17 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نائب صدر جمہوریہ جناب نائیڈو نے میڈیا سے کہا ہے کہ وہ انتخابات کے دوران پارٹیوں کی کارکردگی کے بارے میں ایک رپورٹ کارڈ پیش کریں

Urdu News

نئیدہلی۔ نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیانائیڈو نے میڈیا کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پارٹیوں کی کارکردگی کا رپورٹ کارڈ غیرجانبدارانہ طریقے سے پیش کرے تاکہ لوگ انتخابات کے دوران معلومات کے مطابق امیدواروں کا انتخاب کرسکیں۔

آج یہاں  انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن کی طرف سے منعقدہ پہلا ‘اٹل بہاری واجپئی میموریل لیکچر’ دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے رائے ظاہر کی کہ اگر میڈیا رپورٹ کارڈ پیش کرسکے اور لوگ سیاسی پارٹیوں سے جوابدہی کا مطالبہ کرسکیں  یعنی ان کے وعدوں ، وسائل میں اضافے  اور اس بات کے بارے میں کہ وہ ان وسائل کو کس طرح خر چ کریں گے  تو انہوں نے کہا کہ ‘‘ہمارا ملک  نہ صرف دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر فخر کرسکتا ہے بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ درخشاں اور صاف ستھری جمہوریت ہونے پر فخر کا اظہار بھی کرسکتا ہے’’۔ اس یادگاری لیکچر کا موضوع تھا ‘‘باشعور رائے دہندگان کے خیالات کو بدلنے میں میڈیا کا رول’’۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ میڈیا کو ایک آئینے  کے طور پر کام کرنا چاہئے جس میں حقیقت کی عکاسی ہوتی ہے ، نہ اس میں کسی چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور نہ کم کرکے، نہ تو حقائق کو توڑ مروڑ کر اور  نہ ہی انہیں پیچیدہ کیا جاتا ہے۔  پیسے دیکر خبریں شائع کرانے کی  لعنت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے میڈیا کو مشورہ دیا کہ وہ ‘‘اس رجحان کو ختم کرے تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ  غلط طریقے پر تیار کردہ نظریات اور  آراء ووٹروں پر  تھوپے جاسکیں’’ ۔

نائب صدر جمہوریہ نے خواہش ظاہر کی کہ میڈیا کو چاہئے کہ وہ رائے دہندگان کے سامنے مسائل اور چیلنجوں کا تجزیہ کرے نہ کہ ایجنڈا پیش کرے اور جانب داری سے کام لے۔

نائب صدر جمہوریہ نے میڈیا سے کہا کہ وہ مختلف سیاسی تنظیموں کی طرف سے پھیلائی جانے والی  افواہوں کو روکے  اور قارئین اور سامعین کے سامنے صحیح حقائق پیش کرکے غلط خبروں پر روک لگائے۔ انہوں نے کہا کہ جو حقائق مقدس ہیں ، انہیں غیرجانبدارانہ طریقے پر پیش کیا جانا چاہئے اور رائے قائم کرنے کاکام لوگوں پر چھوڑ دینا چاہئے۔

یہ بات بتاتے ہوئے کہ میڈیا کو جمہوریت کیلئے  لوگوں کے ووٹ دینے کے عمل کو فروغ دینا چاہئے۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ انتخابات کو زیادہ قابل بھروسہ اور شمولیت کی نوعیت کا بنانے کیلئے  روپئے اور طاقت کے استعمال ، انتخابات کے اخراجات کی حد کو پار کرنا، ذات پات کے معاملات کو  اچھالنا، امیدواروں کے  فوجداری معاملات کو  اجاگر کرنا ، روپیہ دیکر  شائع کرائی جانے والی خبروں اور جعلی خبروں ، مثالی ضابطہ عمل کی خلاف ورزی،  قانون ساز اداروں میں خواتین کی ناکافی تعداد میں نمائندگی- یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر جلد از جلد توجہ دی جانی چاہئے۔

