16.3 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

مویشیوں کی پیداوار میں اضافہ اور کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لئے مربوط کاشت کی ضرورت:نائب صدرجمہوریہ ہند

Urdu News

نئی دہلی، نائب صدرجمہوریہ ہند  جناب ایم وینکیا نائیڈو نے  مویشیوں کی پیداواریت کو بہتر بنانے اور  کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے لئے  کاشت کے مربوط طریقہ کار  کو فروغ دینے کی ضرورت پر  زور دیا ہے۔

شری وینکٹیشور  ویٹرینری  یونیورسٹی ، تروپتی میں  آج  آٹھویں تقریب تقسیم اسناد  سے خطاب کرتے ہوئے جناب  وینکیا نائیڈو نے کہا کہ  زیادہ شمولیت والے  اور پائیدار  زرعی نظام کو یقینی بنانے  میں مویشی پروری  کو کافی اہمیت حاصل ہے۔

اس سلسلے میں  مطالعہ کا ذکر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ  ایسے کسانوں کے خاندان میں ، جنہوں نے  پالیٹری  ، ڈیئری یا  ایکوا کلچر  جیسی متعلقہ سرگرمیاں  اپنائی ہیں ، ان میں خودکشی کا کوئی بھی  واقعہ رونما نہیں ہوا ہے۔ انہوں نے  کہا کہ  مویشی پالنے والے کسان کنبے  انتہائی خراب موسمی حالات اور فصل کی بربادی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات سے بہتر طریقے سے  نمٹتے ہیں۔

این ایس ایس او کے  شماریات  ، تخمینوں کا ذکر کرتے ہوئے نائب  صدرجمہوریہ ہند نے کہا کہ  دیہی ہندوستان میں  تخمینہ 99.2 ملین  کسان ہیں اور  ان تمام کسانوں کی آمدنی میں پائیداری لانے کے لئے ہر ایک کو  ابتدائی  سطح پر کوششیں کرنی ہوں گی۔

نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ  بہتر اور  صحت مند زرعی شعبہ  بھارت کی  ہمہ گیر ترقی اور  پائیداری کو یقینی بنانے کی پیشگی شرط ہے۔ انہوں نے  کاشت کو  منافع بخش پیشہ بنانے ، خصوصا نوجوانوں کے لئے  اسے منفعت بخش  بنانے کی غرض سے  زراعت کو معاشی اعتبار سے  موضوع ترین اور مالی اعتبار سے منفعت بخش بنانے کے  لئے اقدامات کرنے کی اپیل کی۔

 یہ کہتے ہوئے کہ  ہندوستان کی کُل  مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)  میں  زرعی شعبے کا  حصہ 17 فیصد ہے۔ اس میں سے  27 فیصد  حصہ  مویشی پروری کا آتا ہے  اور  ڈیری  ، پالیٹری اور  ماہی پروری  کی صنعت مجموعی طور پر جی ڈی پی میں 4.4 فیصد کا تعاون کرتی ہے۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ  یہ تمام اعداد وشمار ہماری معیشت کے ان شعبوں کے ذریعے  ادا کئے جانے والے اہم کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔

 یہ کہتے ہوئے کہ مویشی  انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے اور  پشو دھن  انسانی بقاء  کا  ایک اہم عنصر ہے۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ  قیمتی  پشو دھن کا تحفظ کرنا ایک شہری کی ذمہ داری ہے ۔انہوں نے کہا کہ  دیہی  معیشت کا انحصار زراعت اور اس سے متعلق سرگرمیوں کے شعبے ، جیسے پالیٹری ، ڈیری  اور دوسرے  شعبوں پر ہے۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ  یہ شعبہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی کثیر تعداد کو  منفعت بخش روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ جناب نائیڈو نے یونیورسٹیوں سے  ویٹرینری سائنس  میں تحقیق وترقی  کی حوصلہ افزائی کی اپیل کی۔

جناب وینکیا نائیڈو نے حکومت ، زرعی سائنس دانوں اور  کرشی وگیان کیندروں سے  مالی استحکام کے لئے کسانوں کو  مختلف  متعلقہ سرگرمیاں اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ اپنی آبادی کا فائدہ اٹھانے کے لئے  ہندوستان کے معاملے میں فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانا کافی اہم  ہے۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ  پالیٹری  ، ماہی پروری  ، ریشم کی تیاری  اور  دوسری خدمات میں  آمدنی  کو بڑھانے کی کافی صلاحیت موجود ہے۔ ان شعبوں میں روزگار  اور  معاشی ترقی میں کافی  تعاون کیا  ہے۔ انہوں نے  مویشیوں کی  اپنی دیسی نسلوں  کی پیداواریت کو بہتر بنانے اور ان کے تحفظ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

