16.3 C
Lucknow
Online Latest News Hindi News , Bollywood News

ناناجی دیش مکھ کی صدسالہ یوم پیدائش تقریبات کے موقع پر آئی اے آر آئی نئی دہلی میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

PM’s Speech at the birth centenary celebrations of Nanaji Deshmukh at IARI
Urdu News

آج لوک نائک جے پرکاش جی کی پیدائش جينتی کا موقع ہے اور آج ہی کے دن لوک نائک جے پرکاش کے قریبی ساتھی مسٹر نا نا دیشمکھ کی صد سالہ یوم پیدائش کا بھی موقع ہے. ان دونوں عظیم  شخصیات نے ان کی زندگی میں ایک ایسے عزم  کا تعارف کرایا اور جس  عظم کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو جھونک دیا اور کامیابی حاصل کرنے تک وہ زندگی کی پل پل  مادر وطن اور  وطن کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے  اپنے عزم کو  عملی  جامہ پہنانے کے لئے وہ پوری زندگی مصروف رہے۔ لوک نائک جے پرکاش جی آزادی کی تحریک میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے. 1942 میں ہندچھوڑ دو، تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی. مہاتما گاندھی، سردار پٹیل سمیت ملک کے سبھی رہنماؤں کو   انگریزی حکومت نے جیلوں میں بند کر دیا اور اس طرح ایسے وقت  میں جے پرکاش جی لوہیا جی، جیسے نوجوانوں نے آگے آ کر  اس تحریک کی باگ ڈور سنبھالی تھی اور اس عرصے کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں وہ ترغیب کا منبع بن گئے ۔ آزادی کے اس عرصے میں جے پرکاش جی لوک نائک کے طور پر نوجوان دلوں کے لئے ایک مثال کا مرکز بن گئے، لیکن ملک آزاد ہونے کے بعد بہت بڑے بڑے لوگ اقتدار کی گلیاروں میں اپنی جگہ ڈھونڈتے نظر آتے تھے. یہ جے پرکاش نارائن تھے، جنہوں نے اقتدار کی سیاست سے اپنے کو دور رکھا اور آزادی کے بعد جے پرکاش جی اور ان کی بیوی محترمہ پربھادیوی جی نے گاؤں کی ترقی کی راہ کو چنا، عوامی بہبود کے راستے کو اختیار کیا۔

نانا جی دیشمکھ کے بارے ملک  زیادہ  جانتانہیں تھا۔ ملک کے لئے انہوں نے اپنی زندگی  لگادی تھی ، لیکن جب جے پرکاش جی بدعنوانی کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، ایمرجنسی کے بعدپھر ایک بار جے پرکاش جی ملک میں پنپ رہی بدعنوانی، اعلی عہدوں پر پلے بڑھے بدعنوان اس کے خلاف دکھی ہو کر طالب علم تحریک  کے ساتھ جڑ گئے تھے۔  گجرات کے نوجوان تحریک سے ترغیب لے کر جے پرکاش جی ایک بار پھر میدان میں آ گئے اور جے پرکاش جی کے آنے کے بعد دہلی کی حکومت میں کھلبلی مچ گئی. جے پراش جی کو روکنے کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے کے لئے سازشیں  ہوتی تھیں اور پٹنہ میں ایک بار ایسی  صورت  رونما ہوئی  جب جے پراکاش جی پر عوامی پروگرام میں مارچ شروع ہوا تو جے پراش جی پر ایک بڑا حملہ ہواتھا. اس وقت ان کے بغل میں ناناجی   دیشمکھ کھڑے تھے. ناناجی نے اپنے ہاتھوں پر  اس  موت کی شکل میں آئے حملے کو جھیل لیا۔  ان کے ہاتھ  کی ہڈیاں  ٹوٹ گئیں  لیکن انہوں نے جیپرکاش جی کو چوٹ سے بچایا اور ایسا ہی واقعہ تھا کہ ملک کی توجہ ناناجی دیشمکھ کی طرف چلی گئی۔ ناناجی دیشمکھزندگی بھر  ملک کے لئے جئے.انہوں نے ایسے کپل تیار کئے، دین دیال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ ملک کے لئے جینا سیکھو، ملک کے لئے کچھ کرکے رہو، اس منتر کے  ساتھ نوجوان جوڑوں کو انہوں نے مدعو کیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے  نوجوان جوڑے آگے آئے اور  ان کو انہوں نے گاؤں کی ترقی کے کام میں  لگایا۔ جب مرارجی بھائی وزیر اعظم تھے ، ملک میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی، ناناجی دیشمکھ کو کابینہ کیلئے  مدعو کیا گیا تھا. جے پرکاش کے قدموں پر ہی نا نا نے بھی کابینہ میں شمولیت سے عاجزی کے  ساتھ انکار کیا اور خود کو سیاسی زندگی سے الگ کرکے 60 سال کی عمر کے بعد ،وہ جب تک زندہ رہے، قریب ساڑھے تین دہائی تک انہوں نے اپنی زندگی چترکوٹ کو مرکز بناکر گونڈا کو  مرکزبناکر دیہی ترقی کے لئے  اپنے آپ کو وقف کردیا۔