فرضی خبروں کا مقابلہ کرنے کی انتخابی کمیشن کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا کہ انتخابات کے دوران میڈیا کے رول کی اہمیت بیحد بڑھ جاتی ہے کیوں کہ لوگوں کی طرف سے فرضی خبریں پھیلانے کے امکانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا ، ‘‘ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ  اس طرح کے حساس وقتوں میں  غیرحقیقی کہانیوں کا پردہ فاش کرے اور صحیح اور غیرملاوٹ شدہ سچائی کو پیش کرے’’۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ انتخابی عمل کا معیار  صحتمند جمہوریت کیلئے بیحد اہمیت کا حامل ہے، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ غیرمتعصب میڈیا  اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ رائے دہندگان کو ان کے اپنے نمائندوں کے انتخاب کے بارے میں پوری پوری اطلاعات فراہم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ حقائق کو پیش کرتے وقت  میڈیا کی طرف سے کمنٹری دینے کا رجحان  جمہوریت  کیلئے  خطرناک ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘جیسا کہ ضرب المثل ہے  ‘حقائق مقدس ہوتے ہیں اور رائے آزاد ہوتی ہے’ اس لئے حقائق کو بے خوف انداز سے پیش کرنے اور اپنی آراء کا بےخوفی کے ساتھ اظہار کرنے کو  اپنا وطیرہ بنانا چاہئے لیکن اپنی رائے پیش کرتے وقت حقائق کو تبدیل نہیں کرنا چاہئے’’۔

ایک مرتبہ ایک پارٹی سے منتخب ہونے کے بعد دوسری پارٹی میں شامل ہونے کے  سیاستدانوں کے غیرصحتمندانہ رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے کہا  کہ دل بدلی جمہوریت کیلئے  ایک مذاق کی حیثیت رکھتی ہے۔  انہوں نے کہا  کہ پارٹی چھوڑنے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں اور دوبارہ سے انتخاب لڑیں۔ نائب صدر جمہوریہ نے  اس بات پر بھی زور دیا  کہ مختلف عدالتوں میں زیر التوا انتخابی کیسوں کو تیز رفتار سے نپٹایا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قانون ساز اداروں کےصدر نشینوں کو  چاہئے کہ وہ ان کے سامنے پیش کیے گئے  کیسوں کو وقت کی پابندی کے ساتھ فیصل کریں۔

جناب نائیڈو نے میڈیا تنظیموں سے کہا کہ وہ سیاستدانوں کی کارکردگی ، ماضی کے ان کے کام ،اسمبلیوں اور پارلیمنٹ  کی کارروائی میں ان کی شرکت  کے بارے میں رپورٹنگ کریں اور اس کے لئے  علیحدہ سے وقت نکالیں۔

نائب صدر جمہوریہ نے لوگوں سے کہا کہ وہ رہنماؤں کو ان کے کردار ، صلاحیت اور اخلاقی حالت کے اعتبار سے منتخب کریں لیکن نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ بعض لوگ ان خصوصیات کو نقدی ، ذات برادری، ذات پات اور فوجداری معاملات سے تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘‘ہمیں  اس بات کو دیکھنا چاہئے کہ ان چار سیزکے بارے میں احتیاط رکھی جائے’’۔

نائب صدر جمہوریہ نے عوامی بحث ومباحثے کے گرتے ہوئے معیار پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ بحث ومباحثے کے معیار کو بڑھایا  جانا چاہئے۔

اس موقع پر پرسار بھارتی کے چیئرمین ڈاکٹر اے سوریہ پرکاش ، آئی آئی ایم سی  کے ڈائرکٹر جنرل جناب کے جی سریش ، انسٹی ٹیوٹ کے اساتذہ اور طلباء بھی موجود تھے۔

نائب صدر جمہوریہ کے لیکچرکا متن درج ذیل ہے:

پیاری بہنوں اور بھائیو!