 انہوں نے یونیورسٹیوں سے  انسانی وسائل کے فروغ  ، ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور  کسانوں کو درپیش مسائل کا  بہتر حل تلاش کرنے  کے لئے  صنعتوں کے ساتھ  اپنے اشتراک کو جاری رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کو کہا۔

بھارت میں  ویٹرینری  سے متعلق  افرادی قوت کی فراہمی  اور ڈیمانڈ کے درمیان  موجود  عدم توازن  پر تشویش  کا اظہار کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے  کسانوں کی ضروریات کی  تکمیل کے لئے انتظامیہ سے  تعلیمی اداروں ، تحقیق وترقی  ، اور فیلڈ اداروں  میں پڑی خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لئے کہا۔ وہ  تمام  ویٹرینری یونیورسٹیوں اور ایگریکلچر یونیورسٹیوں  میں  عمومی طور پر  ٹیکنالوجی  کے  امکانات  اور خصوصی طور پر  اطلاعاتی  اور مواصلاتی ٹیکنالوجی  (آئی سی ٹی)  کے بے پناہ امکانات  کو  بروئے کار لانے کے لئے  انجینئرنگ اور آئی ٹی محکموں کا قیام چاہتے تھے۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ  ہندوستان کی قدروں کی علامت  ،فطرت اور  مویشی  نیز  مختلف حیوانات اور نباتات کو کافی اہمیت دی جاتی ہے، اسے پوری دنیا میں  واحد قابل احترام اصول کے طور پر قبول کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  قدیم ہندوستان کی قدروں اور مالا مال قدرتی وسائل   سے بڑھ کر  پوری دنیا میں  ان قدروں کا تحفظ ہندوستان کے اس عزم مصمم کا  مظہر ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ  دنیا کو دیکھنے کا ہمارا یہ نظریہ  انسان اور فطرت  کے رشتوں پر مبنی ہے۔ یہی وہ تناظر ہے جس نے ہمیں  پائیدار ترقی کے  ہدف کو حاصل کرنے کے قابل بنایا ہے اور ہم نے  عالمی برادری کے طور پر  خود کو قائم کیا ہے۔

آندھر اپردیش کے گورنر اور  یونیورسٹی کے چانسلر ای ایس ایل  نرسمہن ، یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر  وائی ہری بابو ، یونیورسٹی صدور شعبہ ، فارغ التحصیل اور  طلباء بھی  اس موقع پر  موجود تھے۔

بعد ازاں  نائب  صدرجمہوریہ نے  محکمہ پیتھولوجی  کے زیر اہتمام چل رہے ویٹرینری پیتھولی میوزیم کا دورہ کیا  اور  ہندوستان کے بہترین ادارے کے قیام کے لئے  یونیورسٹی کی کوششوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ  یہ میوزیم  ویٹرینری پیتھولوجی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے  طلباء اور محققین کے لئے  کافی معاون ہوگا۔

یہ میوزیم  محکمہ پیتھولوجی  کے صدر شعبہ  اور  ڈاکٹر این آر  گوپال نائیڈو کے ذریعے  بنایا گیا ہے ، جہاں  مویشیوں کے امراض  سے متعلق 500 سے زائد  نمونے  رکھے ہوئے ہیں جنہیں  1960 سے  محفوظ کرکے رکھا گیا ہے۔ میوزیم میں  دنیا بھر کے  میڈیکل تاریخ سے متعلق اہم شخصیات  اور  معروف سائنس دانوں  کی تصاویر بھی رکھی گئی ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن درج ذیل ہے:

‘‘ملک میں ریاستی ویٹرینرنگ یونیورسٹیوں میں ایک اہم مقام رکھنے والی موقر یونیورسٹی کے آٹھویں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے مجھے فخر کا احساس ہورہا ہے۔

ویٹرینری ماہی گیری اور ڈیری سائنسز میں عمدگی کے اس مرکز کے پورٹلس  سے فارغ التحصیل ہونے والے  نوجوان دوستوں کے لئے میں نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

یہ جلسہ تقسیم اسناد ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کہ کیونکہ یہ آپ کے کریئر کی نئی شروعات کا اعلان کرتا ہے۔ آج آپ کو ڈگریاں ملیں گی اور میڈل ملیں گے جو آپ کی سخت محنت،  جانفشانی ، تحمل ، لیاقت اور اسکالر شپ  کے گواہ ہوتے ہیں۔

اس موقع پر میں آپ میں سے ہر ایک کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

