نئی دہلی، کابینہ کے میرے ساتھی تجارت اور صنعت کے وزیر جناب سریش پربھو جی، ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیر جناب ہردیپ سنگھ پوری جی، تجارت اور صنعت کے وزیر مملکت جناب سی آر چودھری جی، تجارت اور متعلقہ محکموں کے سینئر افسران اور یہاں موجود دیگر معززین ۔
سب سے پہلے میں آپ سب کو وانجیہ بھون کا سنگ بنیاد رکھنے پر بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ آج اس کا کام شروع ہو گیا ہے اور جیسا کہ اسٹیج پر ہی بتایا گیا ہے کہ اگلے سال دسمبر تک تعمیر کا کام مکمل ہو جائے گا۔ مجھے امید ہے کہ وقت کی حدود میں ہی وانجیہ بھون بنے گا اور جلد سے جلد اس کا فائدہ لوگوں کو ملنے لگے گا۔
ساتھیو، وقت کی بات سب سے پہلے میں اس لئے کر رہا ہوں، کیونکہ مجھے اس حکومت کے دوران جتنی بھی عمارتوں کا سنگ بنیاد رکھنےیا افتتاح کرنے کا موقع مجھے ملا،اس میں زیادہ تر میں ایک بات مشترک تھی ۔ مشترک یہ کہ عمارتوں کی تعمیر بھی حکومتوں کے کام کرنے کے طریقوں کا عکاس ہوتی ہے۔ نیو انڈیا کی جانب بڑھتے اور پرانے نظاموں کے بیچ کا فرق بھی اسی سے پتہ چلتا ہے ۔
ساتھیوں، میں آپ کو کچھ مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ جب 2016 میں پرواسی بھارتیہ کیندر کا افتتاح ہواتو اس وقت یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ اس کیندر کا اعلان اٹل بہاری واجپئی جی کے دور میں ہوا تھا۔ بعد میں اسے اصل شکل میں آتے آتے 12 سال لگ گئے ۔
گزشتہ سال دسمبر میں جس ڈاکٹر امبیڈکر انٹرنیشنل سینٹر کا افتتاح کیا گیا تھا، اسے بنانے کا فیصلہ بھی 1992 میں لیا گیا تھا۔ لیکن اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا سال 2015 میں، میں نے کہا،کہاں 1992 کہاں 2015،اس کا افتتاح 2017 میں ہوا۔ یعنی فیصلہ ہونے کے بعد24-23 سال لگ گئے ، صرف ایک سینٹر بننے میں ۔
ساتھیو!، اس سال مارچ میں، میں نے مرکزی اطلاعات کمیشن کی نئی عمارت کو بھی ملک کو وقف کیا تھا۔ سی آئی آئی کے لئے ایک نئی عمارت کا مطالبہ بھی 12 سال سے کیا جا رہا تھا لیکن اس کے لئے بھی کام این ڈی اے کی موجودہ سرکار نے ہی شروع کروایا اور طے شدہ مدت میں اسے پورا بھی کیا ۔
ایک اور مثال ہے علی پور روڈ میں تعمیر کر دہ امبیڈ کر قومی یادگار کا۔ دو مہینہ پہلے اس کا بھی افتتاح کیا گیا ہے ۔ اس یادگار کے لئے بھی برسوں تک چرچا ہوئی ۔اٹل جی کے دور میں کام میں تیزی بھی آئی لیکن بعد میں 12-10 سال سب ٹھپ پڑ گیا۔
دلی کی یہ چار الگ الگ عمارتیں علامت ہیں کہ جب سرکار سلوز میں کام نہیں ہوتا ، جب سارے محکمے، وزارتیں ، سلوز سے نکل کر سلوشن کے لئے ، ایک ہدف کو حاصل کرنے کے لئے مل جل کر کام کرتے ہیں تو کتنا اچھا اور جلدی نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ ہر کام کو اٹکانے، بھٹکانے ، لٹکانے کی عادت سے ملک اب آگے نکل چکا ہے۔
