19 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو کو ایک منفرد روایت قائم کرتے ہوئے سربیا کی پارلیمنٹ کےخصوصی اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی

Urdu News

نئی دہلی: ۔سربیا میں 30  برسوں کے بعد  ایک اعلیٰ سطحی ہندوستان وفد  کی آمد کے دوران جناب ایم وینکیا نائیڈو نے   این اے ایم   کے عہد کی یادوں  کا انتہائی جذباتی انداز میں ذکر کیا  ۔سربیا   کے قانون سازوں نے بین الاقوامی یوم جمہوریت کے موقع پر نائب صدر جمہوریہ ہند  کی تقریر کا   کھڑے ہوکر تالیاں بجاکر خیر مقدم کیا۔اس موقع پر سربیا کے صدر نے   دوراندیش  معاشی کارکردگی کے لئے ہندوستانی قیادت کی کھل کر ستائش کی۔ دونوں  لیڈروں نے   باہمی تعاون کے  مکمل امکانات    میں فروغ  کا وعدہ کیا   اور دونوں ملکوں نے پلانٹ پروٹیکشن  کے معاہدے پردستخط کئے علاو ہ ازیں آنجہانی   سوامی وویکانند  اور سربیا کے  جدت طراز نکولا ٹیسٹا   پر ایک  ائیر سروسز  یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا ۔

          آنجہانی مارشل ٹیٹو اور پنڈت جواہر لال نہرو  کے دور کی گرم جوش جذباتی وابستگی اور   باہمی تعاون کا انتہائی جذباتی انداز میں ذکرکرتے ہوئے جناب وینکیا نائیڈو نے بلغراد میں   جمہوریہ سربیا کی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کے دوران یہ باتیں کہیں ۔ واضح ہوکہ یہ وہی   ہال ہے ،جو سربیا کی قومی اسمبلی  کے نام سے یاد کیا جاتاہے اور جسے یوگوسلاویہ کے بزرگ لیڈر مارشل ٹیٹو کے ساتھ  ناوابستہ تحریک کے لیڈروں سے  آنجہانی پنڈت جواہر لال نہرو نے خطاب کیا تھا۔

          اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں  نائب صدر جمہوریہ موصوف نے   ناوابستہ تحریک  کے آغاز میں  دونوں ملکوں کے  لیڈروں کے ذریعہ  کی گئی خدمات   کا    انتہائی جذباتی انداز میں ذکر کیا۔ انہوں نے  دونو ں ملکوں  کے تعلقا ت کو  تاریخ کی جڑوں میں  پیوستہ قرار دیا ۔ہندوستان کی  آزادی کے فوراََ   بعد دونوں ملکوں نے ناوابستہ تحریک   کی بنیاد ڈالنے پر زور دیا اور ایک نئے عالمی نظام  بالخصوص  نظام آمریت  کے بعد تیسری دنیا میں   ایک نئے جمہوری نظام   کے قیام  کے لئے اپنی خدمات انجام دیں  ،جس نے  زو قطبی عالمی نظام کو   انتہائی جرأت کے ساتھ  چیلنج کیا تھا ۔انہوں نے کہا  کے آج  کی بدلی ہوئی عالمی جغرافیائی سیاست میں  ہمیں ایک بار پھر باہمی مفاد  میں  اور دیگر ملکوں کے ساتھ خوشحالی کو بانٹنے کے لئے مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔

          جناب وینکیا نائڈو نے اس موقع پر گزشتہ روز منائے جانے والے بین الاقوامی یوم جمہوریت کا ذکر کرتے  ہوئے ہندوستان میں  پارلیمانی جمہوریت   کی  متوازن ترقی اور استحکام پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ  گزشتہ برسوں کے دوران ہندوستانی پارلیمنٹ نے ایک ایسے  جمہوری فورم کی تشکیل کی ہے ، جو   اس  وسیع وعریض  ملک کے دور دور تک پھیلے ہوئے علاقوں کی  پیچیدہ آوازوں کو سنتا ہے اور  نیک نیتی اور لگن کے ساتھ ان کا سد باب کرتا ہے ۔

           جناب نائیڈو  نے  شراکتد ار ترقیات کے لئے  جمہوریت کی اہمیت  پر زور دیتے ہوئے  آنجہانی  پنڈت نہرو کی   اس تقریر کا حوالہ دیا ، جو انہوں نے   1961  اسی ہال میں کی تھی۔ جناب نائیڈو نے کہا کہ پنڈت نہرو نے   ہمارے ملکوں میں   ایسے سماجوں کی تشکیل کا نعرہ دیا تھا ، جہاں آزادی   اپنے حقیقی معنوں  میں مروج ہے ۔ آزادی   اس لئے لازمی ہے کہ اس سے  ہمیں  نہ صرف استحکام حاصل ہوتا ہے بلکہ  خوشحال سماج کی تشکیل میں بھی  مدد ملتی ہے ۔

