نئی دہلی، وزیر دفاع محترمہ نرملا سیتا رمن فرانس کی وزیر دفاع محترمہ فلورینس پارلی کی دعوت پر10 سے 13؍اکتوبر 2018 کے دوران فرانس کے اپنےاولین دورے پر تشریف لے گئی ہیں۔ محترمہ سیتارمن نے آج پیرس میں انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک ریسرچ (آئی آر ایس ای ایم) میں ‘کثیر قطبی دنیا میں بھارت-فرانس دفاعی روابط’ کے موضوع پر خطاب کیا۔ اپنی تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ ان کا یہ دورہ فرانس کے ساتھ بھارت کی کلیدی شراکت داری کے تئیں خصوصاً دفاعی تعاون کے اہم شعبوں میں عہد بندگی کا اظہار ہے۔
وزیر دفاع محترمہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ بھارت میں دفاعی صنعت کے نئے فریم ورک کے تحت ہم امید کرتے ہیں کہ اپنی دفاعی ضروریات کو مشترکہ مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی پر مبنی شراکت داری کےدائرے کے تحت پورا کر سکیں گے۔ انہوں نے مضبوط بھارت-فرانس کلیدی شراکت داری پر روشنی ڈالی اور کہا کہ دفاعی تعلقات اس کے کلیدی عناصر ہیں۔ دیگر مماثل انداز فکر کےحامل دوستوں اور شراکت داروں کی سرگرم وابستگی بھی اس پُرآشوب دور میں امن اور سلامتی میں اپنا تعاون دے سکتی ہے۔ بھارت، فرانسیسی دفاعی صنعت کے لئے ایک اہم موقع کا حامل ملک ہے۔ ہندوستانی حکومت کی میک اِن انڈیا پہل قدمی نے نہ صرف یہ کہ ایک وسیع منڈی کے دروازے کھول دیئے ہیں، بلکہ ملک اب تیسرے ملک کو کی جانے والی برآمدات سمیت دفاعی پیداوار اور ترقیات کے لئے سرمایہ کاری کی ایک پُرکشش منزل بھی بن گیا ہے۔ ہمارے متعدد بین الاقوامی شراکت داروں نے پہلے ہی بھارتی دفاعی مینوفیکچرنگ شعبوں میں اپنی موجودگی کو وسعت دینے کے لئے رضامندی کا اظہار کر دیا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ موجودہ بین الاقوامی سلامتی ماحول تیز رفتار تبدیلیوں اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ ہمہ گیر پیمانے پر عدم استحکام اور تشدد سے سنگین چنوتیاں لاحق ہیں۔ دہشت گردی کا منڈلاتا خطرہ یا ہم بھارت اور افزوں طور پر افغانستان میں بھی ، جس کا سامنا کر رہے ہیں، اس کو صحیح صحیح الفاظ میں اگر کہا جائے، تو سرحد پار سے چلائی جانے والی دہشت گردی ہی کہا جا سکتا ہے، وہ بنیادی سلامتی کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممالک سے ممالک کے مابین اور کسی ملک سے نا وابستگی رکھنے والے ایکٹرز کو بھی اکثر تشدد پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، جس نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ افغانستان-پاکستان خطے میں لگاتار تشدد اور عدم استحکام کے شعبے اور مغربی ایشیاء اور افریقہ کے حصوں میں جو صورتحال بنی ہوئی ہے، اس نے دہشت گردی کی مختلف شکلوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ یہ سب یکجا ہو کر غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں اور بلا روک ٹوک جاری نقل مکانی کے عمل کے ساتھ اب وسیع تر ایشیاء اور یوروپ کے استحکام کے لئے واضح خطرات بن چکے ہیں۔
