نئی دہلی، ۔آج پا ر لیمانی جمہوریت کے لئے ایک یا دگار دن ہے ۔ ودھان سو دھا کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر جمہوریہ ہند کے 14 ویں صدر کے طور پر میں اس شاندار کر نا ٹک مجلس قانون ساز سے خطاب کر رہا ہوں ۔ ذاتی طور پر بھی یہ میرے لئے ایک یا دگار دن ہے۔ کیونکہ تین ما ہ قبل آج ہی کے دن یعنی 25 جولائی 2017 کو میں نے پا ر لیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی موجودگی میں ہندوستان کے صدر کے طور پر حلف لیا تھا ۔
صدر جمہوریہ کا عہدہ سنبھا لنے کے بعد کر نا ٹک کا یہ میرا پہلا دورہ ہے ۔ میں ایسے موقع پر آیا ہوں جب ہمارا ملک اور یہ ریا ست جمہوری روایات کا جشن منا رہے ہیں ۔ آج ہم کر نا ٹک کی مجلس قانون ساز ودھان سو دھا کی ڈائمنڈ جو بلی منا رہے ہیں ۔ اس کا افتتاح اکتوبر 1956 میں پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجیندر پرساد نے کیا تھا ۔ مجھے ان کے نقش قدم پر چلنے کی خوش قسمتی حاصل ہو ئی ہے ۔ مجھے ڈاکٹر را جیندر پرساد کی آبائی ریا ست بہار میں گور نر کے طور پر خدمت کر نے کا بھی موقع ملا تھا ۔
آج ہم صرف اس عمارت کی ہی 60 ویں سا لگرہ نہیں منا رہے ہیں بلکہ مجلس قانون ساز کے دونوں ایوانوں میں ہو نے والے مباحثوں اور کر نا ٹک کے عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بنا نے کے لئے تشکیل کی جا نے والی پا لیسیوں اور پا س کئے جا نے والے قوانین کی بھی ڈائمنڈ جو بلی منا رہے ہیں ۔
قانون سازی کے 3 ڈی کے با رے میں ہم جا نتے ہیں ،یعنی مباحثہ (ڈبیٹ)، اختلاف(ڈیسنٹ)اور آخر کا ر فیصلہ (ڈیسیزن)۔ اگر ہم ان میں ایک چوتھا ڈی یعنی شا ئستگی (ڈیسنسی)بھی شا مل کر لیں تو پا نچواں ڈی یعنی جمہو ریت (ڈیمو کر یسی)حقیقت بن جا ئے گا ۔ یہ مجلس قا نو ن سازسیا سی عقائد ،ذات اور مذاہب ، صنف اور زبان سے قطع نظر کر نا ٹک کے عوام کی خواہشات ، توقعات اور امیدوں کا ایک اظہار ہے ۔ عوام کے خوابوں کو پورا کر نے کے لئے مجلس قانون ساز کے دونوں ایوانوں کی مجموعی دا نش مندی ضروری ہو تی ہے ۔
بحث و مباحثے ، کھوج بین اور خدمت کا جذبہ صرف ودھان سودھا یا سیا سی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ اس عظیم ریا ست کی مٹی میں موجود ہے ۔ کرنا ٹک ریا ست اپنی روحانیت کے ساتھ ساتھ سائنس کے لئے بھی مشہور ہے ، اس کو اپنے کسانوں کے معا ملے میں بھی ویسی ہی شہرت حاصل ہے جیسی کہ ٹیکنا لو جسٹوں کے معا ملے میں۔ ہما رے ملک کی دا نشورانہ ، ثقافتی اور با لآخر جمہوری وراثت میں اس کی خدمات بہت زیا دہ ہیں ۔
یہ جین اور بودھ روایات کی سر زمین ہے ۔ آدی شنکرآچا ریہ نے اسی ریا ست میں شرنگیری میں مٹھ قائم کیا تھا ۔ با سو آچاریہ جیسے روحانی قائدین کی قیا دت میں چلنے والی اصلاح پسند لنگا یت تحریک بھی کر نا ٹک میں ہی چلا ئی گئی تھی ۔ ان سبھی نے اپنی طرح سے قوم کی تعمیر میں اپنی خدمات انجام دی ہیں ۔
کر نا ٹک بہا در سپا ہیوں کی سر زمین ہے ۔ کرشن دیو را ئے وجے نگر ریا ست کے عظیم حکمراں تھے ۔ان کے کا ر نا موں سے ہندوستان کے لو گ آج بھی ترغیب حاصل کر تے ہیں ۔ کیمپے گوڈا بنگلوروکے با نی تھے ۔ کتور کی را نی چنما اور را نی ابّکا نے سا مراجی طا قتوں کے خلاف لڑی جا نے والی شروعاتی جنگوں کی قیا دت کی تھی ۔
ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف لڑتے ہو ئے ایک بہا در جنگجو کی طرح اپنی جا ن قربان کر د ی تھی ۔ ترقیات کے معا ملے میں بھی ان کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔ انہوں نے جنگ میں میسور راکٹ کا استعمال کیا تھا ۔ بعد میں یہ ٹیکنا لو جی یو روپی لوگوں نے اختیار کی ۔ حال ہی میں ہما ری فوج کے 2 ما یہ نا ز سربراہ فیلڈ ما رشل کے ایم کر یپّا اور جنرل کے ایس تمیّا کا تعلق بھی کر نا ٹک سے ہی تھا ۔
تعلیم ، ٹیکنا لو جی اور سا ئنس کے معا ملے میں بھی کر نا ٹک کو امتیاز حاصل ہے ۔ انجینئر سیا ست داں ایم وشویشوریا جدید کر نا ٹک اور جدید ہندوستان کے معمار تھے ۔ انہو ں نے ایسے بڑے آب پا شی پرو جیکٹ چلا ئے جن سے آج بھی کسان استفا دہ کر رہے ہیں۔بنگلورو میں ہما رے ملک کے کئی اہم ترین ادا رے بھی واقع ہیں جن میں انڈین انسٹی ٹیوشن آف سائنس اور انڈین اسپیس ریسرچ آرگنا ئز یشن شا مل ہیں ۔ بنگلورو کے صنعت کا روں کی فعا لی نے اس کو ہندوستان کی آئی ٹی کپیٹل بنا دیا ہے ۔دنیا بھر میں اسے سلیکون سٹی کے طور پر شہرت حاصل ہے ۔
دوستو!
مجلس قانون ساز کے دونوں ایوان مشترکہ طور پر اور اجتماعی طور پر کر نا ٹک کے عوام کی خواہشات اور توقعات کی نما ئندگی کر تے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ،یہ دونوں ایوان کنا ڈیگا عوام کے نظریا ت ،امید پروری، توانائی اور فعا لیت کی بھی نما ئندگی کر تے ہیں ۔ یہ عما رت کرناٹک میں عوامی خدمات کی تاریخ کی ایک یا دگا ر ہے ۔ان دونوں ایوانوں کی کا ر روائی میں کئی عظیم سیا سی شخصیات شا مل رہی ہیں ۔ انہوں نے متعدد یا دگار مباحثوں میں حصہ لیا ہے ۔
آج کی تقریب میں کر نا ٹک کے پہلے تین وزرائے اعلیٰ کے سی ریڈی ، کینگل ہنو منتھیا اور کڈیڈال منجپا کے خاندانوں کی عزت افزائی کی جا ئے گی ۔ کر نا ٹک سے تعلق رکھنے والی معزز شخصیات میں اور بھی متعدد نام شا مل ہیں جنہیں ہمیں یا د کر نا چا ہئے ۔ ان میں ایس نجالنگپا ، دیو راج ارس، بی ڈی جتی، جو بعد میں نا ئب صدر جمہوریہ بنے ، را م کرشن ہیگڑے، ایس آر بو مئی، وریندر پا ٹل ، ایس ایم کرشنا اور ہما رے سابق وزیر اعظم اور میرے دوست جناب ایچ ڈی دیو گوڑا شا مل ہیں ۔
اب یہ دونوں ایوانوں کے موجودہ ارکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان عظیم عوامی نما ئندوں کی وراثت کو آگے بڑھا ئیں ۔ قانون ساز اسمبلی اور قانون ساز کو نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہو ریت کے پا ک مندر کی طرح کا م کریں اور سیا سی اور پا لیسی سے متعلق با ت چیت کی سطح کو اوپر اٹھا نے میں تعا ون کریں ۔
ایوان کے ایک رکن کا انتخاب اس کے را ئے دہندگا ن کر تے ہیں لیکن ایک بار منتخب ہو نے کے بعد ایم ایل اے یا ایم ایل سی صرف ان لوگوں کی ہی نما ئندگی نہیں کر تے جنہوں نے ان کو ووٹ دیا تھا بلکہ پورے حلقے کی نما ئندگی کر تے ہیں ۔قانون ساز ان لوگوں کی بھی مسا وی طور پر نما ئندگی کر تے ہیں جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ ان لوگوں کی بھی نما ئندگی کر تے ہیں جنہوں نے ان کی مخالفت کی تھی ۔
الیکشن میں مقابلہ کر نے والا شخص ایک سیا سی حریف ہوتا ہے دشمن نہیں ۔ الیکشن کے بعد وہ حریف کسی حلقے یا ہما رے معا شرے کی فلا ح و بہبود کی ترقی کو یقینی بنا نے کے کا م میں ایک ساتھی بھی ہو سکتا ہے ۔ہما رے جمہوری نظام کی یہی خوبصورتی ہے اور ہمیں اس کی قدر کر نی چا ہئے ۔
دوستو!