مجھے خوشی ہے کہ آج اس میں پانچویں علامت جڑنے کی شروعات ہو چکی ہے۔ اس وانجیہ بھون میں ایک چھت کے نیچے ، کامرس سیکٹر کے ہر شعبہ سے سلوز کو ختم کرنے کا کام اور بہتر طریقہ سے کیا جائے گا۔ میری یہی خواہش ہے۔
ساتھیو، آج بھارت وقت کے اہم ترین موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمارا آبادیاتی منافع کسی بھی ملک کے لئے حسد کا موضوع ہو سکتا ہے۔ہماری جمہوریت کو ہمارے نوجوان نئی توانائی دیتے ہیں۔ یہ نوجوان اکیسویں صدی کے بھارت کی بنیاد ہیں۔ ان کی امیدوں کی تکمیل صرف کچھ وزارتوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سبھی کا اجتماعی فریضہ ہے۔
بھارت گذشتہ صدی میں صنعتی انقلاب کا فائدہ اٹھانے سے چوک گیا تھا۔ تب اس کی متعدد وجوہات تھیں لیکن اب اتنی ہی وجہیں ہیں جن کی وجہ سے بھارت اب اس صدی کے صنعتی انقلاب کی قیادت کرنے والوں میں سے ایک بن سکتا ہے ۔ چوتھا صنعتی انقلاب جسے فورتھ انڈسٹریل ریولوشن بھی کہتے ہیں، اس کی اصل بنیاد ڈیجیٹل ٹیکنالوجی ہے اور یقینی طور پر بھارت اس میں دنیا کے کئی ملکوں سے کہیں آگے ہے۔
آج آپ تجارت کی وزارتوں کے جتنے بھی اہداف کو دیکھیں گے ، جتنے بھی کاموں کو دیکھیں گے تو اس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی ترجیح ہی آپ کو نظر آئے گی۔
یہ وانجیہ بھون ہی دیکھئے ، جس زمین پر یہ عمارت بنے گی وہ پہلے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سپلائز اینڈ ڈسپوزل کے اختیار میں تھی۔100 سال سے بھی زیادہ پرانا یہ محکمہ اب بند ہو چکا ہے اور اس کی جگہ لی ہے ڈیجیٹل تکنیک پر مبنی گورنمنٹ ای مارکیٹ پلیس جی ای ایم نے ۔ حکومت کس طرح سے اپنی ضرورت کے سامان کی خریداری کرتی ہے اس نظام کو جی ای ایم نے پوری طرح سے بدل دیا ہے۔
آج کی تاریخ میں 117000 سے زیادہ چھوٹے بڑ ے سیلرز ،کمپنیاں اس سے جڑ چکی ہیں۔ ان سیلرز کو 5 لاکھ سے زیادہ آڈرس جی ای ایم کے توسط سے دیئے جا چکے ہیں۔ بہت کم وقت میں جی ای ایم پر 8700 کروڑ روپے کے سامان خریدے گئے ہیں۔
جس طرح جی ای ایم نے ملک کے دوسرے گوشے میں بیٹھے چھوٹے چھوٹے کاروباری اداروں کو اپنے پروڈکٹ براہ راست طور پر حکومت کو بیچنے کاموقع مہیا کرایا ہے، اس کے لئے کامرس وزارت تعریف کی مستحق ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے میں اسے ایک طویل سفر کا آغاز مانتا ہوں۔
جی ای ایم کی توسیع اور اسے کیسے بڑھایا جائے ، کیسے یہ ملک کے ایم ایس ایم ای شعبہ ، چھوٹے کاروباریوں کو انٹرنیشنل کامرس کی طرف لے جائے ، اس بارے میں بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ آج ملک میں 40 کروڑ سے زیادہ اسمارٹ فون ، انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، سستا ڈیٹا،آپ کے کاموں کو اور آسان کر رہا ہے ۔