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے مجھے پہلا اٹل بہاری واجپئی یادگاری لیکچر دینے کیلئے   مدعو کیا ہے۔

اٹل جی ایک عظیم جمہوریت پسند تھے اور ملک کے جمہوری جذبے  کو فروغ دینے میں  ان کے  کردار کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ جمہوری بحث ومباحثے کو  بہتر بنانے میں  ایک سرکردہ پارلیمانی ماہر کے طور پر  ان کا رول  یقیناً ایک افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ واجپئی جی   آزادی کے بعد کے ہندوستان کے سب سے قدآور لیڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے ملک میں  کنیکٹیوٹی  انقلاب پیدا کیا۔  انہوں نے لوگوں کو متحد  کیا، گاؤوں اور شہروں کو  قریب لائے اور سیاسی پارٹیوں کو متحد کیا۔  وہ بہترین مقرر تھے جن کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ لوگوں کو  مسحور کردیا کرتے تھے۔ وہ مواصلاتی انقلاب کے  معمار بھی تھے۔ ہم سب لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ  ان کے  ورثے کو آگے بڑھائیں۔ یہی وہ بہترین خراج عقیدت ہے جو ہم انہیں پیش کرسکتے ہیں۔

وہ دل کے اعتبار سے  ایک شاعر تھے اور  بہترین مہارت رکھنے والے سیاستداں تھے۔ آج جو چیز یاد رکھنے کے معاملے میں  اپنی افادیت رکھتی ہے  وہ یہ ہے  کہ انہوں نے  سیاست میں داخل ہونے سے پہلے اپنے کریئر کا آغاز ایک صحافی کی حیثیت سے کیا تھا۔ انہوں نے لوگوں کو آپس میں جوڑنے  اور اپنی بات  ان تک پورے طریقے سے  پہنچانے کی اپنی بے مثال صلاحیت کو ساری زندگی برقرار رکھا۔  یہ ایسی خصوصیات ہیں  جو نوجوان جرنلسٹوں کو فیضان بخشتی رہیں گی۔

بہنوں اور بھائیو!

جس موضوع پر آپ نے مجھ سے تقریر کرنے کیلئے کہا ہے  وہ کافی بروقت ہے۔  جمہوریت کا عظیم میلہ یعنی  چند اسمبلی انتخابات کے ساتھ  سترہویں لوک سبھا کے انتخاب  میں صرف چند ہفتے باقی ہیں اور میڈیا اس میلے کے  مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کیلئے  پوری طرح تیار  ہے۔

جمہوریت آسان لفظوں میں  ایک ایسا سیاسی نظام ہے جس میں لوگ اپنی حکومت کو منتخب کرتے ہیں اور  قانون ساز اداروں کے ذریعے  اسے جوابدہ بناتے ہیں، دوسرے الفاظ میں  لوگ اپنی قسمت کے خود مالک ہوتے ہیں۔ انتخابات  جمہوریت کی  بنیاد ہوتے ہیں۔

شرکت و الی جمہوریت  شہریوں کی سرگرم  شرکت  کے ذریعے ہی  ممکن ہوسکتی ہے۔ انتخابات شہریت کا مقدس اظہار ہے ، ووٹ ڈالنا قومی ذمہ داری ہے۔  ووٹ ڈالنے کے حق کے ہمراہ اس قیمتی حق کا  اظہا ر بھی ہونا چاہئے۔  ہر انتخاب میں  ووٹ ڈالنے کو ایک عادت بنالینا چاہئے۔  میڈیا کی ذمہ داری ہے  کہ وہ لوگوں کو  بڑی تعداد میں  ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کے ذریعے  شرکت والی  اس جمہوریت کے فروغ میں ایک اہم رول  ادا کرے۔ اس کے نتیجے میں جمہوری حکمرانی کی  بنیادیں مضبوط ہوں گی۔

ہمارے ملک میں  بے آواز لوگوں کو  آواز دیکر  کئی دہائیوں سے  سماجی تبدیلی کا عمل جاری ہے۔  ایک انتخاب کا دو طریقوں سے  جشن منایا جاسکتا ہے۔  یہ ایک  سماجی تقریب ہوتی ہے  اور اس میں جمہوریت کا مقدس احساس بھی ہوتا ہے اور اسی لئے انتخابات شہریت کے مقدس اظہار کا ذریعہ ہے۔

بہنوں اور بھائیو!

