نئی دہلی۔ آج 2017 کا آخری دن ہے اور میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آج کے دن شری نارائن گرو اور اسٹیج پر بیٹھے سنتوں کا آشیرواد لینے کا موقع مل رہا ہے۔
شری نارائن گرو کے آشیرواد سے 2018 کی پہلی کرن پورے ملک ، پوری دنیا کے لیے امن و آہنگی اور ترقی کی نئی صبح لے کر آئے گی، ایسی میری تمنا ہے ۔
شیو گری مٹھ آنا میرے لیے ہمیشہ بہت ہی روحانی خوشی دینے والا رہا ہے ۔ آج شیوگری تیرتھ یاترا کے افتتاح کا موقع دے کر آپ نے اس خوشی کو اور بڑھا دیا ہے ۔ میں شری نارائن دھرم سنگم ٹرسٹ اور آپ سبھی کا بہت بہت شکر گزار ہوں ۔
بھائیوں اور بہنوں،
ہمارے ملک، ہمارے معاشرے کی ایک خصوصیت رہی ہے کہ اس میں اندرونی کمزوریوں، اندرونی برائیوں کو دور کرنے کا عمل بھی ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اس عمل کو تیز کرنے کے لئے، وقت بوقت ، سنت، رشی منی ، عظیم روحیں آتی رہی ہیں۔ یہ نیک روحیں سماج کو ان برائیوں سے آزاد کرنے کے لئے اپنی زندگی گذاردیتی ہیں۔
قابل احترام سوامی نارائن گرو جی جیسی نیک روح نے بھی ذا ت پات کے نظام ، اونچ نیچ، فرقہ واریت کے خلاف سماج کو بیدار کیا، معاشرے کو متحد کیا۔ آج تعلیم کے میدان میں کامیابی کی بات ہو، سماجی برائیوں سے نجات کی بات ہو، چھواچھوت کے خلاف معاشرے میں نفرت کا اظہار ہو، یہ ایسے ہی نہیں ہوا ہے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ شری نارائن گرو کو اس دور میں کتنی محنت کرنی پڑی ہو گی ، کتنی مصیبتیں اٹھانی پڑی ہوں گی۔
ساتھیوں،
شری نارائن گرو جی کا منتر تھا –
“آزادی کے ذریعہ تعلیم،
تنظیم کے ذریعہ طاقت
صنعت کے ذریعے اقتصادی آزادی. “
معاشرے کے اصلاح کے لئے، انہوں نے دلتوں ، متاثرین، مظلومین اور محرومین کو بااختیار بنانے کے لئے اس راستے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ غریب-دلت اور پسماندہ اسی وقت آگے بڑھنے میں کامیاب ہوں گے جب ان کے پاس تعلیم کی طاقت ہوگی ۔ وہ جانتے تھے کہ معاشرے جب تعلیم یافتہ ہوگا تو خود اعتمادی سے بھر پور ہوگا اور خود احتسابی کرپائے گا۔ لہذا، انہوں نے صرف کیرالہ ہی نہیں بلکہ آس پاس کی کئی ریاستوں میں تعلیم اور ثقافت کو فروغ دینے کے لئے اداروں کا قیام عمل میں لایا۔ آج بہت سے تنظیمیں اندرون ملک اور بیرون ملک میں شری نارائن گرو کے نقطہ نظر کو آگے بڑھانے میں مصروف عمل ہیں۔
شری نارائن گرو نے معاشرے کے ہر شخص کو جوڑنے کا کام کیا ۔ چمتکار اور ڈھکوسلوں سے دور انہوں نے سچائی اور صفائی کی بات کہی۔ انہوں ہر ایسی پوجا کے نظام کی اصلاح کی جو مندر وں میں گندگی پھیلاتے تھے۔ پوجا کرنے کے نظام میں جو غیر ضروری چیزیں شامل ہوگئی تھیں ، انہیں دور کر کے شری نارائن گرو نے نئے نظام کا راستہ دکھایا ۔ انہوں نے مندروں میں پوجا پر ہر کسی کا حق قائم کیا۔ شیوگری تیرتھ یاترا بھی ایک طرح سے سماجی اصلاح کے ان کے وسیع نقطہ نظر کی توسیع ہے ۔
یہ شری نارائن گرو کے تصور کی ہی علامت ہے کہ انہوں نے شیوگری تیرتھ یاترا کو تعلیم-حفظان صحت، سچ کی طاقت-تنظیم-طاقت، علم سائنس، کسان سبھی کو ساتھ جوڑا اور ان کی ترقی کو تیرتھ یاترا کے مقاصد میں شامل کیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ
“عملی زندگی میں ان تمام علم کا استعمال کریں۔
پھر لوگ اور ملک ترقی کی راہ پر چلے گا اور خوشحالی آئے گی ۔ یہی شیوگری تیرتھ یاتر کا بنیادی مقصد ہے۔”