یہاں پر اس جانفشانی اور عہد بندی  کا خصوصی طور پر ذکر کیا جانا چاہیے جو آپ کے اساتذہ نے آپ کی حقیقی لیاقت کو سامنے لانے میں  کی  اور جس کے نتیجے میں آج آپ کو ڈگریاں تفویض کی جارہیں۔  ہندوستان میں گورو کا زمین پر  مقام بہت اونچا ہے۔

میں یہاں سے  فارغ التحصیل ہونے والے  طلبا کے والدین کو بھی مبارکباد دوں گا جنہوں نے اپنے بچوں کو میعاری تعلیم دلانے کے لئے روز قربانیاں دی ہیں۔آپ کی غیر مشروط محبت ، مدد اور اعتماد کا ہی نتیجہ ہے کہ آج آپ کے بچے یہاں ہیں اور یہ ڈگریاں حاصل کررہے ہیں اور جن پر آپ کو فخر ہے۔

آپ نے درحقیقت ایک معزز پیشے کا انتخاب کیا ہے!

ویٹرینری سائنس  ایک کثری موضوعاتی سائنس ہے جس میں جانوروں کی بیماریوں کی تشخیص ،کنٹرول،  روک تھام اور علاج  کے ساتھ ساتھ بیسک زولوجی ، جانوروں کی بہبود  اور دیکھ بھال بھی شامل ہے۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ انیمل سائنس کی  تمام سرگرمیوں سے براہ راست یا بالواسطہ انسانی صحت متاثر ہوتی ہے۔اس طرح ویٹرینری سائنس بنیادی سطح پر انسانی صحت کی ہی ایک سرگرمی ہے۔

ویٹرینری سائنٹسٹ خوراک کے تحفظ، چھوت سے لگنے والی بیماریوں کی روک تھام اور ان پر قابو پانے ، ماحولیات اور ایکو سسٹم کے تحفظ نان زونوٹک بیماریوں  کے علاج اور ان پر قابو پانے کے سلسلے کو آگے بڑھائے جانے کویقینی بناکر انسانی صحت کے تحفظ کے سلسلے میں ہی کام کررہے ہیں،  عوامی صحت کے سلسلے میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور طبی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں۔

مجھے یہ جان خوشی ہوئی ہے کہ شری وینکٹیشور ویٹرینری یونیورسٹی  مویشی پروری میں ایک ڈپلومہ پروگرام شروع کرنے والی ملک کی پہلی یونیورسٹی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ آپ  پیرا ویٹرینری اسٹاف کے لئے ضروری کورسز تیار کرنے کے سلسلے میں دیگر یونیورسٹیوں کےلئے ایک مثال قائم کرتے ہوئے اور اس کے ذریعہ دیہی علاقوں کے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں منفعت بخش روزگار فراہم کراتے ہوئے قیادت فراہم کرارہی ہے۔

یہ بات حقیق میں قابل فخر ہے کہ اس یونیورسٹی نے ماتما گاندھی کے ان الفاظ کو  کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ ‘‘کسی ملک کی عظمت اور  اس کی اخلاقی برتری کا اندازہ  اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ان کا سلوک اپنے جانوروں کے ساتھ کیسا ہے’’۔

مویشی درحقیقت ہماری زندگی کا ناگزیر حصہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ‘پشو دھن ’ ملک کی دولت ہے۔

 ہماری تہذیب میں قدیم زمانے سے ہی مویشیوں کو پوتر سمجھا جاتا رہا ہے۔ زندگی  کی تمام شکلوں کی لئے احترام ہماری تہذیب کی ایک دائمی شناخت ہے۔ہندوستانی اخلاقیات میں قدرت  اور جانوروں کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔

یہاں کے حیوانات و نباتات کے تنوع کو پوری کائنات میں پھیلے  ایک عظیم اصول کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔

وشنو کے دس اوتاروں میں مچھلی، کچھوا اور بارہ (جنگلی سور) بھی شامل ہیں۔

دیویوں اور دیوتاؤں نے پرندوں اور جانوروں کو اپنے واہن یا سواریاں بنایا ہے۔

کارتکے ایک مور پر سوار ہوتے ہیں، جبکہ وشنو ایک باز پر اور سرسوتی ایک ہنس پر ۔ کرشن کو گوردھن کے روپ میں جانا جاتا ہے، کیونکہ وہ ایک گووَنش ہیں، جو گایوں کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کی پرورش و پرداخت کرتے ہیں۔ بھگوان شیو کو پشوپتی ناتھ (تمام جانوروں کا سردار) بھی کہا جاتا ہے اورناگ کو اپنےجواہرات کے روپ میں رکھتے ہیں، جبکہ سانڈ ان کی سواری ہے۔ بھگوان گنیش  کی سواری چوہا ہے، جبکہ دُرگا کی سواری شیر ہے۔ ہمارے سب سے قدیم رزمیہ رامائن میں بندر، بھالو اور یہاں تک کہ گلہری بھی روحانی مشن کی مدد کرتی ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سبھی پرندے اور جانور  خواہ وہ بڑے یا چھوٹے ہوں یا جنگلی یا گھریلو سبھی کی قدرو قیتم ہے اور سبھی جانوروپرندے حفاظت  و تحفظ فراہم کئے جانے کے لائق ہیں۔