ساتھیو، ہمارے یہاں کہا گیا ہے- کوہی بھارہ سمرتھانام ،کِم دُور بیوسائینام ۔یعنی جو شخص طاقت ور ہوتا ہے اس کے لئے کوئی چیز بھاری نہیں ہوتی ۔ اسی طرح کاروباریوں کے لئے کوئی جگہ دور نہیں ہوتی ۔ آج ٹیکنالوجی نے تجارت کو اتنا آسان بنا دیا ہے کہ دوری دنوں دن کم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی ملک کی تجارتی ثقافت میں جتنی بڑھے گی اتنا ہی فائدہ پہنچائے گی۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک سال سے بھی کم وقت میں جی ایس ٹی نے ملک میں تجارت کا طریقہ بدل دیا ہے۔ اگر ٹیکنالوجی نہیں ہوتی تو کیا یہ ممکن ہوتا ۔ نہیں ! آج جی ایس ٹی کی وجہ سے ہی ملک میں بالواسطہ ٹیکس اور اس سے جڑنے والے لوگوں کی توسیع بہت تیزی سے ہو رہی ہے ۔
آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں بالواسطہ ٹیکس نظام سے جہاں صرف 60 لاکھ جڑے ہوئے تھے وہیں جی ایس ٹی کے بعد کے گیارہ مہینوں میں ہی اب تک 54 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے رجسٹریشن کے لئے درخواستیں دی ہیں اور ان میں سے 47 لاکھ سے زیادہ کا اندراج ہو چکا ہے ۔ اس طرح اندراج شدہ لوگوں کی تعداد اب ایک کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے ۔
اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ پروسیس کو آسان کرنے پر کم از کم حکومت ، زیادہ سے زیادہ حکمرانی کی راہ پر چلنے پر نتائج بھی آتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لوگ بھی ترقی کی اصل دھارا سے جڑنے کے لئے قدم بڑھاتے ہیں۔
ساتھیو! آپ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ گذشتہ چار سالوں میں حکومت نے عوام دوست ، ترقی دوست اور سرمایہ کارانہ دوست ماحول بنانے میں مسلسل کوشش کی ہے ۔ تمام عالمی چیلنجوں کے باوجود بھارت کے میکرو اکنامک انڈیکیٹرس مستحکم بنی ہوئی ہیں۔ افراط زر ہو ، مالی خسارہ ہو یا پھر کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس ،ان میں پہلے کی حکومتوں کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔
بھارت آج دنیا کے معاشی نظام کو آگے بڑھانے میں اہم ترین رول ادا کر رہا ہے ۔ ابھی پچھلے ہی سہ ماہی میں ملک کی شرح ترقی نے 7.7 فیصد کے اعداد و شمار کو چھو لیا ہے ۔ پچھلے چار سالوں میں ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔
آج بھارت ایف ڈی آئی کنفیڈینس انڈیکس میں ٹاپ 2 ایمرجنگ مارکیٹ پرفارمرس میں سے ایک ہے ۔ ایز آف ڈوئنگ بزنس کی درجہ بندی میں 142 سے 100 نمبر پر پہنچنا ، لوجسٹکس پر فارمینس انڈیکس میں 19 پوائنٹ کی بہتری ، عالمی مسابقتی عدد اشاریہ میں درجہ بندی 71 سے بہتر ہو کر 39 پر پہنچنا ، عالمی اختراع عدد اشاریہ میں 21 پوائنٹ کا اچھال آنا یہ اسی ویژن کا نتیجہ ہے۔
آپ کو معلوم ضرور ہوگا کہ حال ہی میں بھارت میں دنیا کے سرفہرست پانچ بہترین ٹیکنالوجی ممالک میں بھی اپنی جگہ بنالی ہے۔