آج مجھے خوشی ہے کہ نا نا جی کی صدسالہ  کےجینتی  تقریبا ت کے موقع پر بھارت سرکار عظیم شخصیتوں کے خوابوں کی بنیاد پر اور مہاتما گاندھی نے جو راستہ دکھایا اس راستے پر دیہی ترقی کی سمت میں ہم کس طرح آگے بڑھیں ہمارے گاؤں خود کفیل کیسے بنیں، ہمارے گاؤں غربت سے آزاد  کیسے بنیں ، ہمارے گاؤں بیماری سے کیسے پاک ہو ں، جہاں آج بھی ذات پات کا زہر گاؤں کو بکھیردیتا  ہے، گاؤں کے خواب چور چور کردیتاہے، اس ذات پات کے جذبے سے اوپر اٹھ کر گاؤں ایک خوشحال گاؤں بنے، سب کو جوڑنے  والا گاؤں بنے اور سب مل کر گاؤں کی فلاح و بہبود کے لئے عہد بستہ رہیں. اس طرح سے گاؤں کی ترقی کو عوامی  شمولیت سے آگے  بڑھانے کی راہ میں  بھارت سرکار نے متعدداقدامات کررہی ہے۔

آج مجھے یہاں پر ملک کی دیہی زندگی کے لئے سوچنے والے، دیہی زندگی میں تعاون دینے والے، دیہی معیشت کا، دیہیزرعی زندگی  کاایسے مختلف-مختلف موضوعات پر جن  کی مہارت ہے، ایسے ملک کے تین سو سے زیادہ لوگ کل  پورا  دن مختلف گروپوں میں بیٹھے رہے، اس بات پر غور وخوض کرتے رہے  کہ کس طرح گاؤں کو جدید سیاق و سباق میں تیار کیا گیا جائے، اور پورے دن ان تجربہ کار لوگوں نے  جو منتھن  کیا اس سے جو امرت نکلا  آج ابھی ایک ویڈیو کے ذریعہ پیش کرنے کے لئے ایک کوشش ہوئی۔ لیکن میں ان تمام  تجربہ کار لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ نے کیا  غور وخوض کیا ہے اور بھارتی حکومت اس  پر غور کرے گی  اور اسے سنجیدگی سے لے گی اور اس میں سے جتنے بھی کرنے لائق کام ہیں، reference points ہیں اس کو بھارتی حکومت کی اسکیموں میں شامل  کرتے ہوئے کئی سالوں کے بعد اتنے بڑے فورم میں بھارت کی دیہی زندگی کے بارہ میں فکر اور بحث ہوئی ہے۔ لوگ ملک کے ہر کونے سے آئے ہیں. مختلف علاقوں کی نوعیت مختلف ہے؛ مسائل مختلف ہیں؛ وسائل مختلف ہیں؛ ضروریات مختلف ہیں. دلچسپی کے مطابق، رجحانات، فطرت، اگر گاؤں کی ترقی جڑ سے منسلک ہوتی ہے تو اسے پائیدار ترقی کی ضمانت دی جائے گی. باہر سے دھوپی ہوئی چیزیں ، دیہی زندگی کے اندر بہت زیادہ وقت  تک غیر ملکی  عنصر کی شکل میں جدوجہد کرتی ہیں اور کبھی کبھی دیہی زندگی میں باہر سے تھوپی ہوئی چیزوں کو قبول کرنے کی جرات نہیں جٹاپاتی. اور اس طرح ہماری کوشش یہ ہے کہ گاؤں کی اپنی جو  اپنی طاقت ہے، اپنی جو صلاحیت  ہے ، سب سے پہلے اسی کو جوڑتے ہوئے ترقی کا ماڈل بنائیں گے جو گاؤں کے لوگوں کے  مطابق ہوتا ہے، ان سے واقف ہوتا ہے۔