نئی دہلی، میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار! 2019 کے وداع ہونے کا لمحہ ہمارے سامنے ہے۔ تین دن کے اندر اندر 2019 وداع ہوگا اور ہم نہ صرف 2020 میں داخل ہوں گے، نئے سال میں داخل ہوں گے، نئی دہائی میں داخل ہوں گے، 21ویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہوں گے۔ میں سبھی ہم وطنوں کو 2020 کے لیے دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس دہائی کے بارے میں ایک بات تو یقینی ہے کہ اس میں، ملک کی ترقی کو رفتار دینے میں وہ لوگ سرگرم کردار ادا کریں گے جن کی پیدائش 21ویں صدی میں ہوئی ہے- جو اس صدی کے اہم مسئلوں کو سمجھتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے لیے آج بہت سارے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے، کوئی انھیں ملی نیلس کی شکل میں جانتا ہے تو کچھ انھیں جنریشن زیڈ یا تو جین زیڈ یہ بھی کہتے ہیں اور وسیع طور پر ایک بات تو لوگوں کے دماغ میں فٹ ہوگئی ہے کہ یہ سوشل میڈیا جنریشن ہے۔ ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہماری یہ نسل بہت ہی باصلاحیت ہے۔ کچھ نیا کرنے کا، الگ کرنے کا، اس کا خواب رہتا ہے۔ اس کی اپنی رائے بھی ہوتی ہیں۔ اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے، اور خاص طور پر ، میں ،ہندوستان کے بارے میں کہنا چاہوں گا، کہ ، ان دنوں نوجوانوں کو ہم دیکھتے ہیں، تو وہ ، نظام کو پسند کرتے ہیں، سسٹم کو پسند کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ، وہ سسٹم کو ، فالو بھی کرنا پسند کرتے ہیں۔ اور کبھی، کہیں سسٹم صحیح طورپر کام نہ کریں تو وہ بے چین بھی ہوجاتے ہیں اور ہمت کے ساتھ، نظام کو ، سوال بھی کرتے ہیں۔ میں اسے اچھا مانتا ہوں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوانوں کو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، انتشار کے تئیں نفرت ہے۔ بدنظمی، عدم استحکام اس کے تئیں ان کو ، بڑی چڑھ ہے۔ وہ کنبہ پروری، ذات پات کے نظام ، اپنا پرایا، مرد وخواتین ان بھید بھاؤ کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہوائی اڈے پر، یا تو سینما کے تھیٹر میں بھی، اگر کوئی قطار میں کھڑا ہے اور بیچ میں کوئی گھس جاتا ہے تو سب سے پہلے آواز اٹھانے والے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ اور ہم نے تو دیکھا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو دوسرے نوجوان فوراً اپنا موبائل فون نکال کر اس کی ویڈیو بنا دیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ویڈیو وائرل بھی ہوجاتا ہے اور جو غلطی کرتا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ کیا ہوگیا تو ایک نئے قسم کا نظام ، نئے قسم کا دور، نئے طرح کی سوچ، اس کی ہماری نوجوان نسل عکاسی کرتی ہے۔آج ہندوستان کو اس نسل سے بہت امید ہے ان ہی نوجوانوں کو ملک کو ، نئی بلندیوں پر لے جانا ہے، سوامی وویکانند جی نے کہا تھا کہ “My faith is in the younger generation, the modern generation; out of them will come my workers” انھوں نے کہا تھا کہ ‘‘میرا یقین نوجوان نسل میں ہے، اس جدید نسل میں ہے، موڈرن جنریشن میں ہے، اور انھوں نے اعتماد کا اظہار کیا تھا ان ہی میں سے ، میرے کارکنان نکلیں گے’’نوجوانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ‘‘جوانی کی قیمت کا نہ تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے’’۔ یہ زندگی کا سب سے قیمتی عہد ہوتا ہے۔ آپ کا مستقبل اور آپ کی زندگی اس پر انحصار کرتی ہے کہ آپ اپنی جوانی کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ وویکانند جی کے مطابق جوان وہ ہے جو توانائی اور فعالیت سے بھرپور ہے اور تبدیلی کی طاقت رکھتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہندوستان میں ، یہ دہائی نہ صرف نوجوانوں کی ترقی کا ہوگا بلکہ نوجوانوں کی طاقت سے ملک کی ترقی کرنے والا بھی ثابت ہوگی اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں اس نسل کا بہت بڑا کردار ہونے والا ہے۔ یہ میں صاف طور پر مشاہدہ کرتا ہوں۔ آئندہ 12 جنوری کو وویکانند کی یوم پیدائش پر جب ملک یووا دیوس منا رہا ہو گا تب ہر نوجوان اس دہائی میں اپنے اس فرض پر ضرور غور بھی کرے اور اس دہائی کے لیے ضرور کوئی عہد بھی لے۔
میرے پیارے ہم وطنو! آپ میں سے کئی لوگوں کو کنیا کماری میں جس پتھر پر سوامی وویکانند جی نے مراقبہ کیا تھا، وہاں پر جو وویکانند راک میموریل بنا ہے، اس کے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں۔ پچھلے پانچ دہائی میں، یہ جگہ ہندوستان کے لیے باعث فخر رہا ہے۔ کنیا کماری، ملک اور دنیا کے لیے ایک قابل توجہ مرکز رہا ہے۔ قوم پرستی سے بھرے ہوئے روحانی شعور کو محسوس کرنے والے، ہر کسی کے لیے، یہ ایک زیارت گاہ بنا ہوا ہے۔ عقیدت کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سوامی جی کے اسمارک نے ہر پنتھ، ہر عمر کے، طبقہ کے لوگوں کو قوم پرستی کے لیے تحریک بخشا ہے۔ ‘دریدر نارائن کی سیوا’ اس منتر کو جینے کا راستہ دکھایا ہے۔ جو بھی وہاں گیا، اسے طاقت ملی، مثبت جذبات بیدار ہوئے، ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا- یہ بہت فطری ہے۔
ہمارے عزت مآب صدر جمہوریہ جی بھی پچھلے دنوں اس پچاس سال پہلے بنے راک میموریل کا دورہ کرکے آئے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ ہمارے نائب صدر جمہوریہ جی بھی گجرات کے، کچھ کے رن میں، جہاں ایک بہت ہی عمدہ رن اتسو ہوتا ہے، اس کے افتتاح کے لیے گئے تھے۔ جب ہمارے صدر جمہوریہ، نائب صدر جمہوریہ بھی، ہندوستان میں ہی ایسے اہم سیاحتی مقامات پر جارہے ہیں، ہم وطنوں کو، اس سے ضرور ترغیب ملتی ہے- آپ بھی ضرور جائیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہم الگ الگ کالجوں میں، یونیورسٹیوں میں، اسکولوں میں پرھتے تو ہیں، لیکن، پڑھائی پوری ہونے کے بعدAlumni meet ایک بہت ہی خوشگوار موقع ہوتا ہے اور Alumni meet، یہ سب نوجوان مل کر کے پرانی یادوں میں کھو جاتے ہیں، جن کی 10 سال، 20 سال، 25 سال پیچھے چلی جاتی ہیں، لیکن، کبھی کبھی ایسی Alumni meet، خاص توجہ کا باعث بن جاتے ہیں، اس پر دھیان جاتا ہے اور ہم وطنوں کا بھی دھیان اس طرف جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ Alumni meet، دراصل، پرانے دوستوں کے ساتھ ملنا، یادوں کو تازہ کرنا، اس کا اپنا ایک الگ لطف ہے اور جب اس کے ساتھ مشترکہ مقصد ہو، کوئی عہد ہو، کوئی جذباتی لگاؤ جڑ جائے پھر تو، اس میں کئی رنگ بھر جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سابق طلبا کے گروپ کبھی کبھی اپنے اسکولوں کے لیے کچھ نہ کچھ خدمات پیش کرتے ہیں۔ کوئی کمپیوٹرائز کرنے کے لیےانتظامات فراہم کردیتے ہیں، کوئی اچھی لائبریری بنا دیتے ہیں کوئی پانی کی اچھی سہولتیں فراہم کردیتے ہیں، کچھ لوگ نئے کمرے بنانے کے لیے کرتے ہیں، کچھ لوگ اسپورٹس کمپلیکس کے لیے کرتے ہیں، کچھ نہ کچھ کرلیتے ہیں، ان کو لطف آتا ہے کہ جس جگہ پر اپنی زندگی سنورا اس کے لیے زندگی میں کچھ کرنا ہے۔ یہ ہر کسی کے دل میں رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے اور اس کے لیے لوگ آگے بھی آتے ہیں، لیکن میں آج کسی ایک خاص موقع کو آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی پچھلےدنوں میڈیا میں بہار کے مغربی چمپارن ضلع کے بھیرو گنج ہیلتھ سینٹر کی کہانی جب میں نے سنی مجھے اتنا اچھا لگا کہ میں آپ لوگوں کو بتائے بغیر رہ نہیں سکتا ہوں۔ اس بھیروگنج ہیلتھ سینٹر کے یعنی صحت مرکز میں، مفت میں ہیلتھ چیک اَپ کروانے کے لیے آس پاس کے گاؤں کے ہزاروں لوگوں کی بھیڑ جٹ گئی۔ اب یہ کوئی بات سن کرکے آپ کو تعجب نہیں ہوگا۔ آپ کو لگتا ہے، اس میں کیا نئی بات ہے؟ آئے ہوں گے لوگ! جی نہیں! بہت کچھ نیا ہے۔ یہ پروگرام حکومت کا نہیں تھا، نہ ہی حکومت کی پہل تھی۔ یہ وہاں کے ، کے آر ہائی اسکول، اس کے جو سابق طالب علم تھے، ان کی جو Alumni meet تھی، اس کے تحت اٹھایا گیا قدم تھا، اور اس کا نام دیا تھا ‘سنکلپ 95’۔ سنکلپ 95 کا مطلب ہے اس ہائی اسکول کے 1995 بیچ کے طالب علموں کا عہد۔ دراصل، اس بیچ کے طالب علموں نے ایک Alumni meetرکھی اور کچھ الگ کرنے کے لیے سوچا۔ اس میں سابق طالب علموں نے سماج کے لیے، کچھ کرنے کی ٹھانی۔ اور انھوں نے عہد کیا کہ عوامی صحت بیداری کا۔ ‘سنکلپ 95’ کی اس مہم میں بیتیا کے سرکاری میڈیکل کالج اور کئی اسپتال بھی شامل ہوگئے۔ اس کے بعد تو جیسے عوامی صحت کو لے کر ایک پوری مہم ہی چل پڑی۔ مفت چانچ ہو، مفت میں دوائیں دینا ہو یا پھر بیداری پیدا کرنے کا، ‘سنکلپ 95’ ہر کسی کے لیے ایک مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ ہم اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ جب ملک کا ہر شہری ایک قدم آگے بڑھتا ہے تو یہ ملک 130 کروڑ قدم آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے باتیں جب سماج میں براہِ راست دیکھنے کو ملتی ہے تو ہر کسی کو مزہ آتا ہے، اطمینان ہوتا ہے اور زندگی میں کچھ کرنے کی ترغیب بھی ملتی ہے۔ ایک طرف جہاں بہار کے بیتیا میں سابق طالب علموں کے گروپ نے صحت خدمات کا بیڑا اٹھایا ہے وہیں اترپردیش کے پھولپور کی کچھ خواتین نے اپنی مہم جوئی سے پورے علاقے کو تحریک دی ہے۔ ان خواتین نے ثابت کیا ہے کہ اگر متحد ہوکر کوئی عہد کریں تو پھر حالات کو بدلنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔ کچھ دنوں پہلے تک، پھولپور کی یہ خواتین معاشی تنگی اور غریبی سے پریشان تھیں، لیکن ان میں اپنے خاندان اور سماج کے لیے کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ ان خواتین نے، کادیپور کے اپنی مدد آپ گروپ، ویمن سیلف ہیلپ گرو، اس کے ساتھ جڑکر چپل بنانے کا ہنر سیکھا، اس سے انھوں نے، نہ صرف اپنے پیروں میں چبھے مجبوری کے کانٹے کو نکال پھینکا بلکہ خود انحصار بن کر اپنے خاندان کی علامت بھی بن گئیں۔ دیہی روزگار مشن کی مدد سے اب تو یہاں چپل بنانے کا پلانٹ بھی قائم ہوگیا ہے۔ جہاں جدید مشینوں سے چپل بنائی جارہی ہیں۔ میں خاص طور سے مقامی پولیس اور ان کے خاندانوں کو بھی مبارک باد دیتا ہوں، انھوں نے اپنے لیے اور اپنے خاندان کے لیے، ان خواتین کے ذریعہ بنائی گئیں چپلیں خریدکر، ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ آج ان خواتین کے عہد سے نہ صرف ان کے خاندان کی اقتصادی حالت مضبوط ہوئی ہے بلکہ زندگی کا معیار بھی بلند ہوا ہے۔ جب پھولپور کی پولیس کے جوانوں کی یا ان کے خاندانوں کی باتیں سنتا ہوں تو آپ کو یاد ہوگا کہ میں لال قلعہ سے 15 اگست کو ہم وطنوں کو ایک بات کی اپیل کی تھی اور میں نے کہا تھا کہ ہم مقامی پیداوار خریدیں، آج پھر سے ایک بار میری صلاح ہے ، کیا ہم مقامی سطح پر بنی پیداوار کو حوصلہ دے سکتے ہیں؟ کیا اپنی خریداری میں انھیں ترجیح دے سکتے ہیں؟ کیا ہم مقامی پیداوار کو اپنی شان وشوکت سے جوڑ سکتے ہیں؟ کیا ہم اس جذبہ کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کے لیے خوشحالی لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ ساتھیو، مہاتما گاندھی نے، سودیشی کے اس جذبہ کو، ایک ایسے چراغ کی شکل میں دیکھا جو لاکھوں لوگوں کی زندگی کو روشن کرتا ہوں۔ غریب سے غریب کی زندگی میں خوشحالی لاتا ہوں۔ سو سال پہلے گاندھی جی نے ایک بڑی تحریک شروع کی تھی اس کا ایک مقصد تھا ۔ ہندوستانی پیداواروں کو فروغ دینا۔ خود انحصاری کا یہی راستہ گاندھی جی نے دکھایا تھا۔ 2022 میں، ہم اپنی آزادی کے 75 سال مکمل کریں گے، جس آزاد ہندوستان میں ہم سانس لے رہے ہیں، اس ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے بامقصد سپوتوں نے، بیٹے بیٹیوں نے، بہت سی مصیبتیں جھیلی ہیں، بیشمار نےاپنی جانیں قربان کی ہیں۔ بامقصد لوگوں کے تیاگ، قربانی کے باعث، جہاں آزادی ملی، جس آزادی کا ہم بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں، آزاد زندگی ہم جی رہے ہیں اور ملک کے لیے مر مٹنے والے، ملک کے لیے زندگی نچھاور کرنے والےمشہور اور غیر مشہور بے شمار لوگ، شاید، مشکل سے ہم، بہت کم ہی لوگوں کے لوگوں کے نام جانتے ہوں گے، لیکن، انھوں نے قربانی دیا، ان خوابوں کو لے کر، آزاد ہندوستان کے خوابوں کو لے کر – خوشحال، پرسکون، آزاد ہندوستان کے لیے!
میرے پیارے ہم وطنو، کیا ہم عہد کرسکتے ہیں، کہ 2022، آزادی کے 75 سال ہو رہے ہیں، کم سے کم، یہ دو تین سال، ہم مقامی پیداوار خریدنے کے پیش قدمی کریں؟ ہندوستان میں بنا، ہمارے ہم وطنوں کے ہاتھوں سے بنا، ہمارے ہم وطنوں کے پسینوں کی جس میں مہک ہو، ایسی چیزوں کو، ہم، خریدنے کی پہل کرسکتے ہیں کیا؟ میں طویل مدت کے لیے نہیں کہتاہوں، صرف 2022 تک، آزادی کے 75 سال ہو تب تک۔ اور یہ کام، سرکاری نہیں ہونا چاہیے۔ جگہ جگہ پر نوجوان آگے آئیں، چھوٹی چھوٹی تنظیم بنائیں، لوگوں کو ترغیب دیں، سمجھائیں اور طے کریں – آؤ ہم مقامی سامان خریدیں گے۔ مقامی پیداوار پر زور دیں گے۔ ہم وطنوں کے پیسنے کی جس میں مہک ہو – وہی، میرے آزاد ہندوستان کا خوشگوار پل ہو، ان خوابوں کو لے کر ہم چلیں۔
