نئی دلّی: وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پانی کے عالمی دن کے موقع پر ‘ جل شکتی ابھیان : کیچ دا رین ’ مہم کا آغاز کیا ۔ کین بیتوا لنک پروجیکٹ کے نفاذ کے لئے ، جو دریاؤں کو مربوط کرنے سے متعلق قومی منصوبے کا پہلا پروجیکٹ ہے ، وزیر اعظم کی موجودگی میں مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کے وزرائے اعلیٰ نے معاہدے کی عرضداشت ( ایم او اے ) پر دستخط کئے ۔ وزیر اعظم نے راجستھان ، اترا کھنڈ ، کرناٹک ، مہا راشٹر اور گجرات میں سرپنچوں اور وارڈ کے پنچوں کے ساتھ بات چیت بھی کی ۔
اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پانی کے بین الاقوامی دن کے موقع پر ‘ کیچ دا رین ’ مہم کو متعارف کرائے جانے کے ساتھ ساتھ کین – بیتوا رابطہ نہر کے لئے بھی ایک اہم قدم اٹھایا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ اٹل جی کے ، اُس خواب کو پورا کرنے کے لئے بہت اہم ہے ، جو اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے لاکھوں خاندانوں کے مفاد میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی کفالت اور پانی کے موثر بندوبست کے بغیر تیز تر ترقی ممکن نہیں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی ترقی اور بھارت کی خود کفالت کا ویژن ہمارے آبی مسائل اور آبی کنکٹیویٹی پر منحصر ہے ۔
وزیر اعظم نے ، اِس بات کو اجاگر کیا کہ بھارت کی ترقی کے ساتھ ساتھ پانی کے بحران کا چیلنج بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی موجودہ نسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حکومت نے اپنی پالیسیوں اور فیصلوں میں پانی کی حکمرانی کو ترجیح دی ہے ۔ پچھلے 6 برسوں کے دوران ، اِس سلسلے میں کئی اقدامات کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا ، ہر کھیت کے لئے پانی کی مہم – ہر کھیت کو پانی ، فی بوند زیادہ فصل مہم اور نمامی گنگے مشن ، جل جیون مشن یا اٹل بھوجن یوجنا کا ذکر کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اِن تمام اسکیموں پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے ۔
وزیر اعظم نے ، اِس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بھارت جتنے بہتر طریقے سے بارش کے پانی کو منضبط کرے گا ، زیر زمین پانی پر ملک کا انحصار اُتنا ہی کم ہو گا ۔ اِس لئے ‘ کیچ دا رین ’ جیسی مہم کی کامیابی بہت اہم ہے ۔ انہوں نے اِس بات کو اجاگر کیا کہ جل شکتی ابھیان میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں کو شامل کیا گیا ہے ۔ انہوں نے آنے والے مانسون کے دنوں میں پانی کے تحفظ کی کوششوں میں اضافہ کرنے پر زور دیا ۔ سرپنچوں اور ڈی ایم / ڈی سی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ، وزیر اعظم نے کہا کہ ‘ جل شپتھ ’ ، جو پورے ملک میں منعقد کی جا رہی ہے ، ہر شخص کا عہد اور اس کی فطرتِ ثانیہ بننی چاہیئے ۔ انہوں نے کہا کہ جب پانی سے متعلق ہماری فطرت میں تبدیلی ہو گی تو قدرت بھی ہماری مدد کرے گی ۔
وزیر اعظم نے اِس بات کو اجاگر کیا کہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے ( رین ہارویسٹینگ ) کے علاوہ ، ہمارے ملک میں دریاؤں کے پانی کے بندوبست پر بھی کئی دہائیوں سے تبادلۂ خیال کیا جا رہا ہے ۔ ملک کو پانی کے بحران سے بچانے کے لئے ، اب یہ ضروری ہو گیا ہے کہ اس سمت میں تیزی سے کام کیاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ کین – بیتوا لنک پروجیکٹ ، اِسی ویژن کا ایک حصہ ہے ۔ انہوں نے اِس پروجیکٹ کو حقیقت میں بدلنے کے لئے اتر پردیش اور مدھیہ پردیش دونوں حکومتوں کی ستائش کی ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ صرف ڈیڑھ سال پہلے تک ہمارے ملک میں 19 کروڑ دیہی کنبوں میں صرف ساڑھے تین کروڑ کنبوں کو ہی پائپ کے ذریعے پینے والا پانی میسر تھا ۔ انہوں نے اِس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ جل جیون مشن کے آغاز کے بعد تقریباً 4 کروڑ نئے خاندانوں کو ، اِس مختصر مدت میں پینے کے پانی کے لئے پائپ کے کنکشن فراہم کئے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عوامی شرکت اور مقامی حکمرانی کے ماڈل جل جیون مشن کی بنیاد ہیں ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ حکومت پانی کی ٹسٹنگ سے متعلق اتنی سنجیدگی کے ساتھ کام کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی ٹسٹنگ کی اِس مہم میں دیہی بہنوں اور بیٹیوں کو فریق بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کورونا کے دور میں ہی تقریباً 4.5 لاکھ خواتین کو پانی کی ٹسٹنگ کی تربیت دی گئی ہے ۔ ہر گاؤں میں پانی ٹسٹ کرنے کے لئے کم از کم 5 تربیت یافتہ خواتین پہنچ رہی ہیں ۔ وزیر اعظم نے کہا کہ پانی کی حکمرانی میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کے ساتھ یقیناً بہتر نتائج حاصل ہوں گے ۔
نئی دہلی، 22/مارچ 2021 ۔مرکزی کابینہ کے میرے معاون جناب گجیندر سنگھ شیخاوت جی، مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ جناب شیوراج سنگھ چوہان جی، اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، جل شکتی کے وزیر مملکت جناب رتن لال کٹاریہ جی، الگ الگ ریاستوں اور اضلاع کے سبھی معزز افسران، ملک کے گاؤں گاؤں سے جڑے اور اس تحریک کو چلانے کا سب سے بڑی ذمہ داری جس کی ہے، ایسے پنچ اور سرپنچ حضرات، دوسرے سبھی عوامی نمائندے، میرے پیارے بھائیو اور بہنو!
آج میری خوش بختی ہے کہ مجھے ہندوستان کے الگ الگ کونے میں ہمارے گاؤں کے جو لیڈر ہیں وہ قدرت کے لئے، پانی کے لئے، وہاں کے عوام کی بہبود کے لئے، کیسے ایک سادھک کی طرح سادھنا کررہے ہیں، سب کو جوڑ کرکے آگے بڑھ رہے ہیں، مجھے ان سب کی باتیں سن کر کے ایک نئی تحریک ملی، نئی توانائی ملی اور کچھ نئے خیالات بھی ملے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارےنمائندوں سے آج جو باتیں ہوئی ہیں، جن جن لوگوں نے سنی ہوگی، ہر کسی کو کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملا ہوگا۔ مجھے بھی سیکھنے کو ملا ہے۔ ہمارے افسران کو بھی سیکھنے کے لئے ملا ہے، عوام کو بھی سیکھنے کے لئے ملے گا۔
مجھے خوشی ہے کہ جل شکتی کے تئیں بیداری بڑھ رہی ہے، کوشش بڑھ رہی ہے۔ آج بین الاقوامی یوم آب ہے، پوری دنیا آج پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے بین الاقوامی یوم آب منارہی ہے۔ اس موقع پر ہم دو انتہائی اہم کاموں کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ آج ایک ایسی مہم کی شروعات ہورہی ہے جس کو میں نے میری من کی بات میں بھی کہا تھا، لیکن آج دنیا کے سامنے ایک مثال قائم ہو، اس لئے اور بھارت میں پانی کے مسئلے کا حل ہو، اس لئے ’کیچ دی رین‘ کی شروعات کے ساتھ ہی کین-بیتوا لنک نہر کے لئے بھی بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔ اٹل جی نے اترپردیش اور مدھیہ پردیش کے لاکھوں کنبوں کے مفاد میں جو خواب دیکھا تھا، اسے عملی شکل دینے کے لئے آج معاہدہ ہوا ہے اور یہ بہت بڑا کام ہوا ہے۔ اگر آج کورونا نہ ہوتا اور اگر ہم جھانسی میں آکر، بندیل کھنڈ میں آکر چاہے اترپردیش ہو یا مدھیہ پردیش ہو، آج یہ پروگرام کرتے تو لاکھوں لوگ آتے اور ہمیں آشیرواد دیتے، اتنا بڑا اہم یہ کام ہورہا ہے۔
بھائیو اور بہنو!