          قبل ازیں سربیا کی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے  جناب وینکیا نائیڈو کا استقبال کیا  اور انہیں  اسٹیج پر لے جاکر سربیا کے ایوان پارلیمان کے ممبران سے ان کا تعارف کرایا۔اس موقع پر نائب صدرجمہوریہ ہند کی بار بار تالیاں بجاکر ستائش کی گئی ۔ خاص  طور سے اس وقت  جب انہوں نے کہا کہ آنجہانی مارشل ٹیٹو کے نام ہندوستان میں   ان دنوں  انتہائی مقوبل عام تھا جب خود وہ وینکیا نائیڈو  بھی اسکول کے طالب علم تھے۔  سربیا کے قانون سازوں نے  نائب صدر جمہوریہ کی تقریر کے اختتام پر کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے اظہار مسرت کیا ۔

           قبل ازیں  دن بھر کی اعلیٰ سطحی مصروفیات کے دوران  جناب وینکیا نائیڈو نے  سربیا کے صدر مملکت جناب الیگزینڈر ویوسی  ، وزیر اعظم محترمہ انا بارنبی    اور سربیا  کی قومی اسمبلی  کی اسپیکر  محترمہ ماجا گوجکووک   سے  متعدد باہمی  اور مختلف النوع امور پر تفصیلی گفتگو کی ۔ بعد ازاں   جناب وینکیا نائیڈو کے ساتھ  میڈیا سے مشترکہ   خطاب کے دوران سربیا کے صدر مملکت  جناب الیگزینڈر  ویوسی نے   ہندوستان   کے روشن    معاشی نتائج کے لئے ہندوستان کی سیاسی قیادت  کی ستائش کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان غیر معمولی طور سے معاشی ترقی کررہا ہے ۔ہم اس ملک  کی ان سرگرمیں کے لئے   بہت خوش ہیں جو ہمارا دیرینہ دوست اور خیر خواہ رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سربیا کی سرحدی خود مختاری اور اتحاد کے اعتراف کے لئے بھی ہندوستان کا شکریہ ادا کیا ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سربیا  زراعت ،فارمیسی ، آئی ٹی  اور جینرک  ادویہ کے شعبے میں ہندوستان کے ساتھ شراکتداری کا خواہشمند ہے ۔اس کے علاوہ انہوں نے اس سلسلے میں دفاعی تعاون کا بھی تذکرہ کیا۔

          سربیا کے  سرکردہ لیڈروں  اورکاروباریوں  سے گفتگو کے دوران  نائب صدرجمہوریہ موصوف نے   اصلاحات پر مبنی  مالیاتی اور سرمایہ کاری  کے لئے سازگار نظام  کے  لئے مختلف شعبوں میں ہندوستان کی کوششوں  کا تذکرہ کیا ۔  انہوں نے      دہشت  گردی کی وبا پر اپنی انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دہشت گردی پر جامع قرارداد  (سی سی آئی ٹی ) کے مسودے کو فوری طور سے قطعی شکل دی جانی چاہئے ۔  انہوں نے کہا کہ آج کل دونوں ملکوں کو  انتہائی سنگین حالات درپیش ہیں ۔ لیکن  دونوں ملکوں کے انتہائی بہادری کے ساتھ ان حالات پر قابو پایا ہے ۔ ہندوستان اور سربیا میں 1990  میں   ہونےو الی معاشی اصلاحات  نے  بعض انتہائی اہم چیلنجوں کو بھی  نادر مواقع کی شکل  دے دی ہے ۔

          واضح ہوکہ ہندوستان اور سربیا کے سفارتی تعلقات کے قیام کی 70  ویں سالگرہ کے موقع پر سربیا    اور ہندوستان نے  سربیا کے  ماہر   طبعیات  اور     جدت طراز جناب نکولس ٹیسلااورسوامی وویکانند  پر یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کئے ۔ اس موقع پر جناب نائیڈو نے کہا کہ سوامی وویکا نند کے خیالات اور نظریات   میں  ٹیسلا کے کاموں پر زبردست اثرات مرتی کئے تھے ۔

