نئی دہلی: نائب صدرجمہوریہ جناب ایم وینکیا نائیڈو نے آج لوگوں خاص طور پر نوجوانوں سے کہا ہے کہ وہ ملک میں غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھتے ہوئے صحتمندانہ طرز زندگی اختیار کریں اور تساہل نیز جنک فوڈ سے گریز کریں۔
حیدرآباد میں سینٹر فار ڈی این اے فنگر پرنٹنگ اینڈ ڈائگناسٹکس کا دورہ کرنے کے بعد اس ادارے کے سائنسدانوں سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کے ڈاٹا میں بھارت میں ہونے والے 61 فیصد اموات کی وجہ غیر متعدی بیماریوں مثلاً دل کی تکالیف، کینسر اور ذیابیطس کو قرار دیا گیاتھا۔
جناب نائیڈو نے صحتمندانہ طرز زندگی اور کھانے کی عادتیں اختیار کرنے کی اہمیت کے بارے میں ایک زبردست قومی مہم چلاکر اس رجحان پر قابو پانے کے لیے کہا۔ اس سلسلے میں انھوں نے سائنسدانوں پر زور دیا کہ وہ صحت کے سلسلے میں اچھے انتخابات کرنےکے بارےمیں لوگوں میں بیداری پیدا کریں۔
عوام میں آگاہی کو فروغ دینے کی اجتماعی کوششوں کی اپیل کرتے ہوئے خاص طور پر اسکول اور کالج کے طلبا کے مابین تساہل پسندانہ طرز زندگی اور کھانے کی غیر صحتمندانہ عادات کے منفی اثر کے بارےمیں آگاہی پیدا کرنے پر زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے نامیاتی زراعت کو فروغ دینے، کھانے کی روایتی عادتوں کودوبارہ اپنانے اور بہتر صحت کے لیے پروٹین سے مالامال خوراک استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انسٹینٹ فوڈ (فوری طور پر تیار ہونے وا لے کھانے) کی روش کے خلاف خبردار کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’انسٹیٹ فوڈ کا مطلب ہے مستقل بیماری‘‘۔
پیدائشی بیماریوں کے بوجھ کا حوالہ دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے سائنسدانوں سے کہا کہ وہ مختلف پیدائشی بیماریوں کی تشخیص کے لیے آسان اور کم خرچ طریقوں کو فروغ دیں تاکہ مریضوں کے بہتر بندوبست میں مدد مل سکے۔ انھوں نے بھارت میں 10 سے زیادہ پیدائشی خرابیوں کی نشاندہی کے لیے سی ڈی ایف ڈی کی تعریف کی۔ ان میں چار نئے جینس کی نشاندہی بھی شامل ہے جس سے پیدائشی بیماریوں کے سلسلے میں کونسلنگ اور بیماریوں کے بندوبست میں مدد ملے گی۔
اپنے دورے کے موقع پر نائب صدر جمہوریہ نے سی ڈی ایف ڈی میں بچوں کی کمیاب پیدائشی خرابیوں کی جانچ کی تجربے گاہ کا دورہ بھی کیا۔
بھارت میں غیر متعدی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ نایاب پیدائشی خرابیاں، غیر متعدی بیماریوں کے گروپ کا ایک بڑا حصہ ہیں۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ پوری دنیا میں اندازاً 350 ملین لوگ ’’انوکھی بیماریوں‘‘ میں مبتلا ہیں اور ہندوستان میں تقریباً 70 ملین (20 میں سے 1) ان بیماریوں کا شکار ہیں، جناب نائیڈو نے ان بیماریوں کے معیشت اور معاشرے کے سماجی تانے بانے پر پڑنے والے مسلسل اثرات کا ذکر کیا کیونکہ ان میں سے بیشتر بیماریاں ناقابل علاج ہیں۔
لونیت پر مبنی عوامی صحت کی تحقیق کو فروغ دینے کے لیے ڈپارٹمنٹ آف بایو ٹیکنالوجی (ڈی بی ٹی) کی تعریف کرتے ہوئے اور سی ڈی ایف ڈی سے یہ کہتے ہوئے کہ وہ ’’بچوں کی کمیاب پیدائشی بیماریوں‘‘ کے سلسلے میں ایک بڑا تحقیقی پروگرام شروع کریں، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ اس پروگرام کا بھارت سرکار کے دیرپا ترقی کے مقاصد پر ، جو انسانی صحت کے بارے میں اور پیدائشی بیماریوں کے سماجی بوجھ کو کم کرنے کے بارے میں ہے، مثبت اثر پڑے گا۔
اس بات کو نوٹ کرتے ہوئے کہ سی ڈی ایف ڈی نے اپنے قیام کے بعد سے 60000 سے زیادہ کنبوں کو پیدائشی بیماریاں رکھنے والے مریضوں کی کونسلنگ اور ان بیماریوں کی جانچ کے لیے خدمات فراہم کی ہیں، جناب نائیڈو نے مختلف اداروں کے ساتھ قومی سطح پر تال میل پیدا کرنے کے لیے تعریف کی۔ یہ ادارے ایسی پیدائشی بیماریوں کی تحقیق کے بارے میں ہیں جن کی کوئی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ انھوں نے سی ڈی ایف ڈی سے کہا کہ وہ میڈیا کے ذریعے لوگوں میں اُن خدمات کے بارے میں آگاہی پیدا کرے جو وہ پیدائشی بیماریوں کے لیے فراہم کر رہا ہے۔
وبائی بیماری کووڈ-19 کے مدنظر انسانوں کو درپیش بے مثال چیلنجوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے سی ڈی ایف ڈی کے کورونا جانبازوں کی کووڈ-19 کے انفیکشن کی صحیح جانچ کے لیے تعریف کی۔ انھوں نے کہا ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ سی ڈی ایف ڈی نے پچھلے 10 مہینوں کے دوران 40000 سے زیادہ نمونوں کی جانچ کا کام انجام دیا ہے‘‘۔
نائب صدر جمہوریہ نے بھارت کی آبادی پر کورونا وائرس کےتبدیل ہونے والے اسپیکٹرم کو سمجھنےمیں سی ڈی ایف ڈی کے رول کی ستائش کی۔ انھوں نے کہا ’’اس طرح کی کوششوں سے یہ یقینی بن جاتا ہے کہ ہم اس وائرس سے کسی بھی شکل میں نمٹنے کے لیے تیار ہیں‘‘۔
دنیا میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے عدالتوں، قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) اور سی بی آئی کو ڈی این اے فنگرپرنٹنگ خدمات فراہم کرنے کے لیے سی ڈی ایف ڈی کی تعریف کی۔ اُس کی اِس سروس سے فوجداری مقدمات میں صحیح فیصلہ کرنے اور متاثرین کے کنبوں کو راحت فراہم کرنے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
سی ڈی ایف ڈی کے سائنسدانوں اور اسکالروں کے رول کی تعریف کرتے ہوئے جناب نائیڈو نے اُن پر زور دیا کہ وہ ا س بات کو یقینی بنائیں کہ ان کی تحقیق کے نتائج سے عام آدمی کو فائدہ پہنچے اور عام لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئے۔ انھوں نے کہا ’’سائنس کا آخری نصب العین لوگوں کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہونا چاہیے‘‘۔
تلنگانہ کے وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی، سی ڈی ایف ڈی کے ڈائرکٹر ڈاکٹر کے تھنگاراج، ڈپارٹمنٹ آف بایو ٹیکنالوجی کے سینئر اہلکار ، سائنسداں، راسرچ اسکالر اور عملے کے افراد بھی اس موقع پر موجود تھے۔