میرے پیارے ہم وطنوں، یہ، ہم سب کے لیے بہت ہی اہم ہے، کہ ملک کے شہری، خود انحصار بنیں اور وقات کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں۔ میں ایک ایسی پہل کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کی طرف میری توجہ گئی اور وہ پہل ہے، جموں-کشمیر اور لداخ کا حمایت پروگرام۔ حمایت دراصل ہنرمندی کے فروغ اور روزگار سے جڑا ہے۔ اس میں 15 سے 35 سال تک کے بچے اور جوان شامل ہوتے ہیں۔ یہ، جموں-کشمیر کے وہ لوگ ہیں جن کی پڑھائی، کسی وجہ سےپوری نہیں ہوپائی، جنھیں، بیچ میں ہی اسکول –کالج چھوڑنا پڑا۔
میرے پیارے ہم وطنو، آپ کو جان کر بہت اچھا لگے گا، کہ اس پروگرام کے تحت، پچھلے دو سالوں میں، اٹھارہ ہزار نوجوانوں کو 77 الگ الگ ٹریڈ میں تربیت دی گئی ہے۔ ان میں سے، تقریباً پانچ ہزار لوگ تو، کہیں نہ کہیں نوکری کررہے ہیں اور بہت سارے خود روزگار کی طرف آگے بڑھے ہیں۔ حمایت پروگرام سے اپنی زندگی بدلنے والے ان لوگوں کی جو کہانیاں سننے کو ملی ہیں وہ سچ مچ دلوں کو چھو لیتی ہیں۔
پروین فاطمہ، تمل ناڈو کے تری پور کی ایک گارمنٹ یونٹ میں ترقی پانے کے بعد سپروائزر- کم- کوآرڈی نیٹر بنی ہیں۔ ایک سال پہلے تک، وہ کارگل کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہ رہی تھی۔ آج اس کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی آئی، خوداعتمادی آئی- وہ خود انحصار ہوئی ہے اور اپنے پورے خاندان کے لیے بھی اقتصادی ترقی کا موقع لے کر آئی ہے۔ پروین فاطمہ کی طرح ہی حمایت پروگرام میں لیہہ، لداخ علاقے کے باشندوں، دیگر بیٹیوں کی بھی قسمت بدلی ہے اور یہ سبھی آج تمل ناڈو کی اسی فارم میں کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح حمایت ڈوڈا کے فیاض احمد کے لیے تحفہ بن کے آیا ہے۔ فیاض نے 2012 میں، 12ویں کا امتحان پاس کیا لیکن بیماری کی وجہ سے وہ اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکے۔ فیاض دو سال تک دل کی بیماری میں مبتلا رہے۔ اس درمیان، ان کے ایک بھائی اور ایک بہن کا انتقال بھی ہوگیا۔ ایک طرح سے ان کے خاندان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آخر کار، انھیں حمایت سے مدد ملی۔ حمایت کے ذریعہ آئی ٹی ای ایس یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی انیبل سروسز میں ٹریننگ ملی اور وہ آج پنجاب میں نوکری کر رہے ہیں۔
فیاض احمد کی گریجویشن کی پڑھائی، جو انھوں نے ساتھ ساتھ جاری رکھی وہ بھی اب پوری ہونے والی ہے۔ حال ہی میں، حمایت کے ایک پروگرام میں انھیں اپنا تجربہ شیئر کرنے کے لیے بلایا گیا۔ اپنی کہانی سناتے وقت انھیں آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ اسی طرح اننت ناگ کے رقیب الرحمان، معاشی تنگی کے باعث اپنی پڑھائی پوری نہیں کر پائے۔ ایک دن، رقیب کو اپنے بلاک میں جو ایک کیمپ لگا تھا موبیلائیزیشن کیمپ، اس کے ذریعہ حمایت پروگرام کا پتہ چلا۔ رقیب نے فوراً ریٹیل ٹیم لیڈر کورس میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ٹریننگ پوری کرنے کے بعد آج، وہ ایک کارپوریٹ ہاؤس میں نوکری کر رہے ہیں۔ ‘حمایت مشن’ سے مستفید، باصلاحیت نوجوانوں کی ایسی کئی ہیں جو جموں- کشمیر میں تبدیلی کی علامت بنے ہیں۔ حمایت پروگرام، سرکار، ٹریننگ پارٹنر، نوکری دینے والی کمپنیاں اور جموں کشمیر کے لوگوں کے درمیان ایک بہترین تال میل کی مثال ہے۔
