18 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نائب صدر جمہوریہ نے غیرمتعدی امراض کے بڑھتے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا

Urdu News

نئی دلّی، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو نے آج غیرمتعدی امراض کے بڑھتے ہوئے واقعات کو بے حد مہلک رجحان قرار دیا اور انھوں نے ڈاکٹروں سے زور دے کر کہا کہ وہ محنت سے عاری طرز زندگی کے بڑھتے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔

اترپردیش کے لکھنؤ میں واقع سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس جی پی جی آئی ایم ایس) میں کارڈیالوجیکل سوسائٹی آف انڈیا کے نیشنل انٹروینشنل کونسل (این آئی سی) کی سالانہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی 2017 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1990 سے 2016 کے درمیان غیرمتعدی امراض کے بوجھ میں کافی اضافہ ہوا ہے اور یہ 30 فیصد سے بڑھ کر 55 فیصد ہوگیا ہے، جبکہ اسی مدت کے دوران متعدی امراض کے واقعات میں کمی آئی ہے اور یہ 61 فیصد سے گھٹ کر 33 فیصد ہوگئی ہے۔

اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ اعلیٰ سطح کے ذہنی دباؤ، ذیابیطس کے بڑھتے واقعات، بلڈ پریشر، تمباکو نوشی، شراب کے بکثرت استعمال، جسمانی ورزش کی کمی اور پرسکون نیند کے فقدان جیسے متعدد عوامل ،امراض قلب کے اسباب بنتے جارہے ہیں، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ طرز زندگی میں تبدیلی کی طرف توجہ دینے کی بنیادی ضرورت ہے، تاکہ وقت سے قبل پڑنے والے دل کے دورے جیسے امراض کی روک تھام کی جاسکے۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ یہ بات بلاکسی شک و شبہ کے اب ثابت ہوچکی ہے کہ ہفتے میں پانچ دن معتدل انداز کی ہواباش ورزش جیسے تیز قدم چلنا، سائیکلنگ، جوگنگ اور تیراکی جیسی ورزشوں سے امراض قلب کے واقعات کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ ہندوستان اپنی پوری تاریخ میں اپنی سب سے بڑی آبادی کا ثمرہ حاصل کرنے کے لئے تیار ہے، انھوں نے کہا کہ ایک صحت مند اور چاق و چوبند نوجوان جامع اور پائیدار ترقی کے خواب کو حاصل کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ اسی صحت مندی کے سبب نوجوان دنیا میں اپنی قیادت کا صحیح مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اسکول کے زمانے سے ہی بچوں کو جسمانی اعتبار سے سرگرم اور چاق و چوبند رہنے اور کھیل و کود میں مصروف رہنے کے لئے ہمت افزائی کرنے کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ وہ مستقبل میں غیرمتعدی امراض سے محفوظ رہ سکیں۔

نوجوان نسل کے درمیان جنک فوڈ کے استعمال کی بڑھتی عادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے نوجوان نسل کو مشورہ دیا کہ وہ جنک فوڈ بالکل نہ کھائیں، کیونکہ اس سے ان کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے سبب ان کے معیار زندگی پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔

جناب نائیڈو نے کہا کہ ملک کو صحیح وقت پر امراض کا پتہ لگانے اور اس کی روک تھام کے لئے اپنے زیادہ تر وسائل کا وسیع پیمانے پر استعمال کرنا چاہئے۔ انھوں نے لوگوں کے درمیان امراض قلب کے خطرات کے اسباب و عوامل کی شناخت اور اس کی روک تھام کے اقدامات کے لئے وسیع پیمانے پر جانچ مہم شروع کرنے کے لئے زور دیا۔

اس بات کا مشاہدہ کرتے ہوئے کہ ابتدائی صحت مراکز امراض قلب کے خلاف ہماری لڑائی میں فصیل کا کام کرسکتے ہیں، نائب صدر جمہوریہ نے زور دے کر کہا کہ  پرائمری ہیلتھ مراکز (پی ایچ سی) کو ایک مستحکم، جواب دہ اور بہترین طریقے سے آراستہ اداروں کے نیٹ ورک میں تبدیل کرنا نہایت ضروری ہوگیا ہے۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ ملک بھر میں حفظان صحت کی خدمات میں کافی بہتری آئی ہے، جناب نائیڈو نے کہا کہ پیدائش کے وقت متوقع عمر کی شرح میں کافی بہتری آئی ہے۔ یہ شرح 1951 میں تقریباً 37 برس تھی، جو کہ2011-15 میں بہتر ہوکر تقریباً 68.3 سال ہوگئی ہے۔ آزادی کے بعد سے صحت عامہ میں یہ ہمارے ملک کی سب سے اہم اور بیش قیمت حصولیابی ہے۔