          نائب صدر جمہوریہ ہند  اور  سربیا کے صدر مملکت کی موجودگی میں  دونوں فریقوں نے دو معاہدوں پر دستخط کئے ۔ پلانٹ پروٹیکشن   اور کوارن ٹائم پر کئے جانے والے معاہدے میں   پھلوں  ،سبزیوں  اور افزود شدہ  غذائی سامان  کی تجارت میں  فروغ  پر زوردیا گیا ہے  جبکہ  اس موقع پر طے پانے والے دوسرے معاہدہ میں  نظر ثانی شدہ   ریوائزئ ائیر سروسز ایگریمنٹ کا مقصد  رابطہ کاری کو فروغ دینا   اورتجارت اور سیاحت میں اضافہ  کرنا ، جس میں  دونوں ملکوں کے درمیان رابطہ کاری بھی شامل ہے ۔

          نائب صدر جمہوریہ ہند کی حیثیت سے  اپنے دوسرے غیر ملکی دورے کے موقع پر جناب نائیڈو  اگلے ہفتہ جمعہ کو واپسی سے قبل  مالٹا اور رومانیہ کا بھی دورہ کریں گے ۔ جناب نائیڈو نے اپنے پہلے ایسے سفر کے دوران لاطینی امریکہ کے  گواٹے مالا ، پناما اور پیرو جیسے ممالک کا دورہ کیا تھا ۔  اس موقع پر نائب صدر جمہوریہ ہند جناب ایم وینکیا نائیڈو کی تقریر کا متن حسب ذیل ہے :

          ’’ میں ایک خصوصی سال میں  ایک خاص مقام پر اور ایک خصوصی دن پر آپ سب کے ساتھ یہاں  اپنی موجودگی  کو  انتہائی  عزت افزائی تصور کرتا ہوں ۔

          آج عالمی یوم جمہوریت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ سال ہندوستان اورسربیا کے سفارتی تعلقات کے قیام کا 70 واں سال ہے ۔

          یہ جگہ جہاں ہم آپ موجود ہیں  ، ان اہم ملکوں کے  تاریخی اجتماعات کی گواہ ہے  ، جنہوں نے 1961  میں ناوابستہ  تحریک   کا آغاز کیا تھا۔  یہ بات بھی  انتہائی خوش آئند محسوس ہوتی ہے کہ ہندوستان اور اس وقت کے یوگو سلاویہ نے اس تحریک کی قیادت کی تھی۔متعددامور پر  ہمارے تناظر مشترک ہیں ۔     جن سے ہمارے تعلقات میں مزید قربت پیدا ہوگئی ہے۔

          مجھے اس  محترم ایوان سے خطاب کی دعوت پاکر  انتہائی عزت افزائی کا احساس ہورہاہے ۔  مجھے جس  محبت اور گرم جوش میز بانی کے ساتھ        اس خطاب کی دعوت دی گئی ہے ، اور میرے وفد کے ممبران کی جو خصوصی میز بانی کی گئی ہے اس کےلئے  انتہائی ممنون احسان ہوں ۔

          میرے ساتھ وفد میں آنے والوں میں   وزیر مملکت برائے مالیات جناب شیو پرتاپ شکلا ،  ہندوستان کے معزز ممبر پارلیمنٹ   جناب پرسناّ  آچاریہ، محترمہ وجیلا  ستیہ اننت   محترمہ سروج پانڈے  اور جناب راگھو لکھن پال شامل ہیں ۔  ہم ہندوستان کے عوام    کی نیک خواہشات  اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔  سربیا کے  قائدین  اور  اس ایوان میں موجود  ہمارے عظیم دوست اور سربیا کے عوام کے لئے  یہ نیک خواہشات ہم  اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں ۔‘‘

          ہندوستان اور سربیا دونوں جمہوری قدروں  کے تئیں عہد بستہ ہیں  اور اپنے عوام کی زندگی کو بہتر  بنانے کے جمہوری جذبے   کو مسلسل پروان چڑھانے کی  ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔

          سربیا میں  قومی اسمبلی اورآئین کی ایک طویل تاریخ موجود ہے جو یورپ میں  19 ویں صدی عیسوی سے قبل کی قدیم ترین تاریخ ہے۔   ہم ہندوستانی لوگ جمہوریت پر مکمل اعتماد کے ساتھ  سربیا کی مضبوط  پارلیمانی روایات سے از حد متاثر ہیں۔

          اب سے تقریباََ  100 برس  قبل تعمیر کی جانے والی  قومی اسمبلی کی عمارت   سربیا  کی حقیقی پارلیمانی وراثت کی عکاسی کرتی  ہے ۔