اس پروگرام نے جموں وکشمیر میں نوجوانوں کے اندر ایک نئی خوداعتمادی پیدا کی ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ بھی ہموار کیا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو! 26 تاریخ کو ہم نے اس دہائی کا آخری سورج گرہن دیکھا۔ شاید سورج گرہن کے اس واقعہ سے ہی مائی گو پر ریپن نے بہت ہی دلچسپ تبصرہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ ‘نمسکار سر، میرا نام ریپن ہے۔ میں شمال مشرق کا رہنے والا ہوں لیکن ان دنوں جنوب میں کام کرتا ہوں۔ ایک بات میں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے ہمارے علاقے میں آسمان صاف ہونے کی وجہ سے ہم گھنٹوں، آسمان میں تاروں پر ٹکٹکی لگائے رکھتے تھے۔ تاروں پر ٹکٹکی لگانا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اب میں ایک پروفیشنل ہوں۔ اور اپنی روزمرہ کے باعث، میں ان چیزوں کے لیے وقت نہیں دے پا رہا ہوں۔ کیا آپ اس موضوع پر کچھ بات کرسکتے ہیں کیا؟ خاص طور سے علم فلکیات کو نوجوانوں کے درمیان کیسے مقبول بنایا جاسکتا ہے؟
میرے پیارے ہم وطنو، میرے پاس مشورے بہت ہیں لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کا مشورہ شاید پہلی بار میرے پاس آیا ہے۔ ویسے سائنس پر، کئی پہلوؤں پر بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل کی درخواست پر مجھے بات چیت کرنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن یہ موضوع تو انوکھا ہی تھا اور ابھی 26 تاریخ کو ہی سورج گرہن ہوا ہے تو لگتا ہے کہ شاید اس موضوع پر آپ کی بھی کچھ نہ کچھ دلچسپی رہے گی۔ تمام ہم وطنو، خاص طور پر میرے نوجوان دوستوں کی طرح میں بھی، جس دن، 26 تاریخ کو، سورج گرہن تھا، تو ہم وطنوں کی طرح مجھے بھی اور جیسے میری نوجوان نسل کے دل میں جو جوش تھا ویسے میرے دل میں بھی تھا، اور میں بھی سورج گرہن دیکھنا چاہتا تھا، لیکن، افسوس کی بات یہ رہی کہ اس دن ، دلی میں آسمان میں بادل چھائے ہوئے تھے اور میں وہ لطف تو نہیں لے پایا حالاں کہ ٹی وی پر کوزی کوڈ اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں دکھائی دے رہے سورج گرہن کی خوبصورت تصویریں دیکھنے کو ملیں۔ سورج چمکتی ہوئی رنگ کی شکل میں نظر آرہا تھا۔ اور اس دن مجھے کچھ اس موضوع کے جو ماہرین ہیں ان سے بات کرنے کا موقع بھی ملا اور وہ بتا رہے تھے کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیوں کہ چاند زمین سے کافی دور ہوتا ہے اور اس لیے، اس کی شکل، پوری طرح سے سورج کو ڈھک نہیں پاتی ہے۔ اس طرح سے، ایک دائرہ کی شکل بن جاتی ہے۔ یہ سورج گرہن، ایک دائرہ نما سورج گرہن جسے ‘ولیے گرہن’ یا ‘کنڈل گرہن’ بھی کہتے ہیں۔ گرہن ہمیں اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ ہم زمین پر رہ کر خلا میں گھوم رہے ہیں۔ خلا میں سورج، چاند اور دیگر سیاروں جیسے فلکیاتی اجسام گھومتے رہتے ہیں۔ چاند کے عکس سے ہی ہمیں، گرہن کی الگ الگ شکل دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ساتھیو، ہندوستان میں Astronomy یعنی علم فلکیات کی بہت ہی قدیم اور قابل فخر تاریخ رہی ہے۔ آسمان میں ٹمٹماتے تاروں کے ساتھ ہمارا رشتہ، اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی ہماری تہذیب ہے۔ آپ میں سے بہت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کے الگ الگ جگہوں میں بہت ہی شاندار جنتر منتر ہیں، دیکھنے کے قابل ہیں۔ اور اس جنتر منتر کا علم فلکیات سے گہرا تعلق ہے۔ عظیم آریہ بھٹ کی حیرت انگیز صلاحیت کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ اپنے وقائع نگاری میں انھوں نے سورج گرہن کے ساتھ ساتھ چاند گرہن کی بھی تفصیل وضاحت کی ہے۔ وہ بھی فلسفیانہ اور اعداد وشمار دونوں ہی پہلو سے کی ہے۔ انھوں نے اعداد وشمار کے طور پر بتایا کہ زمین کا عکس یا شیڈو کے سائز کی شماری کیسے کرسکتے ہیں۔ انھوں نے گرہن کے دوران اور ایکس ٹینٹ کی شماری کرنے کی بھی درست جانکاریاں دیں۔ بھاسکر جیسے ان کے شاگردوں نے اس جذبہ کو اور اس جانکاری کو آگے بڑھانے کے لیے بھرپورکوشش کی۔ بعد میں چودھویں، پندرہویں صدی میں، کیرالہ میں سنگم گرام کے مادھو، انھوں نے کائنات میں موجود سیاروں کی حالات شماری کرنے کے لیے کیلکولس کا استعمال کیا۔ رات میں دکھائی دینے والا آسمان، صرف تجسس کا ہی موضوع نہیں تھا بلکہ علم ریاضی کے نقطہ نظر سے سوچنے والوں اور سائنس دانوں کے لیے ایک اہم ذریعہ تھا۔ کچھ سال پہلے میں ‘‘Pre-modern Kutchi Navigation Techniques and Voyages’’، اس کتاب کی نقاب کشائی کی تھی۔ یہ کتاب ایک طرح سے تو مالم (Maalam) کی ڈائری ہے۔ مالم ایک جہاز راں کے طور پر جو مشاہدہ کرتے تھے، انھوں نے اپنے طریقے سے اس کو ڈائری میں لکھا تھا۔ جدید عہد میں اسی مالم کے مجموعہ کو اور وہ بھی گجراتی رسم الخط کا مجموعہ، جس میں قدیم نیوی گیشن ٹیکنالوجی کی وضاحت کرتی ہے اور اس میں بار بار ‘مالم نی پوتھی’ میں آسمان کی، تاروں کی، تاروں کی رفتار کی وضاحت کی ہے۔ اور یہ، صاف بتایا ہے کہ سمندر میں سفر کرتے وقت، تاروں کے سہارے، سمت طے کیے جاتے ہیں۔ منزل پر پہنچنےکا راستہ تارے دکھاتے ہیں۔
میرے پیارے ہم وطنو، علم فلکیات کے شعبے میں ہندوستان کافی آگے ہے اور ہمارے اقدامات،مشعل راہ بھی ہیں۔ ہمارے پاس پونے کے نزدیک عظیم الشان میٹر ویو ٹیلی اسکوپ ہے۔ اتنا ہی نہیں ، کوڈئی کنال، اداگھمنڈلم، گروشیکھر اور ہنلے لداخ میں بھی طاقت ور ٹیلی اسکوپ ہیں۔ 2016 میں ، بلجیم کے اس وقت کے وزیر اعظم اور میں نے، نینی تال میں 3.6 میٹر دیواستھل آپٹیل ٹیلی اسکوپ کا افتتاح کیا تھا۔ اسے ایشیا کا سب سے بڑا ٹیلی اسکوپ کہا جاتا ہے۔ اسرو کے پاس اسٹرو سیٹ نام کا فلکیاتی سیارچہ ہے۔ سورج کے بارےمیں تحقیق کرنے کے لیے اسرو ‘آدتیہ’ کے نام سے ایک دوسرا سیارچہ بھی لانچ کرنے والا ہے۔ فلکیات سائنس کو لے کر، چاہے ہمارا قدیم علم ہو یا جدید حصولیابیاں، ہمیں انھیں ضرور سمجھنا چاہیے اور ان پر فخر کرنا چاہیے۔ آج ہمارے نوجوان سائنسدانوں نے نہ صرف اپنی سائنسی تاریخ کو جاننے کی چاہت دکھائی پڑتی ہے بلکہ وہ علم فلکیات کے مستقبل کو لے کر بھی ایک پرعزم خواہش رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک میں پلینٹوریم، نائٹ اسکائی کو سمجھنےکے ساتھ ساتھ اسٹار گیزنگ کو شوق کی شکل میں فروغ دینے کے لیے بھی ترغیب دیتے ہیں۔ کئی لوگ امیچیور ٹیلی اسکوپ کو چھتوں یابالکنی میں لگاتے ہیں۔ اسٹار گیزنگ سے دیہی کیمپس اور دیہی پکنک کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور کئی ایسے اسکول کالجز ہیں جس علم فلکیات کا کلب بھی تشکیل دیتے ہیں اور اس تجربہ کو آگے بھی بڑھانا چاہیے۔
میرے پیارے ہم وطنو، ہماری پارلیمنٹ کو، جمہوریت کے مندر کے روپ میں ہم جانتے ہیں۔ ایک بات کا میں آج بڑے فخر سے ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جن نمائندوں کو منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے انھوں نے گذشتہ 60 سال کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ پچھلے چھ مہینے یں 17ویں لوک سبھا کے دونوں ایوان بہت ہی بارآور رہے ہیں۔ لوک سبھا نے تو 114 فیصد کام کیا، تو راجیہ سبھا نے 94 فیصد کام کیا۔ اور اس سے پہلے بجٹ اجلاس میں تقریباً 135 فیصد کام کیا تھا۔ دیر رات تک پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سبھی ارکان پارلیمنٹ اس کے لیے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آپ نے جن عوامی نمائندوں کو بھیجا ہے، انھوں نے ساٹھ سال کے سارے ریکار توڑ دیے ہیں۔ اتنا کام ہونا، اپنے آپ میں، ہندوستان کی جمہوریت کی طاقت کی بھی، اور جمہوریت کے تئیں یقین کی بھی، پہچان ہے۔ میں دونوں ایوانوں کے پریزائڈنگ افسران، سبھی سیاسی جماعتوں کو، سبھی ارکان پارلیمنٹ کو ان کے اس سرگرم رول کے لیے بہت بہت مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔
میرے پیارے ہم وطنو، سورج، زمین، چاند کی رفتار صرف گرہن طے نہیں کرتی ہیں، بلکہ کئی ساری چیزیں بھی اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سورج کی رفتار کی بنیاد پر جنوری کے وسط میں، پورے ہندوستان میں مختلف تہوار منائے جائیں گے۔ پنجاب سے لے کر تمل ناڈو تک اور گجرات سے لے کر آسام تک، لوک متعدد تہواروں کا جشن منائیں گے۔ جنوری میں بڑے ہی دھوم دھام سے مکر سنکرانتی اور اتراین منایا جاتا ہے۔ ان کو توانائی کی علامت بھی مانا جاتا ہے۔اسی دوران پنجاب میں لوہڑی، تمل ناڈو میں پونگل، آسام میں ماگھ بیہو بھی منائے جائیں گے۔ یہ تہوار، کسانوں کی خوشحالی اور فصلوں سے بہت قریب سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تہوار ہمیں ہندوستان کے اتحاد اور ہندوستان کی تنوع کے بارے میں یاد دلاتے ہیں۔ پونگل کے آخری دن، عظیم تروولور کی جینتی منانے کا موقع، ہم ، ہم وطنوں کو ملتا ہے۔ یہ دن، عظیم مصنف، مفکر سنت تروولور جی کو ان کی زندگی کو وقف ہوتا ہے۔
میرے پیارے ہم وطنو، 2019 کا یہ آخری ‘من کی بات’ پروگرام ہے۔ 2020 میں ہم پھر ملیں گے۔ نیا سال، نئی دہائی، نئی عہد، نئی توانائی، نئے امنگ، نئے جوش- آیئے چل پڑیں۔ عہد کی تکمیل کے لیے توانائی جٹاتے چلیں۔ دور تک چلنا ہے، بہت کچھ کرنا ہے، ملک کو نئی بلندیوں پر پہنچانا ہے۔ 130 کروڑ ہم وطنوں کی طاقت پر، ان کی صلاحیت پر، ان کے عہد پر، زبردست یقین رکھتے ہوئے، آؤ، ہم چل پڑیں۔ بہت بہت شکریہ، بہت بہت نیک خواہشات۔