لیکن ان مثبت اشاریوں کے ساتھ ہی آگے بہت بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اب آگے کیا؟ ساتھیو! 7 فیصد، 8 فیصد فی شرح ترقی سے آگے بڑھ کر ہمیں ڈبل ڈیجٹ (دو ہندسوں والی) شرح ترقی حاصل کرنے ہدف پر کام کرنا ہے۔ دنیا کی نظریں آج بھارت کو اس نظریہ بھی دیکھ رہی ہے کہ بھارت کتنے سالوں پانچ ٹریلین ڈالر کے کلب میں شامل ہوتا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ وزارت کامرس کو، آپ سبھی ذمے دار افسران کو ان ہداف کو ایک چیلنج کی طرح لیناچاہئے۔اقتصادی مورچے پر کی گئی ترقی سیدھے سیدھے ملک کے عام شہری کی زندگی سے جڑی ہوئی ہیں۔
اس لئے آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب بھی میں کاروبار میں آسانی ، تجارت کرنے میں آسانی کی بات کرتا ہوں تو ساتھ زندگی میں آسانی کا موضوع بھی ہمیشہ اٹھاتا ہوں۔آج کی آپس میں جڑی (انٹر کنیٹڈ) دنیا میں یہ سبھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
جب بجلی کنکشن لینا آسان ہوتا ہے، تعمیراتی کاموں کو لے کر منظور جلد ہی مل جاتی ہے، جب صنعتوں کو کمپنیوں کو عملوں سے(پروسیس) سے الجھنا نہیں ہوتا، تو اس کا فائدہ عام آدمی تک بھی پہنچتا ہے۔اس لئے آپ لوگوں کے لئے بھی ایک چیلنج ہے کہ اب بھی جو الگ الگ سیکٹروں میں بوٹل نیک بچے ہوئے ہیں۔ جہاں پر سیلوس میں کام ہورہا ہے، انہیں جتنا جلدی ہوسکے دور کیاجائے۔
خاص طور پر انفراسیکٹر میں جو دقتیں آتی ہیں،اعلی ٹرانزیکشن کوسٹ ہوتی ہے، مینو فیکچرنگ بڑھانے میں جو باتیں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں، خدمات کا نامناسب تنوع پیدا کرتی ہے۔ انہیں روکا جانا ، سدھارا جانا بہت ضروری ہے۔
مجھے خوشی ہے ابھی حال ہی میں محکمہ کامرس نے ملک کے لوجسٹکس سیکٹر کی مربوط ترقی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ اقدامات ملک میں تجارت کے ماحول کو سدھارنے میں بہت بڑا رول نبھانے والے ہیں۔
ساتھیو! مربوط لوجسٹکس عملی منصوبہ آج وقت کی مانگ ہے اور نیو انڈیا کی ضرورت بھی ہے۔ پالیسی میں بدلاؤ کرکے جو اب پروسیجر س ہیں انہیں سدھار کر آج کی جدید تکنیک کا استعمال بڑھا کر اس ہدف کو حاصل کیاجاسکتا ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ محکمہ کامرس اس سمت میں آن لائن پورٹل پر بھی کام کررہا ہے۔ عالمی تجارت میں بھارت کی موجودگی کو اور مضبوط کرنے کے لئے، نئی اونچائی پر پہنچانے کے لئے سبھی وزارتوں اور سبھی ریاستوں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنابھی ضروری ہے۔ جس کو ہم کہتے ہیں‘‘ہول آف گورنمنٹ اپروچ’’ اسے اپنائے جانے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی ایک اچھا قدم ہے کہ کونسل فار ٹریڈ ڈیولپمنٹ اینڈ پروموشن ریاستی سرکاروں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں بین الاقوامی تجارت کو بڑھاوا دینے والا ماحول بنانے کے لئے کام کررہی ہے۔ بھارت کے برآمدات کو بڑھانا ہے تو ریاستوں کو سرگرم شراکت دار بن کر آگے بڑھنا ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ریاستوں میں ریاستی سطح کی برآمداتی حکمت عملی کی تشکیل کرکے، انہیں قومی تجارتی پالیسی کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے معاشی تعاون کرتے ہوئے، جتنے بھی شراکت دار ہے انہیں ساتھ لیتے ہوئے، اس سمت میں جتنی تیزی سے آگے بڑھیں گے اتنا ہی ملک کا فائدہ ہوگا۔
ساتھیو! بین الاقوامی بازار میں بھارت کی موجودگی کو بڑھانے کے لئے ہماری روایتی مصنوعات اور بازار ہیں، انہیں بنائے رکھتے ہوئے نئی مصنوعات اور نئے بازاروں پر دھیان دیا جانا بھی ضروری ہے۔ ہمیں اندرون ملک بہت سی چیلنجوں کے ساتھ ہی ملک کے باہر کی صورت حال کے لئے بھی خود کو اور مضبوط کرنا ہوگا۔
جب ہم قلیل المدتی ترقیاتی فوائد اور طویل المدتی استحکام کے درمیان ایک توازن بنا کر چلیں گے تو اس کے نتیجے بھی دکھائی دیں گے۔
گزشتہ سال دسمبر میں ، میں بیرونی تجارتی پالیسی سے جڑا جووسط المدتی جائزہ کیاگیا تھا، اسے بھی میں بہت مثبت پہل مانتا ہوں۔ مراعات بڑھا کر، ایم ایس این ای شعبے کی مدد( ہینڈ ہولڈنگ) کرکےد رآمد کو بڑھانے کے لئے کی گئی ہر تبدیلی قابل تحسین ہے۔ یہ سیدھے سیدھے ملک کی روزگار ضرورتوں سے بھی منسلک ہوا ہے۔
ایک اور اہم موضوع ہے۔۔ پروڈکٹ کی کوالٹی۔ یہی وجہ ہے کہ سال 2014 سے میں نے 15 اگست کو لال قلعہ سے زیرو ڈیفیکٹ، زیرو ایفیکٹ کی اپیل کی تھی۔ کاروبار چھوٹا ہو یا بڑا ہر مینو فیکچرر کو اس بات کے لئے ترغیب دی جانی چاہئے کہ وہ ایسی مصنوعات بنائے ،جس میں زیرو ڈیفیکٹ ہو، کوئی ہمارےدرآمداتی اشیاء کو واپس نہ بھیجیں۔ا س کے ساتھ ہی میں نے زیرو ایفیکٹ کی بات کی تھی، یعنی ہماری مصنوعات ماحولیات پر کوئی منفی اثر نہ ڈالیں۔
مصنوعات کی معیار کو لے کر یہ بیداری میک ان انڈیا کی چمک بڑھانے اور نیو انڈیا کی پہچان کو مضبوط کرنے کا کام کریں گی۔
آپ بھی جب دیکھتے ہوں گے کہ جہاں 2014 میں ہمارے ملک میں صرف دو موبائل مینو فیکچرنگ کمپنیاں تھی، وہ اب بڑھ کر 120 ہوگئی ہیں۔ بہت ہی کم قیمت پر عالمی سطح کے معیاری مصنوعات کو بہتر بنایا جارہا ہے، تو خود کو پر فخر محسوس کرتے ہوں گے۔
ساتھیو! یہ وقت عزم کرنے کا ہے، چیلنجوں کو قبول کرنے کا ہے۔
کیا محکمہ کامرس یہ عزم لے سکتا ہے کہ دنیا کی کل درآمدات میں بھارت کے تعاون کو بڑھا کر دوگنا کریں؟ ابھی کے 1.6 فیصد سے بڑھا کر کم سے کم 3.4 فیصد تک لے جائیں۔ یہ عالمی معیشت میں جی ڈی پی کے بھارت کے تعاون کے برابر ہوگا۔ اس سے ملک میں روزگار کے اور نئے مواقع پیدا ہوں گے اور ہماری فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔
اس کے لئے سرکار کے سبھی محکمے اور یہاں موجود ایکسپورٹ پروموشن کے سبھی اراکین کو مل کر کوشش کرنی ہوگی۔