میڈیا کو ووٹنگ کے بارے میں  آگاہی کو فروغ دینے میں  ایک اہم رول ادا کرنا ہوتا ہے اور اسے ایک بامعنی جمہوریت میں ووٹروں کی شرکت کو  بڑھانا ہوتا ہے اور یہ ہماری اجتماعی کوشش ہے  کہ ہم ایک بہتر  مستقبل کا خاکہ تیار کریں۔

آئیے اب ہم 1952 سے عام انتخابات میں  ووٹروں کی شرکت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ آزادی کے وقت  صرف تقریباً 16فیصد رائے دہندگان پڑھے لکھے تھے۔  1952 میں  پہلے عام انتخابات میں  17.30 کروڑ ووٹروں نے حصہ لیا جو کہ تقریباً 45 فیصد رائے دہی کی عکاسی کرتا ہے۔  ا سکے بعد سے ووٹروں کی تعداد اور خواندگی کے معاملے میں 500فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ لیکن 2014 میں  سولہویں لوک سبھا کے انتخاب میں ووٹروں کی تعداد میں  صرف 50فیصد کا اضافہ ہوا ۔ پچھلے 16 عام انتخابات میں  رائے دہندگان کی تعداد  دس مواقع پر 60فیصد سے بھی کم اور 6 مواقع پر 60فیصد سے زیادہ رہی ہے۔  ہندوستان کے انتخابی کمیشن کی مسلسل کوششوں سے 2014 میں  رائے دہندگان کی تعداد 66.30 فیصد رہی  جو کہ آزادی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ اگرچہ یہ  کم تعداد ہے  تاہم  ووٹروں کی دلچسپی میں کمی  کو دیکھتے ہوئے  پھر بھی  خوش آئند ہے۔

سماجی ، سیاسی اور اقتصادی شمولیت کے معاملات  پر  توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوریت کو  مالامال کرنے کیلئے  بڑی تعداد میں  پُراعتماد اور معلومات سے بھرپور  رائے دہندگان  کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔

بہنوں اور بھائیو!

روپئے اور طاقت کا استعمال،  انتخابی اخراجات کی حد کو پار کرنا ، ذات پات اور مذہب کے معاملات اٹھانا، امیدواروں کے فوجداری کے معاملات کو اچھالنا، روپیہ دیکر  خبریں شائع کرانا  اور جعلی خبریں ، مثالی ضابطہ عمل کی خلاف ورزی   ، قانو ن ساز اداروں میں خواتین کی  ناکافی شرکت- یہ تمام چیزیں جمہوریت کیلئے  بڑے غیرمتوقع خطرات  کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان پر بروقت توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کو زیادہ قابل بھروسہ اور شمولیت والے بنایا جاسکے۔

‘‘جعلی خبروں ’’ کی لعنت سے نمٹنے کی  ایک کوشش کے سلسلے میں انتخابی کمیشن نے  کل ہی ایک میٹنگ کی  جس کا مقصد میڈیا کی طرف سے  خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے نمٹنے کیلئے ایک حکمت عملی مرتب کرنا تھا۔

میں ہماری جمہورت جڑوں اور گہرا کرنے کے سلسلے میں میڈیا کے رول کے بارے میں  اپنے کچھ خیالات  پیش کرتے ہوئے خوشی محسوس کررہا ہوں۔