اکیسویں صدی کے بھارت کے لئے پانی کی خاطرخواہ دستیابی بہت اہم عامل ہے۔ پانی ہر گھر، ہر کھیت کی ضرورت تو ہے ہی، زندگی کے، معیشت کے ہر پہلو کے لئے بھی یہ بہت ضروری ہے۔ آج جب ہم تیز رفتاری سے ترقی کی بات کررہے ہیں، کوشش کررہے ہیں تو یہ آبی تحفظ کے بغیر، مؤثر آبی بندوبست کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ بھارت کی ترقی کا تصور، بھارت کی خودکفالتی کا تصور، ہمارے آبی وسائل پر منحصر ہے، ہماری واٹر کنیکٹیوٹی پر منحصر ہے۔ اس بات کی سنجیدگی کو سمجھ کر دہائیوں پہلے ہمیں اس سمت میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت تھی اور میں آپ کو گجرات کے تجربات کی روشنی میں کہتا ہوں کہ اگر ہم منصوبہ طریقے سے عوامی شراکت داری کے ساتھ پانی بچانے کی پہل کریں گے تو ہمیں پانی کوئی مسئلہ نہیں لگے گا، پانی ہمارے سامنے پیسوں سے بھی زیادہ قیمتی طاقت کے طور پر ابھرکر آئے گا۔ یہ کام بہت پہلے ہونا چاہئے تھا، لیکن بدبختی سے جتنی مقدار میں ہونا چاہئے، جتنے بڑے پیمانے پر ہونا چاہئے، ایک ایک شخص کی شراکت داری سے ہونا چاہئے، اس میں کہیں نہ کہیں کمی رہ گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے بھارت ترقی کی راہ پر بڑھ رہا ہے، پانی کے بحران کا چیلنج بھی اتنا ہی بڑھتا جارہا ہے۔ اگر ملک میں پانی کی بچت پر توجہ نہیں دی، پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال نہیں روکا تو آنے والی دہائیوں میں صورت حال بہت بگڑ جائے گی اور ہمارے آباء و اجداد نے ہمیں پانی دیا ہے، یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ہمیں پانی محفوظ کرکے جانا چاہئے۔ اس سے بڑی کوئی نیکی نہیں ہے اور اس لئے ہم طے کریں کہ ہم پانی کو برباد نہیں ہونے دیں گے، ہم پانی کا بیجا استعمال نہیں ہونے دیں گے، ہم پانی کے ساتھ مقدس رشتہ رکھیں گے۔ یہ ہماری پاکیزگی پانی کو بچانے کے کام آئے گی۔ یہ ملک کی موجودہ نسل کی ذمے داری ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے ابھی سے اپنی ذمہ داری نبھائے۔
بھائیو اور بہنو!
ہمیں موجودہ صورت حال کو بدلنا بھی ہے اور مستقبل کے بحران کا ابھی سے حل بھی تلاش کرنا ہے، لہٰذا ہماری حکومت نے واٹر گورنینس کو اپنی پالیسیوں اور فیصلوں میں ترجیحی مقام پر رکھا ہے۔ گزشتہ 6 سال میں اس سمت میں متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔ پردھان منتری کرشی سینچائی یوجنا ہو یا ہر کھیت کو پانی مہم کو، ’پر ڈراپ مور کراپ‘ مہم ہو یا نمامی گنگے مشن، جل جیون مشن ہو یا اٹل بھوجل یوجنا، سبھی پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔
ساتھیو!