اس کے علاوہ ایک اور عزم کیاجاسکتا ہے۔۔ امپورٹ کے تئیں۔ کیا ہم کچھ چنے ہوئے میدانوں میں برآمد پر اپنے انحصار کو کم کرسکتے ہیں؟ چاہے وہ انرجی امپورٹ ہو، الیکٹرانک گڈ س کی برآمد ہو، دفاعی مینوفیکچرنگ کا میدان ہو، یا میڈیکل مشینری کا میدان ہو۔ میک ان انڈیا کے ذریعہ یہ ممکن ہے۔
گھریلو مینو فیکچرنگ کے ذریعہ برآمد میں دس فیصد کی کمی ملک میں ساڑھے تین لاکھ کروڑ کی آمدنی بڑھا سکتی ہے۔ یہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافے کو دو ہندسوں میں لے جانے میں ایک موثر اعلی کار ثابت ہوسکتا ہے۔
میں آپ کو الیکٹرانک گڈ س کی مینوفیکچرنگ کی ہی مثال دیناچاہتا ہوں۔ کیا یہ آپ سبھی لوگوں کے لئے ایک چیلنج نہیں ہے کہ ملک میں الیکٹرانک گڈ س کی کل مانگ 65 فیصد ہمیں باہر سے خریدنا پڑتی ہے۔
جیسا موبائل فون کے میدان میں ہوا ہے، ویسا ہی کیاآپ اس چیلنج کو قبو ل کرکے، ملک کو الیکٹرانک گڈ س کی مینو فیکچرنگ میں خودکفیل بنا سکتے ہیں؟
ساتھیو! آپ اس سے بھی واقف ہے کہ برآمد پر انحصار کو کم کرنے کی سمت میں ایک بہت اہم قدم پچھلے سال اٹھایا گیا ہے۔ سرکاری خریداری(پریفرینس ٹو میک ان انڈیا)احکام کے ذریعہ حکومت کے تمام محکموں اور اداروں میں خریدی جارہی اشیاء اور خدمات کو گھریلو وسیلے سے خریدنے پر بھی زور دیا جارہا ہے۔ اس احکام کو پوری سنجیدگی کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
اس کے لئے آپ سبھی لوگوں کو حکومت کے سبھی اداروں کو اپنےنگراں نظام کو اس احکام کی تعمیل کے لئے پختہ کرناہوگا۔
گھریلو پیداوار کو بڑھانے کےلئے حکومت نے کئی اور اہم فیصلے بھی لئے ہیں وہ چاہے ریگولیٹری فریم ورک ہو ، ریگولیٹری فریم ورک میں آسانی پیدا کرنے کی بات ہو، سرمایہ کار دوست پالیسی ہو، بنیادی ڈھانچے اور لوجسٹکس پر زور ہو، یہ سبھی کیا جارہا ہے تاکہ ہندوستان خودکفیل بنیں،21 ویں صدی کے صنعتی انقلاب میں ایک قدم بھی پیچھے نہ رہ جائے۔
میک ان انڈیا کے ساتھ بڑھتا ہوا یہ فخروانڑجیہ بھون کابھی فخر بڑھا ئے۔ میری یہ تمنا ہے۔
ساتھیو! یہاں آنے سے پہلے ایک اور مبارک کام آپ لوگوں نے مجھ سے کرایا ہے۔ اس احاطے میں مولسری یا بکل کے پودے کو لگانے کا اعزاز مجھے ملا ہے۔مولسری بہت قدیم بہت قدر ہے، یہ بہت سی ادویاتی خوبیوں سے بھرپور ہے اور اس کا درخت سالوں سال سایہ دیتا ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ بھی یہاں تقریباً ہزار پیڑ اور لگائے جانے کا منصوبہ ہے۔
نئے بننے والے وانڑجیہ بھون کا، فطرت کے ساتھ یہ تال میل ، اس میں کام کرنے والوں لوگوں کو بھی چاق وچوبند رکھے گا، انہیں راحت دے گا۔
ماحولیات کے لئے مناسب لیکن جدید تکنیک لیس ماحولیات میں آپ سبھی نیو انڈیا کے لئے بہترین کارکردگی دیں گے، بہترین کوشش کریں گے، اسی خواہش کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
ایک بار پھر آپ سبھی کو وانجیہ بھون کی تعمیر کا کام شروع ہونے پر بہت بہت مبارک باد۔