مجھے خوشی ہے کہ 85 برسوں سے متواتر شیوگری تیرتھ یاترا کے دوران ان علاقوں کے ماہرین مدعو کئے جاتے ہیں، ان کے تجربات حاصل کیے جاتے ہیں۔ آج بھی یہاں اس پروگرام میں مختلف شعبوں کے ماہرین حصہ لے رہے ہیں۔ میں آپ سب کا خیر مقدم کرتا ہوں، آپ کو خوش آمدید بھی کہتا ہوں اور امید بھی کرتا ہوں کہ آپ کے خیالات سے لوگوں کو نئی چیزیں سیکھنے میں مدد ملے گی۔
بھائیوں اور بہنوں، شیوگری یاترا ایک طرح سے علم کا وہ کمبھ ہے جس میں جو جو غوطہ لگاتا ہے ، وہ تر ہوجاتا ہے، کامیاب ہو جاتا ہے۔
کمبھ میلے کے دوران بھی، اپنے عظیم ملک ایک میں سمیٹنے کی کوشش ہوتی ہے۔ سنت ، مہنت رشی منی شریک ہوتے ہیں سماج کے سکھ دکھ پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں، لیکن کمبھ میلہ کی شکل میں ایک اور خاص چیز موجود ہے۔ ہر 12 سال پر سادھو سنت شریک ہوتے تھے پھر طے کیا جاتا تھا کہ اب مستقبل کے لئے معاشرے کی سمت کیا ہوگی، ملک کی سمت کیا ہو گی، معاشرے کے طرز عمل میں تبدیلی کیسے ہوگی؟
یہ ایک طرح سے سماجی قراردادیں تھیں۔ اس کے بعد ہر تین سال بعد مختلف مقامات، جیسے کبھی ناسک، کبھی اجین، کبھی ہری دوار میں کمبھ کے دوران اس کا تجزیہ کیا جاتا تھا کہ جو طے کیا، اس میں ہم کہاں تک پہنچے۔ سبھی چیزوں کا مناسب طریقے سے جائزہ لیا جاتا تھا۔
مجھے امید ہے کہ آپ سبھی جب سال کے اختتام اس موقع پر ملتے ہیں، تو اس کے بارے میں بامعنی بات چیت کی جاتی ہے کہ گزشتہ سال ہوئی بات چیت کا نتیجہ کیا رہا؟ کیا جس مقصد کو حاصل کرنے کا راستہ شری نارائن گرو نے دکھایا ، ہم اس طرف کچھ قدم اور آگے بڑھیں ؟
ساتھیوں،
شیوگری تیرتھ یاترا ہو، کمبھ –مہا کمبھ ہو، سماج کو سمت دکھانے والی، ملک کو اس کی اندرونی برائیوں سے دور کرنے والی ایسی روایات آج بھی بہت اہم ہیں۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں اس طرح کی یاترا ئیں ملک کو متحد کرتی ہیں۔ لوگ مختلف ریاستوں سے لوگ آتے ہیں، مختلف نظریات کے حامل لوگ آتے ہیں، ایک دوسرے کی روایات کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور اتحاد کے جذبے سے معمور ہو کر منظم ہوتے ہیں۔
ساتھیوں ، کیرالہ کی ہی مقدس سر زمین پر آدی شنکراچاری نے ادویت کا نظریہ پیش کیا تھا ۔ ادویت کا سیدھا مطلب ہے جہاں دویت نہیں ہے۔ جہا ں میں اور تم الگ نہیں ہے ، جہاں اپنا اور پرایا نہیں ہے۔ یہ احساس جب جنم لیتا ہے تب وہ ادویت کو حاصل کرتا ہے اور یہ راستہ نارائن گرو نے دکھایا ۔ نارائن گرو نہ صرف ادویت کے نظریہ پر عمل کر کے دکھایا بلکہ پورے عالمی سماج کو راستہ دکھایا کہ اس کے مطابق کیسے زندگی گزاری جاسکتی ہے۔
بھائیوں اور بہنوں، شیوگری یاترا شروع ہونے سے بھی دس سال پہلے، شری نارائن گورو جی کی قیادت میں ادویت آشرم میں مذہبی پارلیمنٹ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ دنیا بھر سے مختلف ثقافتوں کے لوگ پہنچے تھے۔ اس مذہبی پارلیمنٹ میں، پوری دنیا کو مذہب کی بنیاد پر تنازعات کو ترک کرنے کے لئے کہا گیا تھا اور امن و ہم آہنگی اور خوشحالی کے راستے پر چلنے کی اپیل کی گئی تھی۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ مذہبی پارلیمنٹ کے گیٹ پر گرو جی نے لکھا تھا۔
“ہم یہاں بحث کرنے اور جیتنے کے لیے نہیں ملتے ہیں،
بلکہ جاننے اور بتانے کے لیے “
ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے ، ایک دوسرے کو سمجھنے کی یہ کوشش بہت اہم تھی۔