          اس عمارت کی محض طرز تعمیر ہی متاثر کن  نہیں ہے بلکہ  اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ اس کی طرز تعمیر میں   وہ نادر تصورات استعمال کئے گئے ہیں جنہوں نے  اسے  جدید دنیا کی تاریخ میں  یادگار بنادیا ہے  ۔

          یہی وہ جگہ ہے  جہاں 1961  میں  ناوابستہ تحریک کا پہلا سربراہ  اجتماع  منعقد ہوا تھا۔ ہندوستان کے اس وقت کے وزیر اعظم آنجہانی پنڈت جواہر لال نہر و  اور   ناوابستہ تحریک کے دیگر عالمی لیڈروں نے اسی ہال میں ناوابستہ تحریک کے سربراہ اجلاس سے خطاب کیا تھا ۔

          ہندوستان اور سربیا کے تعلقات تاریخ کی گہری جڑوں میں پیوست ہیں ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد ان دونوں   نہ صرف ملکوں نے  ناوابستہ تحریک پر زور دیا ہے   بلکہ   ایک نئے  جمہوری عالمی نظام   بالخصوص   آمریت  کے دور  کے بعد کی تیسری دنیا میں ایک ایسی جمہوری عالمی نظام    کی تشکیل کے لئے  یادگار خدمات انجام دی ہیں  ،جس نے زو قطبی دنیا  کے تصور کو  زبردست چیلنج دیا تھا۔  اس دور میں  دونوں ملکوں   کے اعلیٰ لیڈروں کی   ایک دوسرے کے ملک میں آمد   اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں کے نظریات میں  گہری مماثلت  موجود تھی۔ ان دنوں  ہندوستان میں   مارشٹ ٹیٹو کا نام انتہائی  مانوس  اور معروف تھا۔  میرا خیال ہے کہ انہوں نے 1954  میں  اپنے سفر ہند کے دوران ہندوستانی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا تھا ۔اس طرح ہمارنے دونوں ملکوں کی  پارلیمنٹ کو ایک  دوسرے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع حاصل ہوا ہے ۔  مجھے خوشی ہے کہ سربیا کی قومی اسمبلی  کے پارلیمنٹری گروپ کے ذریعہ ہندوستان سے گفتگو جاری ہے ۔

           مجھے اس موقع پر ہندوستان کے پارلیمانی نظام کے بارے میں کچھ الفاظ کہنے کی اجازت دیجئے ۔   ہندوستان دنیا  کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور ہندوستانی پارلیمنٹ کو جمہوریہ  ہند  میں  اعلیٰ ترین برتری حاصل ہے ۔  یہ  ہندوستان میں  راجیہ سبھا (ریاستوں کی کونسل )  اور لوک سبھا (ایوان  عوامی نمائندگا ن )  کے ذریعہ  قانون سازی  کرنے والا ایک دوسطحی ادارہ ہے ۔  ہندوستان کے نائب صدرجمہوریہ کی حیثیت سے میں  بلحاظ عہدہ  راجیہ سبھا کے    صدر یا   ریاستوں کے کونسل کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کرتا ہوں ۔ مجھے اپنے پارلیمانی نظام کا  بخوبی تجربہ ہے ۔ میں اب سے 40  برس قبل  1978  میں  اپنی آبائی ریاست  میں ریاست آندھر ا پردیش    میں  ممبر اسمبلی کی حیثیت سے منتخب ہوا تھا۔ علاوہ ازیں   میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا  1998 سے رکن رہا ہوں ۔میں نے   2014سے  2016  تک  دیگر وزارتی فرائض کی ادئیگی کے ساتھ ساتھ وزیر برائے پارلیمانی  امور کی خدمات بھی انجام دی ہیں ۔

          سربیا میں یک قطبی پارلیمنٹ ہے وہیں ہندوستان کے وفاقی ڈھانچے کو  ریاستوں کی معقول نمائندگی کے لئے  زوقطبی ادارے کی احتیاج  تھی۔

          گزشتہ برسوں کے دوران ہندوستان نے  ایک ایسا جمہوری فورم قائم کیا ہے ،جو  اس  وسیع وعریض  ملک کے مختلف علاقوں  کی  پیچیدہ آوازیں اور مسائل سنتا ہے اور  ہمدردی اور نیک نیتی کے ساتھ اس کا سد باب کرتا ہے ۔