اس میں کچھ ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے. اس کے لئے سائنسی طریقے سے اقتصادی نظریے سے  ٹیکنالوجی کے نظرئے  سے سپورٹ سسٹم کی ضرورت ہے. اور   اس کو  ہم تقویت د ے کر چلتے ہیں ، تو گاؤں آسانی سے اس سے  وابستہ  ہوجاتے ہیں. یہ گاؤں اس  ترقی کے سفر  کو اپنے کندھوں پر  اٹھالیتا ہے اور پائیدار ترقی کی ضمانت بن جاتا ہے. آپ نے جوغور وفکرکیا ہے وہ زمینی  تجربے کی بنیاد پر کیا ہے اور تجربے کی بنیاد پر کی ہوئی چیزیں .. مجھے یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں دیہی ترقی کو جس تیزی سے ہم کرنا چاہتے ہیں. ایک بات ہمیں سمجھنی ہوگی کہ  ہم ترقی کرنا چاہیں، تو اتنے  سے بات پوری نہیں ہوتی،  اگر ہم چیزوں کو وقت کی حد میں کریں. ہماری اسکیموں کو  جو ٹارگیٹ گروپ ہیں اس کیلئے سوفیصد لاگو کریں، جو ہمارے منصوبوں کے لئے فائدہ مند ہے۔ منصوبہ بندی جس مزاج سے شروع کی گئی، جس زمین پر شروع کی گئی، اس میں delusion نہ آئے diversion نہ آئے اور اس کو نافذ کرنے کےمقررہ وقت میں کوشش کریں اور وہ بھی outputپر مبنی نہیں، outcomeپرمبنی ہو. صرف ہم نے بہت زیادہ بجٹ خرچ کیا، یہ نہیں ہے اس بجٹ کا یہ ہمارا یہ ہدف تھا، یہ ہم نے پورا کیا، تواگر اس طرح سے ہم ایک comprehensive کوشش کریں گے اور وقت کی حد میں کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ 70 سال میں دیہی ترقی کی جو رفتار رہی ہے. 2022 آزادی کے 75 سال منائیں گے، تب ہماری ترقی کی رفتار اتنی تیز ہو گی کہ جو 70 سال سے خواب سنجو کر بیٹھا  ہوا میرا دیہی شخص ہے، اس کی  زندگی  میں  بھی تبدیلی لا ئی جاسکتیہے. آج گاؤں کا باشندہ بھی شہر کی زندگی جینا چاہتا ہے، جوسہولت کو شہر میں دستیاب ہے،  وہ سہولت  گاؤں میں  بھی دستیاب ہونا چاہئے. اگر شہر میں بجلی  جگماتی ہے تو گاؤں میں بھی بجلی جگمگاني چاہئے، اگر شہر کے لوگ من چاہے تب ٹی وی دیکھ سکتے ہیں تو گاؤں کے لوگ بھی دیکھ سکیں، اگر شہر کے بچے اسکول کی لیبارٹری میں جا کر تجربہ کر سکتا ہے تو گاؤں کے بچے کو بھی اسکول کے لیبارٹری میں اس کا تجربہ کرنے کا موقع بھی دینا چاہئے. اگر شہر کا بچہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کررہا ہے تو پھر یہ بھی اہم ہے کہ گاؤں کے بچے کو بھی اسی ٹیکنالوجی کی طرف سے تربیت دینے کا موقع ملنا چاہئے، انہیں ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کا بھی موقع ملنا چاہئے۔

