نئی دہلی، وزیر اعظم نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے چوتھے انڈیا انرجی فورم سی ای آر اے ویک کا افتتاحی خطبہ دیا۔ اس ایڈیشن کا موضوع تھا ’’تبدیل ہونے والی دنیا میں بھارت کی توانائی کا مستقبل‘‘۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت توانائی سے بھرپور ہے اور اس کا توانائی کا مستقبل درخشاں اور محفوظ ہے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مختلف چیلنجوں کے باوجود مثلاً توانائی کی مانگ میں تقریباً ایک تہائی کی کمی، قیمتوں کے موجودہ عدم استحکام، سرمایہ کاری کے فیصلوں پر اثرات اور آئندہ چند برسوں تک عالمی توانائی کی مانگ میں کمی کے باوجود بھارت کو توانائی استعمال کرنے والا ایک سرکردہ ملک سمجھا گیا ہے اور لمبی مدت میں اس کی توانائی کی کھپت تقریباً دو گنی ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ جہاں تک اندرون ملک ہوا بازی کا تعلق ہے، بھارت کو تیزی سے بڑھنے والا ہوا بازی کا تیسرا سب سے بڑا ملک سمجھا جارہا ہے اور 2024 تک بھارت کی فضائی کمپنیوں کے بڑے کے سائز میں 600 سے 1200 تک کے اضافے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت کویقین ہے کہ توانائی تک رسائی سستی اور قابل بھروسہ ہونی چاہئے۔ یہ اس وقت ہوگا جب سماجی اقتصادی تبدیلی عمل میں آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ توانائی کا شعبہ لوگوں کو بااختیار بناتا ہے اور ’’زندگی کی آسانی‘‘ کو مزید فروغ دیتا ہے۔ انھوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے سرکاری اقدامات کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان اقدامات سے خاص طورپر دیہی لوگوں ، متوسط طبقے اور خواتین کو مدد ملی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت کے توانائی کے منصوبے کا مقصد دیرپا ترقی کے عالمی عہد کے تئیں بھارت کی مکمل پابندی کے ساتھ توانائی کے انصاف کو یقینی بناناہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے لوگوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوگی جس میں کاربن کا اخراج کم ہو۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کا توانائی کا شعبہ ترقی پر مرتکز، صنعت دوست اور ماحول کا احساس کرنے والا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ بھارت قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے والے انتہائی سرگرم ملکوں میں شامل ہے۔
وزیر اعظم نے ان اقدامات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے بھارت صاف ستھری توانائی کی سرمایہ کاری کے سلسلے میں ایک انتہائی پرکشش ابھرتی ہوئی مارکیٹ بن گیا ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے 6 برسوں کے دوران 36 کروڑ سے زیادہ ایل ای ڈی بلبوں کی تقسیم، ایل ای ڈی بلب کی لاگت میں 10 گنا کمی اور 1.1 کروڑ سے زیادہ اسمارٹ ایل ای ڈی اسٹریٹ لائٹوں کی تنصیب۔ انھوں نے کہا کہ ان اقدامات کی بدولت ہر سال 60 ارب یونٹ بجلی بچائی جاسکی ہے۔ سالانہ 4.5 کروڑ ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی ا ٓکسائیڈ کے اخراج میں کمی آئی ہے اور سالانہ تقریباً 24000 کروڑ روپئے کی بچت ہوئی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت عالمی وعدے کی پابندی کے راستے پر اچھی طرح گامزن ہے۔ انھوں نے کہا کہ 2022 تک قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو 175 جی ڈبلیو تک بڑھانے کے ہدف میں مزید توسیع کرکے اسے 2030 تک 450 جی ڈبلیو کردیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس حقیقت کے باوجود صنعتی طور پر ترقی یافتہ باقی دنیا کے مقابلے کاربن کا اخراج کم کرنے والے ملکوں میں سے بھارت ایک ہے۔ ہم آب وہوا کی تبدیلی کے سلسلے میں اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پچھلے 6 برسوں کے دوران توانائی کے سیکٹر میں اصلاحات کی رفتارتیز رہی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں شروع کی گئی بہت سی اہم اصلاحات کا ذکر کیا مثلاً تلاش اور لائسنسنگ کی پالیسی میں اصلاحات، توجہ ’مالیے‘ سے ہٹا کر‘پیداوار‘ کو زیادہ سے زیادہ کرنے ، زیادہ شفاف اور زیادہ معقول طریقہ کار اور تیل صاف کرنے کی صلاحیت کو تقریباً 250 سے بڑھا کر 2025 تک ہر سال 400 ملین میٹرک ٹن کرنا۔ انھوں نے کہا کہ اندرون ملک گیس کی پیداوار میں اضافہ حکومت کی ایک اہم ترجیح رہی ہے۔ اور قوم کو گیس پر مبنی معیشت میں بدلنے کے لیے ’ون نیشن ون گیس گرڈ‘ کے ذریعے اسے حاصل کیا جائے گا۔
وزیر اعظم نے کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ خام تیل کی قیمتوں کو زیادہ ذمے دارانہ بنائیں۔ انھوں نے کمیونٹی پر زور دیا کہ وہ تیل اور گیس دونوں کے لیے زیادہ شفاف اور لچکدار مارکیٹ کی تشکیل کے لیے کام کریں۔ انھوں نے کہا کہ اندرون ملک قدرتی گیس کی پیداوار میں اضافے اور گیس کی دریافت کی مارکیٹ قیمت میں یکسانیت کے لیے حکومت نے قدرتی گیس کی مارکیٹنگ اصلاحات کی ہیں جن کی وجہ سے ای-نیلامی کے ذریعے قدرتی گیس کی فروخت میں مارکیٹ کی زیادہ آزادی حاصل ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ بھارت کا پہلا قومی سطح کا خود کار گیس ٹرینڈنگ پلیٹ فارم اس سال جون میں شروع کیا گیا تھا جس میں گیس کی مارکیٹ قیمت کا پتا لگانے کے لیے ایک معیاری طریقہ کار شامل کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت ’آتم نربھر بھارت‘ کے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خود کفیل بھارت عالمی معیشت کو آگے بڑھانے کی ایک طاقت ثابت ہوگا اور توانائی کی مسلسل فراہمی ان کوششوں میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اس چیلنج بھرے زمانے میں تیل اور گیس ویلیو چین میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح کی علامتیں دوسرے شعبوں میں بھی نظر آرہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حکومت عالمی توانائی ایجنسیوں کے ساتھ اسٹرٹیجک اور جامع توانائی معاہدے کر رہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھارت کی پڑوسی پہلے پالیسی کے ایک حصے کے طور پر باہمی فائدے کے لیے ہمارے پڑوسی ملکوں کے ساتھ توانائی کی راہداریاں ترجیحی بنیاد پر قائم کی جارہی ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ سورج دیوتا کے راتھ کو کھینچنے والے سات گھوڑوں کی طرح بھارت کی توانائی کے منصوبے میں بھی سات اہم نکات شامل ہو ں گے۔ جو اس طرح ہیں:
1۔ گیس پر مبنی معیشت کو آگے لے جانے کے لیے کوششوں میں تیزی لانا۔
2۔ ایندھن خاص طور پر پیٹرولیم اور کوئلے کا زیادہ صاف استعمال۔
3۔ بائیو ایندھنوں کے استعمال کے لیے اندرون ملک ذرائع پر اور زیادہ انحصار۔
4۔ 2030 تک قابل تجدیدتوانائی کے 450 جی ڈبلیو نشانے کو حاصل کرنا۔
5۔موٹر گاڑیوں کے کاربن کے اخراج کو ختم کرنے کے لیے موٹر گاڑیوں سے بجلی سے چلنے کو ترقی دینا۔
6۔ ہائیڈروجن سمیت ابھرتے ہوئے ایندھنوں کا استعمال۔
7۔ توانائی کےتمام سیکٹروں میں ڈیجیٹل اختراع۔
انھوں نے کہا کہ زبردست توانائی کی جو پالیسیاں پچھلے 6 سال سے روبہ عمل لائی گئی ہیں انس کا سلسلہ جاری رہے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ انڈیا انرجی فورم- سی ای آر اے ویک صنعت ، حکومت اور معاشرے کے مابین ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہا ہے۔ انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ اس کانفرنس کے مذاکرات توانائی کے بہتر مستقبل کے لیے مفید ثابت ہوں۔