے گھر جانوروں کی دیکھ بھال کے لئے کئی لوگ بہت کچھ کر رہے ہیں۔ وہ ان جانوروں کے لئے کھانا پینا اور یہاں تک کہ ان کے لئے سویٹر اور بستر کا انتظام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے جانوروں کے لئے کھانے کا بندوبست کرتے ہیں ۔اس طرح کی کوششوں کی ستائش کی جانی چاہئے۔ کچھ اسی طرح کی نیک کوششیں اترپردیش کے کوشامبی میں بھی کی جارہی ہیں۔وہاں جیل میں بند قیدی ، گایوں کو سردی سے بچانے کے لئے پرانے اور پھٹے ہوئے کمبلوں سےکوور بنا رہے ہیں۔ ان کمبلوں کو کوشامبی سمیت دیگر اضلاع کی جیلوں سے جمع کیا جاتا ہے اور پھر انہیں سِل کر گو شالہ بھیجا جاتا ہے۔ کوشامبی جیل کے قیدی ہر ہفتے کئی کور تیار کر رہے ہیں۔ آئیے ، دوسروں کی دیکھ بھال کےلیے خدمت کے جذبے سے معمور ایسی کوششوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ واقعتا یہ ایک ایسا کام ہے جو معاشرے کی حساسیت کو تقویت بخشتی ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، اب جو خط میرے سامنے ہے اس میں دو بڑی تصاویر ہیں۔ یہ تصاویر ایک مندر کی ہیں اور پہلے اور بعد کی ہیں۔ ان تصاویر کے ہمراہ جو خط ہے اس میں نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم کے بارے میں بتایا گیا ہے جو خود کو نوجوان بریگیڈ کہتے ہیں۔ در اصل ، اس نوجوان بریگیڈ نے کرناٹک میں سری رنگ پٹن کے قریب واقع ویربھدرا سوامی نامی کے ایک قدیم شیو مندر کو از سرنو بحال کر دیا۔ مندرمیں ہر طرف گھاس پھوس اور جھاڑیاں بھری ہوئی تھیں۔ اتنی کہ راہگیر بھی نہیں بتاسکتے کہ یہاں ایک مندر ہے۔ ایک دن ، کچھ سیاحوں نے اس بھولے بسرے مندر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی۔ جب نوجوان بریگیڈ نے یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر دیکھا تو ان سے رہا نہیں گیا اور پھر اس ٹیم نے مل کر اس کی تجدیدکاری کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نےمندر کے احاطے میں اُگ آئی کانٹے کی جھاڑیوں ، گھاس اور پودوں کو ہٹا یا ۔ جہاں مرمت اور تعمیر کی ضرورت تھی ، وہ کیا ۔ ان کے اچھے کام کو دیکھتے ہوئے ، مقامی لوگوں نے بھی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ کچھ لوگوں نے سیمنٹ دیا اور کچھ لوگوں نے پینٹ اور بہت سی دوسری چیزوں سے اپنی اپنی شراکت داری کی۔ یہ تمام نوجوان مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں۔ ایسی صورتحال میں ، انہوں نے اختتام ہفتہ کے دوران وقت نکالا اور مندر کے لئے کام کیا ، نوجوانوں نے مندر میں دروازہ لگوانے کے ساتھ بجلی کا کنکشن بھی لگوایا۔ اس طرح انہوں مندر کی پرانی شان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کام کیا۔ جنون اور عزم ایسی دو چیزیں ہیں جن سے لوگ ہر مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ جب میں ہندوستان کے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے اور اعتماد کا احساس ہوتا ہے۔ خوشی اورپر اعتمادی اس لیے کیونکہ میرے ملک کے نوجوانوں کے پاس ‘کر سکتے ہیں’ اور ‘کریں گے ‘ کا جذبہ ہے۔ ان کے لئے کوئی بھی چیلنج بڑا نہیں ہے۔ ان کی پہنچ سے کچھ بھی دور نہیں ہے۔ میں نے تمل ناڈو کی ایک ٹیچر کے بارے میں پڑھا۔ اس کا نام ہیم لتا این کے ہے ، جو وڈوپورم کے ایک اسکول میں ، دنیا کی قدیم ترین زبان تمل کی تعلیم دیتی ہیں۔ کووڈ 19 کی وبا بھی ان کے پڑھانے کے کام میں آڑے نہیں آئی ۔ جی ہاں ! ان کے سامنے چیلنجز ضرور تھے ، لیکن ، انہوں ایک اختراعی راستہ نکالا۔ انہوں نے کورس کے تمام 53 ابواب کو ریکارڈ کیا ، متحرک ویڈیوز تیار کیں اور انہیں اپنے طالب علموں میں ایک پین ڈرائیو میں لے کر تقسیم کر دی۔ اس سے ان کے طلباء کو بہت مدد ملی ، وہ ابواب کو ویزول طریقے سے بھی سمجھ پائے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ اپنے طلباء سے ٹیلیفون پر بھی بات کرتی رہیں۔ اس سے طلباء کےلیے پڑھائی کافی دلچسپ ہوگئی۔ ملک بھر میں کورونا کے اس زمانے میں ، اساتذہ نے جو اختراعی طریقے اپنائے جو کورس مواد تخلیقی طور پر تیار کیا ہے ، وہ آن لائن تعلیم کے اس مرحلے میں انمول ہے۔ میں تمام اساتذہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کورس مٹیریل کو وزارت تعلیم کےدکشا پورٹل پر اپ لوڈ کریں۔ اس سے ملک کے دور دراز علاقوں میں رہنے والے طلبہ کو بہت فائدہ ہوگا۔
ساتھیو، آئیے اب جھارکھنڈ کے کوروا قبیلے کے ہیرامن جی کی بات کرتے ہیں۔ ہیرامن جی گڑھوا ضلع کے سنجو گاؤں میں رہتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کوروا قبیلے کی آبادی صرف 6،000 ہے ، جو شہروں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتے ہیں۔ اپنی برادری کی ثقافت اور شناخت کو بچانے کے لئے ہیرامن جی نے ایک پیش قدمی کی ہے۔ انہوں نے 12 سال کی انتھک محنت کے بعد ،، معدوم ہوتی کوروا زبان کی ایک لغت تیار کی ہے۔ اس لغت میں انہوں نے گھریلو استعمال میں آنے والے الفاظ سے لے کر روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والےکوروا زبان کے بہت سارے الفاظ کو معنی کے ساتھ لکھا ہے۔ ہیرامن جی نے کوروا برادری کے لئے جو کیا ہے وہ ملک کے لئے ایک مثال ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ایسا کہتے ہیں کہ اکبر کے دربار میں ایک ممتاز رکن ابوالفضل تھے۔ انہوں نے ایک بار کشمیرکے دورے کے بعد کہا تھا کہ کشمیر میں ایسا نظارہ ہے ، جسے دیکھ کر چڑچڑے اورغصہ ور لوگ بھی خوشی سے جھوم اٹھیں گے۔ دراصل ، وہ کشمیر میں زعفران کے کھیتوں کا ذکر کر رہے تھے۔ زعفران صدیوں سے کشمیر سے وابستہ ہیں۔ کشمیری زعفران بنیادی طور پر پلوامہ ، بڈگام اور کشتواڑ جیسی جگہوں پر اگایا جاتا ہے۔ اس سال مئی میں ، کشمیری زعفران کو جغرافیائی اشارے کا ٹیگ یعنی جی آئی ٹیک دیا گیا ۔ اس کے ذریعہ ، ہم کشمیری زعفران کو عالمی سطح پر مقبول برانڈ بنانا چاہتے ہیں۔ کشمیری زعفران ایک مصالحے کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہے جس میں طرح طرح کی دواؤں کی خصوصیات ہیں۔ یہ بہت خوشبودارہوتا ہے ، اس کا رنگ گاڑھا ہوتا ہے اور اس کے دھاگے لمبے اور موٹے ہوٹے ہوتے ہیں۔ جو اس کی طبی قدر میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ جموں وکشمیر کی خوشحال ثقافتی ورثے کی نمائندگی کرتا ہے۔ معیار کی بات کریں تو کشمیر کا زعفران بہت ہی منفرد اور دوسرے ممالک کے زعفران سے بالکل مختلف ہے۔ کشمیر کے زعفران کو جی آئی ٹیگ شناخت سے الگ پہچان ملی ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ جی آئی ٹیگ کی سند ملنے کے بعد ، کشمیری زعفران کو دبئی کے ایک سپر مارکیٹ میں لانچ کیا گیا۔ اب اس کی برآمدات بڑھنے لگیں گی۔ اس سے خود انحصار ہندوستان بنانے کی ہماری کوششوں کو مزید تقویت ملے گی۔ اس سے خاص طور پر زعفران کاشتکار وں کو فائدہ ہوگا۔ پلوامہ میں ترال کے شار علاقے کے رہائشی عبد المجید وانی کو ہی دیکھ لیں ۔ وہ اپنے جی آئی ٹیگ والے زعفران کو قومی زعفران مشن کی مدد سے پمپور کے تجارتی مرکز میں ای ٹریڈنگ کے ذریعہ فروخت کررہے ہیں ۔کشمیر میں اس طرح کے بہت سے لوگ یہ کام کررہے ہیں۔ اگلی بار جب آپ زعفران خریدنے کا فیصلہ کریں تو کشمیر کا زعفران ہی خریدنے کا سوچیں۔ کشمیریوں کی گرمجوشی ایسی ہے کہ وہاں کے زعفران کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ابھی دو دن پہلے گیتا جینتی تھی۔ گیتا، ہمیں اپنی زندگی کے ہر تناظر میں تحریک دیتی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ گیتا اتنی حیرت انگیز کتاب کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خود بھگوان کرشن کے کلمات ہیں۔ لیکن گیتا کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ جاننے کے تجسس سے شروع ہوتی ہے۔ ارجن نے خدا سے سوال کیا ، تجسس کا اظہار کیا ، تبھی تو گیتا کا علم دنیا نے حاصل کیا۔ گیتا کی ہی طرح ، ہماری ثقافت میں تمام علم تجسس کے ساتھ شروع ہوتے ہیں۔ ویدانت کا تو پہلا منتر ہی ہے – ‘اتھاتو برہما جیگیاسا’ یعنی آؤ ہم برہماکا تجسس کریں۔ اسی لئے تو ہمارے یہاں برہما کے باقیات کی بات کہی جاتی ہے۔ تجسس کی طاقت ایسی ہی ہے۔ تجسس مستقل طور پر آپ کو نئی چیز کی ترغیب دیتا ہے۔ بچپن میں ہم اسی لیے تو سیکھتے ہیں کیونکہ ہمارے اندر تجسس ہوتا ہے۔ یعنی جب تک تجسس ہے تب تک زندگی ہے۔ جب تک تجسس ہے ، تب تک نیا سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں کوئی عمر ، کسی صورتحال معانی ہی نہیں رکھتی۔ تجسس کی ایسی توانائی کی ایک مثال کا مجھے پتہ چلا ، تمل ناڈو کےبزرگ شری ٹی سرینواسچاریہ سوامی جی کے بارے میں! جناب ٹی سرینواساچاریہ سوامی جی 92 سال کے ہیں، وہ اس عمر میں بھی کمپیوٹر پر اپنی کتاب لکھ رہے ہیں ، وہ بھی خود ٹائپ کرکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کتاب لکھنا تو ٹھیک ہے ، لیکن سرینواساچاریہ جی کے وقت میں تو کمپیوٹر رہا ہی نہیں ہوگا۔ پھر انہوں نے کمپیوٹر کب سیکھا؟ یہ سچ ہے کہ اس کے کالج کے دور میں کمپیوٹر نہیں تھا۔ تاہم ان کے دل میں تجسس اور خود اعتمادی اب بھی اتنی ہی ہے جتنی ان کی اپنی جوانی میں تھی۔ دراصل ، سرینواساچاریہ سوامی جی سنسکرت اور تامل کے اسکالر ہیں۔ انہوں نے اب تک تقریبا 16 روحانی نصوص بھی لکھ چکے ہیں۔ لیکن ، کمپیوٹر آنے کے بعد ، جب انہیں لگا کہ اب تو کتاب لکھنے اور طباعت کا طریقہ بدل گیا ہے ، تو انہوں نے 86 سال کی عمر میں کمپیوٹر سیکھا ، اپنے لئے ضروری سافٹ ویئر سیکھا۔ اب وہ اپنی کتاب مکمل کر رہے ہیں ۔
ساتھیو ، جناب ٹی شرینواساچاریہ سوامی جی کی زندگی اس بات کا براہ راست ثبوت ہے کہ زندگی اس وقت تک توانائی سے بھرپور رہتی ہے جب تک زندگی میں تجسس نہیں مرجاتی ہے ، سیکھنے کی خواہش مر نہیں جاتی۔ لہذا ، ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم پچھڑ گئے ، ہم چوک گئے۔ کاش ہم بھی سیکھ لیتے! ہمیں یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم سیکھ نہیں سکتے ، یا آگے نہیں بڑھ سکتے۔