کرۂ ارض کے حیاتیاتی تنوع کو تحفظ فراہم کرنے کے ہمارے عہد کا بڑا ثبوت ہمارے ہندوستان کی قدیم رزمیہ اور بیش قیمت مجسمہ سازی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا ہے۔

ہمارا عالمی  نقطۂ نظر انسانیت اور فطرت کے درمیان ایک علامتی رشتے کی بنیاد پر ہے۔ یہ وہ نقطۂ نظر ہے، جو ہمیں پائیدار ترقیاتی اہداف کا احساس کرا سکتا ہےاور یہی وہ نقطہ ٔ نظر ہے، جس کو ہم نے اپنے لئے عالمی برادری کی حیثیت سے مقرر کر رکھا ہے۔

ہم نے  ہمیشہ جانوروں کی فلاح و بہبود اور انسانیت کے ساتھ سلوک کو بڑی  اہمیت دی ہے ، یہاں تک کہ  تجارتی مقاصد کیلئے جانوروں کا استعمال کرتے ہوئے بھی ہم نے اس کا خیال رکھا ہے۔

ہندوستان میں پائیدار اور جامع ترقی کو یقینی بنانے کیلئے اہم ترین شرط ایک صحتمند اور مضبوط زرعی شعبے کو فروغ دینا ہے۔ ہمیں زراعت کوکیریئر کے لئے  ایک پُرکشش موقع بنانا ہوگا۔ بالخصوص نوجوانوں کے لئے ۔ اس کے لئے زراعت کو اقتصادی سطح پر دکھنے والا اور مالی سطح پر انعام دینے والا بنانا ہوگا۔ اگر ہمیں اپنی  کثیر آبادی کے حصے سے فائدہ اٹھانا ہے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے، تو ہمیں یہ کام کرنا ہی ہوگا۔

خوش قسمتی سے آپ لوگ گاؤں کی سطح پر زرعی برادری کے ساتھ براہ راست منسلک ہیں اور آپ لوگ  زرعی سیکٹر کو تقویت فراہم کر کے دیہی معیشت اور خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے بہترین تعاون دے  سکتے ہیں۔

نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے تخمینے کے مطابق دیہی ہندوستان میں تقریباً 90.2ملین زراعتی کنبے ہیں۔ ان تمام کنبوں کے لئے پائیدار آمدنی کی راہ ہموار کرناآپ کی بنیادی ذمہ داری ہونی چاہئے۔

جانوروں  کی پیداوار اور زراعت ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ دونوں ہی مجموعی طور پر غذائی تحفظ کے لئے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں زرعی صنعت کا تعاون 17فیصد ہے۔ اس میں سے 27 فیصد مویشی پروری کا ہے۔

مجموعی طور پر ڈیری، مرغی پالن اور آبی صنعتوں کا تعاون ملک کی جی ڈی پی میں 4.4 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ ہماری معیشت میں ان شعبوں کا بڑا اہم رول ہے۔ ان شعبوں میں ملک بھر میں تقریباً 16 ملین افراد کو روزگار حاصل ہے۔

زیادہ جامع اور پائیدارزرعی نظام کو یقینی بنانے کے لئے  مویشی پالن نہایت اہم ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (این ایس ایس او) کے اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں تقریباً 23 فیصد کاشتکار کنبوں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مویشی پالن ہے۔ ان کاشتکار کنبوں کے پاس زراعت کے لئے بہت چھوٹی زمین کا ٹکڑاہے،ان کے پاس 0.01 ہیکٹیئر سے بھی کم زرعی زمین ہے۔

مربوط زرعی طریقۂ کار سے سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی کو دو گنی کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ اس طرح سے ہمارے مویشیوں کی افزائش کو بہتر بنانا اور ان کو صحتمند بنانا نہایت ضروری ہے۔

مویشی پالن کرنے والے زرعی کنبے خراب موسم کے حالات   اور فصلوں کی بربادی سے پیدا ہونے والے  اثرات سے بخوبی نمٹ سکیں گے۔ دراصل ایک مطالعہ سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ ایسے کسان کنبوں میں خودکشی کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا ہے، جو زراعت سے منسلک دیگر سرگرمیوں مثلاً مرغی پالن ، ڈیری یا ماہی پروری جیسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More