اگرانٹرنیٹ۔۔۔آجکبھیکبھیگاؤںمیںٹیچررہنےکوتیارنہیں،ڈاکٹرراتمیںچلاجاناچاہتاہے،لیکنجوسہولیاتشہرمیںہے،ویسیاگرہمسہولیات ۔۔۔ اگرنلسےپانیآتاہے، آپٹیکل فائبر نیٹ ورک ہے،انٹرنیٹسےمنسلک ہے،چوبیسوں گھنٹےبجلیموجودہے،چولہا جلانےکےلئےگیسدستیابہے۔ اگر ان   بنیادی سہولتوں  کو بھی ہم پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو،زندگیکے معیارمیں تبدیلی آئے گی ، وہ گاؤںمیںرہنے کی لوگوں کو ترغیب دے گی۔ اگرٹیچرگاؤںمیںرہتاہے،ڈاکٹرگاؤںمیںرہتاہے،سرکاریبابوگاؤںمیںرہتاہےتوگاؤںکیزندگیمیںاسکیحاضریبھیتبدیلیکیایکبہتبڑیوجہبنتیہے،اوراسوجہسےمہاتماگاندھیجینےجوخوابدیکھاتھا،دیندیالاپادھیائےجینے  جو غورو فکر کیا تھا ، نانا جیاورجےپرکاشجی  نے جن نظریات کو لے کر  زندگی گزاری انہی اصولوں کو  لیتےہوئےہملوگوںکیبھییہکوششہےکہہمدیہیزندگیمیںتبدیلیلانےکےلئےاہمسمتمیںآگےبڑھیں۔