          ہماری پارلیمنٹ  شراکتداری جمہوریت   کو  پروان چڑھاتے اور اسے فروغ دیتے ہوئے   ترقی پسند قانون سازی کے ذریعہ سماجی تبدیلی اور ترقی کے ایک اہم  ادارے کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں  اور آج بھی  عوام الناس کو  ترقیاتی نظام  کے مرکز پر رکھتے ہوئے  جمہوری جذبے   کے        تحفظ  پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

آج ہم جمہوریت کا بین الاقوامی دن  بھی منارہے ہیں جس کا اعلان اقوام متحدہ نے 8نومبر 2007 کو کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے منشور کے شروع کے الفاظ  ہیں ’’ہم لوگ ‘‘ سے جمہوریت کے اس بنیادی اصول کی عکاسی ہوتی ہے کہ عوام کی خواہش قوموں کے جواز کا وسیلہ ہوتی ہے۔

قدیم بھارت کے مشہور ماہرین سیاسیات میں سے ایک کوٹلیہ نے اپنی تصنیف ارتھ شاستر میں کہا تھا ’’بادشاہ کی خوشی ، سلطنت میں عوام کی خوشی میں ہی مضمر ہونی چاہئے اور کسی دوسرے عنصر میں نہیں۔ ‘‘ بادشاہ یا خود مختار مملکت کا جواز اصل میں عوام کی خواہش اور امنگوں کے تئیں ردعمل کی  اہلیت سے حاصل ہوتا ہے جو ان کی ضرورتوں  کو پورا کرنے اور تشویش  کو  دور  کرنے کیلئے  ظاہر کیا جاتا ہے۔

عوامی جمہوریت اور نمائندہ ادارے بھارت کی سرزمین کیلئے نہ تو پوری طرح انجانے ہیں اور نہ ہی یہ حال ہی میں پیدا ہوئے ہیں۔ بھارت میں جمہوری روایات کی تاریخ درحقیقت ویدک  دور سے  ملتی ہیں۔ وید جو حکمت ودانائی کا سب سے  پرانا بھارتی سرچشمہ ہے ان میں سبھا اور سمیتی کے نام سے جانی جانے والی مقبول اسمبلیوں کا ذکر ملتا ہے۔ ویدوں کے بعد کے دور میں جمہوریائیں جنہیں مقبول عام میں گن راجیہ  یا  سنگھ کہا جاتا تھا خود حکمرانی والے اداروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ہم سبھی اعتراف کرتے ہیں کہ جمہوریت کے لازمی عناصر آزادی کی اقدار ، انسانی حقوق کا احترام آفاقی رائے دہندگان کے ذریعے وقتاً فوقتاً انتخابات کرائے جانے کا اصول ہیں۔ بھارت نے اٹھارہ سال کی عمر سے زیادہ کے سبھی شہریوں کو اپنا رائے دہندگان مانا ہوا۔ 1951 سے بھارت کے عوام  نے آزادانہ اور منصفانہ انتخابی عمل کے ذریعے قانون ساز اداروں کے اپنے نمائندوں کو چنا ہے۔ پچھلے 64 سال میں ووٹروں کی تعداد میں لگاتار اضافہ ہورہا ہے۔ 1951 میں رائے دہندگان کی تعداد 44.87 فیصد تھی جبکہ 2014 میں 66.4 فیصد ہوگئی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2014 میں جن رائے دہندگان نے ووٹ دیے   تھے ان میں سے 65.6 فیصد خواتین تھیں۔

اب جبکہ میں بھارت کے پارلیمانی نظام اور بھارت کی جمہویت کے بارے میں تفصیل سے اظہار خیال کرچکا ہوں ، مجھے بھارت سربیا تعلقات پر واپس اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دیجئے۔ بھارت اور سربیا کے درمیان رشتے بھارت کی آزادی کے بعد  کے عرصے سے شروع نہیں ہوتے بلکہ یہ بہت پہلے سے عوام سے عوام کے درمیان رابطوں کی شکل میں موجود ہے۔ دنیا کے ان دو بڑے علاقوں نے دانشورانہ اور ثقافتی پونجی میں خاطر خواہ تعاون دیا ہے۔

معروف سربیائی اختراع کار اور موجد نکولا ٹسلا  اور بھارت کے عظیم روحانی رہنما سوامی وویکانند کے درمیان بات چیت ، اس کی ایک مثال ہے۔

سوامی وویکانند کے خیالات اور نظریات نے نکولا ٹسلا کے کام کے کام پر گہرا نقش چھوڑا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ سربیا پوسٹ  اور بھارت پوسٹ نے ان دونوں اساطیری شخصیتوں پر مشترکہ یادگاری ٹکٹ  جاری کرکے اس کا اعتراف کیا ہے۔