ان کوششوں کے درمیان، یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ ہمارے ملک میں بارش کا زیادہ تر حصہ برباد ہوجاتا ہے۔ بھارت بارش کے پانی کا جتنا بہتر بندوبست کرے گا اتنا ہی زیر زمین پانی پر ملک کا انحصار کم ہوگا لہٰذا ’کیچ دی رین‘ جیسی مہم کو چلایا جانا اور اسے کامیاب بنانا بہت ضروری ہے۔ اس بار جل شکتی مہم میں خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں شہری اور دیہی دونوں علاقوں کو شامل کیا جارہا ہے۔ مانسون آنے میں ابھی کچھ ہفتوں کا وقت ہے، اس لئے اس کے لئے ہمیں ابھی سے پانی کو بچانے کی تیاری زوروں پر کرنی ہے۔ ہماری تیاریوں میں کمی نہیں رہنی چاہئے۔ مانسون کے آنے سے پہلے ہی ٹینکوں کی، تالابوں کی صفائی ہو، کنوؤں کی صفائی ہو، مٹی نکالنا ہو تو وہ کام ہوجائے، پانی جمع کرنے کی ان کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے، بارش کا پانی بہہ کر آنے میں اس کے راستے میں کہیں رکاوٹ ہو تو اس کو دور کرنا ہے۔ اس طرح کے سبھی کاموں کے لئے ہمیں پوری طاقت لگانی ہے اور اس میں بہت بڑی انجینئرنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بہت بڑے انجینئر آکر کاغذ پر بہت بڑا ڈیزائن بنادیں، ایسا ضروری نہیں ہے۔ گاؤں کے لوگوں کو یہ باتیں معلوم ہیں، وہ بڑی آسانی سے کرلیں گے، کوئی کرانے والا چاہئے، بس اور اس میں ٹیکنالوجی کا جتنا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ میں تو چاہوں گا اب منریگا کا ایک ایک پیسہ، ایک ایک پائی بارش آنے تک صرف اسی کام میں لگے۔
پانی سے متعلق جو بھی تیاریاں کرنی ہیں، منریگا کا پیسہ اب کہیں اور نہیں جانا چاہئےاور میں چاہوں گا کہ اس مہم کو کامیاب بنانے میں سبھی اہل وطن کا تعاون ضروری ہے۔ آپ سبھی سرپنچ حضرات، سبھی ڈی ایم، ڈی سی اور دوسرے ساتھیوں کا بھی بہت بڑا رول ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آج اس کے لئے خصوصی گرام سبھائیں بھی منعقد کی گئی ہیں اور جل شپتھ بھی دلائی جارہی ہے۔ یہ جل شپتھ یعنی پانی کے تعلق سے حلف ایک ایک فرد کا عزم بھی بننا چاہئے۔ ایک ایک فرد کا مزاج بھی بننا چاہئے۔ پانی کو لے کر جب ہماری فطرت بدلے گی تو قدرت بھی ہمارا ساتھ دے گی۔ ہم نے بہت بار سنا ہے کہ اگر فوج کے لئے کہا جاتا ہے کہ امن کے وقت جو فوج جتنا زیادہ پسینہ بہاتی ہے جنگ کے وقت خون اتنا ہی کم بہتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ضابطہ پانی پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ اگر ہم بارش کے پہلے محنت کرتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں، پانی بچانے کا کام کرتے ہیں تو خشک سالی کے سبب جو اربوں کھربوں کا نقصان ہوتا ہے اور دیگر کام رک جاتے ہیں، عام انسانوں کو مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مویشیوں کو نقل مکانی کرنی پڑتی ہے، یہ سب بچ جائے گا۔ اس لئے جیسے جنگ میں امن کے وقت پسینہ بہانا ہی منتر ہے، ویسے ہی زندگی بچانے کے لئے بارش سے پہلے جتنی زیادہ محنت کریں گے اتنا ہی بھلا ہوگا۔
بھائیو اور بہنو!