ہمارےملکمیںوسائلکیوجہسےہم آخری سرے کے شخصکوکچھبھینہیںدےسکتےہیں۔ آجبھارتکیحکومتمیںآنےکےبعدمیںاسسےمتفقنہیںہوں۔ اگرہندوستانکےآخریسرے کے شخص کو بھی اگر اس کے حقکا ہے  جو ا سے  پہچانا ہے۔ توملککے پا س وسائلکیکمینہیںہے۔  جو کمی محسوس ہوتی  ہے وہ اچھے انتظام   کی ہے۔ جنجنریاستوںمیں  گڈ گورننس ہے ،سرکاریمشنریمقررہوقتمیںمقررہ کامکومکملکرنےکیعادیہیںتووہاںپرتبدیلینظرآتیہےا ٓپ  دیکھئے  منریگا، اب منریگا کی ایک ایکخاصیتہے،یہگاؤںکےغریبلوگوںکوروزگاردینےکےلئےبنایاگیاہے۔ لیکنتجربہیہہےکہریاستوںمیںزیادہ سے زیادہ غربتہے، وہاں منریگا کا  کامکمہے۔ لیکنریاستوںمیںجہاںکمغربتہے،لیکناچھیحکومتہے،وہاں ریاستفعالہے۔ زیادہ سے زیادہ منصوبے تیار کرتے ہیں،  زیادہ لوگوں کو جوڑ دیتے ہیں اور زیادہ کام کرلیتے ہیں اوراسوجہسےدیہیترقیکےلئےاچھےحکمرانیپرزوردینےکےلئے ہماری  حکومت مسلسلکوششہے۔ آج جو دیشا نام کا   ڈیجیٹل ڈیش بورڈ آپ کے سامنے پیش کیا گیا  وہ ایک طرح سے اچھیگورننسکیسمتمیںایکاہمقدمہے۔ جسکیوجہسے سینٹرلی ہرچیزکومانیٹرکیاجاسکے،مقررہ  مدت میں ریویو کیاجائے،اگراسمیںخرابیاںہیں تواسکو درست کرنےکےلئے اقدامات کئے جائیں ، اور پالیسی پرابلم ہے  تو  پالیسی  درست کی جائے۔اگر پرسن پرابلم ہے توپرسن کو درست کیا جائے لیکن دیشا  اسقسمکےڈیشبورڈکیوجہسےایکتواسمانيٹری کاپورےنظامہندوستانکےتمامگاؤںکےساتھمنسلک ہوگا۔ دوسرابھارتسرکار کاجوویژنہے،ریاستیحکومتکیجواسکیمیںہےاورہماراجوپارلیمنٹ کا ممبر  اور ضلع اکائی ہے یہتماماگرترقیکویکجا کریں گے ۔ اگر ہم ترجیح دٰیں گے تو ہمیں  مطلوبہ نتائج  ضرور ملیں گےاوراسطرح،اسدیشا کےذریعہ،عوامی نمائندوںکوسرگرم طریقے سے جوڑنے کا ایکاہمکام بھارت سرکار نے کیاہے،  اس دیشا  کے ذریعہ۔   پارلیمنٹکےرکن،ضلعیونٹکےساتھبیٹھا،انسبھیمنصوبوںکاجائزہلیتے ہیں ۔ ترجیحاتوہاں کی ضرورت کےمطابق طے کرتا ہے۔چیزیںیہاں سےتھوپی نہیںجاتیہیںاوراس وجے سے  کامکوتیزکرنےمیںبڑیکامیابیملیہے۔ جمہوریتکیکامیابی صرف   کتنے لوگ   بیلٹ باکس  میں ووٹڈالتےہیں۔ بدقسمتیسےکئیبرسوں سے ہمنے   جمہوریت  کو یہاںمحدود کردیا کہ پانچبرسوںمیںایکمرتبہجانا، باکسمیںپرچہ ڈال دینا یابٹندبا دینا اورپھرجوبھیحکومتچن کر کے آئے جو بھی باڈی چن کر کے آئے  پنچایت چن کر کے جو  آئے  وہ    ہمارا  پانچسالوںمیںقسمتکافیصلہکرے گی ۔  میں سمجھتا ہوں کہجمہوریتکومحدودنہیںسوچاسکتا۔ جمہوریتکاایکاہمکاماپنیپسندکیحکومتکاانتخابکرناہے،لیکنجمہوریتکیکامیابی تب ہوتی ہے جب عوامی شراکت  داری سے ملک چلے۔عوامی شراکت داری سے گاؤں  کی ترقی ہو  عوامی شراکت داری سے شہر کی ترقی ہو   اوراسوجہسےعوامکےساتھحکومتکی بات چیت  ضروری ہے۔ زندگیکا ڈایلاگ ہونا چاہئے۔  اوپر سے نیچے کی طرف  صحیح   معلوماتکواوپرسےنیچےسےنیچےجاناچاہئے۔ اگریہ دو طرفہ  چینل  پرفیکٹ ہوتاہےتومنصوبے،پالیسیاںاوربجٹ ایلوکیشن  صحیح مطلوبہ جگہ پر ساریچیزیںہوسکتیہےاوراسطرحآجایکموبائلایپکے ذریعہ  گاؤں  کے ساتھ ڈائیلاگ کے ذریعہ ،گاؤںکاشخصاپنےموبائلفونکےذریعےسےصحیحمعلوماتاوپرتکپہنچاسکتاہےاوراوپرسےصحیحرہنمائی    آخری سرے پرکھڑے شخص  تک براہراستپہنچسکتیہےاوراس کی وجہسےوہاںمقامییونٹجوسرکاریرہتیہےانپربھیدباؤظاہرہوتاہےکیونکہگاؤں کا شخصکہتاہیںکہبابو آپ کہتے ہو یہ منصوبہ لیکنمیراموبائلفونکاکہتاہےکہیہمنصوبہہے،آپہمیںبتائیںکہہمیہاںکیوںلاگو نہیں ہوا۔ یہعوامکوبیدارکرنےکاایکبہتبڑاکام ہے۔ اسموبائلایپ کے ذریعہ ٹیکنالوجیکااستعمالکرتے،عوامکےساتھباتچیتبڑھاتےہوئے،اسکیضروریاتکوسمجھتےہوئےکامکوسمتدینا،رفتاردینااسکیسمتمیںہمکوششکررہےہیں۔