آج، جب ہم عالمی ماحول کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا سنت سماج بحران کو آتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور ہمیں مسلسل آگاہ کر رہا تھا۔
بھائیوں اور بہنوں، اگر ہم انیسویں اور بیسویں صدی کے پورے عرصے کو دیکھیں تو تحریک آزادی میں اس وقت کے سماجی اصلاح کاروں ، دھرم گروؤں نے بہت اہم خدمات انجام دیں تھی۔ مختلف ذاتوں میں منقسم سماج ، مختلف طبقات میں منقسم سماج انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ۔ اسی کمزوری کو دور کرنے کے لیے اس عہد میں ملک کے مختلف حصوں میں ذات پات پر مبنی نظام کے خلاف وسیع پیمانے پر تحریکیں چلیں۔ ان تحریکوں، ان اصلاحی پروگراموں کا جذبہ وہی تھا کہ ملک کو آگے بڑھانا ہے ، غلامی کی زنجیر توڑنی ہے تو اپنی اندرونی کمزوریوں سے نجات حاصل کرنا ہوگا ۔
ان تحریکوں کی کمان سنبھالنے والوں نے ملک کے عام لوگوں کو یکساں اہمیت دی ، احترام بخشا۔ انہوں نے ملک کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے اپنے روحانی سفر کو ملک و قوم کی تعمیر سے جوڑا۔ جب لوگوں نے ذات پات سے اوپر اٹھ کر سوچنا شروع کیا تو ملک اٹھ کھڑا ہوا ۔ ہندوستان کے متحد لوگوں نے انگریزوں کو بھگا کر دم لیا ۔
ساتھیوں ، آج ملک کے سامنے ایک بار پھر ویسا ہی وقت آگیا ہے ۔ ملک کے عوام ، ملک کو اپنی اندرونی کمزوریوں سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں ۔ آپ جیسی ہزاروں تنظیمیں ، ادارے اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ صرف ذات پات پر مبنی نظام نہیں ، جتنی بھی برائیاں ملک کو نقصان پہنچا رہی ہیں، انہیں دور کرنے میں ، ان کے تئیں لوگوں کو بیدار کرنے میں آپ کی خدمات مزید بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
15 اگست، 1947 کو، ہم نے غلامی کی زنجیریں بھلے توڑ دی تھیں ، لیکن ان زنجیروں کا نشان ابھی بھی ہمارے سماجی و اقتصادی نظام پرقائم ہے۔ ان نشانوں سے آزادی صرف آپ کی مدد سے ہی مل سکے گی۔
بھائیوں اور بہنوں،
جيوتبا پھلے، ساوتری بائی، راجہ رام موہن رائے، ایشور چند ودیا ساگر اور دیانند سرسوتی جیسی عظیم شخصیات نے خواتین کی عظمت، خواتین کے احترام کے لئے طویل جنگ لڑی۔ آج یہ دیکھ کر، ان کی روح کو خوشی ہوگی کہ ملک میں خواتین کے حقوق کے لئے کتنا بڑا قدم اٹھایا گیا ہے ۔
تین طلاق کو لے کر جس طرح مسلم خواتین بہنوں اور ماؤں نے طویل عرصے تک تکلیفیں اٹھائی ہیں ، وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ سالوں کی طویل لڑائی کے بعد اب انہیں تین طلاق سے نجات کا راستہ ملا ہے ۔
بھائیوں اور بہنوں، ہمارے یہاں سنتوں ، رشیوں اور منیوں نے کہا ہے –
‘‘نر کرنی کرے تو نارائن ہوجائے ’’۔
کتھا کر کے نہیں ، گھنٹوں پوجا کر کے نہیں ، ‘‘کرنی’’ یعنی عمل کر کے نارائن ہوا جا سکتا ہے ۔ یہی ‘‘عمل’’ تو تصور سے حقیقت کا سفر ہے۔ یہی ‘‘عمل’’ سوا سو کروڑ ہندوستانیوں کے لیے نئے ہندوستان کا سفر ہے۔
2018 میں یہ سفر تیز ہوگا ۔ کالے دھن-بدعنوانی سے لے کر بے نامی املاک پر سخت کارروائی سے لے کر، دہشت گردی اور ذات پات پر مبنی نظام کے خلاف کام کرتے ہوئے، ریفارم ، پرفارم اور ٹرانسفارم کے منتر پر چلتے ہوئے، سب کے ساتھ سے، سب کی ترقی کرتے ہوئے، 2018 میں ہم ہندوستانی مل کر ملک کو نئی بلندیوں پر لے کر جائیں گے۔ انہیں وعدوں ، انہیں ارادوں کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
ایک بار پھر آپ سبھی کو ، شری نارائن گرو کے عقیدتمندوں کو شیوگری یاترا اور نئے سال کی بہت بہت مبارکباد۔