نئی دہلی۔13؍جنوری، زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب رادھا موہن سنگھ نے کہا ہے کہ دیہی کنبوں میں دودھ کی پیداوار ایک بڑی اقتصادی سرگرمی بن گئی ہے اور کسان اپنی آمدنی میں اضافے کے لئے زراعت کے ساتھ ساتھ ڈیری کے کام کو بھی اپنارہے ہیں۔ جناب سنگھ نے یہ بات آج نئی دلی میں زراعت کی وزارت کی پارلیمانی مشاورتی کمیٹی کی بین اجلاس میٹنگ کے دوران کہی۔ میٹنگ کے دوران نیشنل ڈیری پلان کے نفاذ پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔
جناب رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ تقریباً 70 ملین دیہی کنبے دودھ کی پیداوار کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ چھوٹے اور معمولی کسان اور بے زمین مزدور روزانہ ایک سے تین لیٹر دودھ کی پیداوار کرتے ہیں اور ملک میں زیادہ تر دودھ کی پیداوار ان ہی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ملک میں تقریباً 78 فیصد کسان چھوٹے اور معمولی درجے کے ہیں، جن کے پاس 75 فیصد مادہ مویشی ہیں لیکن اُن کے پاس کاشتکاری والی زمین محض 40 فیصد ہے۔ دیہی کنبوں کی مجموعی آمدنی کا ایک تہائی حصہ دود ھ سےحاصل ہوتا ہے جبکہ جن کے پاس زمین نہیں ہے، ان کی مجموعی آمدنی کا نصف دودھ کی فروخت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
وزیر زراعت نے کہا کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کرنے والے ملکوں میں ہندوستان کا 1998 سے ہی پہلا مقام ہے۔ دنیا میں مویشیوں کی سب سے بڑی تعداد (18.4 فیصد) ہندوستان میں ہے۔ ہندوستان میں دودھ کی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں 1970 میں جہاں دودھ کی پیداوار 22 ملین ٹن تھی، وہ بڑھ کر 16-2015 میں 156 ملین ٹن ہوچکی ہے۔ اس طرح سے گذشتہ 46 برسوں کے دوران ملک میں دودھ کی پیداوار میں 700 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں فی کس دودھ کی دستیابی 337 گرام یومیہ ہے، جبکہ دنیا میں فی کس دودھ کی دستیابی کا اوسط 22.9 گرام یومیہ ہے۔
جناب سنگھ نے کہا کہ گذشتہ دو برسوں یعنی 2014 سے 2016 کے درمیان دودھ کی پیداوار میں 6.28 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ گذشتہ برس کی شرح نمو تقریباً چار فیصد سے زیادہ اور دنیا میں دودھ کی پیداوار کی اوسط شرح نمو 2.2 فیصد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اگر گیہوں اور دھان کی پیداوار کو ایک ساتھ بھی ملادیا جائے تب بھی 15-2014 کے مجموعی ویلیو ایڈیشن (جی وی اے) 4.92 کروڑ روپے میں دودھ کا تعاون 37 فیصد سے زیادہ ہے۔ ملک میں پیدا ہونے والا تقریباً 54 فیصد دودھ اضافی ہے، جس میں سے تقریباً 38 فیصد کا بندوبست منظم شعبے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کوآپریٹو اور نجی ڈیری تنظیموں کا اس میں مساوی حصہ ہے۔ جناب سنگھ نے کہا کہ ڈیری کے شعبے میں خواتین کی حصہ داری تقریباً 70 فیصد ہے۔
مرکزی وزیر زراعت نے کہا کہ دودھ کی پیداوار میں اضافے کی خاطر کسانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دودھ جمع کرنے کی سہولتوں کو بہتر بنایا جائے اور کسانوں کو ان کی پیداوار کی معقول قیمت ادا کی جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ایک ایسا مؤثر بندوبست سے متعلق نظام ہو جو کسانوں کو بازار سے جوڑ سکے۔ جناب سنگھ نے کہا کہ بی پی ایل کنبوں، چھوٹے اور معمولی کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ ڈیسکرپٹ دیسی نسلوں کی پرورش و پرداخت کریں۔
جناب رادھا موہن سنگھ نے کہا کہ چار موجودہ پروگراموں کو ضم کرکے 15-2014 میں نیشنل بووِن بریڈنگ اینڈ ڈیری ڈیولپمنٹ پروگرام (این پی بی بی ڈی ڈی) کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کا مقصد دودھ کی بڑھ ہوئی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے ایک جامع اور سائنٹفک پروگرام تیار کرنا ہے۔ اس پروگرام کے دو اجزا ہیں: نیشنل بووِن بریڈنگ پروگرام (این پی بی بی ) اور نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ پروگرام(این پی ڈی ڈی)۔ این پی بی بی کی توجہ مثنوعی طریقے پر مادہ منویہ کے ادخال کے نیٹ ورک کی توسیع، دیسی نسلوں کے فروغ کے پروگراموں کی نگرانی اور بریڈنگ والے علاقوں کے تحفظ پر مرکوز ہے۔ این پی ڈی ڈی کی توجہ ملک یونینوں/ فیڈریشنوں کے ڈھانچے کی تخلیق کرنے اور انہیں مضبوط کرنے پر ہے تاکہ دودھ کی پیداوار، خرید، ڈبہ بندی اور مارکیٹنگ نیز ڈیری کسانوں کی تربیت اور ڈیری کی توسیع سے متعلق کام بہتر طریقے سے انجام دئیے جاسکیں۔
جناب رادھا موہن سنگھ نے افسران کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے میں اراکین کے ذریعے دئیے گئے مشوروں کو شامل کریں اور ریسرچ کے عمل میں تیزی لائیں۔
میٹنگ میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر مملکت جناب سدرشن بھگت، رکن پارلیمنٹ لوک سبھا جناب چنتا من نوشا وناگا، جناب ایم بی راجیش، جناب روڈمل ناگر، جناب سنجے شمراؤ دھوترے، ڈاکٹر تپش منڈل ( سبھی لوک سبھا) ڈاکٹر چندرپال سنگھ یادو، جناب کے رحمٰن خان، جناب کے آر ارجُنن (سبھی راجیہ سبھا) شامل ہیں۔
محکمہ مویشی پروری، ڈیری اور ماہی پروری کے سکریٹری جناب دویندر چودھری اور وزارت نیز نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ کے سینئر اہلکار اس موقع پر موجود تھے۔