نئیدہلی: مرکزی وزیر مالیات وکارپوریٹ امور جناب ارون جیٹلی نے نوٹ بندی کے نفاذ کے دوسالہ موقع پر ،’’ نوٹ بندی کے اثرات ‘‘ کے عنوان سے جو مقالہ تحریر کیا تھا ،اس کا متن حسب ذیل ہے :
جناب جیٹلی نے اپنا مقالہ ان الفاظ سے شروع کیا :
آج ہم نے نوٹ بندی کے نفاذ کے دو برس پورے کرلئے ہیں ۔نوٹ بندی دراصل معیشت کو رسمی شکل دینے کے سرکاری فیصلوں کے سلسلے کی اہم جزو کی حیثیت رکھتی ہے۔
سرکار نے سب سے پہلے بیرون ملک کے کالے دھن کو نشانہ بنایا ۔ اثاثہ مالکان سے کہا گیا کہ وہ ٹیکس کے جرمانے کی ادائیگی کرکے یہ سرمایہ ملک میں واپس لائیں ۔ جن لوگوں نے یہ کام نہیں کیا ، ان پر بلیک منی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ بیرون ملک کے تمام کھاتوں اور اثاثوں کی تفصیلا ت سرکار کو موصول ہونے کے بعد متعلقہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کی گئی۔
اس سلسلے میں ریٹرن فائل کرنے کے لئے راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کی سہولیات کے لئے اور ٹیکس کی بنیاد میں وسعت کے لئے ٹکنالوجی کا استعمال کیا گیا ۔
مالیاتی شمولیت بھی اپنے آپ میں ایک ایسا قدم ہے کہ غریب ترین اور کمزور ترین طبقات بھی بینکوں میں جن دھن کھاتو ں کے کھاتیدار ہوگئے ہیں ۔جس کے نتیجے میں بیشتر لوگ بینکوں کے نظام سے وابستہ ہوگئے ہیں ۔ آدھار کے قانون نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ سرکاری نظام کی معاونت کی راست منتقلی ، بینکوں میں سیدھے طورسے کی جاسکے ۔ جی ایس ٹی نے اس امر کو بھی یقینی بنایا ہے کہ راست ٹیکسوں کے معاملے میں ٹیکس سے متعلق عمل اور امور کو سہل بنادیا گیا ہے اوراب ٹیکس چوری کرپانا انتہائی دشوار ہوگیا ہے ۔
نقدی کا کردار :
ہندوستان اب تک نقدی کی بالادستی کی معیشت تھا ۔ سودوں کی رازداری کی اپنی اہمیت ہے ،جو بینکنگ کے نظام سے بچتے ہوئے ٹیکس چوری میں معاون ہوتی ہیں ۔جمع کرائی گئی نقدی اور مالک کی شناخت کا نتیجہ 17.42 لاکھ مشکوک کھاتے دارو ں کی شکل میں سامنے آیا ۔جس کا رد عمل غیر موثر طریقوں کے ذریعہ آن لائن سامنے آیا ۔ اس کے بعد خلاف ورزی کرنے والوں کو تادیبی اقدامات کا سامنا کرنا پڑا ۔ زبردست مقدار میں رقم جمع کرائے جانے کے نتیجے میں بینکوں کے قرض دینے کی گنجائش میں بہتری پیدا ہوئی ۔ اس میں سے بیشتر سرمایہ مزید سرمایہ کاریوں کے لئے میچول فنڈ کو منتقل کردیا گیا ، جو بعد ازاں ہمارے عمومی نظام کا حصہ بن گیا ۔
غلط فہم مباحثہ :
نوٹ بندی کی ایک کم علم تنقید یہ ہے کہ بینکوں میں جمع کی گئی ضبط شدہ رقم در اصل نوٹ بندی کا مقصد نہیں تھا جبکہ اسے رسمی معیشت میں لانے اور ٹیکس چوروں کو ٹیکس ادائیگی کے لئے مجبور کرنا نوٹ بندی کا اہم مقصد تھا۔ ملک کو نقدی سے ڈجیٹل بنانے کی سمت میں مطلوب نظام کمزور تھا۔ تاہم اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ ٹیکسوں سے حاصل شدہ سرمائے میں اضافہ ہوا بلکہ ٹیکس کی بنیاد میں بھی وسعت پیدا ہوئی ۔
ڈجیٹائزیشن پر مرتب اثرات:
2016 میں یونیفائڈ پیمنٹ انٹر فیس ( یو پی آئی ) لانچ کیا گیا تھا۔ جس میں دو موبائل سیٹوں کے درمیان ادائیگی کا حقیقی وقت شامل تھا۔ اس کے نتیجے میں سودوں کی مقدار 2016 کے صفر اعشاریہ پانچ ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2018 میں 598 ارب روپے ہوگئی ۔ یہاں پر یہ بتانا بھی مناسب ہی رہے گا کہ بھارت انٹر فیس فار منی (بی ایچ آئی ایم ) ایپ ایم پی سی آئی کے ذریعہ یوپی آئی کے استعمال کے ساتھ سودوں کی تیز رفتار ادائیگی کے لئے تیار کیا گیا تھا۔آج 1.25 کروڑلوگ اسے استعمال کررہے ہیں ۔ بی ایچ آئی ایم کے تحت کئے جانے والے سودوں کی مالیت ستمبر 2016 کے 0.02 ارب روپے سے بڑھ کر ستمبر 2018 میں 70.6 ارب روپے ہوگئی ہے ۔ مجموعی طور سے یوپی آئی سودوں کی مالیت جو ن 2017 میں 48 فیصد رہی ۔