آجبھی،پورےملکمیںبہتسارےمقاماتپر افتتاحہو ا ہے۔ اسیطرح سے ،زراعتکےشعبےکا یہی پر ایک فونیمکسسینٹرکاایکبڑااہمپلانٹکا آج افتتاحکیاگیا۔ ہمارےملکمیںزراعتکےشعبےاورمویشی پروری یہ دیہیمعیشتکامرکزینقطہہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ ہماریدیہیزندگیمیںکاریگر   ہیں ، ان کا بھی دیہیمعیشتمیںبہتبڑاحصہہے۔ اوراسوجہسے، چاہے مویشی پروری ہو ، چاہے  زراعت ہو   چاہے  ہینڈلوم کا کام ہو ،  دست کاری سے  منسلک ہمارے لوگ ہوں   ان کو جوڑ کرکے     اپنی معیشت کے ستونون کو  مضبو ط کرنے کی سمت میں    ہم کام کررہے ہیں۔  2022 ہندستان کی آزادی کے  75سالملککےکسانوںکیآمدنیدوگنی  کرنے کی سمت میں ایک عزم لے کر  ہم کام کررہے ہیں۔ایکطرف کسان کیجوانپٹلاگتہےاسکی جو لاگتہےاسکوکمکرناہےاوردوسریطرفاسکیپیداوارجوہے،اس کو بڑھاناہے۔اگر ان دونوں چیزوں پر ہمچلیںگےتوہمیںٹیکنالوجیکیمددلینیہوگی۔ہمیںجدیدیتکیطرفجاناہوگا۔مویشیوںکا پالن پوشن ،مویویشیوں کی آبادی بھلے کم ہو،لیکندودھکیپیداوارزیادہہو۔فیجانور دودھ کیپیداوارمیںاضافہ ہو اس سمت میں جتنا تیزی سے آگے بڑھیں گے وہ دیہی اقتصادی صورت حال کو آگے بڑھائے گا۔ہم آج دنیا میں کمیمیکل ویکس کے بدلے میں شہد والا موم جو ہے موم ہے اس کی دنیا میں بہت مانگ بڑھ رہی ہے۔ لوگ کیمیکل ویکس سے آزادی پاکرکے  شہد کی مکھی کو جو موم ہوتا ہے اس کی طرف جارہے ہیں۔اگرہمگاؤوںمیں شہد کیمکھی پالن کوفروغ دیں،سائنسیطریقوںسےشہدکا پالن کرنا ،ہمارےکسانکےمویشی پالن کےساتھ جڑ جائیے،اضافیآمدنیکےامکاناتبڑھیں گےاورآججوبہتبڑی شہد کی مکھی کے موم کی مارکیٹ کا ہے، شہد کی مکھی کے مومکا ہے۔ کیمیکل ویکس سے لوگ آزادی  چاہتے ہیں۔بھارت اس میںبہتبڑےمارکٹکودنیامیںقبضہ کرنے کی طاقت رکھتاہے اور اس سمت میں ہمآگےجاناچاہتےہیں۔ ہمارے یہاں پر ماہی پروری کی صنعت ہو، ہمارے یہاںپرپولٹریفارمہوں،ہمارےمویشی پالن ہو،ہمارےیہاںزراعت ہو اس میں بھی ٹمبر کی کھیتی مویشی پالن کے ساتھ، کھیتی کے ساتھ ساتھ اگر کھیتی کے کنارے پر ٹمبر کی کھیتی کریں تو ملک آج ٹمبر درآمد کرتا ہے جو اس سے بچ جائے گا اور ملک کا کسان ٹمبر سے اتنی کمائی کرپائے گاکہ  اس کو کبھی گھر میں بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