آزاد میڈیا جمہوریت کے  ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔

ہندوستان، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، اس ناطے میڈیا کا رول اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ میڈیا، حقیقت میں مستحکم جمہوریت کی طاقت میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔ میڈیا کو صحیح معنوں میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ عوام اور دیگر تین ستونوں یعنی مقننہ، عدلیہ اور عاملہ کے درمیان ایک پُل ہے۔

دنیا بھر میں جمہوری انتخابات کا ایک اہم مقصد رائے دہندگان کو ان کے سیاسی حقوق کو استعمال کرنے اور سیاسی جماعتوں اور ان کی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دینے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ اس متبادل کا استعمال کرنے کے لئے دیگر چیزوں کے ساتھ ایک صحیح طریقہ اپنانا ہے:

1.ایک آزاد اور غیر جانبدار میڈیاجودن کی  سیاست پر غیر جانب دارانہ رپورٹ پیش کر سکتی ہو۔

2.مختلف پارٹیوں اور ان کے امیدواروں کے سیاسی ایجنڈے اور پلیٹ فارموں کی جانچ کرنا۔ان کے ارادوں، پالیسیوں، نظریوں، بدعنوانی معاملوں، ملک اور اس کے شہریوں پر ان کی پالیسیوں کے اثرات کے بارے میں معلومات فراہم کرانا ۔

3.آن لائن خبروں، اخبارات  اور ٹیلی ویژن جیسے ذرائع ابلاغ وسائل کے ذریعہ ان خیالات کی اشاعت کی صلاحیت۔

4.ایک واقف؍جانکار شہری جو حقائق کا سامنا کرتا ہے اور منطق، ریزننگ، حب الوطنی اور اپنے اخلاقی اقدار کی عزت کرتا ہو۔

جب انتخابات کا معاملہ  ہوتا ہے، تو میڈیا اس میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور تقریباً 1.35 کروڑ شہریوں سے رابطہ جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

خصوصی طور پر انتخابات کے دوران میڈیا کا رول بہت اہم ہوتا ہے، کیونکہ لوگوں کے درمیان جھوٹی خبریں اور افواہیں پھیلانے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حساس وقت میں مِتھ بَسٹرس کی طرح کام کرے اور مکمل طور پر حقیقی اور سچی رپورٹ پیش کرے۔

میڈیا کویہ یقینی بنانا ہے کہ عوام کے پاس سبھی معلومات پہنچ سکیں، جو انہیں بیدار، واقف، سمجھدار فیصلے لینے میں مدد کر سکیں۔

ہندوستان میں چناؤ کے انعقاد سے متعلق زمینی اصولوں کو عوامی نمائندگی قانون کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ہر پیشہ ور میڈیا جو انتخابات کی رپورٹنگ کرتا ہے، اسے مذکورہ قانون کی متعلقہ تجاویز کی واقفیت لازمی ہونا چاہئے۔ ملک میں، تیز اور مؤثر انتخابات منعقد کرانے میں میڈیا بہت بڑا اور اہم رول ادا کر سکتا ہے۔

گزشتہ کچھ برسوں میں ، ملک میں میڈیا کے رول پر بہت سنجیدہ حملے ہوئے ہیں، جو اس کے جانبدارانہ کردار، فرضی؍ جھوٹی خبروں کی اشاعت، خصوصی دلچسپی سے متعلق گروپوں جیسے کارپوریٹس، غیر سرکاری تنظیموں، نظریات اور غیر ملکی کمپنیوں کی حمایت اور اشاعت پر میڈیا کے جانبدارانہ کردار اور جانبدارانہ رویہ پر سنجیدہ سوال اٹھاتے ہیں۔

پیڈ نیوز، تشویش کاموضوع ہے۔ رپورٹنگ کو اب مقصد نہیں سمجھا جاتا ہے اور موجودہ پس منظر میں کہیں نہ کہیں اچھی صحافت کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے، لیکن دوسری جانب کئی اچھے میڈیا ہاؤس ہیں، جو مقامی، علاقائی اور قومی مسائل کے ساتھ مثبت ترقی کو اجاگر کرنے میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔

انتخابی عملوں کا معیار ایک صحت مند جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ غیر جانبدار میڈیا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ الیکٹوریٹ (رائے دہندہ) کو متبادلوں کے بارے میں مکمل معلومات ہو۔

میڈیا  کی حقائق کے ساتھ تبصروں کو جوڑنے کی عادت (ٹینڈینسی) جمہوریت کے لئے خطرناک ہو سکتی ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے، حقائق پاک؍مقدم ہیں اور رائے آزاد ہے۔ اس لئے حقائق سے جڑے رہیں اور انہیں بے خوف ہو کر پیش کریں۔۔ اپنی رائے بے خوف ہو کر دیں، لیکن رائے دیتے وقت خیال رکھیں کہ حقائق بدل نہ جائیں۔

میڈیا کی کائنات سماجی اور نئے میڈیا دھماکے کے ساتھ تیزی سے پھیل رہی ہے، جیسے سوشل میڈیا سائٹس، بلاگ، ای میل اور دیگر میڈیا پلیٹ فارموں نے انتخابات میں کردار کو بدل دیا ہے، جس میں دو طرفہ بات چیت اور بات چیت کے مواقع ہیں، لیکن یہ دھماکہ خصوصی طور پر اس کے غلط استعمال اور غلط استعمال کی شکل میں سنجیدہ مسائل پیدا کر رہا ہے، جبکہ سوشل میڈیا نے معلومات اور خیالات و نظریات کے بہاؤ کو غیر مرکزیت یعنی ڈی سنٹرلائز اور جمہوری بنایا ہے، لیکن اس کے ممکنہ زوال کا جمہوری جذبات اور اقدار پر سنجیدہ اثرات مرتب کرتے ہیں۔ انتخابات کے وقت جمہوری عمل کو پٹری  سے اتارنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔

میڈیا، فرضی سوشل میڈیا کی خبروں اور افواہوں اور حقائق کی جانچ کر سکتا ہے، جو بے قابو ہونے کی صورت میں سماجی بے چینی اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہو سکتی ہیں، حالانکہ، سوشل میڈیا کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے کہ جیسے جیسے چناؤ نزدیک آتے ہیں، غیر مہذب زبان کی تشہیر اور استعمال بڑھ جاتا ہے۔ میڈیا کو اپنے شہریوں کو صحیح اور غیر جانبدارانہ معلومات فراہم کرانے میں ایک ذمہ دار کردار نبھانا چاہئے۔

فیک نیوز ایک بڑا مسئلہ بن گیا  ہے، جو دنیا بھر میں میڈیا کے خلاف جنگ چھیڑ رہا ہے۔ یہ رجحان حساس انتخابی ماحول میں اضافہ کرتے ہیں، جبکہ سیاسی پارٹیاں رائے دہندہ کو اپنی جانب جھکانے کی کوشش کرتی ہیں، حالانکہ گوگل سماچار پہل، وہاٹس ایپ اور فیس بُک کے ذریعہ اس خطرے کو روکنے کے لئے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ روایتی میڈیا کے ذریعہ کوششیں کئے جانے کے ساتھ ساتھ یہ یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ لوگوں کو بھروسے مند جانکاری دینے کے علاوہ کچھ نہیں پہنچایا جائے۔

حال ہی میں  سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق میڈیا کو ‘‘ میدیا آئین کا پہرے دار’’ بتایا گیا ہے۔ میڈیا کے پہرے دار کی شکل میں اس کا یہ کردار شاید اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے، جو اطلاعات و نشریات کے اس کے رول کے علاوہ ہے۔

پیڈ نیوز چناؤ کی برائی کو انتخابی کمیشن نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ میڈیا کو اس رجحان سے بچنا ہوگا کہ ‘‘ منی پاور’’ کا استعمال رائے دہندگان کو مینوفیکچر نظریات اور آراء کے ذریعہ متاثر کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔

میڈیا کو غیر جانبدار اور شفاف رول نبھانا چاہئے۔ اسے ایجنڈہ بنانے اور حمایت لینے کے بجائے رائے دہندگان کے سامنے مسائل اور چیلنجوں پر روشنی ڈالنی چاہئے۔ سب سے اہم وجوہات میں سے ایک جو آزادی کی رہنمائی کرتی ہے اور میڈیا کی پہرے دار کے کردار پیٹرن کی مالک ہے، میڈیا ہاؤس کے تحت آتی ہے۔

گزشتہ کچھ دہائیوں میں میڈیا کے ایک توسیعی سلسلے کے ساتھ ساتھ دیگر پیشہ ورانہ صنعتوں اور اداروں میں بھی میڈیا کے رول میں اضافہ ہوا ہے۔تاہم میڈیا کی آزادی کے لئے سب بڑا خطرہ، میڈیا گھرانوں کی راست سیاسی ملکیت ہیں۔ پہلے لوگ عام طور پر کہتے تھے کہ میڈیا اور سیاست داں ایک مشن کے تحت آتے ہیں۔ اب لوگ طنزیہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ نے اسے کمیشن کے لئے بدل دیا ہے۔

اگر لوگ امیدواروں کا انتخاب 4  سی یعنی کیریکٹر  ، کیلیبر، کیپسٹی  اور کنڈکٹ کی بنیاد پر کرسکتے ہیں، اگر ووٹر ذات ، معاشرے ، کیش (نقد) اور مجرمانہ ذہنیت سے بھٹک نہیں رہے ہیں اور  میڈیا انتخابی امیدواروں کے سبھی  اگلے پچھلے  حقائق کے ساتھ ان کی پرو فائل پیش کرے تو اس سے جمہوریت کو مضبوطی ملے گی۔

اگر میڈیا سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی  کا حقیقی  بیورہ  اور رپورٹ پیش کرسکے، اگر عوام سیاسی جماعتوں سے ان کے پچھلے  وعدوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں جواب دہی  طلب کرسکے، وسائل کیسے حاصل کئے گئے، انہیں کیسے اور کتنا خرچ کیا گیا ، کا حساب مانگ سکے تو ہمارا ملک نہ صرف  دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہوگا بلکہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ  متحرک اور صاف  جمہوریت  میں شمال ہوگا۔

ایسا ہی کردار میڈیا کو نبھانا ہے۔ اسے ایک ایسا آئینہ بننا ہے جو سچائی کی عکاسی کرسکے۔ میڈیا کو اس رول کو نبھانا ہے۔ وہ ایک آئینہ ہے جو سچائی کی عکاسی کرتا ہے، نہ بڑھا چڑھا کر، نہ کمتر کرکے ، نہ ہی  توڑ مروڑ کر اور نہ ہی حقائق کو چھپاکر۔ پریس کی آزادی جمہوریت کی ضرورت ہے لیکن اس آزادی کے ساتھ بھاری ذمہ داری  بھی ہے۔ سچ ہم آہنگی ، خوش حالی ، اچھی  حکمرانی ، ہندوستان ان اصولوں کا ہمیشہ سے حمایتی رہا ہے۔ اپنی ا نہیں اقدار کی وجہ سے  واجپئی جی جانے جاتے تھے۔ سب کے پیارے اور محترم تھے۔

میں امید کرتا ہوں کہ بھارتی جن سنچار  سنستھان ، نوجوان صحافیوں میں ان اقدار کو قائم کرے گی۔ آپ  نوجوان صحافیوں کا ایک ایسا زمرہ بناسکیں گے، جو اپنی قلم کا استعمال ایک بہتر سیاست کے قیام کے لئے کریں گے، جمہوریت ، حکمرانی  اور آخرکار  ایک بہتر دنیا کی تعمیر کے حق میں کریں گے۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More