محترمہ سیتا رمن نے قریبی ہمسائیگی میں موجود دہشت گردانہ بنیادی ڈھانچے کی لگاتار موجودگی اور دہشت گردوں کو حاصل ہونے والی امدادکا ذکر کیا، جو بھارت کے تحمل کو لگاتار آزما رہی ہے۔ ایک ذمہ دار قوت کے طور پر بھارت نے اب تک اس مسئلے سے نمٹنے میں از حد صبرو تحمل سے کام لیا ہے۔ بھارت اور فرانس عرصے سے دہشت گردی کے شکار رہے ہیں۔ غیر ملکی دہشت گرد جنگجوؤں کی بھرتی کو روکنا ، ان کی بہم رسانی اور نقل و حرکت کی روک تھام، دہشت گردانہ قوتوں کو وسائل کی بہم رسانی کی روک تھام، دہشت گردانہ بنیادی ڈھانچے کا قلع قمع اور دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کی روک تھام ، ان تمام امور کے لئے مربوط کوششیں درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سمت میں فرانس ایک منفرد کردار ادا کر رہا ہے۔
اس پس منظر میں انہوں نے افزوں بھارت-فرانس بحری تعاون خصوصاً بحر ہند میں بڑھتے تعاون کے بارے میں کہا کہ یہ تعاون کلیدی مفادات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کرے گا اور بلاروک ٹوک تجارتی سرگرمیوں کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق بڑھاوا دینے اور بین الاقوامی بحری راستوں کے تحفظ کو برقرار رکھنے میں مدد گار ہوگا۔ اس کے ذریعے بحری دہشت گردی اور قذاقی کو بھی روکا جا سکے گا، صلاحیت سازی ہوگی اور علاقائی ؍بین الاقوامی فورموں میں افزوں تعاون استوار ہوگا۔ اس طرح کا تعاون سب کے مفاد کے لئے مشترک ہے۔
محترمہ سیتار من نے کہا کہ وسیع تر سطح پر اعلیٰ سیاسی تبادلے ہمارے تعلقات کی پہچان رہے ہیں۔ حال ہی میں یعنی اس سال مارچ کے مہینے میں صدر ایمینوئیل کا کامیاب سرکاری دورہ بھارت اور وزیراعظم جناب نریندر مودی کے گزشتہ سال ماہ جون کے پیرس کےدورے نے بھارت-فرانس تعلقات کو ایک نیا زاویہ عطا کیا ہے۔ بھارت گفت و شنید اور سفارت کاری کے توسط سے کوریا جزیرہ نما میں امن اور استحکام لانے کی کوششوں میں لگاتار اپنا تعاون دیتا رہا ہے۔ مشرق وسطی اور مغربی ایشیا میں ہونے والی پیش رفت بھارت کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس خطے میں بھارت کی کلیدی شراکت داری ، جو ہماری توانائی ضروریات کی 66فیصد کے بقدر ہے، ساتھ ہی ساتھ 8 ملین سے زائد بھارتی یہاں مقیم ہیں، اس خطے میں ہونے والی کوئی بھی کشمکش، داخلی صورتحال سے تجاوز کرجاتی ہے، جس کی مثال عراق، شام، یمن اور لیبیا ہیں۔
بھارت اور فرانس فوجی تاریخ کےلحاظ سے گہرے تعلقات سے بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان 9300بھارتی سپاہیوں کی عظیم قربانی کا ذکر کیا، جنہوں نے فرانسیسی سرزمین پر عالمی جنگیں لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔مجموعی طور پر ایک لاکھ 40ہزار بھارتی سپاہیوں نےآزادی کے لئے فرانس اور بیلجیئم میں پہلی جنگ عظیم کے دوران مختلف خطرات کے خلاف جنگ کی تھی، جو ان کے اپنے وطن سے ہزاروں میل فاصلے پر واقع ملک تھے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ دیگر ممالک کے ساتھ بھارت کی شراکت داری کا مقصد سب کے لئے زیادہ محفوظ ، مستحکم اور پُرامن ماحول کی فراہمی اور افزوں خوشحالی کو فروغ دینا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرانس اس کوشش میں ایک اہم شراکت دار ہے اور دونوں ممالک ان مقاصد کے حصول کے لئے باہم مل جُل کر کام کرنے کے لئے پابند عہد ہیں۔