نئی دہلی، نائب صدرجمہوریہ ہند جناب ایم وینکیانائیڈو نےعوامی زندگی میں ذات پات اور رقم کے بڑھتے ہوئے رول پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور میڈیا پر زور دیا ہے کہ وہ خاص طور پر انتخابات کے دوران ذات پاس اور برادری پر منحصر خبروں کو اہمیت دینا بند کریں۔
آج نئی دہلی میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نام پر بنے کنونشن سینٹر میں تعلیم ، صنعت کاری اور اخلاقیات پر پہلا ڈاکٹر راجا رام جے پوریا میموریل لیکچر دیتے ہوئے نائب صدرجمہوریہ نے اس بات کی خواہش کا اظہار کیا کہ لوگ اپنے نمائندوں کو چار سی یعنی کریکٹر (کردار) ، کلیبر (صلاحیت) ، کپیسٹی ( اہلیت ) اور کنڈکٹ (رویئے) کی بنیاد پر منتخب کریں۔ انہوں نے کہا بدقسمتی سے کچھ لوگوں نے ان چارسی کو دوسرے چار سی یعنی کاسٹ (ذات پات) ، کیش (نقد رقم) ، کریمنلٹی (جرم ) اور کمیونٹی (برادری) سے بدل دیا ہے۔
جناب نائیڈو نے ہر پارلیمانی حلقے میں ذات پات کے اعداد وشمار پر توجہ دینے کے میڈیا کے مقصد پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ میڈیا کو چاہئے کہ وہ عوامی نمائندوں کی ماضی کی کارکردگی یعنی قانون سازیہ اور پارلیمنٹ میں نمائندے کے ذریعے پوچھے گئے سوالوں کی تعداد ، عوامی اہمیت کے حامل اٹھائے گئے مسائل کی تعداد ، عوامی بہبود کے تئیں ان کے عہد وغیرہ پر توجہ مرکوز کریں اور کارروائی روکنے جیسی حکمت عملی کو خبروں میں پیش نہ کریں۔
جناب نائیڈو نے عوامی زندگی میں اقدار میں گراوٹ پر ناخوشی کا اظہار کیا اور سیاست دانوں کے ذریعے پارٹی کی وفاداریاں بدلنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کا حوالہ دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پارٹیاں بدلنا ایک فیشن ہوگیا ہے اور سیاست داں جمہوریت کا مذاق بنارہے ہیں۔
جناب نائیڈو نے تعلیمی اداروں پر زور دیا کہ وہ صلاحیت پر مبنی خواندگی پر توجہ مرکوز کریں اور کہا کہ بھارت کی زیادہ آبادی کا فائدہ ملک کو صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے جب ہنر مندی کے فروغ پر توجہ مرکوز کی جائے اور علم اور صلاحیتوں میں مسلسل اضافہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام پرائیویٹ اداروں کے لئے لازمی کیا جانا چاہئے کہ وہ ادارے میں مخصوص ہنر مندی کے فروغ کا مرکز قائم کریں۔ انہوں نے اس بات کی بھی خواہش ظاہر کی کہ ہر تکنیکی ادارہ صنعت کے ساتھ رابطے قائم کرے اور طلباء کو آجروں کی ضروریات کے بارے میں آگاہ کرسکیں۔
اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ چین ، امریکہ ، یورپ اور جاپان کے مقابلے بھارت ایک نوجوان ملک ہے ، نائب صدر نے کہا کہ ہنر مندی کے فروغ اور نوجوانوں کو مختلف پیشوں میں جدید ترین تربیت دینے سے بھارت کے نوجوان روزگار حاصل کرنے والوں کے بجائے روز گار فراہم کرنے والے بن جائیں گے۔
نائب صدرجمہوریہ نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ بھارت ایک علم اور اختراعات پر مبنی مرض کے طور پر خود کو پھر سے قائم کرے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مختلف سیکٹروں میں 21 ویں صدی کی ضروریات تیزی کے ساتھ بدل رہی ہیں، جس کے لئے ایک تعلیمی نظام کا مکمل اوورہال ہونا چاہئے۔
زندگی کے مختلف شعبوں میں اخلاقیات میں آتی ہوئی کمی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ ایسی تعلیم ہونی چاہئے کہ وہ ایسے سماج کی تعمیر کے لئے ایک مضبوط بنیاد ڈالے جو اخلاقیات ، روایات اور انسانی اقدار کی غیر متزلزل حمایت کرے۔
انہوں نے صنعتی اداروں پر بھی زور دیا کہ وہ حالیہ واقعات کے پیش نظر ، جس میں بڑے تاجر ملوث رہے ہیں ، مثالی ضابطہ عمل مرتب کریں۔
جناب نائیڈو نے مہاتماگاندھی کے ذکر کردہ 7 گناہوں کو بھی یاد کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مہاتما گاندھی نے کام کے بغیر دولت ، احساس کے بغیر خوشی ، کردار کے بغیر علم ، اخلاقیات کے بغیر کامرس ، انسانیت کے بغیر سائنس ، قربانی کے بغیر مذہب اور اصولوں کے بغیر سیاست کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا اور اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ ہر کوئی انہیں اچھی طرح سمجھے۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بھارت دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے اور 10- 15 برسوں میں بھارت دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ نائب صدرجمہوریہ نے خواہش ظاہر کی کہ تمام ملک اقتصادی معلومات کے تبادلے ، خاص طور پر ٹیکس کی چھوٹ کے بارے میں تمام ملکوں کے ساتھ ایک بندوبست کیا جائے۔ انہوں نے اس بات کی بھی خواہش ظاہر کی کہ وہ اقتصادی مفرور افراد کی حوالگی کو یقینی بنانے کے لئے اقوام متحدہ سرگرم رول ادا کرے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے بھی کہا کہ وہ اقتصادی مفرور ملزموں کی حوالگی کو یقینی بنانے میں ایک اہم رول ادا کریں۔
غیر متعدی بیماریوں میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے جناب وینکیا نائیڈو نے مشورہ دیا کہ نوجوانوں کو جنگ فوڈ چھوڑ کر صحت مند اور روایتی کھانے کھانے چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ نوجوان جسمانی طور پر چست درست رہیں۔
اس موقع پر جے پوریہ گروپ آف ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس کے چیئرمین جناب ششر جے پوریہ ، جے پوریہ گروپ آف ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس کے ڈائریکٹر جناب ایس کے مہاپاترا ، تاجر اور تعلیمی شعبے کے کئی اہم ارکان موجود تھے۔