دونوں کا پوری انسانیت کیلئے ایک عظیم نظریہ تھا ، یہ لوگ تخلیقی طور پر دانشمند تھے جنہوں نے دنیا پر ایک لافانی اثر چھوڑا۔ ان  میں سے ایک طبیعات  میں غیرمعمولی جدت طرازی کا عروج تھا ، دوسرا شخص ایک مکمل روحانی ماسٹر تھا ، جس نے  دنیا کے سامنے مابعد الطبیعات  کی وضاحت کی۔

سربیا اور بھارت نے حالیہ تاریخ میں کافی مشکل وقت بھی گزارا ہے لیکن یہ دونوں ہی ملک اپنے اپنے بحران سے باہر آکر مضبوط بن کر اُبھرے کیوں کہ ہم  میں اصلاح کا حوصلہ تھا ، بھارت میں اقتصادی ترقی اور سربیا میں 1990 کی دہائی میں اقتصادی ترقی کی وجہ سے بہت سے بڑے چیلنج مواقع میں مؤثر طور پر بدل گئے۔

ہمارے دو ملک کلیدی مفادات کے معاملے پر ایک دوسرے کے تئیں ہمیشہ مددگار رہے ہیں۔ سربیاکو اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تئیں چیلنجوں کا سامنا رہا ہے جو اب بھی ہے۔ اس معاملے میں بھارت نے ہمیشہ اپنابا اصول  موقف برقرار رہا ہے اور سربیا کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو حمایت دی ہے۔ یہ قوی خیال ہے کہ کوسووو کا مسئلہ صلاح ومشورے اور مذاکرات کے ذریعے پُرامن طور پر حل کیا  جانا چاہئے۔

بھارت سربیا کو اس بات پر خوشی ہے کہ اسے سربیا کی طرف سے نیوکلیئر سپلائر ز گروپ کی رکنیت کے لئے بھارت کی درخواست جیسے بہت سے کلیدی معاملات پر اصولی طور پر حمایت  دی گئی۔

مجھے خوشی ہے کہ اقوام متحدہ خاص طور پر اس کی سلامتی کونسل کی اصلاح کی ضرورت کے بارے میں سربیا اور بھارت کے نظریات  مشترک ہیں۔

دونوں ہی ملک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس بات کی فوری  ضرورت ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے عالمی لائحہ عمل کو مستحکم کیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں بین الاقوامی دہشت گردی پر ایک جامع کنونشن (سی سی آئی ٹی)  کو تیزی سے قطعی شکل دیکر اس لعنت سے نمٹا جاسکے۔

حالیہ برسوں میں ہمارے باہمی تعلقات امتیازی طور پر اونچائیوں پر پہنچے ہیں ، جنوری 2017 میں سربیا کے صدر عزت مآب جناب الیگزینڈر ووسچ   نے سربیا کے وزیراعظم کے طور پر بھارت کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ حقیقت میں ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ 30 سال کے عرصے میں بلغراد کے کسی سربراہ مملکت یا سربراہ حکومت کی سطح کا بھارت کا یہ پہلا دورہ تھا۔ تقریباً 30 برس تک بھارت کی طرف سے بھی اعلیٰ سطح کے دوروں کی کمی رہی۔ اپنے دورے کے ساتھ ہی  میں چاہتا ہوں کہ سربیا کے ساتھ اعلیٰ سطح کی سرگرمیوں کے ذریعے قریبی تعلقات رکھنے کی بھارت کی خواہش اجاگر ہو۔

پچھلے سال عزت مآب ووسچ کے بھارت کے دورے کے موقع پر سربیا نے متحرک گجرات سربراہ کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ سربیا نے بھارت میں ایک اور بڑی تقریب میں ایک بار پھر  شرکت کی۔ یہ تقریب پچھلے سال نومبر میں نئی دہلی میں ورلڈ فوڈ انڈیا 2017  کی تھی۔

بھارت اور سربیا دونوں میں زراعت ایک بڑی اقتصادی سرگرمی ہے اور زراعت اور خوراک کی ڈبہ بندی کے شعبے میں ہم ایک دوسرے کی مہارت سے ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ سربیا کے پہلے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اویکا ڈیسچ نے اس سال مئی میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔ میرے ساتھ انہوں نے جو ملاقات کی تھی اس کے دوران  ان  اقدامات کے بارے میں جھے  جان کر خوشی ہوئی تھی کہ ہمارے دونوں ملک دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کررہے ہیں۔  میں خاص طور پر یہ جان کر خوش تھا کہ سربیا نے پچھلے سال پاسپورٹ والے بھارت کے  سبھی شہریوں کی مختصر دورے کے لئے ویژا کی ضروریات ختم کردی تھیں۔