بارش کے پانی کے تحفظ کے ساتھ ہی ہمارے ملک میں ندی کے پانی کے بندوبست پر بھی دہائیوں سے بحث ہوتی رہی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کئی جگہ پر ڈیم بنے ہیں، لیکن ڈی سیلٹنگ یعنی تلچھٹ کو ہٹانے کا کام ہی نہیں ہوا ہے۔ اگر ہم تھوڑا ڈی سلٹنگ کریں، اس میں ذرا جو انجینئر ہیں ان کی رہنمائی میں کرنا چاہئے تو بھی پانی زیادہ رکے گا، زیادہ رکے گا تو زیادہ دن چلے گا اور اس لئے اسی طرح سے ہماری یہ ندیاں، ہماری نہریں، یہ ساری چیزیں ہیں، بس کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو پانی کے بحران سے بچانے کے لئے اس سمت میں اب تیزی سے کام کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ کین-بیتوا لنک پروجیکٹ بھی اسی تصور کا حصہ ہے۔ میں مدھیہ پردیش اور اترپردیش، وہاں کے دونوں وزرائے اعلیٰ، دونوں حکومتوں اور دونوں ریاستوں کے عوام، آج میں ان کو جتنی مبارک باد دوں، اتنا ہی کم ہے۔ آج ان دو لیڈروں نے ان دو حکومتوں نے اتنا بڑا کام کیا ہے جو ہندوستان کے پانی کے روشن مستقبل کے لئے اسے سنہرے باب میں رقم کیا جائے گا۔ یہ معمولی کام نہیں ہے، یہ صرف ایک کاغذ پر انھوں نے دستخط نہیں کیا ہے، انھوں نے بندیل کھنڈ کی قسمت کی لکیر کو آج ایک نئی شکل دی ہے۔ بندیل کھنڈ کی قسمت کی لکیر بدلنے کا کام کیا ہے اور اس لئے یہ دونوں وزرائے اعلیٰ، ان دونوں ریاستوں کی حکومتیں، دونوں ریاستوں کے عوام بہت بہت مبارک باد کے مستحق ہیں۔ لیکن میرے بندیل کھنڈ کے بھائیو! آپ کی بھی ذمے داری ہے، اس کام میں اس قدر منہمک ہوں، اس قدر منہمک ہوں کہ بین- بیتوا کا کام ہماری آنکھوں کے سامنے پورا ہوجائے اور پانی ہمیں دکھائی دینے لگے۔ ہمارے کھیت ہرے بھرے لگنے لگیں۔ آئیے مل کر کام کریں ہم۔ اس پروجیکٹ سے متعدد اضلاع کے لاکھوں لوگوں کو، کسانوں کو پانی تو ملے گا ہی، اس سے بجلی بھی پیدا کی جائے گی، یعنی پیاس بھی بجھے گی اور ترقی بھی ہوگی۔
بھائیو اور بہنو!
جب کوشش بڑی ہو تو ہر ہدف حاصل ہوتا ہی ہے۔ اور آج ہم ملک میں جل جیون مشن میں بھی ایسا ہی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ صرف ڈیڑھ سال پہلے ہمارے ملک میں 19 کروڑ دیہی کنبوں میں صرف ساڑھے تین کروڑ کنبوں کے گھر نل سے پانی آتا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ جل جیون مشن شروع ہونے کے بعد اتنے کم وقت میں ہی تقریباً 4 کروڑ نئے کنبوں کو نل کا کنکشن مل چکا ہے۔ اس مشن کی بھی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اصل میں عوامی شراکت داری ہے، لوکل گورنینس کا ماڈل ہے اور میں تو کہوں گا اور میں اپنے تجربہ سے یہ کہتا ہوں، یہ جل جیون مشن میں جتنی زیادہ تعداد میں بہنیں آگے آئیں گے، اتنی زیادہ تعداد میں بہنیں ان ذمہ داریوں کو سنبھالیں گی، آپ دیکھئے پانی کی قیمت مائیں اور بہنیں جتنا سمجھتی ہیں کوئی اور اتنا نہیں سمجھ سکتا ہے۔ ماؤں اور بہنوں کو پتا ہوتا ہے کہ اگر پانی کم ہے تو گھر میں کتنی مصیبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔ اگر اس ماں کے ہاتھ میں پانی کا نظم دیں گے، اس بہن کے ہاتھ میں پانی کا انتظام دے دیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ مائیں اور بہنیں ایسی تبدیلی لاکر دیں گی کہ شاید ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپ سبھی پنچایتی راج کے ساتھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس پورے پروگرام کو گاؤں ہی سنبھال رہے ہیں، گاؤں ہی چلارہے ہیں۔ خاص کر میں نے پہلے کہا، اسی طرح سے ہماری خواتین کی قیادت میں اس کو آگے بڑھائیے، آپ دیکھئے نتائج ملنا شروع ہوجائیں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ اسکول ہو، آنگن باڑی ہو، آشرم شالائیں ہوں، ہیلتھ اینڈ ویلنیس سینٹر ےہو، کمیونٹی سینٹر ہو، ایسی جگہوں پر ترجیجی بنیاد پر نل سے پانی پہنچایا جارہا ہے۔
ساتھیو!