نائب صدر جمہوریہ نے میڈیکل کے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ نئی تقرری حاصل کرنے سے قبل دیہی علاقوں میں واقع پرائمری صحت مراکز میں کم از کم تین برس تک اپنی خدمات انجام دیں۔

یہ بتاتے ہوئے کہ ہندوستان کو تحقیق و ترقی کے شعبے میں مزید وسائل کا استعمال کرنا چاہئے، نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ میڈیکل سائنس کے میدان میں ناقابل یقین ترقی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا ’’متعدد ٹیکنالوجیوں مثلاً سائبرنیٹکس اور مصنوعی انٹلیجنس (اے آئی) بشمول مشین لرننگ اور اضافہ شدہ حقیقت نے میڈیکل سائنس کی بنیاد کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔‘‘

معیار، رسائی اور استطاعت کے لحاظ سے ہمارے صحت کے شعبے کو مزید بہتر بنانے کے لئے زور دیتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ’’اگرچہ  ہمارے حفظان صحت کی خدمات دنیا بھر میں سب سے سستی صحت خدمات میں سے ایک ہے، تاہم زندگی کو بچانے والی کچھ اہم دوائیں اور طریقہ کار اب بھی عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ صحت کے شعبے میں تمام شراکت داروں کو حفظان صحت کی خدمات کو قابل استطاعت اور عام شہریوں کے لئے قابل رسائی بنانے کے لئے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

نائب صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان کو دیگر ملکوں کے لئے معیاری اور قابل استطاعت حفظان صحت کی خدمات کے لئے ایک مثالی ملک بننا چاہئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم اس ہدف کو حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

اس سالانہ میٹنگ میں اترپردیش کے گورنر جناب رام نائک، کارڈیالوجیکل سوسائٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر کیول چند گوسوامی، سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راکیش کپور، اکیڈمک کمیٹی، کارڈیالوجیکل سوسائٹی آف انڈیا کے چیئرمین ڈاکٹر پی کے دیو نے بھی شرکت کی۔

میں کارڈیولوجیکل سوسائٹی آف انڈیا کے اترپردیش کی شاخ میں مایہ ناز سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس جی پی جی آئی ایم ایس) لکھنؤ میں 5 سے7 اپریل 2019 تک منعقد ہونے والے کارڈیولوجیکل سوسائٹی آف انڈیا کی نیشنل انٹروینشنل کونسل (این آئی سی) کی سالانہ میٹنگ کا افتتاح کرتے ہوئے بہت فخر محسوس کر رہا ہوں۔

مجھے یہ معلوم ہو کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ کارڈیولوجیکل سوسائٹی آف انڈیا اپنے آغاز کے وقت سے ہی عام ہندوستانی کے لئے  ایک صحتمند دل کے کاز کے لئے اَنتھک جدو جہد کر رہی ہے۔ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ  پورے ملک کے 5000سے زیادہ ماہرین قلب کی تربیت ، معلومات کے تبادلے اور ہنرمندی کے فروغ کے ذریعے یہ ادارہ ایک صحتمند قوم کی تشکیل میں سخت محنت کر رہا ہے۔

مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ سوسائٹی جس کے کئی ذیلی ادارے  بھی ہیں، خاص طور پر کونسلیں، جو مختلف قسم کے دل کے امراض اور ان کے طریقۂ علاج سے خود کو آگاہ رکھتی ہیں اور جن میں نیشنل انٹروینشنل کونسل (این آئی سی) ایک اہم ادارہ ہے۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ این آئی سی علاج و معالجے کے نئے طریقوں پر توجہ دیتی ہے، جس سے مریض جلدی اچھا ہو جاتا ہے اور زندگی کی طرف تیزی سے لوٹ جاتا ہے، بمقابلہ  دل کے روایتی طریقۂ علاج کے، جس سے  صحت یاب ہونے میں وقت لگتا ہے۔

این آئی سی 2019، مجھے بتایا گیا ہے کہ  یہ کونسل کی سالانہ میٹنگ ہے۔ مجھے یہ معلوم کرکے بہت خوشی ہوئی کہ کارڈیولوجی کا شعبہ ، ایس جی پی جی آئی ایم ایس ، جس کے سربراہ پروفیسر پی کے گوئل ہیں، جو تنظیمی چیئرمین بھی ہیں، ملک میں انتہائی اہم پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ریسرچ سنٹروں میں سے ایک ہے۔

مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ اس میٹنگ میں عالمی اور ہندوستانی ماہرین مختلف موضوعات پر تقریریں کریں گے اور دل کے علاج کے  بیرون ملک جو طریقے ہیں، ان پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف مراکز سے، جن میں ایس جی پی جی آئی ایم ایس بھی شامل ہے، ماہرین تبادلۂ خیال کریں گے۔ یہ بات بڑی اہم ہے کہ کانفرنس میں دنیا کے مختلف حصوں سے تقریباً 1500مندوبین شرکت کریں گے۔

مجھے امید ہے کہ یہ کانفرنس  ماہرین قلب کو صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں نئے چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہوگی اور سستے داموں مریضوں کو بہترین خدمات فراہم کرنے کے طریقے تلاش کئے جائیں گے۔

طبی شعبے کے سرکردہ ارکان جو آج یہاں میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔

مجھے اپنی بات آپ کو مبارکباد دے کر شروع کرنی چاہئے، کیوں کہ آپ  نے قوم کی عظیم خدمت انجام دی ہے۔

آزادی کے بعد سے ہندوستان کے صحت کے شعبے نے بہت سے اہم سنگ میل حاصل کئے ہیں۔ آزادی کے بعد کے ہنددستان میں عوامی صحت کے شعبے میں جو اب سب سے بڑی کامیابی ملی ہے، وہ یہ ہے کہ پیدائش کے وقت 1951 میں زندہ رہنے کی امکانی عمر 37 سال تھی، جو 2011سے 2015 میں تقریباً 68.3 سال ہو گئی ہے۔

حالانکہ زندہ رہنے کی میعاد میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم غیر متعدی بیماریوں میں اضافے سے زندگی کے  معیار پر بُرا اثر پڑا ہے۔

نوزائیدہ بچوں کی موت  اور پیدائش کے فوراً بعد ماؤں کی موت کی تعدا د میں بہت زیادہ کمی آئی ہے، چیچک اور پولیو جیسی بیماریوں کو ختم کر دیا گیا ہے اور جذام کو قریب قریب بالکل ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ آج ملک اس بات کا خواہشمند ہے کہ صحت خد مات کے تحت سبھی لوگوں کو لے آیا جائے۔

ہم پورے ملک میں صحت خدمات میں بڑے پیمانے پر بہتری لائے ہیں۔ صحت کی تعلیم پر بھرپور توجہ دی گئی ہے اور آگاہی مہمیں چلائی گئی ہیں، صفائی ستھرائی کی زبردست تحریکیں چلی ہیں، ہندوستان میں سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور ٹیکہ کاری کی مہم میں بھی بہت بہتری آئی ہے۔

ہم نے بہت سے وبائی بیماریوں پر قابو پایا ہے اور صحت کے متعدد  بحرانوں کا کامیابی  سے مقابلہ کیا ہے۔ یہ تمام کامیابیاں ہندوستان جیسے زبردست آبادی رکھنے والے اور وسائل کی قلت سے دو چار ملک میں ممکن نہیں تھیں، لیکن  آپ جیسے لگن سے کام کرنے والے ڈاکٹروں اور صحت کے پیشے سے وابستہ افراد کی بے لوث خدمات کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے۔

میری پیاری بہنو اور بھائیو!

یہ بات باعث تشویش ہے کہ ہندوستان میں وبائی بیماریوں کا عبوری دور چل رہا ہے۔ غیر متعدی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

2017 کی انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر)  کی رپورٹ میں  کہا گیا ہے کہ  متعدی بیماریوں کا بوجھ 1990 اور 2016 میں 61فیصد سے کم ہو کر 33 فیصد رہ گیا، لیکن اسی مدت میں  غیر متعدی بیماریوں کا بوجھ 30 فیصد سے بڑھ کر 55 فیصد بھی ہو گیا۔

یہ ایک پریشان کن رجحان ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ دل کی بیماری کے سبب پوری دنیا میں تقریباً 17 ملین لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں دل کی بیماریوں سے ہونے والی اموات  میں  1990 سے 2016 کے دوران 34 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں 40 فیصد لوگ جنہیں دل کی بیماری ہو جاتی ہے، وہ 55 سال سے کم عمر کے ہیں۔

اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً 25 فیصد لوگ جو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں، وہ 35 سال سے کم عمر کے ہیں۔

میرا خیال ہے کہ بہت زیادہ دباؤ، شوگر کے مریضوں اور بلڈ پریشر کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ، زیادہ تمباکو نوشی، شراب کے بہت زیادہ استعمال، کسرت کی کمی اور مناسب نیند کی کمی کے سبب دل کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔

طرز زندگی میں تبدیلی سےوقت سے پہلے دل کے دورے پڑنے کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔

میں یہاں موجود تمام ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال سے متعلق پیشہ ور افراد سے با اصرار کہتا ہوں کہ وہ  لوگوں کو سہل پسند طرززندگی تبدیل کرنے کے بارے میں آگاہی دیں۔  یہ بات کسی شبہ سے بالا تر ثابت ہو چکی ہے کہ ہفتے میں 5 دن باضابطہ  اور اعتدال کے ساتھ کسرت سے جس میں مستعدی کے ساتھ چہل قدمی کرنا، سائکلنگ، جوگنگ اور تیراکی شامل ہیں، دل کی بیماری کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

دنیا جسمانی، ذہنی اور روحانی صحت کے حصول کے لئے یوگا کو ایک ذریعے کے طور پر تسلیم کر رہی ہے۔ یہ دباؤ کو کم کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے اور بہت سی بیماریوں کو خاص طور پر جو طرز زندگی سے متعلق بیماریاں ہیں، انہیں مؤثر طور پر کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ وہ جسمانی طور پر سرگرم رہیں اور کھیل کود میں حصہ لیں۔

حکومت کے اقدامات مثلاً کھیلو انڈیا، جو  افراد کو صحتمند رکھنے کا ذریعہ ہے، اس سے ایک صحتمند معاشرہ اور مضبوط قوم پیدا ہوگی، جس سے ہمارے بچوں کی صحت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

ہمیں اپنے بچوں کی اس بات کے لئے بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے کہ وہ صحتمند خوراک استعمال کریں، نہ جنک فوڈ وغیرہ۔
میں ہر ایک کو خاص طور پر نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ جنک فوڈ کو ’نو‘ کہیں، جو ہماری صحت کے لئے  نقصاندہ ہے اور ہمارے زندگی کے معیار کو متاثر کر رہا ہے۔

ہماری روزہ مرہ کی زندگی میں کافی مقدار میں سبزیاں، پھل، گِری والے میوے، سویا کی مصنوعات اور کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات شامل ہونی چاہئے، جو پروٹین کے اعتبار سے اچھی ہوتی ہیں ، ان میں فیٹ کم ہوتا ہے ، کولسٹرول بالکل نہیں ہوتا۔ نیز کیلشیئم اور منرل کے معاملے میں بھی  مالا مال ہوتی ہیں۔

ہندوستان کے لئے شمولیت والی اور دیرپا ترقی حاصل کرنے کا خواب، حاصل کرنے اور دنیا کی قیادت میں اپنے صحیح مقام پر قبضہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اُس کی نوجوان آبادی صحتمند ہو۔

اس لئے ہمیں اپنے وسائل کا کافی حصہ بیماریوں کی روک تھام اور ان کا جلد پتہ لگانے کے معاملے میں استعمال کرنا چاہئے۔

ہمیں دل کی بیماریوں کے امکانات کا پتہ لگانے کے لئے  خاص مہمیں چلانی چاہئے۔

ہمارے ابتدائی صحت مراکز کو امراض قلب کی بیماریوں سے نمٹنے کے خلاف ہماری لڑائی میں بچاؤ کی جگہ کے طور پر کام کرنا چاہئے۔

پیارے بھائیو اور بہنوں!

ابتدائی صحت مراکز ، تلوک اسپتالوں اور ضلع اسپتالوں پر مشتمل حفظان صحت کاہمارا نظام، دیہی لوگوں کی صحت ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ تاہم وقت کی ضرورت ہے کہ دیہی اور دور راز کےعلاقوں میں جدید حفظان صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں کیونکہ زیادہ تر جدید اسپتالیں شہری علاقوں میں واقع ہیں۔ ہماری کوششیں ان چند اسباب مثلاً تیزی سے بڑھتی آبادی ، مقامی تعصبات ، توہمات اور نا خواندگی سے بھی کمزور ہو رہی ہیں۔

حالانکہ قومی اور ریاستی سطحوں پریکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں صحت شعبے کو بہت زیادہ ترجیح دے رہی ہیں، تاہم  نجی شعبے کو حکومت کی کوششوں کو تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے خصوصی طور پر شہری دیہی فرق کو پُر کرنے میں ۔ نجی شعبے کو عہد بستگی اور مشینری انداز میں کام کرنا چاہئے۔ تاکہ وہ دیہی علاقوں میں جدید اور کم خرچ پر حفظان صحت کی سہولتیں فراہم کر سکیں۔ میں تمام میڈیکل طلبا جن سے میں نے ملاقات کی ہےان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ دیہی علاقوں میں کم از کم تین سال  پی ایچ سی میں اپنی خدمات دیں۔