میرے پیارے ہم وطنو ، ابھی ہم تجسس سے کچھ نیاسیکھنے اور کرنے کی بات کر رہے تھے۔ نئے سال کے موقع پر نئے عزائم کی بات کر رہے تھے۔ لیکن ، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مستقل طور پر کچھ نہ کچھ نیا کرتے رہتے ہیں ،نئے نئے عزائم کو ثابت کرتے رہتے ہیں۔ آپ نے بھی اپنی زندگی میں محسوس کیا ہوگا ، جب ہم معاشرے کے لئے کچھ کرتے ہیں تو معاشرہ ہمیں بہت کچھ کرنے کی توانائی خود ہی دیتا ہے۔ عام سی لگنے والی محرکات سے بہت بڑے کام بھی ہوسکتے ہیں۔ جناب پردیپ سانگوان ایک ایسے ہی نوجوان ہیں! گروگرام کے پردیپ سانگوان 2016 سے ہیلنگ ہمالیاز کے نام سے مہم چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم اور رضاکاروں کے ساتھ ہمالیہ کے مختلف علاقوں میں جاتے ہیں اور جو پلاسٹک کے فضلہ سیاح وہاں چھوڑ جاتے ہیں، وہ صاف کرتے ہیں۔ پردیپ جی اب تک ہمالیہ کے مختلف سیاحتی مقامات سے کئی ٹن پلاسٹک کی صفائی کر چکے ہیں۔ اسی طرح ، انودیپ اور منوشا کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان جوڑے ہیں۔ انودیپ اور منوشا کی گذشتہ ماہ نومبر میں شادی ہوئی ہے۔ بہت سے نوجوان شادی کے بعد سیر پر جاتے ہیں ، لیکن ان دونوں نے کچھ مختلف کیا۔ ان دونوں نے ہمیشہ دیکھا کہ لوگ اپنے گھر سے باہر گھومنے تو جاتے ہیں ، لیکن ، جہاں جاتے ہیں ، وہیں ڈھیر سارا کچرا اور کوڑا چھوڑ کر آ جاتے ہیں۔ کرناٹک کے سومیشورساحل پر بھی ایسی ہی صورتحال تھی۔ انودیپ اور منوشا نے فیصلہ کیا کہ وہ لوگ ان کچرے کو صاف کریں گے جسے لوگ سومیشور کے ساحل پر چھوڑ کر گئے ہیں۔ دونوں شوہر اور بیوی نے شادی کے بعد اپنا پہلا عہد کیا۔ دونوں نے مل کر سمندری ساحل پر بہت سارا کوڑا صاف کیا۔ انودیپ نے اپنے اس عہد کو سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔ پھر کیا تھا ، ان کی اتنی شاندار سوچ سے متاثر ہوکر ، بہت سارے نوجوان ان کے ساتھ شامل ہوگئے ۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے۔ ان لوگوں نے مل کر سومیشور ساحل سمندر سے 800 کلوگرام سے زیادہ کچرا صاف کیا ہے۔
ساتھیو ، ان کوششوں کے درمیان ہمیں یہ بھی سوچنا ہے یہ کوڑا کرکٹ ان ساحلوں ، ان پہاڑوں تک کیسے پہنچتا ہے۔ آخر ہم میں سے ہی کئی لوگ اس کوڑے کو وہاں چھوڑ کر آتے ہیں ۔ ہمیں پردیپ اور انودیپ منوشا کی طرح صفائی مہم چلانی چاہئے۔ لیکن اس سےبھی پہلے ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہئے کہ ہم گندگی پھیلائیں گے ہی نہیں۔ آخر سوچھ بھارت مہم مہم کابھی تو پہلاعہد یہی ہے۔ ہاں ، ایک اور بات میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اس سال کورونا کی وجہ سے ، اس پر زیادہ بات چیت نہیں ہوپائی ہے۔ ہمیں ملک کوسنگل یوز پلاسٹک سے آزاد کرنا ہے۔ یہ بھی 2021 کی قراردادوں میں سے ایک ہے۔ آخر میں ، میں آپ کو نئے سال کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ خود صحتمند رہیں ، اپنے کنبے کو صحت مند رکھیں۔ اگلے سال جنوری میں ، نئے موضوعات پر ‘من کی بات’ ہوگی۔