پانچسے 10 سال محنتکرنےکیضرورتہوتیہےخودبخودنتائجآناشروعہوجاتےہیں،توایسی ایکجامعمربوطنقطہنظرکےساتھساتھہمکامکررہےہیں۔ہمکچھکاممقررہوقتکیحدمیں کرنے کے ارادے سےکرتے ہیں۔مجھےخوشیہےکہپہلےدیہیزندگیکے ساتھساتھایکگندگی دیہیزندگیکاحصہبنگئی تھی۔لوگسہتےرہے،انہوںنےیہی مان لیا کہ ہمارےنصیبمیں یہیلکھاہےاورآہستہآہستہجیسےجیسےبیداری آتی گئیلوگوںمیںیہتبدیلیکی شروعات ہوئی۔کھلے میں رفع حاجت سے پاک گاؤں کیماؤں-بہوں کےاحترام میںایکمہمچلرہیہے۔ٹوائلٹبنانےکی ایک مہم چلی اور وقت بہ وقت میں ٹوائلٹ بنانے کاکام چلا اور آج دھیرے دھیری صورتحال یہ آئی ہے کہ کلتکجسے ہمٹوائلٹکہتےتھے،آجہندستانمیں اترپردیش جیسے ریاستوں نے اس کا نامعزت گھر کر دیا ہے۔ٹوائلٹپرلکھاہےعزت گھر۔واقعیمیںمیںماؤں-بہنوںکےلئےاسسےبڑاکوئی تحفہنہیںہوسکتا، جو کہ ہم ٹوائلٹبناکردیتےہیں۔ہماریماؤںاوربہنوںکو رفع حاجت کے لئے کھلے میں جانا پڑے، سورج ڈھلنے تک کا انتظار کرنا پڑے اور سورج نکلنے سے پہلے جاکر آنا پڑے اور دن میں کبھی جانے کی نوبت آئی تو اس ماں بہن کو کتنی بڑی پریشانی ہوتی ہوگی۔ یہ جب تک اس احساس کو محسوس نہیں کریں گے تب تک کھلے میں رفع حاجت سے پاک کی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اسی لیے جب بھی ٹوائلٹ بنانے کی بات آئے تو ان ماں بہنوں کی پریشانی کی طرف دیکھئے تو آپ کو بھی لگے گا کہ باقی کا م چھوڑ کر ہند سرکار کی اسکیم سے ٹوائلٹ بنواؤں اور ٹوائلٹ  کااستعمال کرنے کی عادت ڈالوں۔

ڈھائی لاکھ سے زیادہ گاؤں کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہونے کے لئے آگے آئے انہوں نے کرکے دکھا یا میں ان گاؤں کو دل سے مبارکباد  دیتا ہوں کہ انہوں نے ماں بہنوں کی عزت کے لئے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور ماں بہنوں کی عزت کرنے والا گاؤں میرے لئے پاک گاؤں ہوتا ہے میں اس کو سلام کرتا ہوں۔ان گاؤں والوں کو نمن کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس اہم کو انجام دیا ہے۔