1956 میں جب اس عما رت کا افتتاح ہوا تھا اسی وقت ریا ستوں کی تنظیم نو اور کر نا ٹک ریا ست کی حدود قائم کر نے کا کا م بھی کیا گیا تھا۔ ایک طرح سے یہ دونوں واقعات کنا ڈیگا عوام کی خود مختار ی کی خواہش ،ان کے ثقافتی اور لسانی وقار اور ان کی شناخت کی نمائندگی کر تے ہیں ۔ اس طرح سے اس ریا ست کے عوام ہمیشہ ہما ری تمام کو ششوں اور اس قانو ن ساز عما رت میں کئے جا نے والے تمام کاموں کے مر کز میں ہو تے ہیں ۔
کرنا ٹک کے خواب صرف کر نا ٹک کے ہی خواب نہیں ہیں بلکہ وہ پو رے ہندوستان کے خواب ہیں ۔ کرناٹک ہندوستانی معیشت کا ایک انجن ہے ۔ یہ ایک منی انڈیا ہے جواپنی ثقافتی اور لسا نی شنا خت کو متاثر کئے بغیر پو رے ہندوستان کے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے ۔ پو رے ہندوستان کے نوجوان یہاں پر علم حاصل کر نے اور نو کر ی کے لئے آتے ہیں اور یہاں پر محنت کر تے ہیں اور دانشمندانہ خدمات انجام دیتے ہیں ، اس سے سبھی کو فائدہ ہوتا ہے ۔
ایک زمانہ تھا جب کر نا ٹک کے شہر ہمپی کا شمار دنیا کےدولت مند ترین اور عظیم ترین شہروں میں ہو تا تھا ۔ آج جب ہمارا ملک عا لمی معیشت اور بین الاقوامی نظام میں اپنی اہمیت پھر سے حاصل کر نے کی کو شش کر رہا ہے ، ہم پھر سے کر نا ٹک کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ہندوستان کے لئے رہنما ئی ، ٹیکنا لو جی اور مقصد کی ایسی یکجو ئی فرا ہم کرا ئے جو ہمیں آگے لے جا نے میں معا ون ہو ۔ اور کرناٹک کے عوام کے نما ئندوں کے طور پر ان دونوں ایوانوں کے ارکان کی یہ خصوصی ذمہ داری بھی ہے ۔
قانو ن ساز عوام کے خادم بھی ہو تے ہیں اور قوم کے معمار بھی ۔ حقیقت میں جب کو ئی پو ری ایمانداری اور پا بندی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتا ہے تو وہ قوم کا معمار ہی ہوتا ہے ۔جنہوں نے اس عمارت کو قائم رکھا ہے وہ بھی قوم کے معمار ہی ہیں ۔
جو اسے سیکو ریٹی فرا ہم کرا تے ہیں وہ بھی قوم کے معمار ہیں ۔ پوری محنت کے ساتھ روز مرہ کے کا م انجام دینے والے عام شہریوں کی کو ششوں سے ہی قوموں کی تعمیر ہو تی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اس ودھان سودھا میں بیٹھ کر اور کا م کر کے آپ اس بات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے اور اس سے ہمیشہ تحریک حاصل کر تے رہیں گے ۔
آئیے ہم اس گولڈن جو بلی کو ایک قابل فخر ماضی کا جشن ہی نہیں بلکہ ایک عظیم مستقبل کے لئے عزم کر نے کا موقع بھی بنا ئیں ۔ کرناٹک کے لئے بھی ایک عظیم مستقبل اور ہندوستان کے لئے بھی ایک عظیم مستقبل !