جل جیون مشن کا ایک اور پہلو ہے جس کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں آرسینک اور دوسرے آلودگی پیدا کرنے والے عناصر سے پانی میں جو دوسرے عناصر ملے ہوئے ہیں، کیمیکل ملا ہوتا ہے، یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آلودہ پانی کے سبب کئی طرح کی بیماریاں، لوگوں کی زندگی تباہ کردیتی ہیں۔ اس میں بھی ہڈیوں کی بیماری جینا مشکل کردیتی ہے۔ ان بیماریوں کو اگر ہم روک پائیں تو متعدد زندگیاں بچ پائیں گی۔ اس کے لئے پانی کی جانچ بھی اتنی ہی ضروری ہے، لیکن اگر بارش کا پانی بہت بڑی مقدار میں بچائیں گے تو باقی جو طاقت ہے وہ کم ہوجائے گی۔ آزادی کے بعد پہلی مرتبہ پانی کی جانچ کو لے کر کسی حکومت کے ذریعے اتنی سنجیدگی سے کام کیا جارہا ہے۔ اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ پانی کی جانچ کی اس مہم میں ہمارے گاؤں میں رہنے والی بہنوں اور بیٹیوں کو جوڑا جارہا ہے۔ کورونا کے دوران ہی ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ خواتین کو پانی کی جانچ کرنے کی ٹریننگ دی جاچکی ہے۔ ہر گاؤں میں کم از کم 5 خواتین کو پانی کی جانچ کرنے کے لئے ٹریننگ دی جارہی ہے۔ واٹر گورنینس میں ہماری بہنوں – بیٹیوں کے رول کی جتنی زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے گی، اتنے ہی بہتر نتائج ملنے یقینی ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ عوامی شراکت داری سے، عوام کی طاقت سے ہم ملک کے پانی کو بچائیں گے اور ملک کے کل کو ہم پھر سے ایک بار روشن بنائیں گے۔ میری ایک بار پھر ملک کے سبھی نوجوانوں کو، سبھی ماؤں اور بہنوں کو، سبھی بچوں کو، بلدیاتی اداروں کو، سماجی اداروں کو، سرکاری محکموں، سبھی ریاستی حکومتوں سے درخواست ہے کہ جل شکتی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے ہم سب ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھیں۔ آنے والے 100 دن پانی کی تیاری، جیسے گھر میں بڑے ہی مہمان آنے والے ہوں، جیسے گاؤں میں بارات آنے والی ہو تو گاؤں کیسے تیاری کرتا ہے؟ مہینے بھر پہلے سے تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، بھئی بارات آنے والی ہے۔ اس بارش کے آنے کے لئے پورے گاؤں میں ایسی ہی تیاری ہونی چاہئے۔ بھئی بارش آنے والی ہے، چلو بھائی پانی بچانا ہے۔ ایک طرح کے امنگ اور جوش کی شروعات ہوجانی چاہئے۔ آپ دیکھئے، ایک بوند باہر نہیں جائے گا اور دوسرا جب پانی آتا ہے تو پھر بیجا استعمال کی عادت بھی بن جاتی ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ پانی بچانا جتنا ضروری ہے اتنا ہی پانی کا شعور کے ساتھ استعمال کرنا بھی ضروری ہے، اس کو ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔
ایک بار پھر آج عالمی یوم آب پر، ورلڈ واٹر ڈے پر، پانی کو لے کر اس بیداری مہم کو اور جن سرپنچوں نے زمینی سطح پر کام کیا ہے، جن نوجوانوں نے زمینی سطح پر پانی کے لئے اپنا مشن بنایا ہے، ایسے متعدد لوگ ہیں، آج تو مجھے پانچ لوگوں سے بات کرنے کا موقع ملا ہے، لیکن ہندوستان کے کونے کونے میں ایسے لوگ ہیں، ایسی ساری طاقتوں کو سلام کرتے ہوئے، آئیے ہم پانی کے لئے کوشش کریں۔ پانی کو بچانے کے لئے ہم کامیاب ہوں اور پانی ہماری زمین کو پانی دار بنائے، پانی ہماری زندگی کو پانی دار بنائے، پانی ہماری معیشت کو پانی دار بنائے، ہم ایک توانائی سے بھرپور قوم بن کر آگے بڑھیں، اسی تصور کے ساتھ آپ سب کا بہت بہت شکریہ!!!