ہمارے پی ایچ سی  مریضوں سے رابطے کا پہلا مقام ہیں۔ پی ایچ سی کا ایک زبردست اور آلات سے لیس نیٹ ورک  بڑے پیمانے پر ثانوی اور تیسرے درجے کے حفظان صحت کے اداروں پر بڑھنے والے بوجھ کو کم کر سکتا ہے اور اس کے لئے بیماریوں کی روک تھام کرنی ہوگی، ان کا جلد پتہ لگانا ہوگا اور جلد علاج شروع کرنا ہوگا۔

بھائیوں بہنو!

ہمیں طبی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی  سمت میں اپنے رسپانس کو مزید مضبوط کرنا چاہئے اور کیرلا میں پھوٹ پڑنے والے حالیہ نپاہ وائرس جیسے  غیر متعدی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے اپنی تیاری کو مزید مضبوط  کرنی چاہئے۔ بھارت کو تحقیق اور ترقی میں بہت زیادہ وسائل بھی صرف کرنے چاہئے۔

ہمیں غیر دریافت شدہ کو دریافت کرنا چاہئے اور میڈیکل سائنس کے نئے شعبوں میں قدم رکھنے میں کافی جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی رکاوٹوں کو توڑ رہے ہیں اور دنیا بھر میں نئی بلندیاں حاصل کر رہی ہیں۔ بھارت کو یہ موقع نہیں چھوڑنا چاہئے۔

میڈیکل سائنس میں بہت زیادہ ترقیات ہورہی ہیں جن کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔  میں ڈاکٹروں اور طبی پیشہ وروں سے یہ اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ ہمیشہ  ہیپو کریٹک اوتھ اور طبی اخلاقیات کے اصولوں پر عمل کریں۔ ہمیں اپنے صحت شعبے کو بہتر کرنے کے لئے مستقل طور سے کوششیں کرنی چاہئےاوراسی کے ساتھ عمدگی ، قابل رسائی اور قابل استطاعت جیسی تین چیزوں پر دھیان دینا چاہئے۔

بھارت پہلے سے ہی دنیا بھر میں اپنے اچھے معیار اور قابل استطاعت دواؤں کی وجہ سے فارمیسی کے طور پر مشہور ہے۔ حالانکہ ہماری حفظان صحت کی خدمات دنیا بھر میں سب سے زیادہ سستی ہیں تاہم زندگی کو بچانے والی کچھ دوائیں  اور طریقہ کار اب بھی عام  آدمی  کی پہنچ سے باہر ہیں۔ صحت شعبوں میں تمام حصہ داروں کو تال میل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ یقینی بنا سکیں کہ حفظان صحت  عام آدمی کے لئے قابل استطاعت اور قابل رسائی ہے۔

بھارت کو دوسرے ملکوں کے لئے معیار اور قابل استطاعت حفظان صحت کے ایک نمونے کے طور پر اپنی خدمات انجام دینی چاہئے۔ مجھے اس بات میں کوئی  شبہہ نہیں کہ ہمارے پاس اس ہدف  اور اس سے زیادہ ہدف کے حصول کے لئے صلاحیت ہیں۔

ہم نے پہلے ہی ہیلتھ انشورنس اسکیم متعارف کر رکھا ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اسکیم ہے جسے لاکھوں مریض  فیض یاب ہو رہے ہیں۔ تاہم وقت کی ضرورت ہے کہ پورے جذبے اور خلوص کے ساتھ یونیورسل ہیلتھ کوریج کو یقینی بنایا جائے۔ ہم اس وقت تک آرام سے بیٹھ نہیں سکتے جب تک کہ ہم نقص تغذیہ  کے شکار آخری بچے کی صحت کی حفاظت  نہ کرلیں اور  تپ دق  میں مبتلا آخری مریض کا علاج  نہ کر لیں۔

ہمارے پاس جو کام ہے وہ کسی بھی طرح سے آسان نہیں ہے۔ لیکن میں بھارت کے حفظان صحت کے پیشہ وروں کی صلاحیت پر پورا اعتماد رکھتا ہوں۔

میں ایک بار پھر کارڈیالوجیکل سوسائٹی آف انڈیا کو اس بات کے لئے مبارکباد دیتا ہوں کہ نئے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے  ایک پلیٹ فارم کے طور پر این آئی سی 2019 کا خیال اس کے ذہن میں آیا۔

میں سوسائٹی اور اس کانفرنس کے تئیں اپنے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More