نئی دہلی، صحت و کنبہ بہبود کی وزارت نے خواتین و اطفال بہبود کی وزارت کے اشتراک سے آج یہاں صحت و تغذیاتی اقدامات پر اسپائریشنل اضلاع کے ضلع اہلکاروں کی ترغیب کےلئے ایک روزہ قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ورکشاپ کا افتتاح صحت و کنبہ بہبود کے وزرائے مملکت جناب اشونی کمار چوبے اور محترمہ انوپریہ پٹیل نے کیا۔ اس تقریب کے دوران ریاستوں کے وزرائے صحت نے صحت اور تغذیاتی امور سے متعلق اسپائریشنل اضلاع کے لئے آپریشنل گائیڈ لائنس جاری کیں اور ای-متر موبائل ایپلی کیشن لانچ کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب چوبے نے کہا کہ ملک کے لئے زیادہ تر ترقیاتی اہداف کا ظہور اسپائریشنل اضلاع سے ہوگا۔لہٰذا مساوات اور انسانی ترقی سے متعلق اشاریہ جات میں تیزی کے ساتھ بہتری کے لئے حکومت نے ان اضلاع پر اپنی توانائی مرکوز کی ہے۔
نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر ونود پال، خواتین و اطفال بہبود کی وزارت کے سیکریٹری جناب راکیش شریواستو اور صحت و کنبہ بہبود کی سیکریٹری محترمہ پریتی سودن افتتاحی تقریب میں موجود تھیں۔
اپنی تقریب میں جناب چوبے نے مزید کہا کہ اسپائریشنل ڈسٹرکٹس پروگرام کے تحت 117ا ضلاع کی نشاندہی کرکے پہلی مرتبہ اس نوعیت کا اقدام کیا گیا ہے، جس کا مقصد تیزی کے ساتھ اور مؤثر طریقے سے ان اضلاع میں یکسر تبدیلی لانا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان نے صحت اشاریہ جات کے تناظر میں زبردست پیش رفت کی ہے اور اس نے عملی طورپر ایم ڈی جی کے اہداف حاصل کی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ زچہ شرح اموات (ایم ایم آر) میں گزشتہ چند دہائیوں میں سب سے زیادہ کمی آئی ہے، جوکہ 37 پوائنٹ ہے۔13-2011ء میں جہاں بچوں کی پیدائش کے دوران فی لاکھ167 مائیں فوت ہوجاتی تھیں،وہیں 16-2014ءمیں زچگی کے دوران فوت ہوجانے والی ماؤں کی تعداد 130 رہ گئی۔ یہ کمی محض تین برسوں کے اندر آئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ 2013 سےاب تک زچہ شرح اموات میں قابل ذکر 22 فیصد کی کمی آئی ہے۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ انوپریہ پٹیل نے کہا کہ حکومت قومی صحت پالیسی 2017ء اور پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت مقررہ اہداف کو 2030ء تک حاصل کرنے کے تئیں پابند عہد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے رسائی اور معیاری خدمات کے ضمن میں متاثر کن نتائج حاصل کئے ہیں، جن کا اظہار ماؤں، نوزائیدہ بچوں اور بچوں کی اموات میں کمی اور سبھی کے لئے بہتر صحت سہولیات کی شکل میں ہوا ہے۔
محترمہ انوپریہ پٹیل نے مزید کہا کہ عدم توازن کو دور کرنے کے مقصد سے حکومت نے 117 اسپائریشنل اضلاع کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ پروگرام کے نفاذ میں پیہم اور زبردست کوششوں ،نگرانی اور سپورٹ سے صحت اور تغذیاتی اشاریہ جات میں بہتری آئے گی اور یہ بات یقینی بنے گی کہ سبھی لوگوں کی اعلیٰ معیار کی صحت خدمات تک یکساں رسائی ہو۔انہوں نے کہا کہ عزت مآب وزیر اعظم ہند نے اسپائریشنل ڈسٹرکٹس کی اصطلاح وضع کی ہے، جس سے ان اضلاع میں کلیدی اشاریہ جات میں بہتری لانے کے تئیں حکومت کے عزم کی توثیق ہوتی ہے، تاکہ 2022ء تک نیو انڈیا کا تصور شرمند تعبیر ہوسکے۔
نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال نے کہا کہ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ کیونکہ اپسائریشنل اضلاع سے ملک کے 20 فیصد جغرافیائی رقبے اور 20 فیصد ملکی آبادی کی نمائندگی ہوتی ہے۔انہوں نے ان اضلاع میں مزید اقدامات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں لوگوں کے موومنٹ کی ضرورت ہے، تاکہ ہم لوگوں تک پہنچ سکیں اور زمینی سطح پر مطلوبہ خدمات دستیاب کرسکیں۔محترمہ پریتی سودن نے ہر سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔انہوں نے صفائی ستھرائی پر خصوصی زور دیتے ہوئے کہا کہ بہتر صحت نتائج کے حصول کے لئے اس سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
قابل ذکر ہے کہ تیزی کے ساتھ یکسر تبدیلی اور شمولیت پر مبنی ترقی کے لئے 117 اضلاع کی نشاندہی کی گئی ہے۔ری پروڈکٹیو میٹرنل نیوبورن چائلڈ اینڈ ایڈولسینٹ ہیتلھ(آ رایم این سی ایچ+اے) پروگرام ایک اہم ستون ہے، جسے اسپائریشنل ڈسٹرکٹس پروگرام کے تحت مضبوط کیا جائے گا۔
اسپائریشنل اضلاع سے متعلق آپریشنل گائیڈلائنس متعدد صحت اقدامات سے متعلق کارروائیوں کے نفاذ کے لئے لائحہ عمل کا کام کریں گی، جن سے ریاست ، ضلع، بلاک پروگرام ، افسروں اور دیگر متعلقین کو صحت سے متعلق تصور کے حصول سے متعلق اقدامات کرنے میں رہنمائی حاصل ہوگی۔
ای-متر(موبائل انٹیگریٹیڈٹول کٹ آر ایم این سی ایچ +اے)اسپائریشنل ڈسٹرکٹس پروگرام کی اعانت کے لئے تیار کیا گیا ہے، جو مختلف نقطہ نظر سے، مختلف ذرائع سے آر ایم این سی ایچ +اے سے متعلق اعدادو شمار تک ون اسٹاپ سالیوشن سہولت دستیاب کراتا ہے۔
اس ورکشاپ میں وزارت صحت،خواتین و اطفال بہبود کی وزارت، این ایچ ایس آر سی کے سینئرافسروں ، 28 ریاستوں کے نمائندوں ، 117اسپائریشنل اضلاع کے اہلکاروں اور ڈبلیو ایچ او، یونیسیف، یو ایس اے آئی ڈی، بی ایم جی ایف ، ٹاٹا ٹرسٹ اور یو این ایف پی اے وغیرہ جیسے ترقیاتی شراکت داروں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے شرکت کی۔