نئی دہلی، 13/ جنوری، نائب صدرجمہوریہ ہند جناب ایم حامد انصاری نے شفاخا نوں پر مبنی صحتی بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے اور صحت عامہ سے وابستہ مطالبات کے مابین ایک گو نہ توازن قائم کرنے کی تلقین کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ملک کی مجموعی صحتی ضروریات کا تجزیہ کرتے وقت اس بنیادی شرط کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ جگراور صفراوی سائنسز سے متعلق ادارے واقع نئی دلی کے چوتھے جلسۂ تقسیم اسنا دمیں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے مذکورہ خیالات کا اظہار کیا۔ دلی کے لیفٹیننٹ گورنر جناب انل بیجل ، دلی کے نائب وزیراعلیٰ جناب منیش سسودیا، حکومت دلی کے صحت اور کنبہ بہبود کے وزیر جناب ستیندرجین اور حکومت دلی کے چیف سکریٹری ڈاکٹر ایم ایم کٹّی اور دلی حکومت کے صحت و کنبہ بہبود کے سکریٹری جناب چندراکربھارتی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہا کہ اگرچہ بھارت تیزی سے صحتی معاملات میں تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے ۔ تاہم آج بھی ملک میں امراض کا بوجھ غیر معمولی حد تک زیادہ ہے۔ ہمیں چھوت سے پھیلنے والی بیماریوں کے ناتمام ایجنڈے کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تغذیہ کی کمی اور غیر محفوظ زچگی اور وضع حمل وغیرہ کے معاملات کے ساتھ ساتھ چھوت سے نہ پھیلنے والی بیماریوں کے بڑے پیمانے پر لاحق ہونے اور بڑھنے کے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔
ایک ایسے جامع ایکٹ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، جو حفظان صحت کے حقوق ، زچگی اور دیگر متعلقہ معاملات کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرسکے، نائب صدرجمہوریہ ہند نے کہا کہ شفاء کُلی، طبی حفظانِ صحت پر حد سے زیادہ زور دیئے جانے سے تدارکی صحت عامہ کے مؤثر متبادل کی جانب سے توجہ ہٹ جاتی ہے، جس کی لاگت بھی نسبتاً کم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صحت عامہ کو برقرار رکھنے کے لئے تدارکی پہلوؤں پر کی جانے والی سرمایہ کاری، جس کے ذریعے چھوت سے پھیلنے والی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے، یہ ملک میں ناقص تغذیہ کے نتیجے میں لاحق ہونے والی بیماریوں کی روک تھام میں بھی مفید ہو سکتی ہے۔
صحت عامہ پر عائد ہونے والے عوامی اخراجات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نائب صدرجمہوریہ نے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی مالی امداد میں اضافے کی ضرورت ہے اور صحت عامہ کے لئے ایسا کیاجانا ضروری ہے تاکہ 1978 کے اَلماتا اعلانئیے کی تکمیل ہو سکے، جس کا عنوان تھا ‘‘ سب کیلئے صحت’’ کو یقینی بنانا۔
‘‘ نائب صدرجمہوریہ ہند نے حکومت دلی کی جانب سے ایک خودمختار، سُپر اسپشلیٹی ، طبی و تحقیقی ادارے یعنی جگر اور صفراوی سائنسز کے ادارے کے قیام پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جگراورصفراوی بیماریوں کی تشخیص اور معالجے کیلئے اعلیٰ درجے کی سہولتیں دستیاب ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں ایک ازحد ترقی یافتہ تحقیقی مرکز بھی قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم اسناد کے جلسے، وہ مواقع ہوتے ہیں، جب علمی دنیا میں دانشوروں کی کامیابیوں کو نمایاں کیاجاتاہے۔ تدریس کے اداروں سے گریجویشن کی ڈگری مکمل کرنے والے طلبہ کو بیرون دنیا کی چنوتیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ انہیں اس چنوتی کا احساس کرایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ علم کی جستجو تاحیات جاری رہنے والا عمل ہے اور محض ایک ڈگری حاصل کر نے سے یہ عمل مکمل نہیں ہوجاتا۔ حالیہ برسوں میں بھارت میں صحت عامہ پر توجہ دی گئی ہے، خصوصاً حوالہ جاتی اسپتالوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی گئی ہے۔