ہماری سالانہ مشترکہ تجارت فی الحال تقریباً 200 ملین ڈالر کی ہیں۔ بلاشک یہ اصل امکان سے بہت ہی کم ہیں ۔ ہماری دوطرفہ تجارت کو مز؁ید فروغ دینے کیلئے تجارتی وفود کی اور زیادہ آمدورفت ضروری ہے جبکہ اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے ہماری دوطرفہ تجارت ، ایک دوسرے کے ملکوں میں سرمایہ کاری اور جدت کاری پر مبنی مزید طور طریقوں کو فروغ دیا جانا لازمی ہے۔ اس ضمن میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی حالیہ مثالیں ایک نیا مثبت واقعہ ہے۔ ایک بھارتی کمپنی نے سربیا کی ایک بڑی ٹریکٹر بنانے والی کمپنی کے مالکانہ حقوق حاصل کیے ہیں۔ اس سے سربیا میں ایک کم لاگت پر معیاری  زرعی مشینری تیاری کرنے میں تعاون حاصل ہوگا اور سربیا کے زرعی شعبے کو یقیناً مدد ملے گی۔ ایک بھارتی کمپنی نے سربیا میں ایک آئی ٹی پارک قائم کیا ہے ، آئی ٹی شعبے میں بھارت کی طاقت کو عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ سربیا بھارت کی اعلیٰ معیار کی زندگی بچانے والی دواؤں کی تیاری کی صلاحیت سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اتنی کم قیمت کی ہوتی ہیں کہ وہ سربیا کے ایک عام آدمی  تک پہنچ سکیں۔

بھارت کے سیاح بیرونی ملکوں میں بڑی تعداد میں دورے کررہے ہیں۔ سربیا میں اپنی دلچسپ تاریخ اور جغرافیائی خوبصورتی کی وجہ  سے بھارتی سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ سربیا میں دفاعی ساز وسامان کی تیاری کے کچھ شعبوں میں بھی صلاحیت ہے۔ چونکہ بھارت اب بھارتی نجی شعبے  میں حصے دار کی اجازت دیتا ہے ، یہاں تک کہ غیرملکی کمپنیوں کو بھی دفاعی ساز وسامان کی تیاری اور خریداری میں اجازت دیتا ہے لہٰذا دونوں ملکوں کی پرائیویٹ کمپنیاں ایک دوسرے سے ہاتھ ملا سکتی ہیں اور بھارت کی نرم رو پالیسی سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں جبکہ دونوں حکومتیں مزید اقتصادی سرگرمیوں کیلئے لائحہ عمل کو مستحکم بنارہی ہیں۔ ہم نے اپنے اس دورے کے دوران متعلقہ معاہدوں پر دستخط کرکے ان کوششوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ پودوں کی حفاظت  اور پودوں کی صحت سے متعلق معاہدے سے پھلوں ، سبزیوں اور ڈبہ بند خوراک کے شعبوں میں تجارت کو بڑھاوا دینے میں مدد ملے گی۔ ہوائی خدمات سے متعلق نظرثانی شدہ معاہدے سے تجارت اور سیاحت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ رابطوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

اس مرحلے پر مجھے اس بارے میں چند الفاظ  ادا کرنے کی اجازت دیجئے کہ میری حکومت بھارت میں ، غیرملکی تاجروں اور صنعت کاروں کو راغب کرنے کیلئے کیا کررہی ہے۔ ہم 2025 تک پانچ ٹریلین ڈالر کی معیشت کی تعمیر کرنے کے عہد بند ہیں جس کی وجہ سے ہم دنیا میں تیسری سب سے بڑی صارفین مارکٹ بن جائیں گے۔ بھارت نے پچھلے دو سال کے دوران تجارت کو آسان بنانے سے متعلق عالمی بینک کے انڈیکس میں 42مقام کی چھلانگ لگائی ہے اور وہ مزید بہتری لانے کیلئے عہد بند ہے۔ ہم میک انڈیا پروگرام کے ذریعے مینوفیکچرنگ شعبے کو مضبوط بنارہے ہیں جبکہ ہمارا خدمات کا شعبہ ایک بڑا  شعبہ ہے اور یہ شعبہ ایک اعلیٰ ٹیکنالوجی والا شعبہ ہے۔ ہم پچھلے دو سال میں ڈبلیو آئی  پی او کے اختراع سے متعلق عالمی  انڈیکس میں 21 مقام اوپر آگئے ہیں۔ اسی طرح عالمی بینک کے  2016 کے لاجسٹک پرفارمنس انڈیکس میں بھی 19 مقامات اوپر آگئے ہیں۔

غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کسی ملک کے سیاسی اور اقتصادی نظام میں غیرملکی بھروسے کی عکاس ہوتی ہے اور یہ بڑے پیمانے پر ایک اعتراف ہوتا ہے۔ تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق بھارت میں ایف ڈ ی آئی کی آمد اپریل سے دسمبر 2017  کے عرصے میں 35.9  اب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔  درحقیقت غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری 14-2013 میں 36 ارب امریکی ڈالر سے بڑھ کر 17-2016 میں 60 ارب  امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔ ہمارے پاس ٹی آر آئی پی ایس کی تکمیل والا آئی پی آر نظام ہے اور ہماری کثیر جماعتی جمہوریت لازمی استحکام اور قابل پیش گوئی کی اہلیت کو یقینی بناتی ہے۔

اشیاء اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) لاگو کرنے سمیت منظم ٹیکس اصلاحات کی وجہ سے بھارت ایک شفاف جدید اور متحد مارکٹ بن کر اُبھرا ہے۔ ٹیکس دہندگان اور ٹیکس پر عمل درآمد میں بڑے پیمانے پر بہتری آئی ہے۔

لہٰذا ہم نے بھارت میں ایک مضبوط پالیسی لائحہ عمل شروع کیا ہے اور تجارت کیلئے دوستانہ ماحول  پیدا کیا ہے۔ ای۔ ویزا کا نرم رو نظام، جو ہم نے سربیا کے لوگوں کیلئے شروع کیا ہے اس سے انہیں بھارت کے سفر میں آسانی ہونی چاہئے۔

بھارت کی آزادی کے شروع کے دنوں میں ہمارے تعلقات ناوابستہ تحریک کے مشترکہ عالمی نظریات کی مضبوط بنیاد سے شروع ہوئے تھے اورہم نے تیسری دنیا کے لئے ایک بڑا پلیٹ فارم ملکر تیار کیا  تھا۔ عالمی جغرافیائی سیاست میں تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ ہم باہمی فائدوں کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ ملکر کام کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنی خوشحالی کو مشترک کریں۔2 ستمبر 1961 کو بلغراد میں ناوابستہ ملکوں کی کانفرنس میں بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے الفاظ کو دوہرا کر خوشی ہوگی ۔ ان کی یہ بات آج بھی سچ اور بروقت لگتی ہے کہ ہمیں اپنے ملکوں میں ایسے معاشروں کی تعمیر کرنی چاہئے جہاں  آزادی کی حقیقی نوعیت ہو، آزادی لازمی ہے کیونکہ آزادی سے ہمیں تقویت حاصل ہوگی اور ہم خوشحال معاشروں کی تعمیر کرنے کے اہل ہوسکیں گے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی جمہوری سیاست کو مضبوط بنائیں اور ہم اپنی حکمرانی کے ڈھانچوں میں آزادی ، مذاکرات ، سب کی شمولیت اور قانون کی بالادستی کے تصورات کو اپنائیں  ۔

مجھے اپنی بات ویدوں کی ایک قدیم بھارتی دعا کے ساتھ ختم کرنے کی اجازت دیجئے۔

’’سہاناواتو، سہانو بھنکتو، ساہاویریم کراواواہی، تیجسوینا ودیتامستو، ماں وِدوِشوہی‘‘ (آئیے ہم ساتھ چلیں ، آئیے ہم ساتھ کھائیں، آئیے ہم ساتھ ترقی کریں، آئیے ہم ساتھ علم حاصل کریں اور ایک دوسرے کو دیں، آئیے ہم ایک دوسرے سے کبھی نفرت نہ کریں۔)

یہی میری خواہش ہے جو میں آپ کے ساتھ مشترک کرنی چاہتا ہوں ، کسی ملک کے ایک نمائندے کے طور پر جو دنیا کو ایک بڑے کنبے کے طور پر دیکھتا ہے، میں سربیا کے سبھی لوگوں کیلئے  بھارت کا پیار، محبت اور نیک خواہشات لیکر آیا ہوں اور ا مید لیکر آیا ہوں کہ ہم ایک ایسی دنیا کے تئیں ملکر کام کرنا جاری رکھیں گے جو سب کی شمولیت والی ہو، ہم آہنگی والی ہو اور دیرپا ہو۔

Related posts

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More