روپے (آر یو پے اے وائی ) کارڈ ، پوائنٹ آف سیل (پی او ایس ) اور ای – کامرس دونوں میں استعمال کیا جارہا ہے ۔اس کے سودوں کی مالیت نوٹ بندی کے نفاذ سے پہلے محض 8 ارب روپے تھی ، جو ستمبر 2018 میں پی او ایس کے لئے تین ارب سے بڑھ کر ای – کامرس میں 27 ارب روپے ہوگئی ۔
آج بازار میں ویزا اور ماسٹر کارڈ کا حصہ کم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ دیسی طریقے سے تیار کئے جانے والےیو پی آئی اور آر یو پی اے کارڈ کے نظام کے نتیجے میں ہوا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈوں کے ذریعہ کی جانے والی ادائیگیوں میں یو پی آئی اورروپے کارڈ کے ذریعہ کی جانے والی ادائیگی کا حصہ بڑھ کر 65 فیصد ہوگیا ہے۔
راست ٹیکس پر اثرات :
پرنسل ٹیکس کی وصولیابی پرمرتب ہوئے ہیں ۔ جاری مالی سال 19-2018 (31 اکتوبر 2018 ) تک پرسنل ٹیکس کی وصولیابی پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 20.2 فیصد بڑھی ہے ۔ یہاں تک کہ کارپوریٹ ٹیکسوں کی وصولیابی میں 19.5فیصد اضافہ درج کیا گیا ہے۔ نوٹ بندی سے پہلے کے دو برسوں کے دوران راست ٹیکس کی وصولیابی میں علی الترتیب 6.6 اور 9 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا تھا۔ نوٹ بندی کے بعد کے دوبرسوں کے دوران ان ٹیکسوںکی وصولیابی میں ( 17-2016 میں نوٹ بندی کے اثرات مرتب ہونے سے قبل) 14.6 فیصد اضافہ درج ہوا تھا، جو بڑھ کر 18-2017 میں 18فیصد ہوگیا ۔ اسی طرح سال 18-2017 میں 6.86 کروڑ ٹیکس ریٹرن داخل کی گئی ، جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے 25 فیصد زائد ہے ۔ جاری کے دوران 31 اکتوبر 2018 تک 5.99 کروڑ ہوچکی ہے ، جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے 54.33فیصد زائد ہے۔ اس سال نئے انکم ٹیکس فائل داخل کرنے والوں کی تعداد 86.35 لاکھ ہوچکی ہے ۔ مئی 2014 میں جب یہ سرکار برسر اقتدار آئی تھی ،اس وقت انکم ٹیکس ریٹرن داخل کرنے والوں کی تعداد 3.8 کروڑ رتھی ۔ موجودہ سرکار کے ابتدائی 4 برسوں کے دوران اس میں 6.86 کروڑ کا اضافہ درج ہوا ہے ۔راست ٹیکس پر مرتب ہونے والے اثرات نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ میں نقد سودوں پر زبردست شکنجہ کس دیا ۔ اس کے نتیجے میں ڈجیٹل سودو ں کی تعداد میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔ معیشت کو ٹیکس دہندگان کے لئے رسمی اور عمومی بنائے جانے کے نتیجے میں ٹیکس دہندگان کی تعداد 6.4 ملین سے بڑھ کر 12 ملین ہوگئی یعنی جو تعداد جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل 6.4 ملین تھی ،وہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد 12 ملین ہوگئی ۔
چھوٹے ٹیکس دہندگان کو انکم ٹیکس میں دی جانے والی 97 ہزار کروڑ کی راحت اور جی ایس ٹی کے تحت جن ٹیکس دہندگان کی اندازہ کاری کی گئی تھی ، انہیں دی جانے والی 80 ہزار کروڑ روپے کی راحت سے ٹیکسوں کی وصولیابی میں اضافہ ہوا ہے ۔ راست اور بالواسطہ ٹیکس دونوں کی شرحو ں میں کمی درج ہوئی ہے ۔ لیکن ٹیکسوں کی وصولیابی میں اضافہ درج ہوا ہے ۔ ٹیکس کی بنیاد میں وسعت پیدا ہوئی ہے ۔ جی ایس ٹی سے قبل جن 334 اشیا پر ٹیکسوں کی ادائیگی کی شرح موثر طور سے 31 فیصد ہوگئی ۔