سووچھتا آج گاؤں کا فطرت بن رہی ہے اور گاؤں بھی ذمہ داری لینے لگے ہیں ۔ ہمارے کئی گاؤں آزادی کے 70 سال بعد بھی 18 ہزار گاؤں ایسے ہیں جو 18 ویں صدی میں جیتے ہیں۔ نہ بجلی کا کھمبا ہے اور نہ بجلی کا لٹو، نہ گاؤں میں کبھی بجلی دیکھی ہے ۔ ہم نے بیڑا اٹھایاہے ۔ لال قلعہ سے کہا کہ ایک ہزار د ن میں 18 ہزار گاؤں میں بجلی پہنچ جائے گی اور مجھے خوشی ہے کہ ریاستی سرکاروں نے بھی اس میں ہاتھ بٹایا اور بھارت سرکار نے بھی اس میں تیزی دکھائی ۔ آج بہت تیزی سے 18 ہزار گاؤں کے اس مقصد کو پورا کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ تقریباً 15 ہزار گاؤں میں بجلی پہنچ گئی ہے۔ اب گاؤں میں بجلی پہنچ گئی ہے تو ہم اٹکنے والے نہیں ہیں۔ اب ہمارا خواب ہے کہ گاؤں ہو یا شہر گھر ہو یا جھونپڑی ہر ایک کے گھر میں بجلی کا لٹو ہونا چاہئے۔ 24 گھنٹے بجلی ملنا چاہئے بڑا بیڑا اٹھایا ہے اس لیے غریب کنبے کو گھر میں کنکشن دینے کے لئے پہلے پیسے دینے پڑتے تھے۔ ہم نے طے کیا ہے مفت میں کنکشن دیں گے، بجلی پہنچائیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ایک بجلی آئی تو گھر میں گھرکی زندگی میں تبدیلی آئے گی۔بچوں کو تعلیم کے لئے سہولت ملے گی۔ گھر کی زندگی بدلے گی،24 گھنٹے بجلی دینے کے مقصد کے ساتھ کام کرنے کی سمت میں آج ہم آگے بڑھ رہےہیں۔

ہندستانکیدیہیزندگیکوتبدیلکرنےکےلئےہمارےجو لوگپیداوارکرتےہیں،اسشہرمیںایکفیشنکےطورپراسکیضرورتہے۔عامآدمینےاپنےہاتھسے بنائی ہوئی چیزیںاگربڑےبڑےگھروںمیںاسکاتھوڑاسابھیاستعمالہوجائے،دیہیمعیشتکوبڑیطاقتملےگی۔دیوالیکیدیئےگاؤںمیںمیرےکمہاڑکےبنائےہوئےاگرخریدی گےتووہمرے کمہاڑ کےگھرمیںدیوالیکا دیااپنے آپجلنےلگ جائے گااوریہہمارےلئےمشکلکامنہیںہے۔ہمشہرمیںرہنےوالوںکواپنیمکملزندگیکیضروریاتسےبچانےکے لئے دیہی معیشت کو آگے بڑھائیں گے تو نیاپن بھی محسوس ہوگا۔زندگیمیںخوشحالیآتیہےاوراسوجہسےشہرگاؤںکے لیےایک مارکیٹ پلیس بننا چاہئے۔صرفگاؤںسےآنےوالےاناجشہرکےلئےمارکیٹجگہبنےایسانہیں،لیکنشہرمیںپیداوارہو۔ گاؤں میں پیدا ہونے والی ہر چیز مارکیٹ پلیس بنے تو کبھی بھی میرے ملک میں گاؤں غریب نہیں رہ سکتا۔ گاؤں میں کوئی خاندان غریب نہیں رہ سکتا اور پنڈت دین دیال اپادھیائے نے جو انتودیہ کا خواب دیکھا تھا اس خواب کو ہم پورا کرسکتے ہیں۔ آج نانا جی دیشمکھ  کی صد سالہ سالگرہ میں ہند سرکار کی طرف سےایک ڈاک ٹکٹ کا بھی اجرا ءہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جب بھی یہ ڈاک ٹکٹ کے ساتھ  لوگوں کے یہاں پہنچے گاتو نانا جی کے تئیں جذبہ جاگے گا۔

مجھے یقین ہے کہ 2022 آزادی کے 75 سال پورے ہونے کے موقع پر ہر گاؤں وہ بھی ایک عہد کرے کہ 2022 تک میں میرے گاؤں کو یہ دوں گا اور میرا گاؤں ملک کو یہ دیں گے۔ میں پھر ایک بار نانا جی کو پرنام کرتا ہوں بابو جے پرکاش جی کو نمن کرتا ہوں اور سبھی گاؤں سے آئے ہوئے بیدار شہری بھائی بہنوں کو سلام کرتا ہوں اورآپ سب کا شکریہ کرتاہوں۔

Related posts

Leave a Comment

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More